حضور ﷺ تایخ ولادت اورتاریخ وفات۔ تحریر: رانا محمد عاشق

حضور ﷺ کے یوم ولادت اور یوم وفات پر تو کسی کا بھی ا ختلاف نہیں ہے اور نہ ہی مہینہ پر کہ کس مہینہ میں آپ ﷺ پیدا ہوئے اور کس مہینہ میں وفات پائی ۔ سب اس بات پر متفق ہیں کہ آپ ﷺ بروز سوموار ماہ ابیع الاول میں اس دنیا میں تشریف لائے اور بروز سوموار ہی اسی ماہ میں آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے ۔ اختلاف ہے تو تاریخ ولادت اور تاریخ وفات پر ہے ۔ کچھ لوگوں نے ان اختلافات کو ختم کرنے کے لئے علم حساب یا علم فلکیات کا سہارا لیا ہے۔ لیکن علم حساب ہو یا علم فلکیات، ان کی اپنی کچھ حدود (limitations) ہیں۔ آج حسابی یا فلکیاتی تخمینوں کے مطابق ایک قمری سال 354.367 دن کا شمار ہوتا ہے اور شمسی سال 365.2425 دن کا ۔ لیکن سدا سے ایسا نہیں تھا۔ سنہ 325 عیسوی میں جیولین نے شمسی جیولین کیلنڈر کا اجرا کیا گیا تھا اور یہی کیلنڈر سنہ 1582 تک بالاتفاق رائج رہا ۔ اس کیلنڈر کے مطابق ایک عام سال 365 دن کا ہوا کرتا تھا اور ہر چوتھا سال 366 دن کا شمار کیا جاتا تھا جسے لیپ کا سال کہا جاتا تھا۔ اس طرح ایک شمسی سال اوسطًا 365.25 دن کا شمار ہوا کرتا تھا۔ لیکن1582 عیسوی میں پوپ گریگوری سیزدہم نے تحقیق کے ذریعے ثابت کیا کہ جیولین کیلنڈر کچھ تھوڑا سا ( یعنی بقدر 11 منٹ اور 14 سیکنڈ) بڑا ہے۔ پس شمسی سال کی لمبائی بجائے 365.25 سال کے 365.2422 مقرر کردی گئی۔ لیکن اس کو پورے پورے دنوں میں تبدیل کرنے کے لئے اب فارمولہ یہ طے پایا کہ ہر عام سال 365 دن کا ہوگا ، جو سال چار پر پورا تقسیم ہوجائے وہ 366 دن کا ہوگا۔ ہر صدی کا آخری سال گو چار پر تقسیم ہوجاتا ہے مگر وہ 365 دن کا ہی ہوگا اور جو صدی چار پر تقسیم ہوگی اس کا سال پھر 366 دن کا شمار کیا جائے گا۔ یعنی 100،200،300،500،600،700 وغیرہ کے سال تو 365 دن کے ہونگے مگر 400،800،1200،1600،2000 وغیرہ کے سال 366 دن کے ہونگے۔ اس اضافے سے ایک شمسی سال 365.2425 دن کا بنتا ہے جو 365.2422 کے قریب ترین پہنچ جاتا ہے۔ اس تھوڑے سے فرق کو اس لئے برداشت کرلیا گیا کہ یہ فرق کوئی 3333 سال میں جاکر یعنی سنہ 5000 عیسوی میں کہیں ایک دن کا فرق ڈالے گا ۔

یہ کہانی تو شمسی کیلنڈر کی ہے گو پیچیدہ ہے مگر اس کا پورا ریکارڈ اور دستاویزات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ ایک حساب دان کے لئے حساب لگانے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی۔ تاہم قمری مہینوں کی داستان اس سے بہت زیادہ پیچیدہ ہے ۔ جب حضور ﷺ پیدا ہوئے اس وقت مکہ میں قمری کیلنڈر رائج تھا لیکن تقریبًا ہر تین سال بعد کفار مکہ ایک سال کبیسہ کا شمار کرتے تھے۔ اس سال میں بجائے 12 مہینوں کے 13 مہینے شمار ہوتے تھے 12 مہینوں کے نام تو (آج والے ہی ) تھے لیکن تیرھویں مہینہ کو وہ ماہ کبیسہ کہتے تھے۔ اس کی غرض و غایت تو یہ ہوتی تھی کہ قمری مہینے ہمیشہ سال کے موسموں (فصلوں کے پکنے ) کے حساب سے آتے رہیں تاکہ ان کو حج کے موقعہ پر نذرانوں اورفصلانوں کی وصولی میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔ لیکن ماہ کبیسہ کا کوئی اصول نہیں تھا کہ تیسرے سال کے بعد کونسا مہینہ ماہ کبیسہ ہوگا۔ اس کا تعین وہ اپنی مرضی سے کرتے تھے ۔ ان کبیسہ مہینوں کا ریکارڈ کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ اس رسم بد کو حضور ﷺ نے فتح مکہ کے بعد ختم کیا تھا جب ان کو کعبہ کے معاملات پر پورا کنٹرول حاصل ہوگیا تھا۔ پس حضورﷺ کی پیدائش سے لے کے فتح مکہ تک کوئی حساب کتاب کام کر ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کے لئے مطلوبہ ریکارڈ اور دستاویزات موجود ہی نہیں ہیں۔ ہمارے لئے سوائے روایات پر انحصار کرنے کے کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ کچھ روائیتوں میں آپ کا یوم ولادت 8 ربیع الاول بتایا گیا ہے اور کچھ میں 9 اور اکثر میں 12 ربیع الاول لکھا ہے ۔ امت کی اکثریت 12 ربیع الاول پر ہی متفق ہے ۔ اس لئے یوم ولادت 12 ربیع الاول لینے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیئے۔ لیکن جس طریقے سے ہم اکثر اس کو مناتے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہے۔

فتح مکہ کے بعد اسلامی دنیا میں کبیسہ کا خاتمہ کردیا گیا اور ہر قمری سال 12 مہینوں کا شمار کیا جانے لگا۔ لیکن سن ہجری کا بطور کیلنڈر اجرا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کے زمانہ میں 17 ہجری میں کیا گیا۔ اب آئیں حضور ﷺ کے یوم وفات کی طرف۔ آپ کی وفات کے وقت کبیسہ وغیرہ کا تو کوئی چکر ہی نہیں رہا تھا۔ اس لئے قمری مہینوں کے ذریعے حساب کتا ب لگانا ممکن ہوگیا۔ اب قمری مہینوں کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ کوئی مہینہ بھی 31 دن کا نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی مہینہ 28 دن کا ہوتا ہے۔ چونکہ قمری سال کی اوسط لمبائی 354.367 دن اور قمری مہینہ کی اوسط مدت 29.53 دن ہوتی ہے ۔ پس کوئی مہینہ 30 دن کا بھی ہوسکتا ہے اور کوئی مہینہ 29 دن کا۔ ہاں ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ چاند کی آسمان میں پوزیشن کے اعتبار سے کبھی کبھی لگاتار دو یا تین مہینے 30،30 یا 29،29 دن کے بھی ہوسکتے ہیں۔

صحیح روایات میں آیا ہے کہ حجتہ الوداع کے موقع پر عرفہ کا دن جمعہ کا دن تھا۔ یہ اسلامی تاریخ کا بہت ہی اہم واقعہ ہے اور اسی پر سب کا اتفاق بھی ہے اس لئے اس کی صداقت کے امکانات سب سے زیادہ ہیں ۔ یعنی 9 ذوالحجہ 10 ہجری کو جمعہ تھا۔ آپ کی وفات 12 ربیع الاول کو بتائی جاتی ہے۔ آپ اسے شماریات کی اصطلاح میں فی الحا ل ایک مفروضہ (hypothesis) سمجھ لیں جس کو ہم نے ٹیسٹ کرنا ہے۔ اب 9 ذوالحجہ اور 12 ربیع الاول کے درمیان تین مہینے ختم ہوتے ہیں ، یعنی ذوالحجہ، محرم اور صفر۔ اگر تینوں مہینے 30 ، 30 دن کے مان لئے جائیں تو 12 ربیع الاول کو اتوار پڑتا ہے۔ اگر دو مہینے 30،30 دن کے اور ایک مہینہ 29 دن کا مانا جائے تو 12 ربیع الاول ہفتہ کے دن آتا ہے۔ اگر دو مہینے 29،29 دن کے مانے جائیں اور ایک مہینہ 30 دن کا مانا جائے تو 12 ربیع الاول جمعہ کو آتا ہے اور اگر تینوں مہینے 29،29 دن کے مانے جائیں تو 12 ربیع الاول جمعرات کو آتا ہے۔ چونکہ تینوں مہینے لگا تار 30،30 یا 29،29 دن کے ہونا تو شاذ ہے اس لئے غالبًا امکان یہ ہے کہ ان تین مہینوں میں سے یا تو دو 30،30 دن کے ہونگے اور تیسرا 29 دن کا یا پھر دو 29،29 دن کے ہونگے اور تیسرا 30 دن کا ۔ پس اس حساب سے 12 ربیع الاول کو یا تو جمعہ کا دن تھا یا ہفتے کا۔ حساب کو مزید آگے بڑھایئے۔ سوموار کا دن 7، 14، 21، یا 28 ربیع الاول کو پڑے گا اگر 2 مہینے 30،30 دن کے مانے جائیں اور ایک مہینہ 29 دن کا۔ بصورت دیگر اگر دو مہینے 29،29 دن کے مانے جائیں اور ایک مہینہ 30 دن کا تو سوموار کا دن 1، 8، 15، 22 یا 29 ربیع الاول کو آئے گا۔ پس ہمارا مفروضہ غلط ہے ۔حضو ر کا یوم وفات کسی صورت بھی 12 ربیع الاول کو نہیں آتا۔ یہ کہنا غلط ثابت ہوگیا کہ آپ نے 12 ربیع الاول کو وفات پائی۔ اور اگر اسے صحیح مانا جائے تو ہمارا پہلا مفروضہ غلط ہوجائے گا جس میں 9 زوالحجہ کو جمعہ مانا گیا ہے۔

Best Regards

RANA MUHAMMAD ASHIQ

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.