غلطیاں اور غلط فہمیاں۔ قاری حنیف ڈار

گزشتہ چند دنوں سے فیس بک پر نا مکمل احادیث کے ذریعےیہ غلط فہمی پھیلائ جا رہی ھےکہ رسول اللہ ﷺ اپنی توہین کا بدلہ لینے کے لئے لوگوں کو قتل کروا دیتے تھے یا بعض صحابہ خود قتل کر دیتے اور آپ اس کی تصویب کرتے تھے ۔اس کے لئے نہ کوئ عدالتی کاروائ ہوتی تھی نہ توہین رسالت کےسوا کوئ وجہ سزا ۔امر واقعہ یہ ھے کہ یہ سب بیانات سیرت طیبہ اور مقام رسالت سے ناواقفی کا شاخسانہ ھیں ۔ذیل میں اس نوعیت کے چند واقعات کے اصل حقائق مختصرا بیان کئے جاتے ہیں ۔
١۔کعب بن اشرف کا قتل یہ صاحب غزوہ بدر کے بعد مکہ چلے گئے ۔وہاں کعبہ کے پردے پکڑ کر مشرکین مکہ سے عہد لیا کہ وہ مسلمانوں سے بدر کا انتقام لیں گے ۔کفار قریش کو جنگ پر بھڑکاتے رھے ۔واپس مدینہ آکر حضور ﷺ کی ہجو اور باعزت مسلم خواتین کے نام لے کر عشقیہ اشعارکہتے ۔آپ ﷺ کی بارہا کی کوششوں کے باوجود نہ صرف یہ کہ باز نہیں آئے بلکہ آپ کو دعوت پر بلایا اور دوسری طرف یہود کو تیار کیا کہ اس موقع پر آپ کو جانی نقصان پہنچائیں امام بخاری اور حافظ ابن حجر نے واضح الفاظ میں انہیں محارب (بر سر جنگ ) قرار دیا ۔ بخاری حدیث ٤٠٣٦ ابن حجر ٨ ۔٢٨٧۔٢٩٠

٢۔ابو رافع خیبر کے باہر حجاز کی جانب ایک قلعہ کا مالک تھا ۔بہت دولت مند ۔بنو غطفان اور مشرکین عرب کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے بہت مالی امداد دیتا تھا ۔ابن حجر نے مسلمانوں کے خلاف اس کے جانی مالی اور لسانی تعاون کا ذکر کر کے اسے بھی محاربین میں شمار کیا ھے ۔ اس کے قتل کا مقصد دشمن کی سپلائ لائن کاٹنا تھا ۔(ابن حجر ٨۔ ٢٩١ وما بعد )
٣۔ابن اخطل یہ صاحب مسلمان ہو گئے ۔رسول اللہ ﷺ نے انہیں زکواہ کلیکٹر کے طور پر بھیجا ۔ایک انصاری کو بھی ساتھ کر دیا ۔انہوں نے ساتھی کو قتل کر دیا اورخود مرتد ہو کر سرکاری مال لے کر مکہ بھاگ گئے ۔ وہاں جاکر مسلمانوں کے خلاف مہم چلانا شروع کردی ۔یہ شخص قاتل اور مرتد تھا ۔(تفصیل کے لئے دیکھئے ابن کثیر البدایہ والنہایہ فتح مکہ )

سورس

توہین رسالت کی سزا کے جو واقعات بالعموم نقل کیے جاتے ہیں، اُن کی حقیقت بھی سمجھ لینی چاہیے۔ ابو رافع اُن لوگوں میں سے تھا جو غزوہِ خندق میں قبائل کو مدینہ پر چڑھا لانے کے مجرم تھے۔ ابن اسحاق کے الفاظ میں ، ‘فیمن حزب الاحزاب علی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم’‘‘ کعب بن اشرف کے بارے میں مؤرخین نے لکھا ہے کہ غزوہ بدر کے بعد اُس نے مکہ جا کر قریش کے مقتولین کے مرثیے کہے جن میں انتقام کی ترغیب تھی ، مسلمان عورتوں کا نام لے کر تشبیب لکھی اور مسلمانوں کو اذیت پہنچائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت میں رہتے ہوئے آپ کے خلاف لوگوں کو برانگیختہ کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ بعض روایتوں کے مطابق آپ کو دھوکے سے قتل کر دینا چاہا۔

عبداللہ بن خطل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ اُس کے ساتھ ایک انصاری اور ایک مسلمان خادم بھی تھا۔ راستے میں حکم عدولی پر اُس نے خادم کو قتل کر دیا اور مرتد ہو کر مکہ بھاگ گیا۔ پھر یہی نہیں، یہ تینوں خدا کے رسول کی طرف سے اتمام حجت کے باوجود آپ کی تکذیب پر مصر رہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ قانون قرآن میں جگہ جگہ بیان فرمایا ہے کہ رسولوں کے براہ راست مخاطبین عذاب کی زد میں ہوتے ہیں۔ چنانچہ معاندت پر اتر آئیں تو قتل بھی کیے جا سکتے ہیں۔ اِس سے واضح ہے کہ یہ محض توہین کے مجرم نہیں تھے، بلکہ اِن سب جرائم کے مرتکب بھی ہوئے تھے۔ لہٰذا اِنھی کی پاداش میں قتل کیے گئے۔ عبداللہ بن خطل ایک خونی مجرم تھا۔ اُس کے بارے میں اِسی بنا پر حکم دیا گیا کہ کعبے کے پردوں میں بھی چھپا ہوا ہو تو اُسے قتل کر دیا جائے۔

اِن کے علاوہ جو واقعات سنائے جاتے ہیں، وہ اگرچہ سند کے لحاظ سے ناقابل التفات ہیں، لیکن بالفرض ہوئے ہوں تو اُن کی نوعیت بھی یہی سمجھنی چاہیے کہ منکرین کے سب و شتم سے اُن کی معاندت پوری طرح ظاہر ہو جانے کے بعد رسولوں کی تکذیب کا وہ قانون اُن پر نافذ کر دیا گیا جو قرآن میں ایک سنت الٰہی کی حیثیت سے مذکور ہے۔ بعض مقتولین کے خون کو ہدر قرار دینے کی وجہ بھی یہی تھی۔ ‘ لا يقتل مسلم بکافر’- (اِن منکروں کے قصاص میں کسی مسلمان کو قتل نہیں کیا جائے گا۔) اِسی کا بیان ہے۔ علما اِن حقائق سے واقف ہیں، لیکن اِس کے باوجود اُن کا اصرار ہے کہ اِن واقعات سے وہ توہین رسالت کا قانون اخذ کریں گے۔

سورس

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.