خلاصہ قرآن پارہ نمبر 4
چوتھے پارے کا آغاز خدا کے لیے خرچ کرنے کی ترغیب سے ہوتا ہے۔ سورۃ آلِ عمران میں ارشاد ہے کہ تم اس وقت تک بھلائی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک اس چیز کو خرچ نہ کرو جو تمھیں محبوب ہے اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو خدا اس سے خوب واقف ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے پہلا گھر مکہ مکرمہ میں تعمیر کیا گیا تھا اور ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے۔ ارشاد ہے کہ جو بھی اس گھر میں دپارہاخل ہوتا ہے اس کو امن حاصل ہو جاتا ہے۔ نیز یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اگر اہلِ ایمان اہلِ کتاب کے کسی گروہ کی اطاعت اختیار کریں گے تو وہ ان کو ایمان لانے کے بعد کافر بنا دیں گے۔
ارشاد ہوا کہ جس نے خدا کی ہدایت کی رسی کو مضبوط پکڑا وہ سیدھے راستے پر لگ گیا۔ اے مومنو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا۔ اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ اللہ کی رسی سے مراد وحیِ غیر محرف یعنی قرآن مجید ہے۔ اگر مسلمان مضبوطی کے ساتھ قرآن کو تھام لیں تو ان کے باہمی اختلافات بآسانی دور ہو سکتے ہیں۔ ارشاد ہے کہ قیامت کے دن اہلِ ایمان کے چہرے سفید اور ایمان کو ٹھکرانے والوں کے چہرے سیاہ ہوں گے۔ سفید چہروں والے خدا کی رحمتوں کے مستحق ٹھہریں گے جب کہ سیاہ چہروں والے اپنے کفر کی وجہ سے شدید عذاب سے دوچار ہوں گے۔
ارشاد ہے کہ تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کو کہا کرے اور برے کاموں سے رکنے کو کہا کرے۔ یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔ جتنی بھی قومیں تم لوگوں میں پیدا ہوئیں، اے مومنو تم ان سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یہ ان کے لیے اچھا ہوتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر ہم صحیح معنوں میں بہترین امت بننا چاہتے ہیں تو ہمیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بطورِ کارِ منصبی اپنی زندگی کا ایک شعبہ بنانا چاہیے۔
ارشاد ہے کہ جب مسلمانوں کو کوئی تکلیف آئے تو کافر خوش ہوتے ہیں اور جب ان کو کوئی خوشی حاصل ہو تو کافر غیظ و غضب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اگر مسلمان صبر اور تقویٰ کا راستہ اختیار کریں تو کافروں کی کوئی خوشی اور ناراضی مسلمانوں کو گزند نہیں پہنچا سکتی۔
اس سورۃ میں غزوۂ بدر کا بھی ذکر ہے۔ خدا نے اپنے رسول سے وعدہ کیا تھا کہ مسلمانوں کی نصرت کے لیے تین ہزار فرشتوں کو اتارے گا اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر کافر مسلمانوں تک رسائی حاصل کر لیں اور مسلمان صبر و استقامت سے ان کا مقابلہ کریں تو خدا پانچ ہزار فرشتوں کو مسلمانوں کی مدد کے لیے اتارے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ فرشتوں کی مدد تو ایک خوشخبری ہے وگرنہ اصل میں تو مدد کرنے والا خدا بذاتِ خود ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہے کہ اے ایمان والو، سود در سود کھانے سے اجتناب کرو۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنت کی طرف تیزی سے بڑھنے کی تلقین کی ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ جنت کی چوڑائی زمین اور آسمان کے برابر ہے۔ پھر جنتی مومنوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ جب ان سے صغیرہ یا کبیرہ گناہ کا ارتکاب ہو جاتا ہے تو انھیں خدا کا خوف دامن گیر ہو جاتا ہے اور وہ خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور خدا کے سوا کون ہے جو گناہوں کو معاف کر سکے۔
غزوۂ احد میں مسلمانوں کو کفار کے ہاتھوں سے بہت نقصان اٹھانا پڑا جس کی وجہ سے مسلمان بہت دکھی تھے۔ اللہ نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اگر تمھیں زخم لگا ہے تو تمھاری طرح تمھارے دشمنوں کو بھی زخم لگا ہے۔ ارشاد ہوا کہ ایام کو ہم لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں۔ اس ذریعے سے خدا مومنوں کو بھی جانچ لیتا ہے اور کئی لوگوں کو شہادت کا منصب بھی عطا فرما دیتا ہے۔ ارشاد ہوا کہ تم لوگ اہلِ کتاب اور مشرکین سے بہت سی ایذا رسانی کی باتیں سنو گے لیکن تمھیں دل گرفتہ نہیں ہونا اور صبر و تقویٰ اختیار کرنا ہے۔ بے شک یہ بہت بڑا کام ہے۔
سورۃ آلِ عمران کے آخری حصے میں ارشاد ہے کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں جو کھڑے بیٹھے اور لیٹے یعنی ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے پروردگار تو نے یہ سب بے فائدہ پیدا نہیں کیا۔ مزید ارشاد ہے کہ عمل کرنے والا مرد ہو یا عورت، میں اس کے عمل کو ضائع نہیں کرتا۔ تم کفار کے مقابلے میں ثابت قدم رہو اور استقامت رکھو اور مورچوں پر جمے رہو، اور خدا سے ڈرو تاکہ مراد حاصل کرو۔
سورۃ آلِ عمران کے بعد سورۃ النساء ہے۔ اس کے شروع میں انسانوں کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ ذات پات اور برادری وجہ عزت نہیں اس لیے کہ تمام انسانوں کی اصل ایک ہے۔ انھیں اپنے پروردگار سے ڈرنا چاہیے جو کہ ان کا پروردگار ہے اور اس نے ان کو ایک نفس سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں سے کثیر تعداد میں مردوں اور عورتوں کو پیدا کرکے روئے زمین پر پھیلا دیا۔
ارشاد ہوا کہ یتیموں کا مال جو تمھاری تحویل میں ہو ان کے حوالے کرو اور ان کے پاکیزہ عمدہ مال کو اپنے ردی مال سے نہ بدلو اور نہ ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھاؤ۔ اور اگر تمھیں اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو جو عورتیں تمھیں پسند ہوں، دو دو تین تین یا چار چار، ان سے نکاح کرلو، اور اگر تمھیں اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کر سکو گے تو ایک عورت کافی ہے یا لونڈی جس کے تم مالک ہو۔ اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دے دیا کرو۔
اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے مال کے بارے میں کئی باتیں ارشاد فرمانے کے بعد وراثت کے مسائل کو بھی بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے اور جائیداد میں بیٹوں کا بیٹیوں کے مقابلے میں دو گنا حصہ رکھا ہے۔ اگر کسی کی صرف بیٹیاں ہوں تو اس صورت میں وہ دو تہائی جائیداد کی مالک ہوں گی اور اگر صرف ایک بیٹی ہو تو وہ نصف جائیداد کی مالک ہوگی۔ شوہر اپنی بیوی کی جائیداد میں ایک چوتھائی حصے کا مالک ہوگا جب کہ بیوی اپنے شوہر کی جائیداد میں آٹھویں حصے کی مالک ہوگی۔ والد اور والدہ کا اپنے بیٹے کی جائیداد میں چھٹا حصہ ہوگا۔ اسی طرح بے اولاد شخص کی جائیداد اس کے بہن بھائیوں میں تقسیم ہوگی۔ جائیداد کی تقسیم سے قبل واجب الادا قرض کو ادا کرنا چاہیے۔ یہ تمام احکام خدا کی قائم کردہ حدیں ہیں۔
اس کے بعد غیرت کے نام پر قتل (Honour-Killing) کے بارے میں خدا کا حکم ذکر ہوا ہے۔ ارشاد ہے کہ اے مسلمانو، تمھاری عورتوں میں جو بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں ان پر اپنے لوگوں میں سے چار شخصوں کی گواہی لو۔ اگر وہ ان کی بدکاری کی گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت ان کا کام تمام کر دے یا اللہ ان کے لیے کوئی اور سبیل پیدا کرے۔ اس کے علاوہ نکاح کے کئی مسائل ان آیات میں بیان کیے گئے ہیں اور ان رشتوں کا تفصیلی ذکر ہے جن سے نکاح حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں قرانِ مجید پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین