عہد الست تحریر: زاہد حسین

آیت الست کے متعلق یہ بتایا جاتا ہے کہ دنیا میں آنے سے پہلے انسان کی روح سے عہد لیا گیا تھا لیکن یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ ایسا عہد آج کسی کو یاد نہیں تو پھر خود ہی سوچیے کہ ایسے عہد کا کیا فائدہ جو یاد ہی نہ ہو جب کہ اگلی آیت میں اللہ فرماتا ہے ’’کل کو تم یہ نہ کہو کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی‘‘۔یعنی اللہ نے تو وہ عہد لیا ہی اس لئے تھا کہ انسان کو یاد رہے کہ اس کا حقیقی رب صرف اللہ ہے ۔بعض نے یہ لکھا ہے کہ معاملہ چونکہ اللہ پر بن دیکھے ایمان لانے کا بھی ہے لہذہ اللہ نے یہ عہد لوگوں کو بعد میں بھلوادیا ۔ یہ بھی عجیب منطق ہے کہ پہلے عہد لیا تاکہ اسے یاد رہے پھر زندگی میں جب وہ زمانہ آیا کہ وہ عہد کو یاد کرتے ہوئے اللہ ہی کو اپنا رب سمجھے تو اُسی دور میں وہ عہد بھلوادیا گیا ایسی منطق کوئ احمق ہی لگا سکتا ہے اہل علم سے ایسی امید نہیں کیا جاسکتی ۔ یہ عہد کس طرح کیا گیا تھا تفصیل سے پہلے زرہ آیت کی عربی اور اس کا ترجمہ ملاحضہ کیجیے ۔
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِن بَنِیْ آدَمَ مِن ظُہُورِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَأَشْہَدَہُمْ عَلَی أَنفُسِہِمْ أَلَسْتَ بِرَبِّکُمْ قَالُواْ بَلَی شَہِدْنَا أَن تَقُولُواْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِیْنO أَوْ تَقُولُواْ إِنَّمَا أَشْرَکَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِّن بَعْدِہِمْ أَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونO
ترجمہ: اور جب تمہارے رب نے بنی آدم سے کی پیٹھوں سے اُن کی اولاد نکالی تو اُن سے خود اُن کے مقابلے میں اقرار لیا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ کہنے لگے کہ کیوں نہیں ہم گواہ ہیں (کہ تو ہمارا رب ہے یہ اقرار اس لئے کروایا) کہ قیامت کے دن (کہیں یوں نہ) کہو کہ ہمیں تو اس کی خبر ہی نہ تھی ۔ یا یہ (نہ) کہو کہ شرک تو پہلے ہمارے بڑوں نے کیا تھا اور ہم تو اُن کی اولاد تھے (جو) اُن کے بعد (پیدا ہوئے) تو کیا جو کام اہلِ باطل کرتے رہے اُس کے بدلے تو ہمیں ہلاک کرے گا۔ سورۃالاعراف آیت 172-173
1) پہلی بات تو یہ دیکھیے کہ عربی متن میں نہ تو لفظ روح موجود ہے اور نہ نفس اور زیادہ تر علماء نے بھی ترجمے میں لفظ روح استعمال نہیں کیاانہوں نے زریت کا معنی اولاد اورنسل ہی لکھا ہے لیکن تفسیر کرتے ہوئے اس سے مرادانسانی رو ح کولے لیا یعنی ترجمہ اولاد اور مفہوم روح 😀۔ لفظ زریت کا مفہوم ۔سورہ البقرہ آیت 124 میں دیکھتے ہیں۔
ترجمہ:” اور جب اللہ نے چند باتوں میں ابراہیم کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے تو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام بناؤں گا۔ (ابراہیم) نے کہا کہ (اے اللہ) میری اولاد میں سے بھی ،(اللہ نے )فرمایا کہ ہمارا وعدہ ظالموں کے لئے نہیں ہوا کرتا”
اس آیت کی عربی میں بھی لفظ زریت آیا ہے اور یہاں بھی آنے والی نسل سے مراد گوشت پوست کے زندہ انسان ہیں نہ کہ روحیں خلاصہ یہ ہے کہ یہ آیت الست کسی روح کے متعلق ہرگز نہیں ہے۔
2) اس آیت کو ایک گزرے واقعے کےطور پر پیش کیا جاتا ہے جبکہ یہ آیت اللہ کی ایک ایسی سنت کو پیش کرتی ہے جوماضی ، حال اور مستقبل تینوں زمانوں سے متعلق ہے۔ اس طرح کی اور آیات بھی قرآن مجید میں موجود ہیں جیسا کہ سورہ العمران آیت 187 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاترجمہ: ’’اور جب اللہ نے عہد لیا ان سے جنہیں کتاب دی گئی تھی کہ اسے لوگوں کو کھول کھول کر بیان کروگے اور اس (کی باتوں) کو چھپائو گے نہیں پس انہوں نے اس (عہد) کو پس پشت ڈال دیا اور اس کے بدلے قلیل مفاد سمیٹ لیا پس کیا ہی بری کمائی ہے جو یہ کرتے ہیں ‘‘
غور کیجیے کہ یہ آیت ماضی کا کوئی واقعہ نہیں بلکہ جب بھی لوگ اللہ کی کتاب کا ایک مناسب علم حاصل کرلیتے ہیں تو ان سے خود بخود یہ عہد ہوجاتا ہے کہ وہ اللہ کی کتاب کی حقیقت کو لوگوں سے چھپائے گا نہیں بلکہ اسے لوگوں کو کھول کر بیان کرے گا یہ عہد ماضی میں بھی ہوا،حال میں بھی ہوتا ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہوتا رہے گا اگر کوئی پھر بھی بضد ہو کہ چونکہ آیت زیر بحث ماضی کے صیغے میں بیان ہوئی ہے تو یہ صرف ماضی کا ہی واقعہ ہے تو ایسا ضروری نہیں کہ ماضی کا صیغہ صرف ماضی کا مفہوم دے۔ایسی اور بھی آیات ہیں جن میں ماضی کے الفاظ استعمال ہوئے اور مفہوم ان کاحال یا مستقبل سے متعلق ہوتا ہے جیسا کہ سورہ العمران آیت 187کو بھی دوبارہ دیکھیں تووہ بھی ماضی کی طرح ہے لیکن قیامت تک کے لئے ہے مندرجہ زیل آیت کو بھی دیکھیے
ترجمہ :وہی ہے جس نے بنادیا تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت اوراس نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس نے اس میں سے پھل اُگائے جو تمہار ا رزق ہیں پس تم اللہ کے شریک نہ بنائوجبکہ تم جانتے ہو۔ البقرۃ آیت 22
یہ آیت بظاہر ماضی کے الفاظ میں ہے لیکن یہاں اللہ کی سنت جو بیان ہوئی ہے وہ تینوں زمانوں سے تعلق رکھتی ہے تو آیت الست بھی اسی طرح ایک مخصوص واقعہ نہیں بلکہ ہر زمانے سے متعلق ہے ۔اب زرہ عہد کو دیکھیے
3) جب بھی فریقین کے درمیان کوئی عہد ہوتا ہے تو ایک اہم تقاضہ یہ ہوتا ہے کہ اس عہد کو یاد رکھا جائے اگرکسی ایک فریق کو یہ قوی خدشہ ہوکہ دوسرا فریق اسے یاد نہیں رکھے گا اور بھلادے گا تو پھر عہد ہی نہیں کیا جاتا ۔اب ہم آپ کو اس عہد کی جو حقیقت بتائیں گے وہ ایسا عہد ہے جو انسان کو ساری زندگی یاد رہتا ہے ۔ آپ آیت میں دیکھیں تو علماء نے وَأَشْہَدَہُمْ عَلَی أَنفُسِہِم ، سے یہ مطلب نکالا کہ انسان اللہ کے ایک عمل پر گواہ بن رہا ہے جبکہ اللہ فرماتا ہے کہ ہم نے ان کو گواہ بنایاانہی کے نفسوں پر یعنی وہ وہ ماضی میں کسی ایسے واقعے کے گواہ نہیں بلکہ وہ اپنے ہی کسی زاتی عمل کے گواہ بن رہے ہیں ۔یہاں اس بات کو سمجھنے کے لئے دیکھیے یہ آیت۔۔۔۔
’’ وہی تو ہے جو تمہیں خشکی اور پانی میں چلنے پھرنے اور سیر کرنے کی توفیق دیتا ہے یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں (سوار) ہوتے ہو اور کشتیاں پاکیزہ ہوا (کے نرم نرم جھونکوں) سے سواروں کو لے کر چلنے لگتی ہیں اور وہ اُن سے خوش ہوتے ہیں تو ناگہاں زناٹے کی ہوا چل پڑتی ہے اور لہریں ہر طرف سے اُن پر (جوش مارتی ہوئی) آنے لگتی ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ (اب تو) لہروں میں گھر گئے تو اُس وقت دین کو خالص کرتے ہوئے اُس سے دعا مانگنے لگتے ہیں کہ (اے اللہ) اگر تو ہمیں اس سے نجات بخشے تو ہم (تیرے) بہت ہی شکر گزار ہوں‘‘۔سورہ یونس10 آیت 22
اللہ نے یہ ایک مثال بیان کردی کہ جب بھی انسان پرکوئ بہت مشکل وقت آتا ہے تو اس وقت اسے صرف ایک ہی رب نظر ارہا ہوتا ہے اور وہ ہے اللہ، وہ دل ہی دل میں اس سے دعائیں بھی مانگنے لگ جاتا ہے ۔ یہ ایک ایسا عمل ہے کہ بعد میں وہ جب بھی وہ شرک کرنے لگے گا تواسے یاد آجائے گا اس نے اپنی کسی مصیبت میں خالص اپنے رب کو ہی پکارا تھا ۔ اگر اس کے بعد بھی وہ شرک کرتا ہے تو اس کا زمہ دار وہ
خود ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے باپ دادا چونکہ مشرک تھے اور میں ان کی پرورش کی وجہ سے مشرک بن گیا۔ جو مذہب اسے باپ دادا سے ملا تھا اللہ نے اسے ایسے حالات پیدا کرکے اس طرح منقطع کردیا تھا کہ وہ اپنے باپ دادا کے دین پر قائم نہ رہااوراس نے بغیر شرک کے خالص اللہ کواپنا رب مانتے ہوئےپکارا۔
ہر انسان جو اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے جب شعور کو پہنچتا ہے تو اللہ اُسے ایسے مراحل سے ضرور گزارتے ہیں کہ اسے معلوم ہوجائے کہ حقیقی معنوں میں میرا ایک ہی رب ہے ۔یہی عہد الست ُہے جسے انسان فراموش کردے تو ایک الگ بات ہے لیکن بھول نہیں سکتا اور چونکہ یہ معاملہ براہ راست اللہ سے گفتگو کا نہیں ہے لہٰذہ بن دیکھے اللہ پر ایمان بھی قائم رہتا ہے ۔ہم اس آیت کا یہ مفہوم بیان کرنے والے پہلے شخص نہیں ۔ علامہ زاہد محمود قاسمی (دیوبند) نے اپنی کتاب روح کیا ہے میں اسلاف کے اقوال سے ثابت کیا ہے کہ آیت زیر بحث کوئی مخصوص واقعہ نہیں ہے جیسا کہ وہ علامہ ابن الانباری کا ایک قول نقل کرتے ہیں’’ آیت کا معنی یہ ہے کہ تمام انسان اپنی ترتیب و جودی کے مطابق پیدا ہونگے تو ان سے عہد لیا جائے گا کہ اور ان کے نفس اس بات کی گواہی دیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کا خالق و رب ہے‘‘ (روح کیا ہے صفحہ 92)علامہ جرجانی نے اس آیت کو مستقبل سے منسلک کیا ہے اور کہا ہے کہ لوگوں کی تخلیق کے بعد ہی اللہ یہ عمل کرتا ہے(روح کیا ہے صفحہ 93)
علامہ زاہد محمود قاسمی صفحہ 94 پرفرماتے ہیں ــ’’ یعنی ہر انسان جب عاقل و بالغ ہوتا ہے نفع نقصان ، جزا سزا اور وعدوعید کو سمجھنے لگتا ہے اور اس کی عقل و فہم اللہ تعالیٰ کی خالقیت و قدرت پر اس کی راہنمائی کرتی ہیں تو یہی گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے عہد لینا ہے ــ‘‘پھر مزید فرماتے ہیں کہ علامہ ابن جوزی ، علامہ واحدی اور ماوردی نے بھی آیت کا یہ مفہوم لیا ہے ۔ ہم نے جو اوپر کتاب اللہ کے متعلق عہد کا زکر کیا تو وہ بھی غور کیجیے کہ وہ عہد بھی آمنے سامنے بٹھا کر نہیں کیا جاتا بلکہ جب انسان اللہ کی کتاب کو پڑھتا ہے تو اس پر خود بخود عہد قائم ہوجاتا ہے اسی طرح جب ایک ادمی نے اپنی مشکل میں سب کو چھوڑ کر صرف اللہ کو پکار لیا تو اس نے یہ تسلیم کرلیا کہ اللہ ہی اس کا رب ہے لہذہ وہ عہد بھی اسی طرح زریت ادم سے ہوتا بھی رہا ہے اور ہوتا بھی رہے گا۔

سورس

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.