حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا گہوارے میں کلام کرنا تحریر: محمد نعیم خان
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا گہوارے میں کلام کرنا
تحریر:
محمد نعیم خان
ہمارے ہاں ایک خیال یہ بھی ہے کہ حضرت عیسیٰ نے اپنی ماں کی پاک دامنی ثابت کرنے کے لیے پیدائش کے دوسرے دن ہی جب بی بی مریم حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے بعد واپس اپنی قوم میں آتی ہیں اور یہود علماء کے پوچھنے پر کہ یہ صریح گناہ کا ارتکاب کیوں کیا ، حضرت مریم چھوٹے سے بچے کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور پھر وہ کلام کر کے بی بی مریم کی بے گناہی ثابت کرتے ہیں .
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ جس کو قرآن بیان کر دے اوراس کی آیات اس بات کی گواہی دیں تو چاہے یہ ہمارے مشاہدے اور سمجھ سے بالا تر ہو اس کو ماننے اور قبول کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ یہ ہمارا ایمان ہے کہ اس کتاب میں بیان ہونے والی ایک ایک بات درست ہے اور یہ الله کا کلام ہے . لیکن اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کا ثبوت ہمیں اس ہی قرآن سے ملے .
اس تمام قصے سے تو تمام لوگ واقف ہی ہیں اس لیے اس کو دوبارہ دہرانے کی ضرورت نہیں . جو دو آیات جن سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے گہوارے میں کلام کیا وہ سوره آل عمران کی آیت 46 اور سوره مریم کی آیت 29 ہے . دونوں آیات پر غور کرتے ہیں اور ان آیات کو قرآن کی رو سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں .
پہلی آیت ہے …
وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ ﴿46 ﴾
لوگوں سے گہوارے میں بھی کلام کرے گا اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی، اور وہ ایک مرد صالح ہوگا(46)”
اس آیت میں تین باتوں کا ذکر ہے گہوارے میں کلام ، ادھیڑ عمر میں کلام اور الصالحین میں سے ہونا . ان تینوں باتوں کا ایک دوسرے سے ربط ہے . اگر اس آیت کا مطلب گہوارے میں کلام کرنا معجزہ تھا تو کیا ادھیڑ عمر میں کلام بھی معجزے کے زمرے میں آے گا ؟.کیا الصالحین میں سے ہونا بھی الله کا معجزہ ہے ؟. جتنے بھی الصالحین پہلے کے دور میں گزرے یا آگے قیامت تک گزریں گے کیا وہ سب الله کا معجزہ ہونگے ؟
مفسرین کو اس آیت کی تفسیر میں یہ مشکل پیش آئی کہ گہوارے میں کلام کو تو الله کا معجزہ قرار دے دیا لیکن پھر باقی دو باتوں کا کیا کریں . اس کے لیے ادھیڑ عمر میں کلام کو حضرت عیسیٰ کے نزول ثانی سے منسوب کردیا اور کہا کہ ادھیڑ عمر میں کلام سے مراد جب وہ دوبارہ اس دنیا میں آئینگے تو پھر سے لوگوں سے کلام کریں گے لیکن حضرت عیسیٰ کا نزول ثانی از روے قران ثابت نہیں بلکے قرآن کی آیات اس کے خلاف کلام کرتی ہیں . اس وقت یہ میرا موضوع نہیں ہے ورنہ اپنے دلائل پیش کرتا .اس لیے ادھیڑ عمر میں کلام کوئی معجزہ نہیں بلکے ایک عام سی بات ہے . جس کا بتانے کا مقصد کسی معجزے کا بیان نہیں بلکے بچے کے متعلق مستقبل کی پیشن گوئی تھی. جس طرح ادھیڑ عمر میں کلام اور الصالحین ہونا معجزہ نہیں اس ہی طرح گہوارے میں کلام بھی معجزے کے زمرے میں نہیں اتا ان تینوں باتوں کا کیا مطلب ہے اور ان میں کیا ربط ہے اس کا ذکر در ذیل میں ہے :
پہلا یہ کہ پیدا ہونے والا بچہ تندرست ہوگا ، اس میں کوئی نقص نہیں ہوگا اور گہوارے میں کلام کرے گا . عام طور پر بچے دو سال کی عمر تک گہوارے میں ہی کلام کرتے ہیں کیوں کہ پیدا ہوتے ہی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ بچہ آگے چل کر باتیں بھی کرے گا یا نہیں . یہ بتانے کا مقصد یہ بتانا تھا کہ اس بچے میں کوئی خرابی نہیں ہوگی عام بچوں کی طرح ہی ہوگا ، جس عمر میں عام بچے باتیں کرتے ہیں اس ہی طرح باتیں کرے گا . کوئی انہونا بچہ نہیں ہوگا
دوسرا یہی نہیں بلکے وہ آگے چل کر لمبی عمر بھی پائے گا . اس ہی لیے ادھیڑ عمر میں کلام کا ذکر کیا پھر آخر میں الصالحین کا لفظ لا کر آیت میں پیش کیے جانے والے الفاظ الْمَهْدِ اور كَهْلًا دونوں کی تفسیر کر دی اور یہ بتا دیا کہ ایک تندرست بچہ ہوگا اور بڑے ہو کر ایک مرد صالح بنے گا .
قرآن میں لفظ صَالِحًا صحیح و سالم بچے کے لیے بھی آیا ہے . ملاحظہ ہو سوره الاعراف کی آیت 190. الله کا ارشاد ہے .
فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا ۚ فَتَعَالَى اللَّـهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿190﴾
مگر جب اللہ نے ان کو ایک صحیح و سالم بچہ دے دیا تو وہ اس کی اِس بخشش و عنایت میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھیرانے لگے اللہ بہت بلند و برتر ہے ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (190 )
یہ بات یاد رکھئے کہ سوره ال عمران کی آیت 46 میں لفظ الْمَهْدِ کے ساتھ لفظ كَهْلًا بھی آیا ہے . جس نے اس تفسیر کو قبول کرنے سے روک دیا ہے جو عام طور پر احباب بیان کرتے ہیں الله نے خود لفظ كَهْلًا لا کر ذہن اس طرف موڑ دیا ہے جس کی تشریح میں نے اوپر بیان کی ہے .
اس کے علاوہ اگر اس آیت سے ایک آیت پہلے کو دیکھیں تو وہاں فرشتہ حضرت مریم کو حضرت عیسیٰ کی پیدائش کی خوشخبری عطا کرتا ہے . اب کیوں کہ حضرت مریم کنواری تھیں اس لیے اس خوشخبری کے ساتھ ہی یہ بتا دیا کہ دنیا اور آخرت میں وجیہ (معزز ) ہوگا . کیوں کہ کسی غیر شادی شدہ لڑکی کے ہاں اولاد کی پیدائش معاشرے میں عزت کا مقام نہیں رکھتی اس لیے اس خدشے کو پہلے سے ہی ختم کیا . ساتھ میں یہ بھی بیان کردیا کہ اس کو الله کا قرب حاصل ہوگا . یعنی روحانیت کے کمال کو حاصل کرے گا . یہ وہ باتیں ہیں جن کی خبر سے والدین کو خوشی اور ان کے دل کو تسکین ملتی ہے . یہی وہ باتیں ہیں جو ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا ذریعہ بنتی ہیں . یہاں بچے کی روحانیت کی کمال کی خبر دینے کے بعد پھر اگلی آیت میں اس کی جسمانی اعتبار سے تندرستی کی خبر دی گئی ہے . جس کو اوپر بیان کیا گیا ہے .
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون سی ایسی باتیں ہیں جن کا ذکر خاص طور پر حضرت مریم سے ایک فرشتے نے کیا . کیا یہ کوئی ایسی باتیں ہیں جن کا جاننا اتنا ضروری تھا ؟.
بلکل ضروری تھا کیوں کہ بچے کی پیدائش ایک عام طریقہ سے ہٹ کر ہو رہی تھی جو یقیناً الله ہی کے قائم کردہ کسی اندازوں اور پیمانوں کے حساب سے تھی لیکن اس زمانے میں بچے کی پیدائش کے صرف دو ہی طریقے تھے کہ یا تو اس کی شادی ہوئی ہو یا پھر کسی بدکاری کا نتیجہ ہو . اس لیے حضرت مریم کے ذہن میں اس بچے سے متعلق خیالات کا آنا ایک فطری امر تھا . کیوں کہ الله تمام علم کا جاننے والا ہے اس لیے انسان کی فطرت کو جانتے ہوے فرشتے کے توسط سے پہلے سے ہی ان خدشات کا ازالہ کیا جو حضرت مریم کے ذہن میں پیدا ہو سکتے تھے کہ نہ جانے پیدا ہونے والا بچہ کیسا ہو ، اس میں کوئی جسمانی نقص ہو یا وہ دوسرے بچوں سے مختلف ہو ، پھر ایسے بچوں کو معاشرہ قبول نہیں کرتا اور معاشرے میں ایسے بچوں کی بھی عزت نہیں ہوتی ، پھر نہ جانے پیدا ہونے کے بعد وہ اس معاشرے میں زندہ بھی رہ سکے گا ؟، لوگ اس کو بدکار سمجھ کر مار تو نہیں ڈالیں گے ، روحانی اعتبار سے کیسا ہو ، لمبی عمر پائے گا یا نہیں ، وغیرہ وغیرہ
یہاں یہ بات انتہائی غور طلب ہے کہ حضرت مریم کی کفالت اس وقت کے نبی کر رہے تھے جو خود منصب نبوت پر فائز تھے لیکن اس بچے کے پیدا ہونے کی خبر ایک فرشتے نے حضرت مریم کے سامنے خود پیش کی .حضرت زکریا کے توسط سے یہ خبر حضرت مریم تک نہیں پہنچائی گی . حلانکے حضرت مریم نبی نہیں تھیں . یہ خبر ان کے گھر والوں سے بھی راز میں رکھی گئی کیوں کہ حضرت زکریا کی دعا سے ظاہر تھا کہ بنی اسرائیل میں خرابی کتنی حد تک بڑھ گئی تھی کہ حضرت زکریا کو اپنے پورے خاندان اور قوم کے باقی لوگوں میں کوئی ایک بھی ایسا دکھائی نہ دیا جو ان کے بعد اس کام کو آگے بڑھا سکے . اس لیے اگر یہ خبر حضرت زکریا کو بھی معلوم ہوتی یا ان کی گھر والوں کو بھی معلوم ہوتی تو اس بگڑی ہوئی قوم کو کیسے یقین دلاتے ؟.
اس لیے جب حضرت مریم اس ہیکل سے کہیں دور چلی گئی تو سوچنے والی بات ہے کہ کس یہودی یا قوم کے کس شخص کو معلوم تھا کہ ان کے جانے کی وجہ ان کا حاملہ ہونا ہے ؟. بدکاری کا الزام تو اس وقت لگے جب سب جانتے ہوں کہ حضرت مریم حاملہ ہونے کی وجہ سے ہیکل سے گئی ہیں . ان کی ہیکل چھوڑنے کی وجہ ہی اپنے گھر والوں اور اپنی قوم کو اس سے بچانا تھا .
اس لیے ان باتوں کا بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ مفسرین نے پہلے سے ہی ایک مفروضہ اپنے ذہن میں بنا لیا اور پھر قرآن کی آیات سے اس مفروضے کے تحت اس کی تفسیر کرتے رہے . خود سوچیں کہ جب حضرت مریم کسی دور جگہ اپنی قوم سے چلی گیں تو وہاں کون ان کو پہنچانتا تھا کہ یہ حضرت مریم ہیں جو ہیکل میں نذر کی گیں تھیں . وہ خاموشی سے ہیکل سے نکل کر کہیں دور دراز علاقہ میں چلی گیں تاکے حمل ظاہر ہونے سے پہلے ہی اس جگہ کو چھوڑ دیں اور میرے نزدیک یہ بھی وحی الہی ہی کی بدولت یہ فیصلہ انہونے نے کیا . الله ہرگز کسی کو ایسی مشکل میں نہیں ڈال سکتا کہ ایک کنواری کو حاملہ کر کے اس کی مشکلات میں اضافہ کرے کہ اس کی پاک دامنی پر لوگ اعتراض کریں
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جہاں فرشتے کی طرف سے کسی کو بچے کی پیدائش کی بشارت ملی ہو اور اس کو مستقبل کے بارے میں پیشنگوئی نہ کی گئی ہو بلکے اگر اپ قرآن کے دوسرے مقامات کا مطالعہ کریں تو حضرت زکریا کو بھی جب حضرت یحییٰ کی خوشخبری دی گئی تو وہاں بھی پیدا ہونے والے بچہ کے مستقبل کے بارے میں پیشن گوئی کی گئی اور بتایا گیا کہ وہ اللہ کی طرف سے ایک فرمان کی تصدیق کرنے و الا بن کر آئے گا اس میں سرداری و بزرگی کی شان ہوگی کمال درجہ کا ضابط ہوگا نبوت سے سرفراز ہوگا اور صالحین میں شمار کیا جائے گا.
اب کیوں کہ یہاں معملا ایسا نہیں تھا کہ کسی غیر فطری عمل کے ذریعے بچے کی پیدائش ہو رہی ہو اس لیے یہاں ان ہی باتوں کی پیشن گوئی کی گئی جس کی دعا حضرت زکریا نے کی تھی . انبیا کی طلب اولاد کی خواہش اپنے لیے نہیں بلکے دین کے پیغام کو آگے بڑھانے کے لیے ہوتی تھی ، یہ وہ دوسرا موقع ہے قرآن میں جہاں ایک نبی کو اس کی دعا کی قبولیت کے جواب میں ایک بیٹے کی بشارت ملتی ہے اور کیوں کہ حضرت زکریا نے یہ دیکھ کر کہ اب اس قوم میں کوئی ایسا نہیں جو اس دین کو آگے لے کر چل سکے اپنی اولاد کی دعا مانگی جو اس دین کی خدمت اور اس کے پیغام کو پھیلانے کا سبب بنے . جس کی ایک مثال حضرت ابراہیم کی دین کا پیغام آگے بڑھانے کے لیے بڑھاپے میں دعا تھی جس کے جواب میں حضرت اسمعیل کی بشارت ملی اور پھر جب آزمائش میں کامیابی کے بعد حضرت اسحاق کی بشارت ملی تو ساتھ ساتھ پوتے یعنی حضرت یعقوب کی بھی بشارت ملی . یہ وہ پہلا موقع ہے قرآن میں جہاں ایک نبی کو پہلے بیٹے اور پھر پوتے کی خوشخبری سنائی جاتی ہے.
اب اگر دوسری آیت کو لیں جس کو مفسرین حضرت عیسیٰ کے کلام کرنے کو بطور دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں
فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ ۖ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَن كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا ﴿29 ﴾
مریم نے بچے کی طرف اشارہ کر دیا لوگوں نے کہا ” ہم اِس سے کیا بات کریں جو گہوارے میں پڑا ہوا ایک بچہ ہے؟” (29)
یہ دوسری آیت ہے جہاں سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے گہوارے میں کلام کیا لیکن اس آیت کو سمجھنے سے پہلے ان حالات پر غور کریں کہ وہ کیا حالات تھے جن کی وجہ سے بی بی مریم کو ہیکل کو چھوڑنا پڑا ؟. اگر الله نے بچے کی پیدائش کے وقت ہی اس بات کی خوشخبری دے دی تھی کہ وہ گہوارے میں کلام کرے گا اور اپنی ماں کی پاک دامنی کو ثابت کرے گا تو پھر اتنے بڑے معجزے کے ہوتے ہوے بھی بی بی مریم ہیکل چھوڑ گیں ؟. کیا یہ بات اگر وہ اپنی کفالت کرنے والے کو بیان کرتیں تو کیا وہ اس بات کا یقین نہ کرتے ؟. کیا حضرت زکریا جو خود نبوت کے منصب پر فائز تھے جن پر خود فرشتے نازل ہوتے تھے اور انہوں نے خود محراب میں کھڑے ہو کر فرشتوں کی آواز سنی ، جو خود اس بات کا تجربہ رکھتے تھے کیا حضرت مریم کی بات کا یقین نہ کرتے ؟. ایک عام یہودی تو اس بات کو قبول کرنے سے انکار ہی کرتا لیکن جو شخص خود اس کا تجربہ رکھتا ہو کیا اس کو بھی اس بات کو قبول کرنے میں دشواری ہوتی ؟
پھر اگر اس بات کو قبول کر لیا جاے کہ حضرت مریم شرم و حیا کا پیکر تھیں ، وہ ایسی بات اپنے باپ کے برابر شخص سے کیسے کر سکتی تھیں؟ تو کیا اولاد نذر کرنے کے بعد حضرت مریم کا تعلق اپنی ماں سے کٹ گیا تھا؟ کیا حضرت زکریا کی بیوی اس بات پر یقین نہ کرتیں ؟. بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ میں چھ مہینے کا فرق تھا . اس کا مطلب جب حضرت یحییٰ کی پیدائش ہوئی تو اس وقت حضرت مریم تین مہینے کی حاملہ تھیں . پھر اس بات کا کہیں ذکر موجود نہیں کہ ہیکل سے چلے جانے کے بعد حضرت زکریا نے ان کی کوئی خبر نہ لی؟ ، نہ ہی ان کی تلاش کی کوئی کوشش کی؟. پھر جس وقت کہ ہیکل چھوڑ کر گیں اور کسی دور جگہ چلی گیں تو کس کو معلوم تھا کہ وہ حاملہ تھیں ؟. کون سا یہودی جانتا تھا کہ ہیکل سے چلے جانے کی وجہ ان کا حاملہ پن تھا ؟. پھر جب ان کو معلوم تھا کہ یہ ایک کوئی عام بچہ نہیں بلکے گہوارے میں کلام کرنے والا بچہ ہے جو میری پاک دامنی ثابت کرے گا تو پھر ہیکل سے دور جانے کی کیا وجہ ؟. کیا اتنے بڑے معجزے کے بعد بھی کسی اور گواہی کی ضرورت باقی بچتی ہے ؟.
یہ اور اس جیسے اور بہت سے سوالات اس بات کو قبول کرنے سے انکاری ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے گہوارے میں کلام کیا تھا
اصل میں یہ واقعہ اس دور کا ہے جس دور میں حضرت عیسیٰ کو نبوت ملی اور پھر وہ اپنی ماں کے ساتھ واپس اپنی قوم کی طرف آتے ہیں . یہ بلکل ویسے ہے جیسے اس ہی سوره میں حضرت یحییٰ کی پیدائش کا ذکر کر کے اور پھر حضرت زکریا کو تین دن الله کی تسبیح کا کہہ کر پھر بیچ کا زمانہ چھوڑ دیا گیا اور پھر آگے آیت ہے :
يَا يَحْيَىٰ خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا ﴿12 ﴾
اے یحییٰ (ہماری) کتاب کو زور سے پکڑے رہو۔ اور ہم نے ان کو لڑکپن میں دانائی عطا فرمائی تھی (12 )
اس آیت کی تفسیر میں تمام ہی مفسرین یہ بات بیان کرتے ہیں کہ یہ وہ زمانہ ہے جب حضرت یحییٰ کو نبوت ملتی ہے
امین اصلاحی صاحب اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں
”یہاں غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ اس آیت سے پہلے یہ مضمون محذوف ہے کہ بالآخر اللہ تعالیٰ کی بشارت کے مطابق حضرت یحییٰ ؑ کی ولادت ہوئی، وہ سن رشد کو پہنچے، اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت سے سرفراز فرمایا اور ان کو اپنی کتاب مضبوطی سے پکڑنے کی ہدایت فرمائی۔“
مولانا مودودی صاحب بھی اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں ..
”بیچ میں یہ تفصیل چھوڑ دی گئی ہے کہ فرمان الہی کے مطابق حضرت یحییٰ کی پیدائش ہوئی اور وہ جوانی کی عمر کو پہنچے . اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ جب وہ سن رشد کو پہنچے تو ان سے کیا کام لیا گیا . یہاں صرف ایک فقرے میں اس مشن کو بیان کردیا گیا ہے جو منصب نبوت پر مامور کرتے وقت ان کے سپرد کیا گیا تھا یعنی وہ تورات پر مضبوطی سے قایم ہوں اور بنی اسرائیل کو اس پر قایم کرنے کی کوشش کریں“
دیکھا آپ نے کس طرح ان دونوں مفسرین نے ان آیات کی یہ تفسیر بیان کی ہے کہ نبوت سن رشد کو پہنچ کر عطا کی گئی اور ان کا مشن یہی تھا کہ بنی اسرائیل کو اس پر قائم کریں . اب ایک دودھ پیتا بچہ تو کتاب کو قائم نہیں کر سکتا .
بلکل یہی اسلوب حضرت عیسیٰ کے لیے استعمال کیا ہے . حضرت مریم کو بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری دے کر اور پھر جب بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو بلکل اس ہی طرح ایک دن روزہ رکھ کر الله کی تسبیح کا ذکر کر کے پھر اگلی آیت میں بیچ کا واقعہ چھوڑ دیا اور پھر اس زمانے کی بات کی جب حضرت عیسیٰ سن رشد کو پہنچتے ہیں اور ان کو نبوت ملتی ہے . حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ کے واقعات میں کمال کی مماثلت ہے .
جب حضرت مریم واپس آتی ہیں تو اس کو قرآن یوں بیان کرتا ہے .
فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ ۖ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا ﴿28 ﴾
پھر وہ اس (بچے) کو (گود میں) اٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آگئیں۔ وہ کہنے لگے: اے مریم! یقیناً تو بہت ہی عجیب چیز لائی ہے، (28 )
اب ظاہر ہے کہ ذہن میں یہی ہے کہ بچے کو گود میں اٹھا کر لائی ہیں اور بچے نے کلام کیا ہے اس ہی لیے آیت میں جو الفاظ شامل نہیں ہیں ان کو بریکٹوں میں ڈال کر اس آیت ک تاویل اپنے عقیدے کے لحاظ سے کرنا پڑی .
اس آیت میں لفظ تَحْمِلُهُ سے تمام مفسرین یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت مریم ایک چھوٹے سے بچے کو اٹھا کر لا رہی تھیں لیکن اس لفظ کا مطلب کوئی بار اٹھانا بھی ہے لیکن حَمُولَةً سواری یا بار برداری کے جانور کو بھی کہتے ہیں . اب کیوں کہ ذہن میں پہلے سے یہ بات ہے کہ گود میں اٹھا کر لا رہی تھیں اس لیے یہی اس کی تفسیر کرنا پڑی حلانکے یہ لفظ سوره توبہ میں سواری ہی کے معنوں میں استعمال ہو چکا ہے .
وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ ﴿92 ﴾
اسی طرح اُن لوگوں پر بھی کوئی اعتراض کا موقع نہیں ہے جنہوں نے خود آ کر تم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لیے سواریاں بہم پہنچائی جائیں، اور جب تم نے کہا کہ میں تمہارے لیے سواریوں کا انتظام نہیں کرسکتا تو وہ مجبوراً واپس گئے اور حال یہ تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور انہیں اس بات کا بڑا رنج تھا کہ وہ اپنے خرچ پر شریک جہاد ہونے کی مقدرت نہیں رکھتے (92 )
جب بائبل کا مطالعہ کریں تو وہاں بھی یہ ملتا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ یروشلم میں داخل ہوتے ہیں تو اس وقت ایک گدھے کی پیٹھ پر سوار تھے . اس لیے یہ کہنا کہ حضرت مریم ان کو گود میں اٹھا کر لا رہی تھیں آگے کی آیات سے ثابت نہیں ، جس کی وضاحت آگے چل کر کرونگا ان شاللہ
دوسرا لفظ جو اس آیت میں بیان ہوا ہے وہ فَرِيًّا ہے جس کا مطلب گھڑی ہوئی ، بناوٹی بات ، عظیم اور اہم بات ، نیز حیرت انگیز اور عجیب سی بات کو بھی کہتے ہیں لیکن مفسرین نے اپنے عقیدہ کو ثابت کرنے کے لیے اس کو برا کام ، بڑا پاپ وغیرہ کردیا
اوپر میں بار بار یہ بات دہرا چکا ہوں کہ الزام تو اس وقت لگے جب سب کو پتا ہوتا کہ ہیکل سے جانے کی وجہ ان کا حاملہ ہونا تھا . جب کسی کو معلوم ہی نہیں ہے اور یہ بات صرف الله اور حضرت مریم کے درمیان ہے تو پھر ان کی قوم کو یہ خبر کیسے ہوگی ؟. میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ دور جانے کا مقصد ہی یہی تھا کہ اپنی قوم کو چھوڑ دینا اور ایسی جگہ چلے جانا جہاں ان کو کوئی پہنچانتا نہ ہو . پھر اگر بچہ پیدا ہوتے ہی دوسرے دن واپس آئیں گی تو ظاہر ہے ہر ایک ہی یہی پوچھے گا کہ یہ گناہ کس کا ہے . پھر تو الزام لگنا ٹھیک ہے لیکن جب کافی عرصہ کے بعد جوان بیٹے کے ساتھ واپس آنا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ کوئی بدکاری کی ہوگی پھر یہی ظاہر کرتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس لڑکے کا باپ مر گیا ہو اور حضرت مریم بیوہ ہوں .
اس پر یہ سوال بھی اٹھ سکتا ہے کہ پھر جب بچہ ہاتھ میں اٹھا کر لائیں تو اس وقت یہ سوال کیوں نہیں اٹھا کہ وہ بیوہ ہو گیں ہوں اور بچے کا باپ مر گیا ہو ؟. یہ اس لیے ممکن نہیں کہ جب ہیکل چھوڑ کر گیں تھیں تو اس وقت حاملہ تھیں اور کسی لڑکی کا حاملہ کا پتا چلنے اور اس بات کے کنفرم ہونے میں بھی ایک دو مہینے لگتے ہیں اس لیے اتنے جلدی واپس ایک بچے کے ساتھ آجانا لوگوں کو سوائے اس سوال کے پوچھنے کے اور کوئی بات ذہن میں نہیں آتی اس لیے میرے نزدیک یہ بات درست نہیں اور یہ واقعہ اس ہی زمانے کا ہے جب حضرت عیسیٰ سن رشد کو پہنچے
اب جب وہ واپس آئی ہیں اپنے بیٹے کو لے کر جو کہ نبوت کے منصب پر فائز ہو چکے تھے اور سن رشد کو پہنچ چکے تھے اور جس کی تصدیق خود حضرت یحییٰ ان کے درمیان کر رہے تھے جس کی بشارت خود حضرت زکریا کو ان کی پیدائش کے وقت ان الفاظ میں کی گئی تھی .
فَنَادَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللَّـهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَىٰ مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَ ﴿39 ﴾
جواب میں فرشتوں نے آواز دی، جب کہ وہ محراب میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا، کہ "اللہ تجھے یحییٰؑ کی خوش خبری دیتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ایک فرمان کی تصدیق کرنے و الا بن کر آئے گا اس میں سرداری و بزرگی کی شان ہوگی کمال درجہ کا ضابط ہوگا نبوت سے سرفراز ہوگا اور صالحین میں شمار کیا جائے گا” (39)
وہ کون سا فرمان تھا جس کی تصدیق حضرت یحییٰ کر رہے تھے ؟ مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ کون تھے ؟. سب جانتے ہیں کہ یہ حضرت عیسیٰ کا ذکر ہے .
اب یہاں دو باتیں غور طلب ہیں . ایک یہ کہ وہ قوم میں واپس کیوں آئیں؟ اور دوسرا یہ کہ پھر ان کی قوم نے ان کو شَيْئًا فَرِيًّا کہہ کر کیوں پکارا ؟
پہلی بات تو یہ کہ حضرت عیسیٰ بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجے گے تھے اس لیے ان کی طرف آنا تو ایک فطری عمل تھا کیوں کہ اس ہی قوم کو کتاب پر عمل کروانے الله نے ان کو چنا تھا ، پھر اس ہی قوم میں ان کی تصدیق کرنے والا ایک نبی پہلے سے موجود تھا جو گھر گھر ، گلی گلی اس ہی بات کی منادی کر رہا تھا کہ حضرت عیسیٰ آنے والے ہیں . یروشلم میں اور یہاں آنے سے پہلے ہی وہ تبلیغ شروع کر چکے تھے اور یہود کے علماء کو سخت الفاظوں میں خطاب کر چکے تھے
دوسری بات یہ کہ اوپر لفظ فَرِيًّا کی تفسیر میں یہ بات بیان کر چکا ہوں کہ اس کے معنی گھڑی ہوئی بات یا جھوٹ یا بناوٹی بات بھی ہے . اس لیے جب حضرت مریم اپنے بیٹے کے ساتھ واپس اپنی قوم کی طرف آتی ہیں تو ان کی قوم کے علماء حضرت مریم سے کہتے ہیں کہ یہ کیا جھوٹ گھڑ لائی ہو یا یہ کیا عجیب چیز ہے جو ہم پر اعتراض کرتا ہے اور اتنے سخت الفاظ استعمال کرتا ہے اور افترہ باندھتا ہے .
حضرت عیسیٰ اپنی تبلیغ میں بنی اسرائیل کے علماء پر شدید تنقید اور بہت سخت الفاظ استعمال کر چکے تھے جیسے کہ اگر بائبل کا مطالعہ کریں تو اس میں ہے کہ
- 1. اے سانپ کے بچوں ، تم برے ہو کر کیونکر اچھی باتیں کر سکتے ہو.
متی 12:37
- 2. اے ریا کار فقیہوں اور فرسیوں تم پر افسوس ہے کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کی مانند ہو جو اوپر سے تو خوبصورت دکھائی دیتی ہیں لیکن اندر سے مردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہوئی ہیں اس ہی طرح تم بھی ظاہر میں تو لوگوں کو راست باز دکھائی دیتے ہو لیکن اندر سے ریا کاری اور بدعہدی سے بھرے ہوے ہو
متی 23:27،28
- 3. اے سانپوں ، اے افعی کے بچو
متی 23:33
اس لیے ان بزرگ علماء نے حضرت مریم سے کہا کہ تمہارا باپ تو ایک نیک انسان تھا اور تمھاری ماں بھی حد سے تجاوز کرنے والی نہیں تھی تو پھر یہ کہاں سے پیدا ہوگیا اتنی سی عمر میں ہم پر اعتراض کرنے والا .
اب کیوں کہ پہلے سے ذہنوں میں یہ بات ہے کہ حضرت مریم پر بدکاری کا الزام تھا اس لیے مفسرین اس خود ساختہ عقیدہ کو درست ثابت کرنے کے لیے اب قرآن کے ہر لفظ سے یہی مطلب نکالتے ہیں جیسا کہ سوره مریم کی آیت28 میں لفظ بَغِيًّا کا ترجمہ بدکاری کرتے ہیں یعنی تمہاری ماں تو بدکار نہ تھی پھر تم نے یہ بد کاری کیوں کی ؟.
ہلانکے اس لفظ کے بنیادی معنی حد سے بڑھ جانا ہیں ، جب بہت زیادہ بارش ہو تو اس کو البغی کہتے ہیں ، اس ہی طرح جو جماعت حدود شکنی کرے اور نظام کے خلاف اٹھ کھڑی ہو اس کے لیے بھی یہی لفظ بولا جاتا ہے ، جو عورت اپنی حدود کو پار کرتی ہے اور زنا کی مرتکب ہوتی ہے اس کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے .
اس لیے یہاں ان علماء نے حضرت مریم کی ماں کو بد کار نہیں بلکے کہا کہ تیری ماں حد سے بڑھ جانے والی نہیں تھی. ہمارے خلاف ایسے سخت الفاظ استعمال کرنے والا اور حدود سے تجاوز کرنے والا کہاں سے پیدا ہوگیا
اب ظاہر ہے کہ یہ علماء حضرت عیسیٰ سے سخت نالاں تھے اس لیے اس کی شکایت حضرت مریم سے کر رہے تھے اور بات ساری حضرت عیسیٰ کی تھی . اس لیے حضرت مریم نے بھی اشارہ ان ہی کی طرف کیا کہ اس کا جواب بھی یہی دے گا .
جس پر یہ علماء بولے کہ یہ کل کے بچے سے ہم کیا بات کریں اور ان سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کیا . یہ بات اگلی دو آیات 30 اور 31 میں حضرت عیسیٰ کے پیش کے گے جوابات کے تناظر میں بلکل درست ٹھیرتی ہے کیوں کہ یہ جوابات ایک دودھ پیتے بچے کے نہیں ہو سکتے . جو جواب حضرت عیسیٰ نے دیا وہ یہ تھا .
- 1. میں اللہ کا بندہ ہوں
- 2. اُس نے مجھے کتاب دی
- 3. اور نبی بنایا
- 4. نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا جب تک میں زندہ رہوں
اب احباب خود غور کریں کہ ایک دودھ پیتا بچہ جو خود اپنی ضرورت کے لیے اپنی ماں کی چھاتی سے لگ کر اپنی بھوک مٹاتا ہے اور ہر لمحہ اپنی ضرورت کے لیے اپنی ماں کا محتاج ہے وہ اس کتاب کو بنی اسرائیل میں قایم کر سکتا تھا ؟. کیا نماز اور زکوہ کا حکم دینے والا خود اس حکم سے باہر تھا ؟ یا وہ اس عمر میں نماز اور زکوہ ادا کرتا تھا ؟. کیا یہ وہ عمر ہے جس میں انسان مکلف ہوتا ہے اور نبی بنایا جاتا ہے ؟
دوسری بات یہاں لوگ کہتے ہیں کہ یہ بات مستقبل کی ہے لیکن عربی جاننے والا معمولی سا انسان بھی ان آیات کو پڑھ کر اس کو مستقبل کی آیات نہیں کہ سکتا . یہ تمام صیغے ماضی کے ہیں
بعض لوگ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ نہیں جناب قرآن میں قیامت کے زمرے میں صیغے ماضی کے استعمال ہوے ہیں لیکن یہ بات مستقبل کی ہو رہی ہوتی ہے اس لیے یہاں بھی یہی اصول کار فرما ہے . پھر اس کے حق میں یہ آیت پیش کرتے ہیں .
وَفُتِحَتِ السَّمَاءُ فَكَانَتْ أَبْوَابًا ﴿19﴾ وَسُيِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا ﴿20 ﴾
اور آسمان کھول دیا جائے گا اور وہ دروازے ہی دروازے ہو جائے گا۔ (19) اور پہاڑ چلائے جائیں گے اور وہ بالکل سراب ہو جائیں گے۔ (20)
عربی میں یہ جملے فعل ماضی للمجھول کہلاتے ہیں . اگر ان آیات سے پہلے صور پھونکنے والی آیت پر غور کریں تو وہ آیت مستقبل کی خبر دیتی ہے کیوں کہ جیسے ہی صور پھونکا جاے گا اور اگر فرض کریں کے ایک سیکنڈ پہلے ہی صور پھونکا گیا تو قیامت آچکی ہوگی اس لیے یہ تمام واقعیات ماضی کا حصہ ہونگے اس لیے ان آیات کو الله ماضی کے صیغے میں بیان کرتا ہے . اس لیے یہ استدلال بھی قوی نہیں .
پھر ایک آخری آیت رہ جاتی ہے جو سوره النساء کی آیت 156 ہے جس میں حضرت مریم پر بہتان لگانے کا ذکر ہے آیت کچھ یوں ہے .
وَبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَىٰ مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا ﴿156 ﴾
پھر اپنے کفر میں اتنے بڑھے کہ مریم پر سخت بہتان لگایا (156 )
اب اگر میرے دلائل درست ہیں تو پھر اس آیت کو کہاں فٹ کریں گے . اس آیت سے تو بلکل ہی صاف ظاہر ہے کہ حضرت مریم پے بدکاری کا بہتان لگا تھا
اگر اس آیت کے سیاق و سباق پر غور کریں تو اس سے پچھلی آیات میں یہاں بنی اسرائیل پر فرد جرم آیت کی جا رہی ہے اور مختلف ادوار میں مختلف آباؤ اجداد کے کیے گے جرائم کو بیان کیا جا رہا ہے . جیسے ..
سوره النسا کی آیت 153میں : بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا
سوره النسا کی آیت154 میں : سبت کا قانون نہ توڑو اوراس پر اِن سے پختہ عہد لیا
سوره النساء کی آیت155 میں : اِن کی عہد شکنی کی وجہ سے، اور اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا
اس کے بعد یہ آیت ہے جس میں مریم پر بہتان کا ذکر ہے . یہ اس دور کا جب حضرت عیسیٰ کے بعد عیسائیوں نے غلو میں حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا قرار دیا اور بن باپ کی پیدائش کی وجہ سے الوہیت کا درجہ دے دیا جس کی مخالفت میں یہود اتنا آگے بڑھے کہ مریم پر زنا کا عظیم بہتان لگا بیٹھے . یہ سب بعد کے ادوار کا ذکر ہے .
کمال کی بات یہ ہے کہ اصلاحی ، غامدی اور مودودی صاحب اور دوسرے مفسرین بھی اس بات کے قائل ہیں کہ یہ حضرت عیسیٰ کے دور کا بہتان نہیں بلکے ان کے بعد کے ادوار کا بہتان ہے .
سب سے مزے کی بات یہ کہ مودودی صاحب اس بات پر تو اپنا اعتراض پیش کرتے ہیں کہ جو لوگ یہ بات بیان کرتے ہیں کہ علماء نے جواب دیا کہ اس کل کے بچے سے کیا بات کریں ، وہیں پر مودودی صاحب اور بشمول اصلاحی اور غامدی صاحب ان آیات کو بلکل ہی صرف نظر کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں جہاں حضرت عیسیٰ کے جوابات ماضی کے صیغے میں بیان ہوے ہیں اور اس بات پر بلکل اپنی خاموشی کا اظہار کرتے ہیں جہاں اتنے سے بچے کو کتاب ، نماز ، زکوہ وغیرہ کا حکم ملتا ہے . اس پر یہ مفسرین کوئی کلام نہیں کرتے کہ اتنے سے بچے کو کیسے ان تمام چیزوں کا مکلف ٹھیرایا جاتا ہے کیسے اتنے سے بچے پر کتاب نازل ہوتی ہے اور شریعت دی جاتی ہے
ایک وضاحت رہ گئی جس کو بیان کرنا ضروری ہے . کچھ احباب یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ سوره مریم کی آیت 21 سے آیت 27 تک کے واقعات پر نظر ڈالی جاے تو بظاھر ایسا لگتا ہے کہ یہ تمام واقعات ترتیب وار ہو رہے ہیں اور حضرت مریم بچے کے پیدائش کے کچھ دنوں بعد ہی واپس آگیں .
عربی زبان میں حرف "ف ” متعدد معنوں میں استعمال ہوتا ہے .
مثال کے طور پر ایک واقعہ ہونے کے دوسرے لمحے جب دوسرا واقعہ ہو تو اس کو بھی حرف "ف ” سے بیان کیا جاتا ہے . جیسے …
فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ…
تو موسیٰ نے اسے ایک مکا مارا۔ بس اس کا کام تمام کر دیا
یہاں گھونسا مارتے ہی دوسرے لمحے اس کی موت ہوگی . اس لیے ایسے جملوں میں بھی حرف "ف ” کا استعمال ہوتا ہے .
پھر ایک واقعہ کے بعد جتنی مدت میں دوسرا واقعہ ہونا ہو وہ اس مدت میں ہو جاے تو اس کا اظہار بھی حرف "ف” سے کرتے ہیں جیسے …
تزوج فلاں فولد له
اس نے شادی کی اور پھر ایک مدت صحیح کے بعد اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا .
پھر ایسے واقعہ کو بھی بیان کرنے کے لیے بولا جاتا ہے جس میں تاخیر ہو جیسے .
یسلمہ فہو ید خل الجنه
اگر وہ مسلمان ہوگیا تو پھر یقیناً جنت میں جائے گا .
اب ظاہر ہے بچہ پیدا ہونے میں بھی وقت لگتا ہے نو مہینے تو کم از کم لگتے ہیں . بلکل اس ہی طرح جب ایک مسلمان ہوگا ، پھر اپنی زندگی گزارے گا پھر قیامت آئے گی پھر حساب کتاب ہوگا پھر جنت میں جاے گا . اس تاخیر کو جو ان دو واقعات کے درمیان بیان کیا جاتا ہے اس کو بھی حرف "ف” سے اظہار کرتے ہیں .
بلکل اس ہی طرح جیسے سوره الصفات میں آیت 100 میں حضرت ابراہیم بیٹے کی دعا کرتے ہیں ، آیت 101 میں پھر ان کو بیٹے کی بشارت ملتی ہے پھر اگلی ہی آیت 102 میں پھر بات اس دور کی شروع ہو جاتی ہے جب بچہ پیدا بھی ہوگیا اور پھر دوڑ دھوپ کے قابل بھی ہوگیا .
ان تین آیات میں دعا سے لے کر بچے کے بڑے ہونے تک کے واقعات کو حرف "ف” سے اظہار کیا گیا ہے.
اب سوره مریم کی آیت21 میں فرشتہ بچے کی بشارت دے رہا ہے اور بیان کر رہا ہے کہ الله کے لیے یہ کام مشکل نہیں پھر دوسری آیت 22 میں ذکر ہے کہ حضرت مریم حاملہ ہو جاتی ہیں .
اب اگر ان دونوں آیات پر غور کریں تو لازمی نہیں ہے کہ دوسرے لمحے ہی حاملہ ہو گیں لیکن اگر کوئی اصرار کرے کہ نہیں دوسرے لمحے ہی حاملہ ہو گیں تو پھر بھی اس میں کوئی مشکل نہیں کیوں کے اس سے اگلی آیت جو کے آیت 23 ہے اس میں ان کی زچگی کا ذکر ہے اب ظاہر ہے کہ زچگی کا دور دوسرے لمحے یا کچھ دنوں کا تو دور نہیں ہے بلکے اس میں نو مہینے تو لگتے ہی ہیں لیکن اس کو دوسری آیت میں حرف "ف” کے بعد جوڑ دیا ہے پھر آیات 24 ،25 اور 26 میں ذکر ہے بچے کی پیدائش کے بعد کا کہ چشمے کا پانی پینے ، کھجور کھانے اور الله کی تسبیح کا ذکر ہے . پھر اس کے بعد بیچ کے واقعات چھوڑ کر پھر سے آیت حرف "ف” سے شروع کی . آیت کا سیاق و سباق ہی اس کو بیان کرتا ہے کہ یہ واقعہ کس زمانے کا ہے .
خود قرآن میں ایسی آیات ہیں جہاں ایک ہی آیت میں زمانہ تبدیل ہو جاتا ہے . بات ایک ترتیب سے چل رہی ہوتی ہے اور پھر زمانہ تبدیل ہو جاتا ہے . جیسے .
سوره ال عمران میں آیت 45 سے جب آیت 49 تک کا مطالعہ کریں تو بات ایک ترتیب میں چل رہی ہے . آیت 46 میں فرشتہ بچے کی بشارت دے رہا ہے پھر آیت 46 میں اس کے مستقبل کے بارے میں بیان کر رہا ہے پھر آیت 47 میں فرشتہ اس خدشے کو دور کر رہا ہے جو حضرت مریم نے اٹھایا تھا پھر آیت 48 میں فرشتہ پھر مستقبل کی پیشنگوئی کر رہا ہے پھر آیت 49 میں فرشتہ سلسلہ کلام جاری رکھے ہوے ہے کہ ایک دم بیچ میں سلسلہ کلام اس دور کا آ جاتا ہے جب حضرت عیسیٰ اپنی قوم کی طرف رسول بن کر آتے ہیں .
اس لیے یہ لازمی نہیں کہ قرآن میں بات ایک ہی دور کی چل رہی ہو . آیت کا سیاق و سباق یہ بتاتا ہے کہ یہ بات کس دور کی ہے . بلکل اس ہی طرح یہی صورتحال ان آیات کی ہے. سوره مریم کی آیات 30 اور 31 اس دور کو بیان کر رہی ہیں جب حضرت عیسیٰ منصب رسالت پر فائز ہو کر ان کے پاس آتے ہیں . اس لیے یہ کہنا کہ یہ ایک ہی دور کا معاملہ ہے درست نہیں
یہ میرے دلائل ہیں اس خیال کے ساتھ کہ یہ حرف آخر ہر گز نہیں .
ختم شد
٭٭٭٭٭