فطرانہ ۔۔ قاری حنیف ڈار
سوال ان کے جواب ھمارے،،
قاری صاحب فطرانہ کے بارے میں آپ کا بیان فیس بک پر گھوم رھا ھے جس کا واضح مطلب ھے کہ یہ فطرانہ مساجد اور مدارس کو نہ دیا جاے۔ تو مساجد اور مدارس کے معاملات مولوی صاحبان کیسے چلائیں۔ کیا پھر اس کے لیے بھی غیر ملکی امداد کا انتظار کیا جائے کیونکہ سرکاری طور پر تو ان کی کوئی سرپرستی نھی ھوتی؟
الجواب ،،،
محلے والوں مین اگر مولوی کو پالنے کی استطاعت نہیں تو کس نے فرض کیا ھے کہ ھر کونے کھدرے میں اپنی اپنی برادری کی مسجد بنا کر بیٹھ جاؤ ؟ ھمارے گاؤں میں ملک برادری کی 4 مساجد ھیں یعنی ھر شاخ کی اپنی مسجد ھے ،، مساجد ومدارس کی بھرمار میں بھوکے خودکشی پر مجبور ھو گئے ھیں ،،
فطرانہ فقیروں اور مسکینوں کا حق ھے جس میں سب سے پہلی فوقیت اپنے رشتے داروں کو حاصل ھے ،، آپ مسجد میں دیں پھر آپ کی بہن یا سالی مسجد میں لائن میں لگ کر وصول کرے ، کیا اس سے بہتر نہیں کہ آپ کے گھر سے ھی بہن کو مل جائے ؟
غریب کے پاس دوا اور خون کی بوتل کے پیسے نہیں ھوتے اور ھمارے فطرانے سے 500 کی ایک ٹائل مدرسے میں لگتی ھے ،، گھر عذاب اور باھر ثواب ،،