امامت و خلافت ، تحریر منظرزیدی
اس مسئلے پر مسلمانوں کے درمیان، اختلاف و اتّحاد
مسلمانوں کے درمیان، امام یا خلیفہ کے لغوی معنی میں کوئی اختلاف نہیں ہے یعنی دونوں کا مطلب ہی رہنما و رہبر یا حاکم ہوتا ہے……… لیکن ان کے اصطلاحی معنی میں قدرے اختلاف پایا جاتا ہے…….. جس پر بات کرنے سے گفتگو موضوع سے ہٹ سکتی ہے……..اس لئے اس پوسٹ میں امام یا خلیفہ کو ایک ہی معنی یعنی رہبر یا حاکم کے معنی میں سمجھتے ہوئے بات ہوگی……
امامت یا خلافت پر بات کرنے سے پہلے ان کی تعریف کا متعین ہونا ضروری ہے……
امامت یا خلافت کی تعریف:-
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیابت و جانشینی میں، مسلمانوں کی دنیاوی و دینی معاملات میں رہنمائی کرنے کا منصب، امامت یا خلافت کہلاتا ہے………
تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ امام یا خلیفہ، کا کام دینی و دنیاوی امور میں اپنی رعایا کی رہنمائی کرنا ہے…..
اس کے علاوہ تمام مسلمان اس بات پر بھی متفق ہیں کہ امام یا خلیفہ کا مقرر کیا جانا واجب اور ضروری ہے…..
جس کے لئے دلیل عقلی یہ ہے کہ امام، چونکہ رہنما ہے اور رہنما، ہر قوم کے لئے ضروری ہے لہذا مسلمانوں کے لئے بھی امام و خلیفہ ضروری ہے……
جبکہ نقلی دلیل یہ حدیث ہے جس کو تمام مسلمان قبول کرتے ہیں کہ…..
رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ـ
مَن مّاتَ و لم یعرف امامَ زمانِہ ماتَ میتۃً جاھلیّۃ…….
ترجمہ:ـ جو بھی مَرا اور نہ جانتا ہو اپنے زمانے کے امام(خلیفہ) کو، تو وہ جاہلیت کی موت مَرا……..
اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے علّامہ تفتازانی اپنی کتاب شرح العقائد میں کہتے ہیں کہ………..
اسی وجہ سے امّتِ محمدیہ نے نصبِ امام (خلیفہ) کو دفنِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مقدم رکھا…….
بہرحال نصبِ امام یا خلیفہ کا واجب ہونا تمام مسلمانوں کے نزدیک تسلیم شدہ ہے………
اور اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ امام یا خلیفہ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کا تابع ہوتا ہے…… یعنی شریعت میں کسی بھی قسم کی کمی بیشی کا اختیار نہیں رکھتا….
پہلا اختلاف:ـ
نصبِ امام کا طریقہ کیا ہوگا؟…..
فرقۂ اشاعرہ و معتزلہ کا کہنا ہے کہ امام یا خلیفہ کو مقرر کرنا بندوں پر واجب ہے….. یعنی جس کو بھی مسلمان چاہیں، اپنا امام یا خلیفہ بنا سکتے ہیں……. لیکن ان دونوں میں اختلاف اس بات میں ہے کہ نصبِ امام یا خلیفہ کا وجوب عقلی ہے یا نقلی……..
فرقہ اشاعرہ، اس وجوب کو نقلی کہتے ہیں جبکہ اس وجوب کو معتزلہ عقلی مانتے ہیں……. یعنی فرقہ اشاعرہ کے دلائل، اس معاملے پر قرآن و احادیث پر مشتمل ہوتے ہیں جبکہ معتزلہ، قرآن و احادیث کے بغیر اس وجوب کو ثابت کرتے ہیں…..
معتزلہ کی وجوبِ نصبِ امام یا خلیفہ پر عقلی دلیل…..
بندوں کو دینی و دنیاوی معاملات میں شر سے بچنے کے لئے امام یا خلیفہ (رہنما) ضروری ہے اور شر و ضرر سے بندوں کا خود کو بچانا واجب ہے لہذا عقلی طور پر امام یا خلیفہ کو نصب یا مقرر کیا جانا بھی خود بندوں ہی پر واجب ہے……
مگر……….
شیعہ حضرات! اس پوری دلیل کو قبول کرتے ہیں مگر "نصبِ امام یا خلیفہ، بندوں پر واجب ہے” کو قبول نہیں کرتے…….
شیعوں کا استدلال یہ ہے کہ……..
جن معاملات میں شر یا ضرر کے اندیشے وجہ سے، امام یا خلیفہ کا وجوب ثابت ہو اگر انہی معاملات میں خود امام یا خلیفہ کو اپنے شر و ضرر میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو پھر نصبِ امام یا خلیفہ کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے…….. یعنی جس ضرر سے مسلمان بچنا چاہ رہے ہیں ان کا امام یا خلیفہ خود پُراعتماد نہیں کہ وہ ان شر و ضرر سے خود کو بچا سکتا ہے یا نہیں تو وہ اپنی رعایا کو کیسے بچائے گا اور پھر ایسے شخص کو امام یا خلیفہ بنانے سے ضرر کیسے دور ہوگا؟ اس طرح تو نصبِ امام یا خلیفہ کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا……
جبکہ
بندوں کو امام یا خلیفہ کو انتخاب کرنے کا اختیار دینا، ان کی آپس میں جنگوں اور قتل و غارت گری کا سبب بنتا ہے جیسا کہ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے…..
جس کا اعتراف صاحبِ ملل و نحل شہرستانی ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ…….
امّت کا سب سے بڑا اختلاف امامت(خلافت) کا اختلاف ہے اسی لئے جتنی خوں ریزی اس معاملے میں ہوئی ہے کسی اور معاملے میں نہیں ہوئی……..
اور شیعہ سمجھتے ہیں کہ اس خونریزی کا سبب فقط یہ تھا کہ مسلمانوں نے نصبِ امام یا خلیفہ کو اپنا فریضہ سمجھ لیا تھا….
لہذا شیعہ اثنائے عشری، نصبِ امام یا خلیفہ کو خدا پر واجب جانتے ہیں کہ وہ خود امام کو معین و مشخص کرے………..
دوسرا اختلاف:-
کیا امام یا خلیفہ، شریعت کا محافظ ہوتا ہے؟
اہل سنت کا نظریہ یہ ہے کہ……
امام یا خلیفہ، شریعت کے محافظ نہیں ہیں بلکہ شریعت کے محافظ قرآن و سنّت(احادیث) ہیں اسی وجہ سے حکم ہے کہ امام یا خلیفہ کی خطا پر اس کے حکم کو شریعت یعنی قرآن و سنّت(احادیث) کی طرف پلٹایا جائے گا…….
جبکہ
اہل تشیع کہتے ہیں کہ…….کیونکہ….
قرآن و سنّت(أحاديث) شریعت کو بیان یا وضاحت کرنے میں ناکافی ہیں……. لہذا امام یا خلیفہ، ہی محافظ شریعت ہے………کیونکہ……
اگر قرآن و سنّت(احادیث) بیانِ شریعت میں کافی ہوتے تو مسلمانوں کو شرعی احکام، اخذ کرنے میں اجماع و قیاس کی ضرورت پیش نہ آتی……… یعنی تمام مسلمانوں میں شرعی احکام کو اخذ کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ شرعی حکم کو پہلے قرآن میں دیکھا جائے گا اگر قرآن میں حکم واضح ہو تو کسی حدیث کی ضرورت نہیں لیکن اگر قرآن میں حکم واضح نہ ہو تو أحاديث کی طرف رجوع کیا جائے گا اگر حکم واضح ہوگیا تو کسی اجماع کی ضرورت نہیں لیکن اگر أحاديث میں بھی وضاحت نہ ہو تو اجماع کی طرف جایا جائے گا….. اور اگر اجماع سے بھی حکم واضح نہ ہو تو قیاس پر عمل ہوگا……… لہذا……
شیعوں کے مطابق قرآن سے احادیث کی طرف آنا قرآن کو ناکافی ثابت کرتا ہے اور احادیث سے اجماع کی طرف آنا، قرآن و احادیث دونوں کو ناکافی ثابت کرتا ہے اور اسی طرح قیاس کی طرف آنا، قرآن و أحاديث اور اجماع تینوں کو ناکافی ثابت کرتا ہے………اور قیاس، میں جو حکم سامنے آتا ہے اس میں ہر عالم کے قیاس کے مختلف ہونے کا احتمال لازمی ہے… لہذا قرآن و أحاديث کو شریعت تو کہا جاسکتا ہے مگر شریعت کا محافظ نہیں کیونکہ یہ دونوں شریعت کی وضاحت میں ناکافی ہیں………
اہل تشیع کے مطابق، قرآن و سنّت جو کہ خود شریعت کی وضاحت میں ناکافی ہیں…..ان پر انحصار کرکے امام یا خلیفہ کی خطا کو کس طرح متعین کیا جاسکتا ہے لہذا لازمی ہے کہ قرآن و سنت میں وضاحت نہ ہونے صورت میں اجماع اور قیاس سے مدد لی جائے گی…. جبکہ اجماع اور قیاس میں بھی خطا کا امکان موجود ہے………..
جبکہ تاریخ میں دو خلفاء راشد، اسی وجہ سے قتل بھی ہوئے ہیں…….
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر بھی شریعت سے انحراف کا الزام لگا اور پھر اسی الزام کی وجہ سے ان کو امت نے شہید کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خوارج نے شریعت سے انحراف پر کافر قرار دیا……… اور بالآخر، پھر ایک خارجی نے ان کو بھی شہید کردیا………
لہذا ہوسکتا ہے امام یا خلیفہ صحیح ہو اور امت غلط ہو اور کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ امام یا خلیفہ غلط ہو اور امت صحیح ہو……….اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر امام یا خلیفہ یا پھر امّت، اپنی خطا کو تسلیم بھی کرلیں…..اور قتل و غارت کا بازار گرم ہوگا…..
لہذا ضروری ہے کہ امام یا خلیفہ، مکمل طور پر خطا سے مبرّاء ہو اور کسی بھی صورت میں دینی و دنیاوی معاملات میں خطا نہ کرے تاکہ قرآن و أحاديث کی درست تشریح و وضاحت کرکے اپنی رعایا کی صحیح رہنمائی کرسکے…..
تیسرا اختلاف:ـ
کیا امام یا خلیفہ کا امت میں سب سے افضل ہونا ضروری ہے؟
اہل سنت کے مطابق، امام یا خلیفہ کا امت میں سب سے افضل ہونا ضروری نہیں کیونکہ افضل، فقط قرآن و سنّت ہیں…….. کیونکہ امام یا خلیفہ کا خطا کی صورت میں ان ہی کی طرف رجوع کرنا یا کرانا ضروری ہے…..
اہل تشیع کے مطابق اگر امام یا خلیفہ میں افضل الناس کی صفت کو نظرانداز کیا جائے گا تو تقدیم مفضول علی الناس لازم آئے گا…. جس کو عقل قبیح مانتی ہے……
یعنی عقل، اس بات کو پسند نہیں کرتی کہ افضل، اپنے سے کمتر کی اسی معاملے میں اطاعت کرے جس میں وہ افضل ہے لہذا امام یا خلیفہ کو اپنی امت میں فضلیت کے لحاظ سے بلندی حاصل ہونا ضروری ہے……
چوتھا اختلاف:ـ
کیا امام یا خلیفہ کو معصوم ہونا چاہئے؟
اہل سنت کا اس میں موقف ہے کہ معصوم ہونا نبی کی صفت ہے لہذا اگر ہم امام یا خلیفہ کو معصوم مان لیں تو گویا ہم نے اس کو نبی مان لیا اور یوں ختمِ نبوّت کا قانون ٹوٹ جائے جو کفر کی دلیل ہے…….. اور اہل سنت کے مطابق، امام یا خلیفہ بنانے کا اختیار، بندوں کے پاس ہے لہذا جب بندے ہی غیرِمعصوم ہیں تو وہ سب مل کر کس طرح معصوم، امام یا خلیفہ کو منتخب کرسکتے ہیں…یا اس میں معصومیت پیدا کرسکتے ہیں…….
لہذا اہل سنت کے نزدیک امام یا خلیفہ کا معصوم ہونا ناممکن ہے…..
جبکہ
اہل تشیع کا نظریہ یہ ہے کہ چونکہ امام کو مقرر و مشخص و مقرر کرنے کا ذمّہ دار خدا ہے لہذا خدا جس کو بھی منتخب کرے گا اس سے خطا ہونے کا گمان نہیں ہوسکتا لہذا امام و خلیفہ، معصوم ہوگا…. جبکہ……..
اہل تشیع، ہر نبی کے لئے معصوم ہونا لازمی قرار دیتے ہیں لیکن ہر معصوم، نبی بھی ہو یہ ضروری نہیں سمجھتے……..
اس کے علاوہ اہل تشیع کہتے ہیں کہ…..
اگر امام یا خلیفہ، معصوم عن الخطا نہیں ہوگا تو نصبِ امام کا مقصد فوت ہوجائے گا……… کیونکہ نصبِ امام و خلیفہ کا مقصد،رعایا کو شریعت میں ضرر اور شر سے بچانا ہے اس لئے اگر ایک امام یا خلیفہ، جس وجہ سے وہ امام یا خلیفہ بنا ہے اور وہ خود ہی کو شریعت میں ضرر یا شر سے بچانے میں پُراعتماد نہیں ہوگا تو نصبِ امام و خلیفہ کا مقصد ختم ہوجاتا ہے…..
اسی طرح اگر امام یا خلیفہ، معصوم عن الخطا نہیں ہوگا تو تسلسل لازم آئے گا اور تسلسل باطل ہے لہذا غیرِمعصوم کا امام یا خلیفہ ہونا بھی باطل ہے…….
کیونکہ
نصبِ امام یا خلیفہ کا مقصد، رعایا کو ضرر اور شر سے بچانا ہے اور جب وہ خود ہی اس کا شکار ہوگا تو اس کو خود، امام یا خلیفہ کی ضرورت ہوگی اور اگر وہ بھی اس کا شکار ہوگا تو اس کو بھی امام یا رہبر کی ضرورت ہوگی اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا جو کہ تسلسل ہے اور تسلسل باطل ہے…… اور اگر یہ کہا جائے کہ امام یا خلیفہ، رعایا کو شریعت میں ضرر و شر سے بچائے گا اور رعایا، خلیفہ کو شریعت میں ضرر اور شر سے بچائے گی تو یہ دور کہلائے گا اور دور بھی باطل ہے…….
اسی طرح اگر امام یا خلیفہ غیرِمعصوم ہوگا تو خطا کرنے پر امت پر، اس امام یا خلیفہ کی سزا یا تنبیہ واجب ہوگی یا واجب نہیں ہوگی………
اگر واجب ہوگی تو امام یا خلیفہ کی عزت، رعایا کی نظر سے گرجائے گی…..
اور
اگر واجب نہیں ہوگی تو امربالمعروف و نہی عن المنكر جیسا فریضہ، عمومی سے خصوصی ہوجائے گا یعنی امام یا خلیفہ، اس حکم سے باہر ہوجائے گا…… جو کہ شریعت میں تبدیلی کے مترادف ہوگا جو باطل ہے…….
اور
امام یا خلیفہ کی عزت کا نظر سے گرنا مقصدِ نصبِ امام و خلیفہ کو فوت کردے گا کیونکہ پھر امام و خلیفہ کے ہر فیصلے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا جس کی وجہ سے اطاعت میں فرق آئے گا……..
اسی طرح اگر امام، غیرِمعصوم ہوگا تو چونکہ امام یا خلیفہ، شریعت کا محافظ ہوتا ہے لہذا اس کے پُرخطا ہونے کی صورت میں شریعت میں کمی و بیشی کا خدشہ موجود رہے گا اور شریعت محفوظ نہ رہ سکے گی……..
پوسٹ کا خلاصہ:ـ
مسلمانوں کے درمیان…….
امام یا خلیفہ کے لغوی معنی پر اتّحاد ہے.
امام یا خلیفہ کی تعریف پر اتّحاد ہے کہ امام یا خلیفہ، دنیاوی و شرعی امور میں رہنما ہوتا ہے.
امام یا خلیفہ کا تقرر، واجب ہونے پر اتّحاد ہے.
امام یا خلیفہ کے تابع شریعت ہونے پر اتّحاد ہے.
امام یا خلیفہ کو مقرر کون کرے گا؟ اس میں اختلاف ہے.
اہل سنت کے مطابق، بندے خود مقرر کریں گے.
اہل تشیع کے مطابق، خدا مقرر کرے گا.
کیا امام یا خلیفہ، شریعت کا محافظ ہوتا ہے؟
اہل سنت کے مطابق، امام یا خلیفہ، شریعت کا محافظ نہیں ہوتا بلکہ قرآن و سنّت شریعت کے محافظ ہیں….
اہل تشیع کے مطابق، قرآن و سنّت، شریعت کی وضاحت میں ناکافی ہیں لہذا یہ محافظ نہیں بلکہ امام یا خلیفہ شریعت کا محافظ ہے….
امام یا خلیفہ کی امت پر افضلیت پر اختلاف ہے.
اہل سنت کے مطابق، امام یا خلیفہ کا اپنی رعایا سے افضل ہونا ضروری نہیں.
اہل تشیع کے مطابق، امام یا خلیفہ کا اپنی رعایا سے افضل ہونا ضروری ہے.
امام یا خلیفہ کے معصوم ہونے پر اختلاف ہے…
اہل سنت کے مطابق، امام یا خلیفہ، معصوم نہیں ہوسکتا یعنی اس سے شریعت میں خطا کا امکان رہے گا…..
اہل تشیع کے مطابق، امام و خلیفہ کا معصوم عن الخطا ہونا ضروری ہے.