کرسمس یا مسلمانوں کا درد سر تحریر: قاری حنیف ڈار
کرسمس یا مسلمانوں کا درد سر
تحریر: قاری حنیف ڈار
پاکستان میں ایک ھی چیز تو سستی رہ گئ ھے مگر لوگ ھیں کہ اس پر بھی معترض ھیں، لگتا ھے سستی چیز لوگوں کو اچھی نہیں لگتی، لہذا وہ اعتراض کر کے اسے بھی مہنگا کرا کے چھوڑیں گے- وہ سستی چیز جو آپ کو نہ صرف ھر مسجد بلکہ چائے کے کھوکھے سے بھی مل جائے گی،، ایزی لؤڈ کی طرح ایزی فتوی جہاں سے مرضی ھے لؤڈ کروا لو، خاص مواقع پر فتوؤں کی یہ بوندا باندی باقاعدہ موسلا دھار بارش کی شکل اختیار کر لیتی ھے ! کرسمس چونکہ ھر سال آتی ھے،اس لئے مسلمانوں کو ھر سال مشقت میں ڈالتی ھے،یہ بھی یہودیوں کی سازش لگتی ھے جو مسلمانوں کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ھاتھ سے جانے نہیں دیتے !
جونہی کرسمس آتی ھے عیسائ لوگ تو خریداری کی لسٹیں بنانا شروع کر دیتے ھیں اور مسلمان اپنی پرانی کتابیں جو نئے پرنٹ میں دستیاب ھیں ان پر سے سال بھر کی دھول جھاڑنا شروع کر دیتے ھیں اور یوں دھڑا دھڑ فتوؤں کی پوسٹیں سوشل میڈیا پر آنا شروع ھو جاتی ھیں،، ھوشیار باش،،جس کسی نے میری کرسمس کہا، اس کا ایمان چلا جائے گا،، کیونکہ اس کا مطلب ھے،” خدا نے بیٹا جنا ” مگر بار بار کے مطالبے پر ایسی کوئی ڈکشنری نہیں بتاتا جس میں مَیری کرسمس کا مطلب ” خدا نے بیٹا جنا ” بتایا گیا ھو،، سنجیدہ مضمون شروع کرنے میں ابھی دو چار منٹ کی دیر ھے ،اس لیئے اتنی دیر میں محفل گرم کرنے کے لئے ایک واقعہ سن لیجئے تا کہ وقت گزر جائے،، فتوؤں کے لئے استعمال کی جانے والی کتابیں اور فتوے دینے والی شخصیات،، اس زمانے کے ھیں جب ھمارا طوطی پوری دنیا میں بولتا تھا، سارا افریقہ ،آدھا یورپ، سنٹرل ایشیا، برصغیر،روس چین تک ھماری حکومت تھی،، اور ھمارا دماغ آسمان پر تھا،،
بقول کسے خدا جب حسن دیتا ھے نزاکت آ ھی جاتی ھے،، اقتدار انسان کے فتوؤں میں سے جھلکتا ھے،، ھماری عدالتوں کے فیصلے ھماری بےبسی کی منہ بولتی تصویر ھوتے ھیں،امریکی عدالتوں کے فیصلے ان کی دنیاوی عظمت کی رعونت کا شاھکار ھوتے ھیں،، نیویارک کی عدالت انہیں یہ حق دیتی ھے کہ وہ اپنا مجرم جس ملک،جس جگہ،جہاں پایا جائے چاھے کوئی بھی ذریعہ اختیار کرنا پڑے اسے لا کر ھماری عدالت میں پیش کیا جائے،دیگر ممالک کے قوانین اور کنوینشنل معاھدے جائیں باڑ میں،معاہدوں کی پابندی کمزور قومیں کرتی ھیں،معاہدے ان کمزور قوموں کو جھکڑنے کے لئے مکڑی کے جالے کا کام کرتے ھیں اور بس !
یہ رعونت کبھی ھم میں بھی تھی،، ھم گستاخی کا جواب لکھ کر نہیں دیتے تھے اگلے ملک کے دارلخلافے پر قبضہ کر کے اسے سامنے بٹھا کر دیتے تھے، ھمارے فقہاء اپنے فتوؤں میں لکھا کرتے تھے،غیر مسلم ذمی کے ساتھ کھانا ،ھماری عظمت کے خلاف ھے، ان کے تہواروں پر مبارکباد نہ دی جائے، ان کے ساتھ زیادہ اٹھنا بیٹھنا نہ رکھا جائے، وغیرہ وغیرہ،، جس زعم میں ھم یہ سب کچھ کہتے اور کرتے تھے وہ کب کا خاک میں مل چکا ھے !
مگر بھلا ھو ھمارے علماء کا کہ کم از کم انہوں نے اس زمانے کے فتوے بچا لیئے ھیں،، اور وقتاً فوقتاً ان کو چلا کر دیکھ لیتے ھیں کہ اسٹارٹ بھی ھوتے ھیں یا نہیں،، اگر کسی نے وہ فتوے تفصیل سے دیکھنے ھوں تو عکاظ والوں کی سائٹ پر دیکھ لیں،، پڑھ کر رونگھٹے کھڑے ھوتے ھیں کہ کس قدر رعونت تھی ھم لوگوں میں،، اور یہی وجہ ھے کہ کفر اور کافر باقی ھیں،، ورنہ جتنا طویل اقتدار اللہ پاک نے ھمیں دنیا پر دیا تھا،اگر ھم اسے دعوت کی ذھنیت کے ساتھ استعمال کرتے تو ھندوستان سے اسپین تک سب مسلمان ھی مسلمان ھوتے !!
اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا تھا،بد ترین تکبر مفلس کا تکبر ھے،کیونکہ امیر کے پاس تو عذر ھو سکتا ھے کہ دنیا نے اسے تکبر میں مبتلا کر دیا ھے، مفلس کو بد ھضمی کس چیز کی ھوئی ھے؟ جب ھم تین بر اعظموں کے بلاشرکتِ غیرے مالک تھے اور مالی طور پر بھی دنیا کے خزانوں کے مالک تھے،نیز عمل کے میدان بھی بہترین انسان تھے، اس وقت کی زبان اور اس زبان کا اثر بھی الگ تھا،، آج جب ھم ھر لحاظ سے قعرِ مذلت میں گرے ھوئے،بھیک پر جینے والے بے عمل مسلمان ھیں ،، تو بھی ھمارے الفاظ اور فتوے بے شک وھی ھوں،، ان کے ریفریسز بھی وھی ھوں،مگر ان کا اثر وہ نہ ھے نہ ھو سکتا ھے، الٹا دنیا ھم پر ھنستی ھے،، پرویز مشرف کی مثال آپ کے سامنے ھے، کل تک اس کا فرمایا ھوا قانون ھوتا تھا، آج وھی پرویز مشرف ھے، قد بھی ویسا ھے وزن بھی بڑھ گیا ھے مگر آج اس کا فرمایا ھوا فریاد لگتا ھے اور لوگ ھنستے ھیں،،بدلا کیا ھے ؟ حیثیت اور مقام بدلا ھے تو ھر چیز بدل کر رہ گئ ھے،،
جب آپ مشرق کی طرف منہ کر کے لوکیشن سمجھا رھے ھوں اور سننے والا مغرب کی طرف منہ کر کے رائٹ لیفٹ کا تعین کر رھا ھو تو وھی ھوتا ھے جو آج ھمارے فتوؤں کے ساتھ ھو رھا ھے ! تحریک پاکستان اپنے جوبن پر تھی، لاھور کی مال روڈ پر روزانہ جلوس نکلتے جو پاکستان کے حق میں اور ھندوستان کی تقسیم کے مطالبے میں نعرے لگاتے ھوئے پنجاب اسمبلی اور گورنر ھاؤس پر جا کر ختم ھوتے ،، ایک دن صبح 8 بجے کے قریب ایک پرجوش جلوس گورنر ھاؤس کے سامنے نعرہ زن تھا،، بٹ کے رھے گا ھندوستان، لے کے رھیں گے پاکستان ،، ھم کیا چاھتے ھیں آزادی، حق ھمارا آزادی،،ایک بھنگن جو گورنر ھاؤس کے باھر سڑک پر جھاڑو دے رھی تھی اس کے ساتھ ایک 6 یا 7 سال کا بیٹا بھی تھا جو اس کی قمیص کا کونا پکڑے ھوئے تھا ،،
اس نے ماں سے پنجابی میں پوچھا ” اماں ایہہ کی منگدے نے ؟ ( امی یہ لوگ کیا مانگ رھے ھیں؟ ) بھنگن نے جھاڑو کو گورنر ھاؤس کی دیوار کے ساتھ ٹیکا، ایک ادا کے ساتھ اپنے سر پر دوپٹہ درست کیا اور خود کو مکہ برطانیہ کا ھم مذھب ھونے کے ناطے ملکہ برطانیہ ھی سمجھتے ھوئے گویا ھوئی” پُت ایہہ ساڈے کولوں آزادی پئے منگدے نے:” بیٹا یہ ھم ( بھنگن اور ملکہ ) سے آزادی مانگ رھے ھیں !
بس جناب ھم میں اور ھمارے اسلاف میں صرف مذھب کے نام کا اشتراک ھے،باقی کوئی چیز مشترک نہیں ھے، مقام بھنگن والا مگر مزاج ملکہ برطانیہ والا ھے،اور عیسائی ھم سے مبارک باد لے کر عزت پانا چاھتے ھیں جو کہ ھم ان کو دینا نہیں چاھتے،، یہ فتاوی کس حد تک دین کی روح کے مطابق ھیں اس پہ میں تفصیلی بات کرنا چاھتا ھوں ! جن آیات کو کاٹ کر فتوؤں کا روپ دیا گیا ھے ان کا بیک گراؤنڈ دیکھنا بھی ضروری ھے، ان شاء اللہ حقیقت مبرھن ھو جائے گی کہ ان فتاوی میں اسلام کا حقیقی اور دعوت روپ نہیں پیش کیا گیا ،،بلکہ ان کے اندر ملوکیت اور بادشاھی بولتی ھے !
ایک دوست کہتے ھیں کہ مذاھبِ اربعہ میں کسی کو کرسمس کی مبارک دینا جائز نہیں اس پہ عرض کیا تھا کہ بھائی ان مذھبوں سے پہلے بھی کوئی مذھب تھا یا نہیں ؟ میں نے پوری پوسٹ میں اسی مذھب کی بات کی ھے یہ سارے مذھب ھمارے دورِ اقتدار کے complex سے آلودہ ھیں ،ان کے لہجے میں امریکی رعونت بولتی ھے ،ایک سوپر پاور کی رعونت ،جنہیں اس وقت مزید مسلمان درکار نہیں تھے بلکہ وہ مسلمان ھونے والوں کی راہ میں روڑے اٹکاتے تھے اور انہیں کمی کمین سمجھتے تھے جیسے ھم عیسائیوں کو "چُوڑھا ” کہتے ھیں، انہیں مسلمان نہیں جزیہ چاھئے تھا ،،
یہی کچھ رویہ حکومتی فقہ کا دوسری فقہوں کے بارے میں تھا ، آج ھم پھر دعوت کے اسٹیج پر کھڑے ، سوشل انٹر ایکشن مذاھب اربع کے زمانے کی نسبت بہت زیادہ ھو گیا ھے ، آج بیوی سے زیادہ عیسائی آپ کے ساتھ ایک آفس میں آمنے سامنے زیادہ وقت گزارتا ھے ، آپ کے تہواروں پہ آپ کو مبارکباد دیتا ھے ،جو زبان اسے مبارک نہیں دے سکتی وہ اسے دعوت اسلام کس منہ سے دے گی اور دے گی تو اس کو کوئی قبول کیوں کرے گا ،،
یادش بخیر قرآن میں یہ بھی لکھا ھے کہ غیر مسلم کا دل مائل کرنے کے لئے اسے زکوۃ بھی دی جا سکتی ھے ،اس کی کسی اشد ضرورت میں زکوۃ سے اس کی مدد بھی کی جا سکتی ھے ” والمؤلفۃ قلوبھم ” کی مد قران میں ھمیشہ کے لئے رکھ دی ،، حضرت عمر فاروقؓ نے عروج کے زمانے میں یہود کو دینا بند کر دیا تھا ، مگر کیا یہ قرآن سے ساقط ھو گئ تھی ؟
جی نہیں ،، وہ حالات ایسے تھے وہ یہود ایسے تھے ،مگر ھم اب عرش سے فرش پر ھیں ،، دنیا کی برادری میں چوڑھے والی جگہ پر ھی ھیں، اب ھم طاقت سے نہیں پیار اور محبت نیز سوشل رویئے سے ھی کسی کو دین کی طرف مائل کر سکتے ھیں، مفتی کو چونکہ کسی دفتر میں 14 گھنٹے عیسائی کے ساتھ بیٹھنا نہیں پڑتا انہیں کسی کی سماجی مجبوری کا احساس کیسے ھو گا ؟ ان کو خود کسی دفتر میں عیسائی کے پاس بیٹھنا پڑے تو وہ ساتھ اس کو جپھی ڈال کر منہ چوم کر” مَیری کرسمس ” بولیں
فقہ اور دین !
پہلے فقہ اور دین کو لے لیجئے- دین تو دین ھے جو ھمارے فقہاء کے زمانے سے پہلے مکمل ھو گیا تھا،، الیوم اکملت لکم دینکم، اسکی دلیل ھےقرآن حکیم نے دین میں تفقہ کا حکم دیا ھے،، تفقہ کی تعریف ھے،” معرفۃ المعلوم ” جو چیز پہلے سے آپ کو معلوم ھے اس کی مزید تشریح کچھ اس طرح کی جائے کہ خود معلوم اپنا وجود برقرار رکھے،ایسا نہ ھو کہ معرفت کے نام پر خود معلوم کی جان نکل جائے،،یہ معرفت دیکھنے والے کے مائنڈ سیٹ کے مطابق ھوتی ھے، اور مائنڈ سیٹ ماحول بناتا ھے،سوسائیٹی مولڈز دا مین”(Society Molds The Men) آپ کے سامنے ایک معلوم چیز ھے مثلاً آپ کا اپنا چہرہ ھی ھے،اسے آپ نارمل ھاتھ پھیر کر اتنا نہیں جان سکتے جتنا نارمل شیشے میں دیکھ کر جان سکتے ھیں،، اور نارمل شیشے میں اتنی تفصیل نہیں جان سکتے جتنی میگنفائنگ گلاس یعنی عدسے والے شیشے میں جان سکتے ھیں،، مگر شیشے کو ھی منہ کہہ دینا ایسا ھی ھے جیسا فقہ کو دین کہہ دینا،،
دین ایک معلوم وجود ھے، جس میں مختلف اجزاء ھیں ،ان اجزاء کی اپنی معرفت ھے،دین ایک بدن ھے اور فقہ ایک لباس بدن کا تعلق اپنی ذات کے ساتھ ھے جبکہ لباس کا تعلق موسم اور سماج کے ساتھ ھے،، ھم یورپ میں سرد کپڑے صرف اس لئے نہیں پہن سکتے کہ مشرق وسطی کے ھمارے اسلاف کندورہ دھوتی پہنتے تھے،، ماحول ،علاقہ اور سماجی مزاج جسے عرف کہتے ھیں بدلنے سے فقہی فتوی تبدیل ھو جاتا ھے ، یوں اماموں کے ایک ھی مسئلے میں مختلف قول ملتے ھیں،، بعض دفعہ وہ ایک بات کو حرام کہتے ھیں اور سال بعد اسے حلال کہہ دیتے ھیں،فتوے میں یہ تغیر معرفت میں فرق کی وجہ سے ھوا ھے ,
فقہ المقاصد !
شریعت جو حکم دیتی ھے اس کے پیچھے کوئی مقصد ھوتا ھے،، اس مقصد کا حصول اھم تر ھے اس کے حصول کے طریقے یا ذرائع سے، بعض دفعہ معلوم ذریعہ مقصد کے حصول کی بجائے مقصد کی بربادی کا ذریعہ بن جاتا ھے،اس وقت ذریعے کو چھوڑ کر مقصد کو بچایا جاتا ھے، مثلاً سزاؤں یا حدود کا قائم کرنا اس مقصد سے ھوتا ھے کہ بندے کو اللہ کا تابع فرمان رکھا جائے اور اسے گناہ سے بچایا جائے،، مگر ایک وقت آتا ھے کہ سزا کا نفاذ اس بندے کو اللہ کا تابعدار بنانے کی بجائے اللہ کا باغی بنا دیتا ھے، اس صورت میں سزا کو روک دیا جائے گا،، کیونکہ سزا فی ذاتہ مقصود نہ تھی اور نہ سزا کے نفاذ سے اللہ کا بھلا مقصود تھا،مگر جس کا بھلا مقصود تھا اس کو دوا ری ایکشن کر رھی ھے تو اسے وہ دوا نہیں دی جائے گی،،
مگر اس کے لئے وہ ھمت چاھئے جو نبیﷺ نے اپنے صحابہؓ میں پیدا کی تھی نہ کہ وہ حالت جو ھماری ملوکیت نے پیدا کر دی تھی،، عمر فاروقؓ نے جب دیکھا کہ سرحدی علاقوں میں لوگوں کا سامنے کے کافر علاقوں میں اس طرح کا آنا جانا اور میل جول ھے کہ سزا کے نفاذ کے بعد مجرم سرحد پار جا کر کافر ھو جاتا ھے تو انہوں نے دینی حمیت کی کمزوری کی بنیاد پر سرحدی علاقوں میں حدود کے نفاذ کو روک دیا تھا کہ اس طرح بندہ فاسق سہی مگر مسلمان تو رھے گا جبکہ سزا اس کو کافر بنا دے گی ! یہی معاملہ فوج کے ساتھ تھا،کہ فوج میں سزا کے نفاذ کے بعد بندہ سامنے کے دشمن سے جا کر مل گیا کیونکہ وہ باقاعدہ تربیت یافتہ ڈسپلن والی فوج نہ تھی،عام لوگ تھے جو جذبہ جہاد یا غنیمت کی لالچ میں آتے تھے، جب کسی معاملے میں چوری ثابت ھونے پر اسے ھاتھ کٹنے کا خدشہ لاحق ھوا تو وہ دشمن سے جا ملا،،
اس کے بعد فوج میں حدود کا نفاذ روک دیا گیا،، یہی معاملہ ھاتھ کاٹنے کی سزا کے ساتھ کیا گیا،جب حالات لوگوں کی مرضی اور ارادے پر غالب آگئے اور لوگ قحط سالی کی وجہ سے چوری کرنے پر مجبور ھو گئے تو عمر فاروقؓ نے ھاتھ کاٹنے کی سزا معطل کر دی،، اللہ پاک لنجوں کی امت پیدا نہیں کرنا چاھتا،بلکہ روکنا چاھتا ھے،مگر جب رکنا محال ھو گیا ھے تو اب ھاتھ کاٹنا روکنا پڑے گا،، یہ ان لوگوں کے لئے سوچ کا مقام ھے جن کا اسلام سزاؤں سے شروع ھو کر سزاؤں پر ختم ھو جاتا ھے ! اللہ پاک نے سورہ توبہ میں جہاں زکوہ کے مصارف بیان کیئے ھیں آیت نمبر 60 میں وھاں زکوۃ کی ایک مد تألیفِ قلب رکھی ھے،کہ اگر ایک شخص اسلام کی طرف مائل ھے اور امید ھے کہ حسنِ سلوک اسے دین کے قریب کر دے گا تو اسے زکوۃ دی جا سکتی ھے،اللہ کے رسولﷺ نے پوری وادی میں پھیلی ھوئی بکریوں کا ریوڑ جو بیت المال کا تھا،ایک کافر سردار کو بخش دیا،،اب وہ سردار نہ صرف خود مسلمان ھو گیا بلکہ جس رستے سے گزرتا دھائیاں دیتا ھوا گزرتا کہ لوگو جلدی کرو اللہ کی قسم محمدﷺ تو اتنے کھلے دل والے ھیں کہ دینے پہ آتے ھیں تو اپنے فقر کا خیال بھی نہیں کرتے !
مگر پھر وقت آیا کہ عمر فاروقؓ کے دربار میں کچھ لوگ تالیفِ قلب کا حصہ وصول کرنے آئے تو آپ نے فرمایا” اب ھمیں تمیاری تالیف سے اللہ نے بے نیاز کر دیا ھے’ تمہارے لئے اب ھمارے پاس کچھ نہین ھے،، گویا انہوں نے اسے ایک وقتی حکم سمجھا جسے ویسا وقت آنے پر دوبارہ اختیار کیا جا سکتا ھے ، کیا اس سے حضرت عمرؓ نے دین تبدیل کر دیا تھا ؟ حالانکہ یہ قرآن کا حکم تھا اور نبیﷺ نے عمل کر کے اس کو سنت بنا دیا تھا ،مگر عمرؓ چونکہ فقہ المقاصد کے علم کے امام تھے لہذا وہ اس کی غرض و غایت اور مقصد سے آگاہ تھے !
عراق کے دورے کے دوران آپ کو بتایا گیا کہ عراق کے گورنر نہ صرف ذمیوں کو اسلام کی تبلیغ نہیں کرتے بلکہ ذمیوں کے مسلمان ھونے کی حوصلہ شکنی کرتے ھیں، بلکہ وہ کہتے ھیں کہ تم جزیئے سے بچنے کے لئے مسلمان ھوتے ھو،لہذا مسلمان ھونے کے باوجود نو مسلم ذمیوں سے جزیہ وصول کرتے ھیں،، آپ نے گورنر کو حاضر کیا اور سبب پوچھا،، انہوں نے جواب دیا کہ جناب اگر یہ سارے مسلمان ھو گئے تو نظام حکومت چلانے کے لئے مال کہاں سے آئے گا؟ آپ نے فرمایا اللہ پاک نے ھمیں دین پہنچانے کے لئے چنا ھے، ٹیکس اکٹھا کرنے کے لئے نہیں،، اور گورنر کو معزول کر کے نومسلم ذمیوں کے ٹیکس معاف کر دیئے اور غیر مسلم بوڑھے ذمیوں کے لئے الاؤنس مقرر کر دیا !
اسی قسم کی سوچ نے ھمارے فقہا سے وہ فتوے دلائے ھیں جن میں غیر مسلموں کی تذلیل ھے ،مثلاً ان کی مجالس مین نہ بیٹھا جائے، انہیں نہ تہنیت دی جائے نہ تعزیت کی جائے،، ان کے ساتھ نہ کھانا نہ کھایا جائے، ایسے جہاز مین سفر نہ کیا جائے جو نصرانیوں کا ھو ،کیونکہ اس سے ان کی آمدن بڑھتی ھے،، یہ رعونت کی سوچ ھے اور اس کے لئے کم سے کم جو لفظ ھے وہ اپارتھیڈ یا نسل پرستی ھے ! جبکہ اللہ کا حکم اور نبیﷺ کا طریقہ اس سے ٹھیک 180 ڈگری مختلف ھے !
آیات کی مِس کوٹیشن !
اپنے فتوؤں میں غیر مسلموں سے عدم تعلقات اور ان کو مبارکباد دینے یا تعزیت کرنے سے روکنے کے لئے جن آیات کو دلیل بنایا جاتا ھے وہ اسلام کے ساتھ خود قرآن کے ساتھ بھی زیادتی ھے ! ھر سورت کا ایک یا ایک سے زیادہ مخاطب ھوتا ھے،وہ سورت اسی سے متعلق رکھ کر ھی سمجھی جا سکتی ھے،، ایک خط ھے جو کوئی بندہ اپنی بیوی کو لکھتا ھے جس میں وہ اپنی بیوی کو طلاق دیتا ھے،،وہ خط اس کی ماں کو سنا کر اس کو طلاق نہیں دی جا سکتی اس کی مخاطب اس کی بیوی ھے،،
( ایک ماسٹر صاحب نے بچوں کو مائی بیسٹ فرینڈ مضمون یاد کرایا،،مگر امتحان میں "مائی فادر "مضمون آ گیا،،بچوں نے ماسٹر سے گلہ کیا کہ یہ تو ھمارے ساتھ زیادتی ھو گئ ھے ! ماسٹر جی نے تسلی دی کہ بس جہاں جہاں فرینڈ یاد کیا ھے وھاں فادر لکھ دو مضمون بن جائے گا ،، ایک بچے نے لکھا،، آئی ھیو مینی فادرز بٹ مسٹر ندیم از مائی بیسٹ فادر ) تو جناب یہی کچھ فتوے میں بھی کر دیا جاتا ھے !
سورہ الممتحنہ کی جس آیت کو اس مقصد کے لئے چنا جاتا ھے وہ خاص ھے مکے والوں کے ساتھ،،کیونکہ ایک صاحبؓ بلتعہ ابن ابی حاطب نے مکہ پر لشکر کشی کی خبر لکھ کر مکہ بھیج دی تھی جو اللہ پاک نے نبیﷺ کو بتا کر رکوا دی تھی اور خط برامد ھو گیا تھا،،اس واقعے کے بیک گرؤنڈ میں مکی مسلمانوں کو سمجھایا جا رھا ھے کہ اللہ پاک تمہیں ان سے قلبی تعلق سے کیوں روکتا ھے ،، اللہ پاک نے صاف طور پر فرما دیا ھے کہ یہ ممانعت جو کہ اصلاً قلبی تعلق کی ممانعت ھے نہ کہ سماجی روزمرہ امور کی صرف ان لوگوں پر لاگو ھوتی ھے جنہوں نے تم سے قتال کیا اور تمہیں گھروں سے اپنی اولادوں رشتے داروں سے نکال باھر کیا اور تمہارے خلاف دوسروں سے جتھے بندی کی !
اسی سورہ کی آیت نمبر 8 میں واضح کر دیا،لا ینہاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین و لم یخرجوکم من دیارکم،ان تبروھم و تقسطوا الیھم، ان اللہ یحب المقسطین !( الممتحنہ8) نہیں روکتا اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے اور انصاف کرنے سے جنہوں نے نہیں قتال کیا تم سے دین میں اور نہیں نکالا تمہیں گھروں سے ، اللہ تو انصاف( مقسطین ) کرنے والوں کو پسند کرتا ھے ( پھر کیسے روک سکتا ھے ) یہاں اقساط کا حکم سب سے اھم ھے،،میل جول میں اقساط کا مطلب ھے،وہ تمہارے یہاں آئیں تو تم ان کے گھر وزٹ کرو،،وہ تمہارے یہاں پیدائش کی مبارک اور تحفہ دیں تو تم ان کے یہاں مبارک اور تحفہ دو ،وہ سلام کریں تو ان کے الفاظ سے بڑھ کر اچھے الفاظ کا انتخاب کرو ورنہ ویسے الفاظ ھی لوٹا دو،وہ تمہارے گھر سالن دیں تو تم ان کے گھر پکا ھوا بھیجو !
اب اس معاملے میں نبیﷺ کا تعامل دیکھ لیجئے اور پر عکاظ والوں کی فقہ علی مذاھب الاربعہ کے فتوے پڑھ لیجئے فرق آپ کو صاف نظر آ جائے گا !
1- حضرت عائشہؓ بخاری میں روایت کرتی ھیں کہ نبیﷺ سے پوچھا گیا کہ کچھ لوگ ھمارے پاس گوشت لے کر آتے ھیں( ظاھر ھے مدینے سے باھر کے لوگ ھوںگے جن کے ایمان کا بھی ابھی علم نہیں ھو گا ) جن کے بارے میں ھمیں نہیں معلوم کہ انہوں نے اس پر اللہ کا نام بھی لیا ھو گا یا نہیں ! آپﷺ نے فرمایا ” سمۜوا اللہ علیہ و کلوُ،، تم اس پر اللہ کا نام لے لو اور کھا لو ! ابن حزم نے اس سے اصول اخذ کیا ھے کہ ” ما غابَ عنا لا نسئل عنہ،،جو چیز ھم سے چھپی ھوئی ھے ھم اس کے بارے میں نہیں پوچھیں گے !
2- اللہ کے رسول ﷺ نے ایک یہودی کی دعوت قبول فرمائی اور اس سے یہ نہ پوچھا کہ یہ حلال ھے یا حرام یا یہ کہ کیا اس کے برتن پاک صاف ھیں یا نہیں ؟ آپ ﷺ اور اصحاب کے پاس کافروں کے تیار کردہ کپڑے اور برتن لائے جاتے جنہیں آپﷺ بے تکلفی سے استعمال فرماتے،، مشرکین کے چھوڑے ھوئے مشکیزے سے منہ لگا کر آپﷺ نے پانی پیا،، آپ کے گھر میں یہودی جوان آنے والے وفود کے استقبال اور روٹی پانی پر معمور تھا،جس کے بیمار ھو جانے پر آپ اس کے گھر گئے اور تیمارداری کی،موت کے آثار اس کے چہرے پر دیکھ کر آپ نے اسے اسلام کی دعوت دی جسے اس نے قبول کیا اور کلمہ شہادت و رسالت کی گواھی کے ساتھ ھی اس کی روح مسافر ھو گئ،آپ نے صحابہؓ سے فرمایا اپنے بھائی کو غسل دو اور دفن کے لئے تیار کرو !
3- ام المومنین حضرت صفیہؓ اپنے یہودی رشتے داروں کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے پیش آتی تھیں ، حضرت عمرؓ تک ان کی لونڈی نے خبر پہنچائی تو حضرت عمرؓ خود ملاقات کے لئے حاضر ھوئے اور شکایت کی بابت عرض کیا کہ آپ کی لونڈی کے مطابق آپ ھفتے کے دن کو جمعے سے افضل سمجھتی ھیں ، اور اپنے یہودی رشتے داروں سے قریبی تعلق رکھتی ھیں ،، ام المومنینؓ نے جواب دیا کہ جب اللہ نے مجھے جمعے کا دن دے دیا تو میں سبت سے بے نیاز ھو گئ ،
رہ گیا قریبی رشتے داروں سے تعلق تو یہ میرا دینی فریضہ ھے کہ صلہ رحمی کروں اور یہ وہ کام ھے جس سے مجھے اللہ کے رسولﷺ نے بھی نہیں روکا ( لہذا اور کوئی روک بھی نہیں سکتا ) اس کے بعد آپ نے اس لونڈی کو آزاد کر دیا ،حضرت صفیہؓ نے وفات کے وقت اپنے بھانجے کے لئے ایک لاکھ درھم کی وصیت کی ،، ان کی وفات کے بعد لوگوں نے وہ لاکھ درھم دینے سے آنا کانی شروع کر دی کہ ایک یہودی کے حق میں وصیت کیسے کی جا سکتی ھے ،جب یہ بات حضرت عائشہؓ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ ” تم لوگ اللہ سے ڈرو اور وصیت پر عمل کرو” چنانچہ وہ لاکھ درھم جو شاید آج کے کروڑوں درھم سے زیادہ ویلیو رکھتے تھے ایک یہودی بھانجے کو دے دیئے گئے
کرسمس مبارک !
اب آئیے اس مسئلے کی طرف جس کی وجہ سے یہ ساری تمہید باندھی گئ ھے، کیا کرسمس مبارک کہا جا سکتا ھے ؟ جی بالکل کہا جا سکتا ھے، اللہ پاک نے سورہ النساء کی آیت 86 میں اس کی باقاعدہ اجازت دی ھے، اور لفظ ( گریٹننگ ) استعمال فرمایا ھے جو کہ عموماً مبارک باد ھی کے معنوں میں استعمال ھوتا ھے, سلام استعمال نہیں فرمایا،جب تمہیں تحیہ ( تہنیت ) پیش کی جائے تو اس سے بہتر الفاظ کے ساتھ جواب دو ورنہ انہی الفاظ کو پلٹا دو ! ( النساء86 ) مگر ھم ماشاء اللہ ایسی کھلے دل والی قوم ھین کہ جو کتاب اللہ پاک نے پوری نوع انسانیت کی ھدایت اور راھنمائی کے لئے بھیجی ھے ھم اسی پر اس طرح قبضہ جمائے بیٹھے ھیں کہ پڑھنے دینا تو دور کی بات ھاتھ تک نہیں لگانے دیتے،
حالانکہ اللہ کے رسولﷺ نے قیصر کو قرآن ھی لکھ کر بھیجا تھا اور چھونے سے منع نہیں کیا تھا ،،جس کتاب کی صرف 450 آیتیں ھمارے لئے اور باقی سارا قرآن پوری انسانیت کے لئے تھا،،450 والے باقی کی 5786 آیات پر بھی قبضہ جما کر بیٹھ گئے ھیں،جو غیر مسلم کو اپنے ساتھ کھانا نہیں کھانے دیتے وہ کتاب کو ھاتھ لگانے دیتے ھیں،؟؟ دلیل یہ دی جاتی ھے کہ عیسائی یہ دن اس لیئے مناتے ھیں کہ اس دن خدا کا بیٹا پیدا ھوا،، ھم ان کو مبارک کیسے دے سکتے ھیں،؟ میں عرض کرتا ھوں کہ اس دن کوئی پیدا تو ھوا ھے ناں ؟ آپ انہیں اللہ کا رسول سمجھ کر مبارک دیں کہ پرافیٹ عیسی کی پیدائش مبارک ھو،،
وہ ان کو جو مرضی ھے سمجھتے رھیں،،اب ان کے خدا سمجھنے کی وجہ سے کیا عیسی علیہ السلام کو نبی ماننا بھی چھوڑ دیں گے ؟ کیا ایسا ممکن ھے کہ وہ خدا سمجھتے رھیں اور ھم نبی سمجھ کر خوش ھو لیں،، جی ایسا بالکل ممکن ھے، قرآن حکیم میں ایک سورت ھے الصآفآت اس کی آیت نمبر 125 میں حضرت الیاس اپنی قوم کو کہہ رھے ھیں کہ تم بعل کو پکارتے ھو بچے مانگنے کے لئے اور احسن الخالقین کو بھول جاتے ھو،، یہ بعل نام کا بت تھا جس پر چڑھاوے چڑھائے جاتے تھے اور بیٹے مانگے جاتے تھے،لنگ پوجا ٹائپ کی عبادات کی جاتی تھیں،، الغرض اس بت کی وجہ سے شوھر کو بھی ” بعــل ” مجازی خدا یعنی بیٹے دینے والا کہا جانے لگا ! اب یہی بعل کا لفظ حضرت سارا اپنے شوھر ابو الانبیاء حجرت ابراھیم کے لئے استعمال کرتی ھیں،، سورہ ھود کی آیت 72 میں وہ فرماتی ھیں کہ” اءلدُ و انا عجوزٓ و ھٰذا "بــعـــــلی "شیخاً ؟ کیا میں اب جنوں گی جبکہ میرا بعل بوڑھا پھونس ھو گیا ھے ؟ یہاں بعل شوھر کے معنوں میں استعمال ھوا ھے نہ کہ بت کے معنوں میں،،
اسی طرح عیسی علیہ السلام کو وہ جو مرضی ھے سمجھیں ھم انہیں اللہ کا رسول سمجھ کر ان کی پیدائش کی مبارک دے سکتے ھیں ! یہ پاکستان میں کسی کا مسئلہ ھے ھی نہیں،،یہ تو مسئلہ ھے ان ممالک کا جہاں مختلف مذاھب کے حامل لوگ ایک ھی دفتر میں کام کرتے ھیں،، جہاں افسر عیسائی ھے اور عملہ مسلمان، ھندو اور سکھ اور عیسائیوں پر مشتمل ھے،جن کو سارا دن ساتھ کام کرنا ھے،جہاں مسلمان عید کی مبارک وصول کرتا ھے اور اپنے بچے کی پیدائش پر ٹافیاں بانٹتا ھے وہ ان سے ٹافیاں لینے اور مبارک دینے سے کیسے کترا سکتا ھے ؟ پھر 90٪ عیسائی ملحد ھو چکے ھیں ان کے صرف نام ھی عیسائی ھیں ورنہ وہ عیسی علیہ السلام کو خدا نہیں سمجھتے،، وہ خدا کو بھی خدا نہیں سمجھتے،کرسمس مذھبی سے زیادہ ،سوشل تہوار ھے جس میں وہ بچوں کے ساتھ 20 دن چھٹیاں گزارتے ھیں،شاپنگ کرتے ھیں اور بس،،
یہ عید کی مبارک کے بدلے مبارک ھے اور بس،، مگر ھماری نفسیات کا کوئی کیا کرے ؟ یو ٹی ایس کیرئیر کمپنی نے پاکستان سے ایک اکاؤنٹینٹ منگایا،،جوان لاھور سے تعلق رکھتا تھا، کمپنی امریکہ کی ھے اور سنٹرل اے سی کی دنیا کی قدیم ترین کمپنی ھے،، انچارج سارے امریکن انگریز ھیں،، آفس بوائے دو دن کی میڈیکل چھٹی پر تھا، ایم ڈی نے کہا کہ دو دن ھیں تو آپس میں ڈیوٹی بانٹ کے دو دن گزار لو، انڈیا والوں نے تو صاف کر دیا اگلے دن باری آئی پاکستانی جوان کی اور اس نے حمام صاف کرنے سے صاف انکار کر دیا، شکایت مینیجر کے پاس گئ تو اس نے جوان سے پوچھا کہ کیا وجہ ھے کہ دوسروں نے تو اپنی باری کر لی مگر آپ انکار کر رھے ھیں ؟ ،، اس پر اس جوان کے منہ سے بیساختہ نکلا ” سر دِس اِز کریسچینز جاب” بس مینیجر تو غصے سے کرسی سے کھڑا ھو گیا اس نے پی آر او کو بلایا کینسیلیشن پیپر تیار کروا کے دستخط کیئے اور کہا کہ اس کو پہلی دستیاب فلائٹ سے بحفاظت پاکستان پہنچا دو،،