عورت اور نبوت از مبین قریشی
اس سوال کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے یہ سمجھا جاے کہ نبی کسے کہتے ہیں ۔ نبی عبرانی لفظ ہے جسکا مطلب مخاطبہ یا مکالمہ کے ہیں۔ عبرانی میں ہی مزکر کے لئے یہ لفظ نبی بولا جاتا ہے جبکہ مونث کے لیے نبیہ اور جمع کے لئے یا عزت دینے کے لئے واحد کو جمع بنا کر نبیم ( چاہے مزکر کی جمع ہو یا مونث کی)۔ اسلئے علماء تورات کے نزدیک ہر وہ شخص نبی کہلاتا تھا جسے مکالمہ یا مخاطبہ الہی نصیب ہوتا تھا۔ بنی اسرائیل کے علماء اس پر متفق ہیں کہ نبوت عورتوں کو بھی دی گئ اور انکا ذکر بھی عہدنامہ قدیم کی کتب میں ملتا ہے۔ مثلا؛
(۱): حضرت موسی و ھارون کی بڑی بہن مریم ؛
اسفار کی دوسری کتاب یعنی خروج کے باب ۱۵ کی آیت ۲۰ میں مزکور ہے کہ جب فرعون کے لشکر کو بنی اسرائیل کے لوگوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے غرقاب ہوتے دیکھا تو بنی اسرائیل کی خواتین نے حضرت مریم ( اخت ھارون) کی قیادت میں دف کے ساتھ خدا کی حمد بیان کی۔ الفاظ یونہہ ہیں کہ “ تب ھارون کی بہن مریم نبیہ نے دف ہاتھ میں لیا”۔
(۲): دبورہ: یوشع بن نون کے بعد سے طالوت کی حکومت تک کے تقریباً چار سو سال کے دورانئے میں بنی اسرائیل کسی سینٹرل فیڈریشن کے تحت نہیں تھے۔ اس دوران قبائلی سردار ہی اپنے اپنے قبائل کے لئے عدل اجتماعی یا قضاہ کی زمہ داریاں سرانجام دیتے تھے۔ عہدنامہ قدیم کی ساتویں کتاب قضاہ اس دورانئے کی تاریخ ہے۔ اس میں چوتھی مشترکہ جج ( اور اس پورے دورانئے کی واحد قاضیہ) دبورہ کا ذکر قضاہ کی کتاب کے چوتھے باب کے چوتھے کلاز میں ان الفاظ کے ساتھ مزکور ہے “ اس وقت لفے دوت کی بیوی دبورہ جو نبیہ تھی بنی اسرائیل کا انصاف کرتی تھی”۔ انھوں نے کنعان کے بادشاہ سیسرا کو شکست دی جسکے بعد چالیس سال تک بنی اسرائیل کو امن کی زندگی نصیب ہوئ۔
(۳): خلدہ ؛ یہ یرمیاہ اور صفنیاہ پیغمبروں کی ہم عصر یوشع بن نون کی اولادوں میں سے تھیں۔ یرمیاہ اور صفنیاہ عوام میں منادی کرتے تھے جبکہ یہ خواتین میں درس کا کام کرتی تھیں ۔ سلاطین دوم کے باب ۲۲-۱۴میں یونہہ مزکور ہے “ تب خلقیاہ کاھن اور اخیقام اور عکبور اور سافن اور عسایاہ ( پانچوں بادشاہ کے کہنے پر) خلدہ نبیہ کے پاس گئے ۔۔۔۔۔۔ اس نے ان سے کہا کہ بنی اسرائیل کا خدا یونہہ فرماتا ہے کہ تم اس شخص سے جس نے تمھیں میرے پاس بھیجا ہے کہنا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس کتاب کی ان سب باتوں کے مطابق جن کو شاہ یہودا نے پڑھا ہے بلانازل کرونگا۔ کیونکہ تم سب نے مجھے ترک کیا اور غیراللہ کے سامنے بخور جلایا۔۔۔۔۔”
(۴)؛ آیسعیاہ نبی کی بیوی: ایسعیاہ نبی کے صحیفے کے آٹھویں باب کی تیسری آیت یونہہ ہے “ اور میں نبیہ کے پاس گیا اور وہ حاملہ ہوئ اور بیٹا پیدا ہوا۔ تب خدا وند نے مجھ سے فرمایا اسکا نام مہیر شالال بز رکھ۔ کیونکہ اس سے پیشتر کے یہ لڑکا ابا اور اماں کہنا سیکھے دمشق کا مال اور سامریہ کی لوٹ کو اٹھوا کر شاہ اسور کے حضور لے جائیں گے”۔
(۵): حضرت حزقی ایل کے دور کی جھوٹی نبوت کی دعویدار عورتیں : حزقی ایل نبی کے صحیفے کے باب ۱۳ میں آیات ۱۷ سے ۲۳ تک خدا نے انھیں ان گدی نشین نبوت کی جھوٹی دعویدار عورتوں کے خلاف لوگوں کو متنبہ کرنے کے متعلق کہا جو انکے دور میں موجود تھیں۔ “ اے آدم ذاد تو اپنی قوم کی بیٹیوں کی طرف جو اپنے دل سے بات بنا کر نبوت کرتی ہیں متوجہ ہوکر انکے خلاف نبوت کر۔ کہہ کہ خدا وند یونہہ فرماتا ہے ۔۔۔۔۔”
(۶)؛ نوعیدیاہ: اسکے سچے یا جھوٹے نبیہ ہونے سے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ نحمیاہ نبی کے صحیفے کے چھٹے باب کی چودھویں آیت میں یونہہ مزکور ہے “ اے میرے خدا طوبیاہ اور سنبلط کو انکے کاموں کے لحاظ سے اور نوعیدیاہ نبیہ کو بھی اور باقی نبیوں کو بھی جو مجھے ( شہر پناہ بنانے سے) ڈرانا چاہتے تھے یاد رکھ۔ “
(۷) یوئیل نبی کی پیشن گوئ؛ ان کا زمانہ معلوم نہیں ہے۔ انکے صحیفے میں پہلے نبیوں کی پیشن گوئیاں اور کچھ انکی اپنی پیشن گوئیاں شامل ہیں ۔ اس صحیفے کے تیسرے باب کی اٹھائیسویں آیت میں ایک پیشن گوئ یونہہ مزکور ہے “ اس کے بعد میں ہر فرد بشر پر اپنی روح نازل کرونگا اور تمھارے بیٹے ، بیٹیاں نبوت کریں گے۔ تمھارے بوڑھے خواب اور جوان رویاء دیکھیں گے”۔ مسیحی اس پیشن گوئ کو حضرت مریم ، حضرت مسیح، حضرت زکریا اور حضرت یحیی وغیرہ کے دور سے متعلق بتاتے ہیں۔
(۸) حضرت اسحاق کی بیوی ربقہ: کتاب پیدائش کے باب ۲۵ میں مزکور ہے “ اور اسحاق نے اپنی بیوی ربقہ کے لئے دعا کی کیونکہ وہ بانجھ تھی اور خدا وند نے اسکی دعا قبول کی ۔۔۔۔۔۔ اور وہ خداوند سے پوچھنے گئ اور خداوند نے اس سے کہا دو قومیں تیرے پیٹ میں ہیں اور دو قبیلے تیرے بطن سے نکلتے ہی الگ الگ ہوجائیں گے اور ایک قبیلہ دوسرے سے زور آور ہوگا اور بڑا چھوٹے کی خدمت کرے گا”۔ یہ حضرت یعقوب سے بنی اسرائیل اور حضرت عیسو سے بنو ادوم کی پیشن گوئ تھی۔
(۹): متفرق: درج بالا مقامات کے علاوہ بھی متفرق مقامات پر عورتوں کا مکالمہ و مخاطبہ الہی عہدنامہ قدیم میں موجود ہے۔ کچھ کے نام کیساتھ نبیہ کا لفظ آیا ہے جبکہ کچھ کیساتھ محض مکالمہ مزکور ہے۔ یہود کی مختلف کتب میں سات عورتیں جو بطور نبیہ بیان ہوتی ہیں وہ سارہ ( زوجہ ابراھیم علیہ سلام) ، مریم ( اخت ہارون)، دبورہ ( مزکورہ بالا)، حنا ( سموئیل نبی کی والدہ)، ابی جیل ( حضرت داؤد کی زوجہ)، حلدہ ( مزکورہ بالا)، اور ایستھر ( شاہ فارس کی یہودی بیوی) جنھوں نے یہود کی جان بچائ۔
ہمارے قدیم علماء کا اختلاف؛
ہمارے ہاں یہ مسئلہ مختلف فیہ رہا ہے۔ محمد بن اسحاق ، ابوالحسن اشعری، امام قرطبی اور ابن حزم وغیرہ اسکے قائل رہے ہیں کہ عورتوں کو بھی نبوت ملتی رہی ہے۔ ابن حزم تو حضرت حوا، حضرت سارہ ، حضرت حاجر، ام موسی، آسیہ زوجہ فرعون اور مریم علیھن الصلواہ والسلام سب کو نبیہ کہتے ہیں۔ انکے برعکس قاضی عیاض اور حافظ ابن کثیر نے جمہور کی راے یہ لکھی ہے کہ عورتوں کو نبوت کبھی نہیں ملی۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ جمہور نے اس بابت توقف اختیار کیا ہے۔ جنھوں نے کھل کر اسکا انکار کیا ہے وہ سورہ یوسف کی آیت ۱۰۹ پیش کرتے ہیں ( وما ارسلنا من قبلک الا رجالا نوحی الیھم من اھل القری، افلم یسیروا فی الارض فینظروا کیف کان عاقبہ الذین من قبلھم؛ اے محمد تم سے پہلے جو رسول ہم نے بھیجے ہیں وہ سب بھی انہی بستیوں کے انسان ہی تھے ، پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان قوموں کا حشر انھوں نے دیکھا نہ ہو)۔ اس آیت میں سے اگر اشارہ النص کے طور پر رجال کے لفظ سے کوئ استنباط بھی کیا جاے تو بھی نفی صرف ان اولعزم رسولوں میں سے کسی عورت کا نہ ہونا ہے جنکے آنے پر عذاب آتے تھے۔ جبکہ اسکے برعکس سورہ مریم میں حضرت ذکریا، یحیی ، مریم عیسی، ابراھیم، اسحق ، یعقوب، موسی، ھارون، اسمعیٰل، ادریس کا ذکر کرکے فرمایا کہ اولئک الذین انعم اللہ علیھم من النبین من ذریہ آدم (۵۸) اس آیت میں سے حضرت مریم کی تخصیص کرکے انکو انبیاء کی فہرست میں سے کیونکر الگ کیا جاسکتا ہے؟ اسی طرح جیسے اللہ نے آدم ، نوح اور آل عمران کا اصطفی زکر کیا ویسے ہی اپنے دور کی عورتوں کے لئے حضرت مریم کو بھی سرٹیفیکیٹ دیا کہ ان اللہ اصطفک وطھرک واصطفک علی النساء العالمین ( آل عمران ۴۲) ۔ اس آیت میں پہلا اصطفی منصب کے لئے ہے جبکہ دوسرا دائرہ کار کی تعین کے لئے۔ تاہم جن علماء نے عورتوں کی نبوت کا واضح انکار کیا ہے انکے پاس بھی کہنے کو کچھ بھی نہیں ۔ جن لوگوں نے توقف کا راستہ اپنایا ہے انکا کہنا ہے کہ اس ضمن میں علماء کی راے بٹی ہوئ ہے۔ مثلا تقی الدین سبکی کا قول فتح الباری میں مزکور ہے کہ اس ضمن میں علماء مختلف آراء رکھتے ہیں اور میرے نزدیک اس بارے میں نفیا یا اثباتا کوئ بات ثابت نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ آئمہ کا موقف بھی اس حوالے سے نقل کردیتا ہوں:
۱۔ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قَوْلُهُ وَلَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا آسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ وَمَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ اسْتَدَلَّ بِهَذَا الْحَصْرِ عَلَى أَنَّهُمَا نَبِيَّتَانِ لِأَنَّ أَكْمَلَ النَّوْعِ الْإِنْسَانِيِّ الْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الْأَوْلِيَاءُ وَالصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ فَلَوْ كَانَتَا غَيْرَ نَبِيَّتَيْنِ لَلَزِمَ أَلَّا يَكُونَ فِي النِّسَاءِ وَلِيَّةٌ وَلَا صِدِّيقَةٌ وَلَا شَهِيدَةٌ وَالْوَاقِعُ أَنَّ هَذِهِ الصِّفَاتِ فِي كَثِيرٍ مِنْهُنَّ
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "عورتوں میں سوائے فرعون کی بیوی آسیہ کے اور مریم بنت عمران علیہما السلام کے کسی نے کمال حاصل نہ کیا !”
اس (دو افراد کی) تخصیص سے یہ استدلال نکلتا ہے کہ یہ (دونوں) پیغمبر تھیں کہ انسانوں میں سب سے باکمال انبیاء، پھر اولیاء و صدیقین اور شہداء ہیں۔ اگر یہ دونوں پیغمبر نہیں ہیں، تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ عورتوں میں ولیہ و صدیقہ و شہیدہ موجود ہی نہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ایک کثیر تعداد میں یہ صفات موجود ہیں۔
[فتح الباري لابن حجر، جلد ۶، صفحہ نمبر ۴۴۷]
۲۔ امام اشعری رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ آپؒ نے فرمایا:
أَنَّ من النِّسَاء من نبىء وَهُنَّ سِتٌّ حَوَّاءُ وَسَارَةُ وَأُمُّ مُوسَى وَهَاجَرُ وَآسِيَةُ وَمَرْيَمُ
ترجمہ: عورتوں میں جن کو نبوت ملی، ان کی تعداد چھہ ہے:
(۱) حواء علیہا السلام
(۲) سارہ علیہا السلام
(۳) سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی والدہ
(۴) سیدہ ہاجرہ علیہا السلام
(۵) آسیہ علیہا السلام
(۶) مریم علیہا السلام
[فتح الباري لابن حجر، جلد ۶، صفحہ نمبر ۴۴۷]
۳۔ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الصَّحِيحُ أَنَّ مَرْيَمَ نَبِيَّةٌ لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَوْحَى إِلَيْهَا بِوَاسِطَةِ الْمَلَكِ
ترجمہ: اور صحیح یہ ہے کہ مریم علیہا السلام نبیہ تھیں، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی جانب فرشتے کے ذریعے وحی بھیجی۔
[تفسير القرطبي، جلد ۵، صفحہ نمبر ۱۲۸]
۴۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے "الملل والنحل” میں اس پر تفصیل سے بحث کی ہے اور یہی نتیجہ اخذ کیا ہے۔ [الملل والنحل، جلد ۵، صفحہ نمبر ۱۹۹]
۵۔ یہی موقف تاج الدین السبکیؒ نے بھی ذکر کیا [فتاوى السبكي في فروع الفقه الشافعي، جلد ۱، صفحہ نمبر ۷۱، تفسير الألوسي، جلد ۲، صفحہ نمبر ۱۴۹]
۱۔ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قَوْلُهُ وَلَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا آسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ وَمَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ اسْتَدَلَّ بِهَذَا الْحَصْرِ عَلَى أَنَّهُمَا نَبِيَّتَانِ لِأَنَّ أَكْمَلَ النَّوْعِ الْإِنْسَانِيِّ الْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الْأَوْلِيَاءُ وَالصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ فَلَوْ كَانَتَا غَيْرَ نَبِيَّتَيْنِ لَلَزِمَ أَلَّا يَكُونَ فِي النِّسَاءِ وَلِيَّةٌ وَلَا صِدِّيقَةٌ وَلَا شَهِيدَةٌ وَالْوَاقِعُ أَنَّ هَذِهِ الصِّفَاتِ فِي كَثِيرٍ مِنْهُنَّ
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "عورتوں میں سوائے فرعون کی بیوی آسیہ کے اور مریم بنت عمران علیہما السلام کے کسی نے کمال حاصل نہ کیا !”
اس (دو افراد کی) تخصیص سے یہ استدلال نکلتا ہے کہ یہ (دونوں) پیغمبر تھیں کہ انسانوں میں سب سے باکمال انبیاء، پھر اولیاء و صدیقین اور شہداء ہیں۔ اگر یہ دونوں پیغمبر نہیں ہیں، تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ عورتوں میں ولیہ و صدیقہ و شہیدہ موجود ہی نہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ایک کثیر تعداد میں یہ صفات موجود ہیں۔
[فتح الباري لابن حجر، جلد ۶، صفحہ نمبر ۴۴۷]
۲۔ امام اشعری رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ آپؒ نے فرمایا:
أَنَّ من النِّسَاء من نبىء وَهُنَّ سِتٌّ حَوَّاءُ وَسَارَةُ وَأُمُّ مُوسَى وَهَاجَرُ وَآسِيَةُ وَمَرْيَمُ
ترجمہ: عورتوں میں جن کو نبوت ملی، ان کی تعداد چھہ ہے:
(۱) حواء علیہا السلام
(۲) سارہ علیہا السلام
(۳) سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی والدہ
(۴) سیدہ ہاجرہ علیہا السلام
(۵) آسیہ علیہا السلام
(۶) مریم علیہا السلام
[فتح الباري لابن حجر، جلد ۶، صفحہ نمبر ۴۴۷]
۳۔ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الصَّحِيحُ أَنَّ مَرْيَمَ نَبِيَّةٌ لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَوْحَى إِلَيْهَا بِوَاسِطَةِ الْمَلَكِ
ترجمہ: اور صحیح یہ ہے کہ مریم علیہا السلام نبیہ تھیں، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی جانب فرشتے کے ذریعے وحی بھیجی۔
[تفسير القرطبي، جلد ۵، صفحہ نمبر ۱۲۸]
۴۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے "الملل والنحل” میں اس پر تفصیل سے بحث کی ہے اور یہی نتیجہ اخذ کیا ہے۔ [الملل والنحل، جلد ۵، صفحہ نمبر ۱۹۹]
۵۔ یہی موقف تاج الدین السبکیؒ نے بھی ذکر کیا [فتاوى السبكي في فروع الفقه الشافعي، جلد ۱، صفحہ نمبر ۷۱، تفسير الألوسي، جلد ۲، صفحہ نمبر ۱۴۹]