خلاصہ قرآن پارہ نمبر 1 از علامہ ابتسام الہٰی ظہیر
خلاصہ قرآن پارہ نمبر 1 از علامہ ابتسام الہٰی ظہیر
پہلے پارے کا آغاز سورہ فاتحہ سے ہوتا ہے۔اس سورہ کو ام ا لکتاب بھی کہا جا تا ہے۔حدیث پا ک کے مطا بق سورہ فا تحہ میں ا للہ تعالی نے تما م ا مراض کی شفا ر کھی ہے۔ سورہ فاتحہ کا آغازبسم ا للہ سے ہوتا ہے۔بسم ا للہ کی تلاوت کے ذریعے اس بات کا ا ظہا ر کیا جاتا ہےکہ ہم ہر کام کا آغازا للہ کے نام کے ساتھ کرتے ہیں جو نہایت مہربان اور بہت ر حم فرمانے والا ہے۔بسم اللہ کے بعد سورہ فاتحہ میں اللہ کی حمد اور ثنا کا بیان ہے کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں جو کہ مہربان اور بہت زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔ اس کے بعد اس بات کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی یوم جزا کا مالک ہے ۔ یوم جزا ایک ایسا دن ہے جس میں جزا اور سزا کا صحیح اور حقیقی فیصلہ ہوگا۔ ہر ظالم کافر اور غاصب کو اپنے کیے کا جواب دینا پڑےگا۔ اس کے بعد سورہ فاتحہ میں اس عقیدہ کا اظہار کیا گیا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرنے والے اور تجھ ہی سے مدد مانگنے والے ہیں۔اس کے بعد اللہ تعالی سے سیدھے راستے کی طلب کی گئی ہے جو کہ ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ کا انعام ہوا اور ان لوگوں کا راستہ نہیں جو اللہ کے غضب کا نشانہ بنے یا گمراہ ہوئے۔
سورہ فاتحۃ کے بعد سورہ بقرہ ہے۔ سورہ بقرہ کے آغاز میں تین گروہوں کا ذکر کیا گیا۔ ایک ایمان والوں کا گروہ ہیں جن کا اللہ ، یوم حساب ، قرآن اور سابقہ کتب پر ایمان ہے اور جو نمازوں کو قائم کرنے والے اور زکوہ ادا کرنے والے ہیں۔ دوسرا گروہ کافروں کا گروہ ہے جو کسی بھی طور پر ایمان اور اسلام کے راستے کو اختیار کرنے پر تیار نہیں۔ تیسرا گروہ منا فقین کا گروہ ہے جو بظاہر تو ایمان کا دعویدار ہے لیکن ان کے دلوں میں کفر چُھپا ہوا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ جو لوگ رسولﷺ پر نازل ہونے والی کتاب کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں ان کو چاہیے کہ قرآن کی کسی سورت جیسی کوئی سورت لے کر آئیں۔اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو انہیں چاہیے کہ اس آگ سے ڈر جاہیں جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔اس پارے میں اللہ تعالی نے انسانوں کے جد امجد جناب آدم کی پیدائش کا ذکر کیا ہے۔ آدم کی پیدائش کا واقعہ ان تمام سوالوں کا جواب پیش کرتا ہے کہ انسان کی پیدائش کب کیوں اور کیسے ہوئی۔انسانوں کی تخلیق سے قبل زمین پر جنات آباد تھے ۔جنہوں نے زمین پر سر کشی اور بغاوت کی ،جسے کچلنے کے لیے اللہ تعالی نے فرشتوں کی ایک جماعت کو کہ جس میں ابلیس بھی شامل تھا روانہ کیا۔ابلیس اگرچہ گروہ جنات سے تھا لیکن مسلسل بندگی کی وجہ سے وہ فرشتوں کی جماعت میں شامل ہو گیا تھا۔اس بغاوت کو کچلنے کے بعد ابلیس کے دل میں ایک خفیہ تکبر کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ جس سے اللہ علیم وقدیر پوری طرح آگاہ تھے۔اللہ تعالی نے اس موقع پر انسانوں کی تخلیق کا فیصلہ فرمایا اور فرشتوں سے مخاطب ہو کر کہا میں زمین پر ایک خلیفہ پید ا کرنے والا ہوں۔ فرشتے اس سے قبل پر زمین پر جنات کی یورش دیکھ چکے تھے؛چنانچہ انہوں نے کہا کہ اے اللہ تو زمین پر اسے پیدا کرےگا جو خون بہائے گا اور فساد پھیلائے گا جب کہ ہم تیری تعریف اور تقدیس میں مشغول رہتے ہیں۔اللہ نے کہا کہ جو میں جانتا ہو ں تم نہیں جانتے ۔اللہ نے آدمی کو مٹی سے بنا نے کے بعد ان کو علم کی دولت سے بہرہ ورفرمایا اوران کو اشیاء کے ناموں سے آگاہ کر دیا۔ اس کے بعد فرشتوں اور آدم علیہ السلام کو جمع کر کے بعض اشیاء کے ناموں کے بارے میں ان سے سوالات کیے، چونکہ فرشتے ان اشیاء سے بے خبر تھے اس لیے انہوں نے اللہ کی پاکیزگی کا اعتراف اور اپنی عاجزی کا اظہار کیا۔اللہ نے آدم کو ان اشیاء کا نام بتلانے کا حکم دیا تو انہوں نے ان اشیاء کے نام فورا بتلا دیئے۔اللہ نےفر شتو ں کو مخا طب ہو کر فرمایاکہ کیا میں نے تم کو نہیں کہا تھاکہ میں زمین و آسماں کی پو شید ہ با تو ں کو جا نتا ہوں اور جوتم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو اس کو بھی جانتا ہوں ۔ جب آدمی کی فضیلت ظاہر ہو گئی تو اللہ تعالی نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کے سامنے جھک جائیں۔ فرشتوں میں چونکہ سر کشی نہیں ہوتی اس لیے تمام فرشتے آدم کے سامنے جھک گئے۔تاہم ابلیس نے آدم کی فضلیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔اس تکبر پراللہ تعالی نے ابلیس کو ذلیل و خوار کرکے اپنی رحمت سے دور فرما دیااور آدم کو اُن کی اہلیہ کے ساتھ جنت میں آباد فرمایا۔ ابلیس نےاس موقع پر اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ رہتی دنیا تک آدم اور اُن کی ذریت کو راہ ہدایت سے بھٹکانے کے لیے سرگرم رہےگا۔ جب اللہ تعالی نے آدم کو جنت میں آباد فرمایا تواُن کو ہر چیز کھانے پینے کی اجازت دی مگر ایک مخصوص درخت کے قریب جانے اور اس کا پھل کھانے سے روک دیا۔ ابلیس جو کہ آتش انتقام میں جل رہا تھا۔ اس نے آدم اور جناب حوا علیہا السلام کے دل میں وسوسہ ڈالاکہ آپ کو شجر ممنوعہ سے اس لیے روکا گیا ہے کہ کہیں آپ کو ہمیشہ کی زندگی حاصل نہ ہو جائے۔آدم اور اُ ن کی اہلیہ حوا علیہا السلام وسوسے میں مبتلا ہو کر شجر ممنوع کے پھل کو کھا لیتے ہیں۔اللہ تعالی اس پر خفگی کا اظہار فرماتے ہیں اور ان سے لباس جنت اور جنت کی نعمتوں کو چھین لیتے ہیں اور ان کو جنت سے زمین پر اتار دیتے ہیں۔آدم اور حوا علیہا السلام جب معا ملے پر غور کرتے ہیں تو انتہائی نادم ہوتےہیں اللہ تعالی کی بارگاہ میں آ کر دعا مانگتے ہیں۔اے ہمارے پروردگار! ہم نےاپنی جانو ں پر ظلم کیا ہے اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیاتو ہم یقینا خسارہ پانے والے میں سے ہو جاہیں گے۔آدم اور حوا علیہا السلام جب اللہ کی بارگا ہ میں فریاد کرتے ہیں تو اللہ ان کی خطا کومعاف فرما دیتے ہیں۔اور ساتھ ہی اس امر کا بھی اعلان کرتےہیں کہ زمین پر رہو میں تمھارے پاس اپنی طرف سے ہدایت کو بھیجوں گا۔پس جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرےگا نہ اس کو غم ہو گا نہ خوف۔اب اگر آدم کی نسل کامیاب ہونا چاہتی ہے اور اسے اللہ تعالی کے احکامات پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔اس پارہ میں اللہ تعالی نے یہودیوں پر اپنے احسانات اور انعامات کا ذکر بھی کیا ہے اور ان کی نافرنیوں اور ناشکریوں کا بھی۔اللہ تعا لی فرماتے ہیں کہ انہوں نے بنی اسرائیل پر من و سلوی کو نازل فرمایاا ن کو رزق کی تگ و دوکرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔اس طرح اللہ تعالی نے ان پر بادلوں کو سایہ فگن فرما دیا اور ان کو دھوپ سے محفوظ فرما دیا۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے لیے اللہ تعالی نے بارہ چشموں کو جاری فرما دیا۔لیکن ان تمام نعمتوں کو حاصل کرنے کے بعد بھی وہ اللہ تعالی کی نافرمانی اور نا شکری کرتے رہے۔اس پارے میں اللہ تعالی نے جناب ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کا بھی ذکر کیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے اپنے اسماعیل علیہ السلام کے ہمراہ اللہ تعالی کی بندگی کے لیے اللہ تعالی کے گھر کو تعمیر فرمایا۔تعمیر فرمانے کے بعد آپ نے دعا مانگی اللہ تعالی ہمارے عمل کو قبول فرما بے شک تو سننے اور جاننے والاہے۔آپ نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں یہ دعا بھی مانگی اے اللہ ! اہل حرم کی رہنمائی کے ایک ایسا رسول بھی مبعوث فرما جو ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاک کرے۔ اللہ تعالی نے جناب ابراہیم کی دعا قبول فرما کر جناب رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرمایا۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں پہلے پارے کے مضامین کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین!