بوقت ضرورت عارضی نکاح کے جواز کا مسئلہ از عمار خان ناصر
دیار غیر میں تعلیمی یا کاروباری ضرورتوں کے تحت وقتی قیام کرنے والوں کے لیے عارضی نکاح کا مسئلہ وقتاً فوقتاً اہل علم وفقہ کے ہاں زیر بحث آتا رہتا ہے۔ اسلامی فقہی روایت میں اس ضمن میں دو معروف نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ امامی اور زیدی فقہاء کے ہاں مدت کی تعیین کے ساتھ عارضی نکاح کو جائز قرار دیا گیا ہے، جبکہ اہل سنت کے جمہور فقہاء ایسے نکاح کو درست تصور نہیں کرتے اور نقطہ نظر کا یہ اختلاف دور صحابہ سے چلا آ رہا ہے۔
اصل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف غزوات کے موقع پر صحابہ کی درخواست پر انھیں محدود مدت کے لیے مقامی عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دی تھی۔ (مسلم، کتاب النکاح، باب نکاح المتعة، رقم ۱۴۰۴ تا ۱۴۰۶) صحابہ آپ کے زمانے میں اور آپ کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے تک اس رخصت سے فائدہ اٹھاتے رہے، تاہم جب سیدنا عمر کا عہد خلافت آیا تو انھوں نے اس رخصت کو ختم کر دینے کا فیصلہ کیا اور اعلان کر دیا کہ دو متعے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کیے جاتے تھے، لیکن میں ان دونوں سے منع کرتا ہوں اور جو شخص ایسا کرے گا، اس کو سزا دوں گا: ایک متعة الحج اور دوسرا متعة النساء۔ (ابو عوانة، المسند الصحیح المخرج علیٰ صحیح مسلم، کتاب الحج، باب ذکر الخبر المبین بان فسخ الحج والمتعة خاص، رقم ۳۸۰۹)
اس فیصلے کے تناظر میں صحابہ کے مابین دو رجحان سامنے آئے۔ جمہور صحابہ نے سیدنا عمر کے فیصلے سے اتفاق کیا اور یہ نقطہ نظر اختیار کیا کہ متعہ کی اجازت ان خاص مواقع کے لیے تھی جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی، لیکن جب آپ نے اس سے منع کر دیا تو اس کے بعد یہ اباحت باقی نہیں رہی۔ یہ موقف رکھنے والے صحابہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نام نمایاں ہے۔ (مسلم، کتاب النکاح، باب نکاح المتعة، رقم ۱۴۰۶، ۱۴۰۷) تاہم بعض صحابہ، جن میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا نام زیادہ معروف ہے، مخصوص شرائط کے ساتھ عارضی نکاح کی اجازت کے باقی ہونے کے قائل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ آدمی سفر میں شدید اضطرار کی حالت میں اس رخصت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے آدمی کے لیے سخت اضطرار کی کیفیت میں مردار کھانا حلال ہو جاتا ہے۔ (مسلم، کتاب النکاح، باب نکاح المتعة، رقم ۱۴۰۴ تا ۱۴۰۶۔ الطبرانی، المعجم الکبیر، احادیث عبد اللہ بن عباس، رقم ۱۰۶۰۱) ابن عباس اس رخصت کو ایک سماجی ضرورت کے طور پر بہت اہمیت دیتے تھے اور ان کا یہ تبصرہ تھا کہ متعہ کی رخصت اللہ کی طرف سے اس امت پر ایک رحمت تھی، اگر عمر بن الخطاب اس سے منع نہ کر دیتے تو کوئی بد بخت ہی زنا کا ارتکاب کرتا۔ (طحاوی، شرح معانی الآثار، رقم ۲۷۷۷) اسی طرح عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے متعلق مروی ہے کہ انھوں نے متعہ کی ممانعت سے اختلاف کیا اور قرآن مجید کی یہ آیت (المائدہ ۷:۸۷) پڑھی کہ ’’اے ایمان والو، اللہ نے جو پاک چیزیں تمھارے لیے حلال کی ہیں، ان کو حرام مت ٹھہراو۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب ما یکرہ من التبتل والخصاء، رقم ۴۸۰۴)
دلچسپ امر یہ ہے کہ ابن عباس اس ضمن میں ممانعت کی روایات سے بھی واقف تھے، اگرچہ اس نکتے کے حوالے سے روایات خاموش ہیں کہ وہ اس ممانعت کی کیا توجیہ کرتے تھے۔ امام ابن القیم لکھتے ہیں کہ ابن عباس کا زاویہ نظر یہ تھا کہ یہ کوئی ابدی ممانعت نہیں، بلکہ اس کی نوعیت ایسی ہی ہے جیسے کوئی ضرورت پوری ہو جانے کے بعد رخصت سے فائدہ اٹھانے کی ممانعت کر دی جائے۔ یعنی جیسے حالت اضطرار میں ضرورت کے بقدر خنزیر کا گوشت کھا لینے کے بعد اس کی اباحت ختم ہو جاتی ہے، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر متعہ کی اجازت دی اور پھر ضرورت پوری ہو جانے کے بعد اس سے منع کر دیا، لیکن ہمیشہ کے لیے اس رخصت کو منسوخ نہیں کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی اضطراری صورت حال اب بھی کسی کو پیش آجائے تو وہ اس رخصت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ (زاد المعاد، ص ۴۹۵ و ۷۸۱، طبع موسسۃ الرسالۃ)
ابن القیم نے سبرہ بن معبد جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت کے حوالے سے بھی مذکورہ گروہ کا نقطہ نظر واضح کیا ہے۔ روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر متعۃ النساء کی ممانعت بیان کی اور فرمایا کہ آج کے بعد یہ قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ (مسلم، کتاب النکاح، باب نکاح المتعۃ وبیان انہ ابیح ثم نسخ، رقم ۲۶۰۲) ابن القیم لکھتے ہیں کہ متعہ کی حلت کے قائل اہل علم مذکورہ روایت کو درست نہیں سمجھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ روایت عبد الملک بن الربیع نے نقل کی ہے جس پر امام ابن معین نے کلام کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ امام بخاری نے اسے اپنی صحیح میں نقل نہیں کیا، حالانکہ یہ ایک بہت اہم فقہی مسئلے سے متعلق جمہور اہل علم کی دلیل ہے۔ اگر امام بخاری کے نزدیک یہ روایت قابل استدلال ہوتی تو وہ اسے ہرگز نظر انداز نہ کرتے۔ مزید یہ کہ اگر فتح مکہ جیسے موقع پر متعہ کی ابدی حرمت بیان کی گئی ہوتی تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ اس سے ناواقف نہیں ہو سکتے تھے، حالانکہ وہ اس کی حلت کے قائل تھے اور اس کے حق میں قرآن مجید کی آیات سے استدلال کرتے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سیدنا عمر نے بھی اس کو ممنوع قرار دیتے ہوئے یہ استدلال نہیں کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حرام قرار دیا ہے، بلکہ یہ فرمایا کہ عہد نبوی وعہد صدیقی میں اس پر عمل کیا جاتا تھا، لیکن اب میں اس کو ممنوع قرار دیتا ہوں اور اس پر سزا دوں گا۔ (زاد المعاد، ص ۵۹۴)
بعض اہل علم نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ ابن عباس نے متعہ کے جواز کے حوالے سے اپنی اس رائے سے رجوع کر لیا تھا۔ (ابن الہمام، شرح فتح القدیر، ۳/۲۳۹؛ ملا علی القاری، مرقاة المفاتیح، ۶/۲۸۱) اس ضمن میں محمد بن کعب کی روایت سے استدلال کیا گیا ہے کہ ابن عباس نے کہا کہ متعہ کی اجازت ابتدائے اسلام میں تھی، لیکن پھر بعد میں اسے حرام قرار دے دیا گیا۔ (سنن الترمذی، کتاب النکاح، باب ما جاءفی تحریم نکاح المتعة، رقم ۱۱۲۲) تاہم ابن حجر لکھتے ہیں کہ اس روایت کی سند ضعیف ہے اور یہ معناً بھی شاذ ہے۔ (فتح الباری، ۹/۷۷) چنانچہ ابن کثیراور ابن بطال وغیرہ نے اس دعوے کو قبول نہیں کیا اور ان کا کہنا ہے کہ ابن عباس آخر وقت اپنے اسی موقف پر قائم رہے۔ (البدایہ والنہایہ، ۶/۲۸۴؛ فتح الباری، ۹/۷۸) البتہ روایات میں اتنی بات نقل ہوئی ہے کہ جب ابن عباس کے اس فتوے سے لوگوں نے ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کر دیا تو پھر وہ جواز کا فتویٰ دینے سے گریز کرنے لگے۔ چنانچہ سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس سے کہا کہ آپ کو اندازہ ہے کہ آپ نے کیسا فتویٰ دیا ہے؟ آپ کا فتویٰ مسافر قافلوں کی زبانوں پر ہے اور شاعر، اس کے متعلق شعر کہہ رہے ہیں۔ ابن عباس نے سنا تو کہا:
”انا للہ وانا الیہ راجعون۔ بخدا، میں نے نہ اس کا فتویٰ دیا اور نہ میری یہ مراد ہے۔ میں تو اسے اسی (اضطرار کی) حالت میں جائز کہتا ہوں جس میں اللہ نے مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت کھانے کی اجازت دی ہے۔“ (طبرانی، المعجم الکبیر، احادیث عبد اللہ بن عباس، رقم ۱۰۶۰۱)
بہرحال سیدنا عمر کے، اس پر پابندی عائد کرنے کے باوجود صحابہ وتابعین میں یہ اختلاف باقی رہا اور کم سے کم امام شافعی کے دور تک متعہ کی حلت یا حرمت کا مسئلہ، شیعہ سنی تفریق کا حصہ نہیں بنا تھا۔ اسے دوسرے اختلافات کی طرح ایک عام فقہی اختلاف سمجھا جاتا تھا جس میں خود اہل سنت کے ہاں دونوں رائیں موجود تھیں، فقہی دونوں پر دونوں کی گنجائش تسلیم کی جاتی تھی اور ان پر فتویٰ بھی دیا جا رہا تھا۔ چنانچہ امام شافعی اس اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جو شخص نکاح متعہ کو حلال سمجھتا ہو، ا س کے جواز کا فتویٰ دیتا ہو اور اس پر عمل کرتا ہو، اس کی گواہی کو رد نہیں کیا جائے گا۔ یہی حکم اس شخص کا ہے جو (مالی طور پر) صاحب حیثیت ہو، لیکن کسی مسلمان یا مشرک لونڈی سے نکاح کو حلال سمجھتے ہوئے اس سے نکاح کر لے، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں کو فتویٰ دینے والے بعض معروف اور ممتاز اہل علم اس کو حلال سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جو شخص نقد تبادلے میں ایک دینار کے بدلے میں دو دینار اور ایک درہم کے بدلے میں دو درہم لینے کو حلال سمجھتا ہو (اس کی بھی گواہی قبول کی جائے گی) کیونکہ ہم بعض ممتاز اہل علم کو دیکھتے ہیں کہ وہ اس کا فتویٰ دیتے، اس پر عمل کرتے اور اس مسلک کو (سلف سے) روایت کرتے ہیں۔ یہی معاملہ ان لوگوں کا ہے جو بیویوں سے دبر میں جماع کو حلال سمجھتے ہیں۔ یہ سب کام ہمارے نزدیک ناپسندیدہ اور حرام ہیں۔ اگرچہ اس میں ہم ان لوگوں سے اختلاف رکھتے ہیں اور ان کی بات کو قبول نہیں کرتے، لیکن یہ چیز ہمارے لیے اس بات کا باعث نہیں بنتی کہ ہم ان کی ذات پر جرح کریں اور ان سے کہیں کہ تم لوگوں نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کر دیا ہے اور خطا کے مرتکب ہوئے ہو کیونکہ جس طرح ہم ان کے خطا میں مبتلا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ بھی ہمارے متعلق خطا میں مبتلا ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں اور ہماری رائے کو اختیار کرنے والوں کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام قرار دے دیا ہے۔‘‘ (الام، ج ۷، ص ۵۱۱)
تاہم اس ابتدائی دور کے بعد متعہ کے جواز کا موقف تدریجاً شیعہ فقہاء تک محدود ہوتا چلا گیا اور اگلے مراحل میں اس نے گویا اہل تشیع اور اہل سنت کے مابین ایک امتیازی اختلاف کی حیثیت اختیار کر لی۔ البتہ اس اختلاف کی نوعیت پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اختلاف بڑی حد تک تکنیکی ہے اور بوقت ضرورت عارضی نکاح کی عملی گنجائش کی صورت سنی فقہاء کے ہاں بھی نکل آتی ہے، اس لیے کہ سنی فقہاء کے نزدیک ممنوع صورت یہ ہے کہ باقاعدہ عقد نکاح میں مدت طے کی جائے کہ مثلاً یہ نکاح دو یا تین ماہ کے لیے کیا جا رہا ہے اور مدت پوری ہونے پر ازخود کالعدم ہو جائے گا۔ اگر ایسی کوئی شرط عقد نکاح میں طے نہ کی جائے، بلکہ یہ بات صرف کسی ایک یا دونوں فریقوں کے ارادہ یا باہمی انڈر اسٹینڈنگ کا حصہ ہو تو اس سے نکاح کے قانونی جواز پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ مطلوبہ مدت پوری ہونے پر وہ نکاح کو قائم رکھنے یا ختم کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
اس حوالے سے امام شافعی علیہ الرحمۃ کی کتاب الام سے ایک تصریح ملاحظہ ہو:
’’شافعی کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے علاقے میں جائے اور وہاں کسی عورت سے نکاح کرنا چاہے جبکہ دونوں کی نیت یہ ہو کہ وہ اس نکاح کو بس اتنی مدت کے لیے قائم رکھیں گے جب تک وہ شخص اس علاقے میں مقیم ہے، یا مثلاً ایک یا دو یا تین دن کی نیت ہو، چاہے یہ نیت صرف مرد کی ہے یا صرف عورت کی یا دونوں کی یا عورت کے سرپرست کی، لیکن نکاح کا عقد مطلق ہو اور اس میں کوئی شرط نہ لگائی گئی ہو تو ایسا نکاح درست ہوگا اور نیت، نکاح کو فاسد نہیں کرے گی، کیونکہ نیت تو دل کا ایک خیال ہے اور دلوں کے خیالات پر لوگوں کا مواخذہ نہیں کیا جاتا۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ایک بات کا ارادہ کرتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا، اور کبھی اس پر عمل کر لیتا ہے۔ گویا عمل، نیت سے الگ ہے اور بعد میں وجود میں آتا ہے۔ ………
شافعی کہتے ہیں کہ اگر (نیت سے بڑھ کر) مرد اور عورت کے مابین باقاعدہ ایک مفاہمت ہو اور مرد اس سے یہ وعدہ کرے کہ وہ اسے صرف چند دن کے لیے یا جب تک وہ اس علاقے میں مقیم ہے یا بس ایک دفعہ اس سے ہم بستری کرنے تک ہی اپنے نکاح میں رکھے گا، چاہے یہ وعدہ قسم کھا کر کیا جائے یا بغیر قسم کے، تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ میں مرد کے لیے ایسی مفاہمت کرنے کو ناپسندیدہ سمجھتا ہوں، لیکن میں عقد نکاح کو دیکھوں گا۔ اگر عقد نکاح مطلق ہو اور اس میں کوئی شرط نہ لگائی گئی ہو تو نکاح درست ہوگا، کیونکہ اس عقد کے نتیجے میں مرد اور عورت دونوں کو ایک دوسرے پر وہ حقوق حاصل ہو جاتے ہیں جو میاں بیوی کو ہوتے ہیں۔ البتہ اگر عقد نکاح میں یہ شرط لگائی جائے (کہ یہ نکاح اتنی مدت تک کے لیے ہے) تو پھر وہ فاسد ہو جائے گا اور اس کی صورت وہی بن جائے گی جو نکاح متعہ کی ہوتی ہے۔’’ (الام، ج ۶، ص ۲۰۶)
عقد نکاح کے، توقیت سے خالی ہونے کی صورت میں جائز ہونے کی بات عام فقہی کتب میں بھی بیان کی جاتی ہے، تاہم امام شافعی کا اقتباس اسے ایک خاص صورت حال کے ریفرنس سے بیان کرنے کے پہلو سے اہم ہے۔ عموماً فقہی کتابوں میں یہ بات صیغہ نکاح کی عمومی شرائط کی وضاحت کے تحت بیان کی جاتی ہے جن کا پورا ہونا کسی بھی عقد نکاح میں ضروری ہے۔ امام شافعی نے اس جزئیے کا ذکر خاص طور پر اس صورت حال کے تناظر میں کیا ہے جب کوئی شخص گھر بار سے دور پردیس میں وارد ہوا ہو اور وہاں اپنی طبعی ضروریات کی تکمیل کے لیے اس طریقے سے نکاح کرنا چاہتا ہو۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ امام صاحب اس مسئلے کو ایک سماجی اور انسانی مسئلے کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور اس کی اہمیت کو مانتے ہوئے اس تکنیکی فرق کی طرف توجہ دلا رہے ہیں جو عقد نکاح میں شرط عائد کرنے اور نیت وارادہ میں توقیت کو مضمر کرنے میں فقہی طور پر پایا جاتا ہے۔
حاصل یہ ہے کہ عارضی نکاح کے جواز کے حوالے سے اہل تشیع اور اہل سنت کا فقہی اختلاف زیادہ تر تکنیکی ہے۔ شیعی فقہ میں متعہ کے تصور میں معمولی ترمیم سے وہ سنی فقہا کے مطابق بھی جواز کے دائرے میں آ جاتا ہے، یعنی یہ کہ عقد نکاح میں مدت کا تعین نہ کیا جائے۔ یہ قانونی فارمیلیٹیز ہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ سماجی حالات اور پیچیدگیوں کا جبر تقاضا کر رہا ہے کہ بدکاری اور عمر بھر کے عقد نکاح کے درمیان ایک بین بین کی صورت نکالی جائے۔ ایک طرف روز افزوں جنسی ترغیبات اور دوسری طرف شادی میں گوناگوں مشکلات کا جو طوفان مسلم معاشروں پر یلغار کر رہا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے جلد اہل علم وفقہ کو اس طرف متوجہ ہونا پڑے گا، ایسے ہی جیسے عرب معاشروں میں سماجی ضرورتوں کے تحت ’’مسیار’’ جیسے طریقوں کو شرعی وقانونی جواز دینا پڑا ہے۔واللہ اعل