نبی اکرمﷺ نے مباہلے کا چیلنج کس کو دیا تھا؟ تحریر:ابن آدم
آیات مباہلہ سورہ آل عمران میں وارد ہوئی ہیں ۔ سورہ آل عمران کا آخری حصہ غزوہ احد کے نتائج سے بحث کرر ہا ہے، گویا قرآن کے نظم کی بنیاد پر اس سورت کا دورِ نزول ۳ ہجری بنتا ہے۔ سورت کے ابتدائی حصہ میں حضرت عیسیٰؑ کی شخصیت سے متعلق اہلِ کتاب کے ایک گروہ سے کلام ہورہا ہے۔ ان آیات کا اگر خالی الذہن ہوکر مطالعہ کیا جائے تو تین چیزیں بالکل واضح ہوجاتی ہیں، کہ حضرت عیسیٰؑ سے متعلق اس بحث میں مخاطب وہ لوگ ہیں، جنہوں نے حضرت عیسیٰ کا انکار کیا ہے نہ کہ وہ جو حضرت عیسیٰ کے ماننے والے ہیں، یعنی یہودی نہ کہ عیسائی۔
دوسری بات یہ کہ مخاطب گروہ توحید پر یقین رکھتا ہے۔ یہ بھی اسی بات کی تائید کرتی ہے کہ مخاطب گروہ یہودی ہی ہے نہ کہ عیسائی۔
تیسری بات یہ کہ جس گروہ کو مباہلے کی دعوت دی گئی ہے وہ مدینہ میں اہل خانہ سمیت مقیم ہے، یعنی اسکے بیوی ہچے ساتھ ہیں، نہ کہ ہزار میل دور سے آیا ہوا مردوں کا کوئی وفد۔
حب علیؓ کا دعویٰ کرنے والی برادری نے شانِ نزول کے نام پر قرآن پرجو بڑے بڑے ڈاکے ڈالے ہیں ان میں سب سے بڑا ڈاکہ انہی آیات پر ہے، کیونکہ ان آیات کی تفسیرسورت میں درج الفاظ کو نظر انداز کرتے ہوئے مکمل طور پر بیان کردہ شانِ نزول کے آئینہ میں کی جاتی ہے۔ جبکہ آیتِ تطہیر (سورہ احزاب) پر تو پھر بھی ڈرتے ڈرتے بعض لوگوں نے یہ بات کہنے کی جسارت کرلی ہے کہ وہاں بالاصل ازواجِ رسولﷺ بھی (ہی) مراد ہیں۔ شانِ نزول کا بنیادی قول مورخ محمد بن اسحٰق کا ہے، جن کے مطابق "اس سورت کی اسّی (۸۰) سے کچھ زائد ابتدائی آیات وفدِ نجران کی آمد کے موقع پر نازل ہوئی تھیں، اور نجرانی عیسائیوں کا وفد ۹ ہجری میں آیا تھا”- کہا جاتا ہے مباہلہ میں مسلمانوں کی طرف سے پنجتن پاکؓ پیش ہوئے تھے، اور پھر عیسائی مباہلے سے دست بردار ہوگئے۔
غزوہ احد (۳ ہجری ) کے زمانے میں نازل ہونے والی سورت کی بعض آیات کو ۹ ہجری میں پہنچانے کی ضرورت اہل تشیع کو اس لیے محسوس ہوئی کہ ۳ہجری میں حضرات حسنینؓ کی پیدائش نہیں ہوئی تھی، لہذا پنجتن فارمولے کا قرآنی ثبوت ۳ہجری میں نہیں مل سکتا تھا- ۹ ہجری میں پنجتنؓ کا تو وجود تھا، لیکن مدینہ میں یہود موجود نہیں تھے، لہذا آیات میں حضرت عیسیٰؑ کے نام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے واقعہ کا رخ عیسائیوں کی طرف پھیر دیا گیا۔
غور کرنے والے حضرات کے لیے ۳ نکات پیش کردیتا ہوں:
۱)- مباہلہ کی دعوت دیتے وقت کہا گیا ہے کہ اپنی عورتوں اور بیٹوں کے ساتھ تم بھی آؤ اور ہم بھی-
( آل عمران آیت 61)
فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
کہہ دے آؤ ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں بلائیں پھر سب التجا کریں اور الله کی لعنت ڈالیں ان پر جو جھوٹے ہوں
یہاں تم اور ہم کے صیغے بہت اہم ہیں- اردو زبان میں تم کا لفظ واحد اور جمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، تاہم عربی میں تم کے لیے ‘کم’ کا لفظ آیا ہے جو کہ ایک یا دو لوگوں کے لیے نہیں آتا- یہاں لفظ ‘کم’ سے مراد ‘تم لوگ’ ہے، دوسری جانب لفظ ‘نا’ سے مراد ‘ہم لوگ’ ہے- نجرانی وفد سے متعلق روایت بتاتی ہے کہ ہم لوگ سے مراد صرف ایک فرد یعنی حضرت علیؓ ہیں- کیا جس چیز کا مطالبہ ازروئے قرآن مجسم قرآن نبی اکرم ﷺ نجرانیوں سے کر رہے تھے، نعوذباللہ خود اس پر عمل نہیں کر رہے تھے۔
اگر باہر سے آئے ہوئے کسی وفد کو مباہلے کی دعوت دی گئی ہوتی تو بیوی بچوں کو لانے کا نہ کہا گیا ہوتا، ورنہ ان کے پاس اس مباہلے کو مسترد کرنے کا منطقی جواب موجود ہوتا کہ جب بیوی بچے مدینہ میں ہیں ہی نہیں تو کہاں سے لائیں، یہ تو آپ (نبی پاکﷺ) کی طرف سے ٹالنے والی بات ہوئی (نعوذ باللہ)۔
مزید یہ کہ روایت کے مطابق مرد نجرانیوں سے تو بیوی بچوں کو لانے کا مطالبہ کیا گیا، دوسری جانب مسلمانوں کی جانب سے پنجتں پاکؓ کو بھیج دیا گیا- کیا نجرانیوں کی طرف سے یہ جواب نہیں آنا چاہیے تھا کہ ہم سے تو ہزار میل کے فاصلے سے عورتیں (جمع کا صیغہ) بلوانے کا کہا ہے اور خود اپنی عورتوں (بیویوں) کی موجودگی کے باوجود بھی صرف ایک بیٹی (واحد کا صیغہ) بھیجی۔(گویا نبیﷺ کی طرف سے مباہلے کی بنیادی شرط ہی کی خلاف ورزی مانی جائے)۔ گویا اس روایت کی رو سے مباہلہ میں جھوٹا ہونے کی لعنت نعوذ باللہ خود رسول اللہ ﷺ پر پڑتی ہے۔
تیسری بات نجرانی یہ بھی کہنے میں حق بجانب ہوتے کہ ہم سے بیٹے منگوائے گئے ہیں اور خود اپنے بیٹے کے موجود ہوتے ہوئے بھی دو نواسے بھیج دیے (واضح رہے کہ ۹ ہجری میں نبی اکرمﷺ کے صاحب زادے حضرت ابراہیمؓ حیات تھے) ۔ گویا حب علیؓ کی آڑ میں نبیﷺ کو مسلسل جھوٹا قرار دلوا کر لعنت پڑوائی جائے۔
یاد رہے اس روایت کے مطابق مباہلہ عیسائیوں سے ہو رہا تھا، اہلِ سنت سے تو نہیں ہورہا تھا کہ جواب نہ ملنے پر وہ نیم رافضی ہوجائیں- عیسائیوں نے تو اس سکیم پر صاف کہہ دینا تھا کہ مسلمانوں کے رسول نے تو اپنی ہی پیش کردہ شرائط کا پاس نہیں کیا، وہ اللہ کے رسول کیسے ہو سکتے ہیں۔
ظاہر ہے عقیدت کے نام پر نبیﷺ سے یہ جھوٹ بعد کے کسی دور میں منسوب کیا گیا ہے، جبکہ عیسائی یہ باتیں اس وقت پوچھنے کی سکت نہ رکھتے ہوں۔ اور عباسیوں/علویوں کی خلافت حاصل کرنے کی تحریک زوروں پر ہو۔
۲)- دوسری آیت ٦٤ ہے، جس میں اہلِ کتاب کے اس مخاطب گروہ کو کہا گیا ہے کہ آؤ ہم لوگ اس بات پر جمع ہوجائیں جو ہم میں یکساں ہے:
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا
کہہ اے اہلِ کتاب! ایک بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ سوائے الله کے اور کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں
آیت کا متن اس بات میں بالکل واضح ہے کہ اہل کتاب کے اس گروہ کو مخاطب کیا جا رہا ہے جو مسلمانوں ہی کی طرح توحید پر یقین رکھتے ہیں. دنیا کے تمام مذاہب میں سے صرف یہودی ہی ہیں جو توحید پر ویسے ہی ایمان رکھتے ہیں جیسے اسلام کہتا ہے. دوسری جانب نجرانی عیسائی تو ویسے بھی حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مانتے تھے. اور توحید کے قائل نہیں تھے.
مزے کی بات یہ ہے کہ روایت کی رو سے تو نجرانی بحث ہی یہ کر رہے تھے کہ حضرت عیسیٰ خدا کے بیٹے ہیں اور اسی بات پر مباہلہ بھی ہوا، کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے صریح شرک کرنے والوں کو فوراً بعد ہی الله، عقیدہ توحید میں ان کو مسلمانوں کا ہمسر قرار دے دے. استغفرالله
۳)- تیسری آیت ٥٩ ہے جسکو بڑے طمطراق کے ساتھ الوہیت مسیح کے انکار کی دلیل کے طور پر ہمیں بتایا جاتا ہے- یہی وہ آیت ہے جس پر عیسائیوں کے ساتھ مباہلے کی پوری کہانی کھڑی ہے- کیونکہ باقی تو کسی ایک آیت سے بھی ادنی سا شائبہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اس تقریر کے مخاطب عیسائی ہیں۔
إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ
” بے شک عیسیٰ کی مثال الله کے نزدیک آدم کی سی ہے، اسے مٹی سے بنایا پھر اسے کہا کہ ہو جا پھر ہو گیا”
کہا جاتا ہے کہ عیسائیوں سے کہا گیا کہ اگر تم بن باپ کی پیدائش کی وجہ سے عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مانتے ہو تو پھر تو آدم کو بدرجہ اولیٰ خدا کا بیٹا مانو، کیونکہ اسکے تو ماں اور باپ دونوں ہی بیان نہیں کیے جاتے ۔
مگر آیت کے الفاظ اس مفروضے کی مکمل طور پر ابا کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہاں الوہیت مسیح کا انکار نہیں کیا جا رہا بلکہ حضرت عیسیٰ کی غیر معمولی پیدائشِ زیرِ بحث ہے۔ اور ان کی غیر معمولی پیدائش پر مسلمانوں کا اختلاف یہودیوں سے ہے نہ کہ عیسائیوں سے، کیوںکہ عیسائی اور مسلمان دونوں ہی ان کی غیر معمولی طور پر پیدا ہونے کے قائل ہیں ۔ مزید یہ کہ آیت نمبر ٦٤ بھی یہی واضح کر رہی ہے کہ الوہیت کا موضوع مباہلہ کی وجہ نہیں ہو سکتا کیونکہ مباہلہ کے دونوں فریق توحید یعنی صرف ایک ہی خدا کے ہونے کے قائل ہیں.
حاصل کلام یہ کہ مباہلہ حضرت عیسیٰ کی غیر معمولی طور پر ہونے والی پیدائش کے موضوع پر تھا. اور حضرت مریم، حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ کی زندگیوں کے احوال بھی اسی پس منظر میں بتائے گئے ہیں. آیت نمبر ٣٩ میں جب حضرت زکریا کو بیٹے کی خوشخبری سنائی گئی ہے تو کہا گیا ہے کہ الله تجھ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو الله کے ایک فرمان (حضرت عیسیٰ) کی گواہی دے گا۔
بات صاف ہوگئی کہ مباہلے کی دعوت بنو نضیر کے یہودیوں کو ۳ ہجری میں غزوہ احد کے زمانے میں ہی مدینہ منورہ میں دی گئی تھی، جسکو انہوں نے قبول نہ کیا- اسی بات کی تصدیق آیت ٦٣ سے بھی ہو رہی ہے کہ منہ موڑنے والے ہی فسادی ہیں. درحقیقت یہ بات تو سوره بقرہ اور سوره نساء سے بھی واضح ہے کہ مدینہ کا یہودی حضرت عیسیٰ کے متعلق کج بحثیاں کر رہے تھے. ظاہر سی بات ہے کہ نجران سے آنے والے عیسائیوں کا وفد اگر اپنے عقائد کے متعلق استفسار کر رہا تھا تو مباہلہ سے گریز کی صورت میں ان کو مفسد تو نہیں قرار دیا جا سکتا.
دراصل اس مباہلہ کی دعوت میں مدینہ کے مفسد یہودیوں کو کہا گیا تھا کہ اگر تم اپنے آپ کو سچا سمجھتے ہو تو نو مسلم معاشرے میں فتنہ و فساد پھیلانے کی بجائے مباہلہ کی دعوت قبول کرو تم بھی آل اولاد سمیت آؤ اور ہم مدینہ کے مسلمان بھی اپنی آل اولاد کو لے کر الله کے حضور مباہلہ کے لئے پیش کر دیں. اور دعا کریں کہ جو فریق بھی جھوٹا ہے اس پر الله کی لعنت پڑے. اور مباہلہ سے فرار کی صورت میں تمہارا مفسد ہونا ثابت ہو جائے گا.
یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اگر یہاں دونوں فریقوں کے خدا مختلف ہوتے جیسا کہ عیسائیوں اور مسلمانوں کے مباہلہ کی صورت میں ہوتا تو کس فریق کے خدا سے دعا کی جاتی کہ جھوٹوں پر لعنت بھیجے. کیا نبی آخر الزمان عیسائیوں کے خدا حضرت عیسیٰ سے دعا کرتے؟ نعوذ باللہ
آیات یہودیوں کے ساتھ مباہلہ پر مکمل طور پر واضح ہیں لیکن کیونکہ یہودیوں اور مجوسیوں کا گٹھ جوڑ روزِ اول سے ہے، اس لیے الزام عیسائیوں پر ڈلواکر یہودیوں کو مباہلے کے فرار کے الزام سے پاک کروایا گیا ہے۔اور دوسرا کیونکہ مجوسیوں کا مخصوص ایجنڈا حضراتِ حسنینؓ کی عدم پیدائش کے باءث ۳ ہجری میں پورا نہیں ہو رہا تھا، تو سورہ آلِ عمران کے ابتدائی حصے کو غزوہِ احد سے ٦ سال بعد پہنچادیا گیا- اس اقدام نے جہاں حقیقی مجرموں یعنی یہودیوں کی چشم پوشی کی، وہیں قران کے طرز استدلال کو بھی کمزور طریقے پر پیش کیا، کیونکہ آیات کو تاویل کرکے عیسائیوں سے مباہلے کا قابل بنایا گیا ہے، نبی پاکﷺ کے قول و فعل میں تضاد دکھایا گیا ہے، کہ فریق مخالف سے جس طور لوگوں کو لانے کو کہا ہے، خود اس طور لوگ نہیں لاہے، سورت کے نظم کو توڑا گیا ہے، کہ آیات کی ترتیب آگے پیچھے گرداندی گئی ہے۔ جس گروہ نے اپنی سیاسی اجارا داری کے لیے رسول اور قرآن پر اس قدر دست درازی کی ہے، تو باقی تاریخ بدلنا تو اسکے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا-