حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بیٹے کو ذبح کرنا تحریر محمد نعیم خان
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بیٹے کو ذبح کرنا
حضرت ابرہیم کا خواب اور ان کا اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا واقعہ ہمیں سوره الصفات کی آیات ١٠٠ سے ١٠٨ تک ملتا ہے .
پہلے ان آیات کا ایک اجمالی جائزہ لے لیں پھر اس پر میری کوشش ہوگی کہ اپنے خیالات کا اظہار کروں .
وَقَالَ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَىٰ رَبِّي سَيَهْدِينِ ﴿٩٩﴾ رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ ﴿١٠٠﴾ فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ ﴿١٠١﴾ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّـهُ مِنَ الصَّابِرِينَ ﴿١٠٢ ﴾ فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ ﴿١٠٣﴾ وَنَادَيْنَاهُ أَن يَا إِبْرَاهِيمُ ﴿١٠٤﴾ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿١٠٥﴾ إِنَّ هَـٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ ﴿١٠٦﴾ وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ ﴿١٠٧﴾ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ ﴿١٠٨ ﴾
(پھر اَرضِ مقدّس میں پہنچ کر دعا کی:) اے میرے رب! صالحین میں سے مجھے ایک (فرزند) عطا فرما، (١٠٠) پس ہم نے انہیں بڑے بُرد بار بیٹے (اسماعیل علیہ السلام) کی بشارت دی، (١٠١) پھر جب وہ (اسماعیل علیہ السلام) ان کے ساتھ دوڑ کر چل سکنے (کی عمر) کو پہنچ گیا تو (ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں سو غور کرو کہ تمہاری کیا رائے ہے۔ (اسماعیل علیہ السلام نے) کہا: ابّاجان! وہ کام (فوراً) کر ڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے۔ اگر اﷲ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے، (١٠٢ ) پھر جب دونوں (رضائے الٰہی کے سامنے) جھک گئے (یعنی دونوں نے مولا کے حکم کو تسلیم کرلیا) اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے پیشانی کے بل لِٹا دیا (اگلا منظر بیان نہیں فرمایا)، (١٠٣) اور ہم نے اسے ندا دی کہ اے ابراہیم!، (١٠٤) واقعی تم نے اپنا خواب (کیاخوب) سچا کر دکھایا۔ بے شک ہم محسنوں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں (سو تمہیں مقامِ خلّت سے نواز دیا گیا ہے)، (١٠٥) بے شک یہ بہت بڑی کھلی آزمائش تھی، (١٠٦) اور ہم نے ایک بہت بڑی قربانی کے ساتھ اِس کا فدیہ کر دیا، (١٠٧) اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں اس کا ذکرِ خیر برقرار رکھا، (١٠٨ )
خواب ، جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ ان کی تعبیر ہوتی ہے . عام سا انسان بھی جانتا ہے کہ اس میں دیکھاہے جانے والے مناظر و واقعیات حقیقی نہیں بلکے تمثیلی ہوتے ہیں . تعبیر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ایسی حالت کو کہتے ہیں جس میں کسی دیکھی چیز کی وساطت سے کسی ان دیکھے نتائج تک پہنچنا . پھر اس ہی سے خواب کا انجام بتانے کا مطلب نکلتا ہے . یہ لفظ سوره یوسف کی آیت ٤٣ میں استعمال ہوا ہے
قرآن کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انبیا کرام کو خواب کے وساطت سے مستقبل کی خبریں دی جاتی رہی ہیں .
سب سے پہلے اس کا ذکر سوره یوسف میں حضرت یوسف کے قصہ میں ملتا ہے جب وہ اپنے والد سے فرماتے ہیں کہ انہوں نے خواب میں گیارہ ستارے ، سورج اور چاند کو سجدہ کرتے دیکھا ہے .
إِذْ قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ ﴿٤ ﴾
یہ اُس وقت کا ذکر ہے جب یوسفؑ نے اپنے باپ سے کہا "ابا جان، میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اور چاند ہیں اور وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں” (٤ )(١٢:٤ (
اس خواب کو سنتے ہی حضرت یعقوب ، جو کہ خود بھی منصب نبوت پر فائز تھے اس کی تعبیر سمجھ گے اور حضرت یوسف کو اس خواب کو ان کے بھائیوں کے سامنے بیان کرنے سے روکا . نہ حضرت یوسف نے اور نہ ہی حضرت یعقوب نے سورج ، چاند اور ستارے منگوا کر اپنے سامنے سجدے کروائے . وہ بھی جانتے تھے کہ یہ واقعہ تمثیلی انداز میں کسی بات کی پیشنگوئی ہے .
پھر اس ہی سوره میں جب حضرت یوسف کو جیل میں قید کر دیا جاتا ہے تو وہاں موجود دو اشخاص ان سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھتے ہیں . یہ دونوں اشخاص بھی خواب دیکھنے کے بعد اپنے خواب کو تمثیلی خیال کرتے ہیں . نہ کہ شراب کشید کرنا شروع ہو جاتے ہیں اور نہ ہی روٹیاں منگوا کر اپنے سروں پر رکھتے ہیں
پھر آگے چل کر اس ہی سوره میں ملک کا بادشاہ بھی خواب دیکھتا ہے کہ سات سوکھی گائیں ساتھ موٹی گائیں کو کھا رہی ہیں . لیکن یہ خواب دیکھنے کہ بعد بھی اس بادشاہ کو اس خواب کی تعبیر جاننے کی فکر لاحق ہوتی ہے . نہ کہ بادشاہ سات سوکھی گاہیں سے ساتھ موٹی گاہیں کو کھلانا شروع ہو جاتا ہے .
ان واقعات کو میرا بتانے کا مقصد یہ سمجھانا ہے کہ ہر کوئی اس بات سے باخبر ہوتا ہے کہ خواب تمثیلی ہوتے ہیں اور کسی جانب اشارہ کرتے ہیں . کسی آنے والے واقعہ کی پیشن گوئی کرتے ہیں . جب یہ تمام لوگ اس بات سے واقف تھے تو حضرت ابراہیم ان سے حد درجے زیادہ عقل والے تھے . جنہوں نے اپنے آباؤ اجداد کے دین کو عقلی بنیادوں پر انکار کیا تھا پھر ان سے ایسے عمل کی توقع رکھنا کہ وہ خواب کی تعبیر کے بجاے چھری لے کر اپنے بیٹے کو ذبح کرنے نکل پڑیں .
پھر صرف یہی واقعہ نہیں ہے بلکے رسول الله کو بھی خواب کے وساطت سے مستقبل کی پیشن گوئی کی گئی . قرآن کے مطالعہ سے ہمیں اس کا ذکر سوره اسرا کی آیت ٦٠ میں ملتا ہے .
وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ ۚ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ۚ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا كَبِيرًا ﴿٦٠ ﴾
اور جب ہم نے تم سے کہہ دیا کہ تیرے رب نے سب کو قابو میں کر رکھا ہے اور وہ خواب جو ہم نے تمہیں دکھایا اور وہ خبیث درخت جس کا ذکر قرآن میں ہے ان سب کو ان لوگو ں کے لیے فتنہ بنا دیا اور ہم تو انہیں ڈراتے ہیں سو اس سے ان کی شرارت اوربھی بڑھتی جاتی ہے (٦٠ )
امین اصلاحی مرحوم اور غامدی صاحب اس حوالے سے لکھتے ہیں :
"یہ اُن آیات کی طرف اشارہ ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ سرزمین مکہ کو اب ہم اُس کے اطراف سے کم کرتے ہوئے اُس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ اُس انجام کی صریح پیشین گوئی اور اُس کے حوالے سے قریش کو تنبیہ تھی جس سے وہ فتح مکہ کے موقع پر دوچار ہوئے۔*( ملاحظہ ہو: الرعد ۱۳: ۴۱۔ الانبیاء ۲۱: ۴۴)
یہ اشارہ واقعۂ اسراکی طرف ہے جس کا ذکر سورہ کی ابتدا میں ہوا ہے۔ اِس میں چونکہ قریش اور بنی اسرائیل، دونوں کے لیے یہ تنبیہ مضمر تھی کہ مسجد حرام کے ساتھ اب بیت المقدس کی امانت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کی جا رہی ہے، اِس لیے اِس کا بھی مذاق اڑایا گیاکہ لیجیے، اب یہ بیت المقدس پر بھی قبضہ کرنے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ استاذ امام کے الفاظ میں، جو چیز اُن کی تنبیہ و تخویف اور اُن کو اِن کے مستقبل سے آگاہ کرنے کے لیے تھی، وہ اُن کی شامت اعمال سے اُن کے لیے فتنہ بن کے رہ گئی”
پھر سوره الفتح کی آیت ٤٨ میں اس ہی خواب کا ذکر ملتا ہے .
لَّقَدْ صَدَقَ اللَّـهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّـهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَٰلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا ﴿٢٧ ﴾
بے شک الله نے اپنے رسول کا خواب سچا کر دکھایا کہ اگر الله نے چاہا تو تم امن کے ساتھ مسجد حرام میں ضرور داخل ہو گے اپنے سر منڈاتے ہوئے اور بال کتراتے ہوئے بے خوف و خطر ہوں گے پس جس بات کو تم نہ جانتے تھے اس نے اسے جان لیا تھا پھر اس نے اس سے پہلےہی ایک فتح بہت جلدی کر دی (٢٧ )
یہ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کی طرف اشارہ تھا جو مسلمانوں کو جلد ہی نصیب ہوئی
ان آیات کی تفسیر سے پہلے ان باتوں کا میرا بتانے کا مقصد صرف یہی تھا کہ خواب کی وساطت سے الله کی یہ سنت رہی ہے کہ اپنے انبیا کرام کو مستقبل کی پیشن گوئی یا کسی خاص بات کی طرف اشارہ کرتا رہا ہے . اس لیے یہ کوئی ایسی انہونی بات نہیں تھی جو حضرت ابراہیم کے ساتھ پیش آئی .
آگے بڑھنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس بات کی تحقیق کی جاے کہ کیا الله کسی ناحق کو قتل کرنے کا حکم دے سکتا ہے ؟. سوره المائدہ میں ہمیں آدم کے دو بیٹوں کا قصہ ملتا ہے جس کو قرآن نے بیان کیا ہے . جس میں سے ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو نا حق قتل کر دیا تھا . الله نے قرآن میں اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد جو بات اگلی آیت میں بیان کی ہے وہ یہ ہے .
مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ ﴿٣٢ ﴾
اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اورجس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کی زندگی بخشی اورہمارے رسولوں ان کے پاس کھلے حکم لا چکے ہیں پھر بھی ان میں سے بہت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں (٣٢ )
کسی ایک انسان کا نا حق قتل پوری انسانیت کا قتل ہے پھر اس ہدایت کو دینے کے بعد یہ کیسے ممکن ہے کہ الله نا حق کا حکم دے ؟. یہ بات بھی ذہن میں رکھئے کہ الله کا دین ، الله کا قانون شروع دن سے ایک ہی ہے . اس ہی بات کو الله نے قرآن میں یوں بیان کیا ہے .
شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ ۚ اللَّـهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ ﴿١٣ ﴾
تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا جس کا نوح کو حکم دیا تھا اور اسی راستہ کی ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے اور اسی کا ہم نے ابراھیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا کہ اسی دین پر قائم رہو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا جس چیز کی طرف آپ مشرکوں کو بلاتے ہیں وہ ان پر گراں گزرتی ہے الله جسے چاہے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسے راہ دکھاتا ہے (١٣ )
الله کے قانون بدلا نہیں کرتے . یہ وہی قانون ہے ، وہی دین ہے ، وہی شریعت ہے جو تمام انبیا کو وحی کی گئی اس لیے الله کسی نا حق کا حکم ہرگز نہیں دے سکتا . کسی کا امتحاں لینے کے لیے بھی نہیں . اس لمبی تمہید کے بعد اب ان آیات کو قرآن کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں .
حضرت ابراہیم کا خواب دیکھنے کا واقعہ اس وقت سے متعلق ہے جب آپ اپنے آباؤ اجداد کے دین کو ٹھکرا دیتے ہیں اور ان کی قوم ان کو آگ میں ڈال کر مارنے کی سازش کرتی ہے تو الله ان کو ہجرت دے کر وہاں سے نکال لیتا ہے . ہجرت کر کے کہاں گے تھے؟ اس میں مختلف اقوال ہیں . کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شام کی طرف ہجرت کر گے تھے ، کچھ لوگ مصر کی طرف ہجرت بتاتے ہیں کچھ کا خیال ہے کہ کنعان کو انہوں نے اپنی پیغمبرانہ تبلیغ کا مسکن بنایا تھا .میرے نزدیک جہاں تک میرا خیال ہے انہوں نے کنعان ہی کو اپنی تبلیغ کا مسکن بنایا اور ہجرت کے بعد وہیں رہے .
پھر وہیں پر حضرت ابراہیم نے ایک صالح فرزند کی دعا مانگی . جس کا ذکر ہمیں سوره الصفات میں ملتا ہے
رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ ﴿١٠٠﴾ فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ ﴿١٠١ ﴾
اے پروردگار، مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو” (١٠٠) (اس دعا کے جواب میں) ہم نے اس کو ایک حلیم (بردبار) لڑکے کی بشارت دی (١٠١ )
حضرت ابراہیم اپنی پیغمبرانہ تبلیغ کرتے کرتے اب بوڑھے ہو چکے تھے ان کی کوئی اولاد نہیں تھی . اپنے مشن کو جاری رکھنے کے لیے انہوں نے ایک ایسے دست راست کی دعا کی جو ان کے بعد اس کام میں ان کا ہاتھ بٹا سکے اور پھر ان کے انتقال کے بعد اس کو جاری رکھے .
انبیا کرام کی اولاد کی طلب کی دعا اپنے مشن کو جاری رکھنے کے لیے ہوتی ہے . اس ہی قسم کی دعا کا ذکر ہمیں سوره مریم کی آیت ٥ میں حضرت زکریا کے حوالے سے ملتا ہے .
وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا ﴿٥﴾ يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا ﴿٦ ﴾
اور میں اپنے (رخصت ہوجانے کے) بعد (بے دین) رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں (کہ وہ دین کی نعمت ضائع نہ کر بیٹھیں) اور میری بیوی (بھی) بانجھ ہے سو تو مجھے اپنی (خاص) بارگاہ سے ایک وارث (فرزند) عطا فرما، (5) جو (آسمانی نعمت میں) میرا (بھی) وارث بنے اور یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد (کے سلسلۂ نبوت) کا (بھی) وارث ہو، اور اے میرے رب! تو (بھی) اسے اپنی رضا کا حامل بنا لے، (٦ )
اس آیت سے یہ بات واضح ہے کہ انبیا کرام کی اولاد کی طلب ان کے مشن کو جاری رکھنے کے لیے اور تبلیغ کا فریضہ انجام دینے کے لیے ہوتی تھی .
پھر جب بڑھاپے میں بچہ دوڑ دھوپ کرنے اور اپنے باپ کا ہاتھ بٹانے کے قابل ہو گیا تو اس مقام پر حضرت ابراہیم کو خواب میں کعبہ کی تعمیر اور وہاں حضرت اسماعیل کو نذر کرنے کا اشارہ ملتا ہے
سوره الصافات کی آیت ١٠٢ میں اس کا بیان کچھ یوں ہے .
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّـهُ مِنَ الصَّابِرِينَ ﴿١٠٢ ﴾
پھر جب وہ (اسماعیل علیہ السلام) ان کے ساتھ دوڑ کر چل سکنے (کی عمر) کو پہنچ گیا تو (ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں سو غور کرو کہ تمہاری کیا رائے ہے۔ (اسماعیل علیہ السلام نے) کہا: ابّاجان! وہ کام (فوراً) کر ڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے۔ اگر اﷲ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے، (١٠٢ )
جیسا کہ اوپر تمہید میں بیان کر چکا ہوں کہ ایک عام سا انسان بھی یہ بات جانتا ہے کہ خواب کی تعبیر ہوتی ہے ، اس ہی لیے حضرت ابراہیم نے خواب کے بعد اپنے بیٹے اسماعیل سے اس پر غور کرنے کو کہا .
آیت میں لفظ فَانظُرْ غور طلب ہے . جس کے معنی کسی چیز پر غور کرنا ، اندازہ کرنا ، کسی دوسری چیز کے ساتھ ملا کر اس کی بات قیاس کرنا ہے . یہ آنکھوں دیکھنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ، کسی طرف توجہ دلانے کے بھی معنوں میں بولا جاتا ہے
حضرت ابراہیم نے غور کے بعد اپنے بیٹے سے بھی اس پر غور کر کے ان کی رائے طلب کی . دونوں جانتے تھے کہ یہ خواب تمثیلی ہے اور اس کی تعبیر کچھ اور ہے . جو تعبیر دونوں نے سمجھی وہ درست تھی . اس کا ذکر ہمیں سوره ابراہیم کی آیت ٣٧ میں ملتا ہے .
رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ ﴿٣٧ ﴾
پروردگار، میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے پروردگار، یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو اِن کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں (٣٧ )
اس خواب کی حقیقی تعبیر یہی تھی کہ الله کا گھر خاص اس کی عبادت کے لیے تعمیر کیا جاے اور اس کی حفاظت و خدمات کے لیے اپنے بیٹے کو اس کی نذر کر دیں . اپنی اولاد کو نذر کرنے کا واقعہ بھی ایسا نہیں ہے کہ یہ صرف قرآن میں حضرت ابراہیم ہی کے ساتھ مخصوص ہے بلکہ سوره عمران آیت ٣٥ میں ہمیں بچے کو نذر کرنے کا ذکر ملتا ہے
إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿٣٥ ﴾
(وہ اُس وقت سن رہا تھا) جب عمران کی عورت کہہ رہی تھی کہ، "میرے پروردگار! میں اس بچے کو جو میرے پیٹ میں ہے تیری نذر کرتی ہوں، وہ تیرے ہی کام کے لیے وقف ہوگا میری اس پیشکش کو قبول فرما تو سننے اور جاننے والا ہے” (٣٥ )
جو بیٹا تبلیغ کے لیے بڑھاپے میں خصوصی دعا کا نتیجہ تھا اب اس کی جدائی کا مرحلہ تھا لیکن حضرت ابراہیم وہ تھے جو الله کی ہر آزمائش پر پورے اترے تھے ، اس دفعہ بھی وہ اس آزمائش پر پورے اترے . نہ صرف یہ کہ خود بھی اس حکم پر سر تسلیم کیا بلکے جو نیک اولاد خصوصی دعا کے بعد حاصل کی تھا اس نے بھی اس حکم پر سر تسلیم خم کیا . سوره الصفات کی آیت ١٠٣ میں اس کو یوں بیان کیا ہے
فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ
آخر کو جب اِن دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیمؑ نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا (١٠٣ )
اب چونکے تمام مفسرین نے اس خواب کو حقیقی معنوں میں لیا ہے تو ایک نظر ان کے ترجموں پر ڈال لیں
مودودی : ابراہیمؑ نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا
احمد رضا خان : باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا
احمد علی: اس نے پیشانی کے بل ڈال دیا
جالندھری: باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا
طاہر القادری: ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے پیشانی کے بل لِٹا دیا
ان تمام ترجموں میں آپ کو ایک ہی بات مشترک نظر آے گی کہ سب نے ماتھے کے بل لٹانے کا ترجمہ کیا ہے .
اب کیوں کہ تمام مفسرین نے اس خواب کے حقیقی معنے لیے ہیں اس لیے تمام مفسرین یہاں وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ کا مطلب پچھاڑ کر ماتھے کے بل لیٹا دینا ، ماتھے کے بل گرا دینا ، ڈال دینا وغیرہ لیے ہیں .
اب اگر آپ نے جانوروں کی قربانی کا منظر دیکھا ہو تو کیا یہ پوزیشن قربانی کی ہے ؟. کیا قربانی کے وقت جانوروں کو ماتھے کے بل گرایا جاتا ہے ، کیا ایسی حالت میں گردن پر چھری چلائی جا سکتی ہے؟ .
اس کی تاویل میں مفسرین یہ بات بیان کرتے ہیں کہ کیوں کہ باپ کو اپنے بیٹے سے بہت پیار تھا اس لیے کہیں ایسا نہ ہو کہ ذبح کرتے ہوے ان کا چہرہ سامنے ہو تو شائد ارادہ بدل نہ جاے اس لیے ان کو ماتھے کے بل لٹایا تھا . کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے بیٹے کو سجدہ کی حالت میں قربان کرنا چاہا اس وجہ سے پیشانی کے بل پچھاڑا وغیرہ . غرض ہر ایک بضد ہے ایک نا حق کے خون کی بلی دینے میں . اب ان الفاظ پر غور کرتے ہیں
وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ…
اس میں لفظ "تل ” قرآن میں صرف ایک ہی بار استعمال ہوا ہے جس کے معنی بلند جگہ کو کہتے ہیں ، اس کے معنی سجدہ ریز ہونا بھی ہے ، لیٹا دینا ، گرا دینا ، کسی کو حرکت میں ڈالنا ، اپنے کسی بہت ہی قریبی کے گال ، گردن یا سینے پر سر رکھ دینا وغیرہ .
تَلَّ الشَّيْءَ في يَدِهِ کا مطلب ہے کوئی چیز ہاتھ میں رکھ دی .
اب تل کے معنی ذھن میں رکھتے ہوے ان الفاظ کا ترجمہ کچھ یوں ہوگا .
وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ
اور وہ (حضرت ابراہیم ) اس کو (حضرت اسماعیل کو ) اپنی پیشانی کی طرف لے اے (یعنی ان کا سر اپنی پیشانی پر رکھ دیا )
یہ وہ منظر ہے جب ایک بوڑھا باپ جو اپنی اولاد سے حد درجے محبت کرتا ہے . اس خیال سے کہ اس کو ایک غیر آباد علاقے میں الله کی گھر کو آباد کرنے کے لیے چھوڑ کر آنا ہے، اس سے اظہار محبت کے لیے ایک طرح سے اس کو گلے لگایا اور پیار و محبت کا اظہار کیا . یہ ایک فطری عمل ہے . انبیا بھی انسان ہوتے ہیں اور ان کے بھی اپنے جذبات ہیں لیکن ان کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس فیصلے سے خوش نہ تھے یا ان کا ارادہ تبدیل ہو رہا تھا بلکے یہ رضامندی کا اظہار تھا .
اس کے بعد الله نے ندا لگائی کہ اے ابراہیم تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا .
وَنَادَيْنَاهُ أَن يَا إِبْرَاهِيمُ ﴿١٠٤﴾ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿١٠٥ ﴾
اور ہم نے ندا دی کہ "اے ابراہیمؑ (104) تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں (١٠٥ )
صدق کے ایک معنی "سچ کر دیکھا دینے ” کے بھی ہیں . جیسے الله نے رسول الله کے خواب کو سچ کر دکھایا جس کا ذکر میں اوپر بیان کر چکا ہوں .
یہاں آیت ١٠٥ میں کچھ سوالات اٹھتے ہیں کہ اگر بیٹے کو ذبح نہیں کیا تو خواب سچا کیسے ہوا ؟. اگر ذبح کیا تو پھر نا حق کو قتل کیا جس کی قرآن کسی صورت میں اجازت نہیں دیتا ۔اس لیے خواب صرف اس ہی صورت میں سچا ہو سکتا ہے جب اس پر عمل کیا جاے اور اس پر دونوں باپ بیٹوں نے عمل کیا . جس کی خبر ہمیں سوره بقرہ کی آیت ١٢٨ میں ملتی ہے .
وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿١٢٧ ﴾
اور یاد کرو ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ جب اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے، تو دعا کرتے جاتے تھے: "اے ہمارے رب، ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے (١٢٧ )
پھر اس ہی سوره بقرہ کی آیات ١٢٨ اور ١٢٩ میں حضرت ابراہیم کی دعا کا ذکر ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کے ساتھ الله کے گھر کی تعمیر کرتے ہوے کی تھی
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ﴿١٢٨﴾ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١٢٩ ﴾
اے رب، ہم دونوں کو اپنا مسلم (مُطیع فرمان) بنا، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا، جو تیری مسلم ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا، اور ہماری کوتاہیوں سے در گزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے (128) اور اے رب، ان لوگوں میں خود انہیں کی قوم سے ایک ایسا رسول اٹھا ئیو، جو انہیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے” (١٢٩ )
پھر ہمیں سوره بقرہ کی آیت ١٢٥ میں حضرت اسماعیل کی ذمےداریوں کا ذکر ملتا ہے .
وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ﴿١٢٥ ﴾
اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبے) کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا اور لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیمؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنا لو اور ابراہیمؑ اور ا سماعیل کو تاکید کی تھی کہ میرے گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو (١٢٥ )
یہاں حضرت اسماعیل کی ذمےداریوں میں سے ایک اہم ذمےداری اس کو تمام بت پرستوں اور شرک کرنے والوں سے پاک کیا جاے . اس کے علاوہ وہ گرد و پیش میں رہنے والوں کو الله کا پیغام پہنچائیں اور حج کی دعوت دیں .جہاں لوگ یکجا ہو کر توحید کے مرکز میں الله کی عبادت کریں اس کا ذکر ہمیں سوره الحج کی آیات ٢٧ سے ٢٩ میں ملتا ہے .
وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ﴿٢٧﴾ لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ﴿٢٨﴾ ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ ﴿٢٩ ﴾
اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں (27) تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں اُن کے لیے رکھے گئے ہیں اور چند مقرر دنوں میں اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے انہیں بخشے ہیں، خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں (28) پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں، اور اس قدیم گھر کا طواف کریں (٢٩ )
پھر کیوں کہ حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کو ایک غیر آباد جگہ پر چھوڑا تھا جہاں کچھ نہیں اگتا تھا اس لیے انہوں نے یہاں رزق کی کشادگی کے لیے دعا کی جس کا ذکر ہمیں سوره ابراہیم کی آیت ٣٧ میں ملتا ہے جو اس پورے مضمون کا لبے لباب ہے .
رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ ﴿٣٧ ﴾
پروردگار، میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے پروردگار، یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو اِن کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں (٣٧ )
یہ ہے ان تمام آیات کی تفسیر جو اب تک میں نے قرآن کے مطالعہ سے سمجھی . حضرت ابراہیم اتنے سمجھدار تھے کہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ الله ایسا حکم ہرگز نہیں دے سکتا جس میں کسی معصوم جان کا قتل کیا جاے . اس لیے انہوں نے اور ان کے فرمابردار بیٹے نے جو بات سمجھی وہ درست تھی
اس کے بعد اب صرف تین آیات اس قصہ کی بچتی ہیں جو میرا نہیں خیال کہ اس کو سمجھنے میں کوئی دشواری ہو .
إِنَّ هَـٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ ﴿١٠٦ ﴾
یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی” (١٠٦ )
اپنے اکلوتے بیٹے کو الله کی نذر کرنا جب کہ بڑھاپے میں ایک وہی سہارا ہو یقیناً ایک بہت بڑی آزمائش تھی جس پر حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے پورے اترے . جس کی تعریف کرتے ہوے الله نے حضرت ابراہیم کے بارے میں یوں فرمایا ہے ، جس کا ذکر ہمیں سوره بقرہ کی آیت ١٢٤ میں ملتا ہے
وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ ﴿١٢٤ ﴾
یاد کرو کہ جب ابراہیمؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزما یا اور وہ اُن سب میں پورا اتر گیا، تو اس نے کہا: "میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں” ابراہیمؑ نے عرض کیا: "اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟” اس نے جواب دیا: "میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے” (١٢٤ )
پھر آگے بڑھتے ہیں .
وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ ﴿١٠٧ ﴾
اور ہم نے اس کو عظیم قربانی کے ساتھ لے لیا .
اس آیت میں کسی جانور کا کہیں ذکر نہیں ہے . حضرت اسماعیل کو تولیت کعبہ کی خدمت عظیم ان کے سپرد کردی گئی . یہ بلا شک ایک عظیم قربانی تھی جس میں ایک بیٹا اپنا آرام آسائش والی زندگی چھوڑ کر الله کے گھر کی خدمات کے لیے پیش ہوتا ہے .
وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ ﴿١٠٨ ﴾
اور ہم نے اس کا ذکر خیر آنے والوں میں چھوڑا۔ (١٠٨ )
یہی الفاظ حضرت نوح کے لیے بھی بیان ہوے ہیں .
سوره الصافات کی آیت ٧٨ میں
وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ ﴿٧٨﴾ سَلَامٌ عَلَىٰ نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ ﴿٧٩ ﴾
اور ہم نے بعد میں آنے والے لوگوں میں ان کا ذکرِ خیر باقی رکھا۔ (٧٨) تمام جہانوں میں نوح(ع) پر سلام ہو۔ (٧٩ )
پھر یہی الفاظ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے لیے بھی ادا ہوے ہیں . اس ہی سوره الصفات کی آیت ١١٩ میں .
وَتَرَكْنَا عَلَيْهِمَا فِي الْآخِرِينَ ﴿١١٩﴾ سَلَامٌ عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ﴿١٢٠ ﴾
اور بعد کی نسلوں میں ان کا ذکر خیر باقی رکھا (119) سلام ہے موسیٰؑ اور ہارونؑ پر (١٢٠ )
سب سے آخر میں ایک بات کرتا جاؤں کہ :
قربانی کے ضمن میں ایک توضیح ہم عموماً سنتے ہیں کہ یہ سنت ابراہیمی ہے ۔ جو لوگ اس خواب کو حقیقی معنوں میں لیتے ہیں ان کے مطابق قرآن کریم نے حضرت ابراہیم علیہ سلام کے خواب کا ذکر کیا ہے ۔ جس سے انہوں نے سمجھا کہ انہیں اپنے بیٹے کے ذبیحہ کا حکم دیا جا رہا ہے ۔ حضرت ابراہیم نے اپنے تیئں اس حکم کی تعمیل کی کوشش کی ۔ لیکن عین چھری چلنے سے پہلے وحی خداوندی کے توسط سے واضح الفاظ میں فرما دیا گیا کہ ابراہیم علیہ سلام نے اپنے خواب سے جو مطلب اخذ کیا تھا ،وہ درست نہ تھا ۔
قرآن کریم کے اس واضح بیان کے بعد ، یہ عمل سنت ابراہیمی کس طرح رہ جاتا ہے ؟؟ وہ عمل جسے خدا نے خود مداخلت کر کے ، روک دیا ، ہم اسے سنت ابراہیمی کہہ کر ، کیا اپنے رب کی واضح حکم عدولی کے مرتکب نہیں ہو رہے ؟؟
مزید اگر یہ سنت ابراہیمی ہوتی ، تو ذرا اس حقیقت پر بھی غور فرمایا جائے ، کہ حضرت ابراہیم علیہ سلام ،ان کے بعد انکے بیٹے نسل در نسل انبیاء کے منصب جلیلہ پر فائز رہے ۔ ساری قوم بنی اسرائیل ، جنہیں ہم یہودی کہتے ہیں ، حضرت ابراہیم علیہ سلام کی امت میں سے ہیں ۔ تو کیا وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ سلام کے حقیقی امتی اپنے نبی کی سنت ادا نہیں کرتے ؟؟
یہ بات اس تصور کے درست ہونے کے لئے کافی ہے کہ عیدالاضحٰی کے موقع پر جانوروں کا ذبیحہ ، سنت ابراہیمی ہرگز نہیں ہے ۔
مکہ مکرمہ کو قرآن کریم نے وادی غیر ذی زراع کہہ کر پکار ا ہے ۔ جہاں کچھ نہیں اگتا تھا ۔اب ایسی صورتحال میں کہ جب وہاں کھانے کے لئے کچھ دستیاب نہ ہو، انسانوں کی خوراک کے مسئلہ کو حل کرنا لازم تھا ، چنانچہ اس کا خوبصورت حل یہ پیش کیا گیا کہ آنے والے اپنے ساتھ جانور جنہیں اللہ نے حلال قرار دیا ہے ، لے کر آئیں ۔
آتے ہوئے ان پر سواری بھی کریں ، پھر ان کی خرید و فروخت بھی کریں ۔ انہیں ذبح کریں ، خود بھی کھائیں ، دوسروں کو بھی کھلائیں ۔
اسلام سے پہلے ، جانوروں کی بلی کی رسم بھی موجودتھی ۔ جہاں دیوی دیوتاؤں کے نام پر جانور اور بعض مقامات پر انسانوں کو ذبح کر دیا جاتا تھا ۔
اس تصور کو رد کرنے کے لئے کہا گیا کہ یہ جانور تمہاری منفعت و ضرورت کے لئے ذبح کئے جا رہے ہیں ، خدا تک نہ تو ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی خون ۔
بلکہ ان جانوروں کا اس مقام پر ذبیحہ ، حج کے موقع پر آئے ہوئے انسانوں کے جم غفیر کے لئے خوراک کا انتظام کرنا ہے ۔
آج جب مکہ مکرمہ میں ضروریات زندگی کی ہر شئے دستیاب ہے ، میں اس موقع پر جانوروں کے لازمی ذبیحہ کو درست نہیں سمجھتا ۔
قرآن کریم کا یہ حکم اس وقت کے مخصوص حالات کے تناظر میں تھا ۔
آج جب وہ حالات نہ رہے ، تو اب وہاں خواہ مخواہ اتنی کثیر تعداد میں جانوروں کے ذبیحہ کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ہاں جس طرح عام دنوں میں گوشت کی دستیابی کے لئے جانور ذبح کئے جاتے ہیں ، اس ہی طرح حج کے موقع پر بھی جانور ذبح کئے جا سکتے ہیں ۔
آج ہر حاجی کے لئے قربانی کے نام پر جانور کے لازمی ذبیحہ کا حکم ساقط ہے ۔
اب اگر مکہ مکرمہ میں ہی ، اس طرح کثیر تعداد میں جانوروں کا لازمی ذبیحہ درست نہیں ، تو پھر ملکوں ملکوں شہروں شہروں ، اس انداز میں بے دریغ جانوروں کا ذبیحہ کس طرح جائز مانا جا سکتا ہے ؟؟
٭٭٭٭٭