مال والوں ہوش کرو۔تحریر: قاری حنیف ڈار

اللہ پاک نے انسان کو امتحان میں مبتلا کرنے کے جو وسائل دنیا میں پیدا فرمائے ھیں ان میں مال و اولاد کو قرآن حکیم میں بار بار ذکر کیا ھے ! نہ اولاد بری چیز ھے اور نہ ھی مال کوئی بری چیز ھے ! انسان کو جب بھی کبھی نیکی کا دورہ پڑتا ھے تو اس کا سب سے پہلا نشانہ یہی دو چیزیں بنتی ھیں ! انسان کی اس کمزوری اور غلط فہمی کو سامنے رکھتے ھوئے اللہ پاک نے انسانیت سے اپنے آخری خطاب میں ھر وہ ممکن طریقہ استعمال فرمایا ھے،جس سے اس غلط فہمی کا علاج کیا جا سکے ! مال و اولاد کو دنیا کی زینت قرار دینے کے ساتھ ساتھ، ان کو امتحان کا نصاب بھی قرار دیا اور ان سے فرار کو کمرہ امتحان سے فرار کے مترادف قرار دیا ھے، مال کو ھر جگہ لفظ ” خیر ” سے ذکر کر کے اس کے ساتھ منسوب برائی کے تصور کی بیخ کنی کی گئ ھے،، و انہ لحب الخیرِ لشدید” انسان خیر ” مال” سے شدید محبت کرتا ھے،، کتب علیکم اذا حضر احدکم الموت ان ترک خیراً الوصیۃ للوادین ،، یہاں بھی مال کو ” خیر چھوڑا ” سے تعبیر فرمایا ،، بہت سی جگہوں پر اسے اپنا فضل قرار دیا،، جیسے جمعے سے فارغ ھونے کے بعد منتشر ھو کر اللہ کے فضل کو ڈھونڈنے کی ترغیب دی گئ ھے،

اور یہی اصل مقصود ھے کہ مال کی شدید محبت اسے کمانے میں تمہیں ناجائز ذرائع کی طرف مائل نہ کر دے اور پھر کمانے کے بعد اس کی محبت تمہیں اس کو جوڑ جوڑ کر اور سینت سینت کر رکھنے پر آمادہ نہ کر دے،، حدود کا خیال رکھتے ھوئے خوب کماؤ اور اپنے اھل و عیال کی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ،، دیگر ضرورت مندوں میں بھی اسے خوب خرچو اور ان کے ذریعے اسے آخرت میں منتقل کرو،، و آتی المال علی حبہ،، مال کی محبت کے باوجود اسے دل سے کھینچ کر نکالنا اور دل کے رونے دھونے اور شیطان کے فقر کے ڈراؤوں کے علی الرغم اسے اللہ کی راہ میں دینا اصل امتحان ھے،، جس نے کمایا ھی نہیں ،، سونے کی چمک دیکھی ھی نہیں ،،وہ کیا جانے کہ مال کی محبت کیا ھوتی ھے اور پھر اس کے انفاق پر کیا درجات مرتب ھوتے ھیں ؟؟
شاعر نے کہا تھا !
بلنـــد ھـــــو تو کُھـلے تجــھ پہ زور پستـــــــی کا !
ڈگـــمگائے ھیــــں بڑے بڑوں کے قـــــــدم کیا کیا !

یعنی تم جس پستی کو بڑی مسکین سمجھتے ھو،ذرا اس سے بلند ھو کر دیکھو،،صرف مکان کی چھت سے کتنے زور سے کھینچتی ھے کہ ٹانگیں توڑ دیتی نھے،، جب مال قبضے میں آ کر دل میں جگہ بنا لیتا ھے تو پھر اسے نکالتے وقت انسان کو اپنے اندر جو جنگ لڑنی پڑتی ھے وہ اللہ دیکھ رھا ھوتا ھے،شیطان جس طرح بھوک و افلاس کے ڈراوے دے دے کر انسان کو انفاق سے روکتا ھے، وہ بھی اللہ دیکھ رھا ھوتا ھے اور ارشاد فرماتا ھے ” الشیطانُ یعدکم الفقر و یامرکم بالفحشاء،، واللہ یعدکم مغفرۃً منہ و فضلاً،، شیطان تمہیں فقر کے ڈراوے دے رھا ھے اور شرمناک رویئے پر اکسا رھا ھے،جبکہ اللہ تم سے بخشیش اور اپنے فضل کا وعدہ کر رھا ھے ( اب تمہارا انتخاب ھے کہ شیطان پر اعتبار کرتے ھو یا اپنے رب رحمان پر )
قصہ کوتاہ یہ کہ مال کی کمائی میں جدوجہد کرنا،، اس کی پلاننگ کرنا،، اس کے لئے بھاگ دوڑ کرنا قطعاً قابلِ مذمت نہیں اور نہ اس میں خرچ ھونے والے وقت پر کسی احساسِ جرم کو پیدا ھونے دینا چاھئے ! یہ شیطان کا بہت بڑا وار ھے، وہ دولت کو اللہ کی حدود کا خیال رکھنے والوں سے دور اور اللہ کی حدیں توڑنے والوں کے قریب کرتا ھے تا کہ اس کے ذریعے ان سے اللہ کی حدیں تڑوائے ! اپنی اور اپنے اھل و عیال نیز والدین اور اقرباء کی خبر گیری کے لئے کمانا ،جہد فی سبیل اللہ ھے !
مال والے کو یاد رکھنا چاھئے کہ اس کے اردگرد کے حلقہ اقرباء میں مختلف درجوں کے لوگ ھیں ، والدین پیچھے سے قریب ھیں تو اولاد آگے سے قریب ھے،،اور انسان درمیان میں ھے،، اس صورت میں اسے یہ بھی دیکھنا ھے کہ ایک بچے پر وہ پیسے لگا کر اسے پڑھا کر جاب پر لگا چکا ھے جبکہ ایک بچہ ابھی آدھے رستے میں ھے، اسکی تعلیم ھی ابھی ادھوری ھے،اسے فیس اور کتابوں کے پیسے چاھئیں ، اگر اسے اس حالت میں موت آ جاتی ھے تو جائداد کے بارے میں اللہ کا قانون حرکت میں آئے گا اور وہ اس بچے کو بھی اتنی ھے رقم دے گا جو خود ماھانہ لاکھوں کما رھا ھے جتنی اس بچے کو دے گا جو ابھی اپنے تعلیمی اخراجات کے لئے ماھانہ ھزاروں روپے کا محتاج ھے،، اس لیئے اسے اپنے جیتے جی اس بچے کا سوچنا ھو گا،، جب تک وہ زندہ ھے وہ صاحب اختیار ھے اور اللہ پاک کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ وہ کس کو کتنا دیتا ھے ! یہی معاملہ بیوی کا ھے، اگر کسی کے اولاد نہیں اور بیوی بھی اس قابل نہیں کہ کہیں اور شادی کر سکے تو وہ ایک معقول رقم اپنی بیوی کو منتقل کر سکتا ھے اور والدین کو بھی !! بجائے اس کے کہ اسے وہ لوگ ھڑپ لیں جو کل تک اس کے دشمن بنے پھرتے تھے !
اسی طرح اپنی اولاد میں سے کمزور ترین طبقے یعنی بیٹی کی طرف بھی دھیان رکھنا چاھیئے کہ جسے ھمارے سماج میں کچھ دینے کا رواج ھی نہیں،، بھائیوں سے حصہ مانگ کر ساری زندگی کی رنجش وہ پالنا نہیں چاھتی، اور امیر تر بھائی اپنی غریب ترین بہن سے، زمین جائداد لکھوا لینے میں کوئی عیب بھی نہیں سمجھتے ، اس صورت میں بیٹی کے ساتھ جؤائنٹ اکاؤنٹ کھول کر رقم یا پھر جائداد میں سے اس کا حق اس کے نام کرا دینا چاھیئے ! تا کہ نہ تو اس کی حق تلفی ھو اور نہ اولاد کے درمیان رنجش پیدا ھو ! جس بیٹے نے والدین کی زیادہ خدمت کی ھو ،ھر مشکل میں ان کا ھاتھ بٹایا ھو اور مکان،دکان جائداد بنانے میں والد کی مدد کی ھو،، اپنی جائداد میں سے اس کے نام کچھ زیادہ کرا دینا چاھئے تا کہ اس کی اولاد کی بھی حق تلفی نہ ھو !
الغرض یہ فیصلے اپنے جیتے جی کر لینے چاھئیں تا کہ بعد میں مقدمہ بازی اور سر پھٹول کا بازار گرم نہ ھو !!

سورس

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.