کیا واقعتاً کوئی اسم الہی اسم اعظم ہے؟ تحریر:طفیل ہاشمی
اسم اعظم اور اس کے ساتھ وابستہ ساری روایت یہودیت سے آئ ہے بلکہ ان کے ہاں "اھیا شراھیا” اسم اعظم ہے جس کا عربی مترادف حیی و قیوم ہے.
اسم اعظم کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں ہیں
مثلاً اسم اعظم کے ذریعے مانگی ہوئی ہر دعا قبول ہو جاتی ہے
ایسا ہرگز نہیں، مثلاً آپ دعا کریں کہ، آپ خدا بن جائیں، ستارہ ہو جائیں، آپ کا بیٹا عمر میں آپ سے بڑا ہو جائے، رمضان کی دس تاریخ کو ہی عید کا چاند نظر آ جائے….. ایسا کچھ نہیں ہو سکتا
یہ بھی غلط ہے کہ اسم اعظم اللہ نے چھپا کر رکھا ہوا ہے اور اپنے خاص بندوں کو بتاتا ہے
یہ انسانی بخل کو اللہ کی طرف منسوب کرنے کی بات ہے،
اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو شے جتنی اہم ہوتی ہے اتنی عام ہوتی ہے. دعا کی بے پناہ تاکید ہے، اگر اس کا کوئی پروٹوکول ہے تو وہ سورہ فاتحہ کی ابتدائی آیات ہیں، اس لیے اگر کوئی نام اسم اعظم ہے تو سورہ فاتحہ کے ابتدا میں ہے.
ایک عمومی تاثر کتاب و سنت سے یہ ملتا ہے جو فطری ہے کہ جو چیز اللہ سے مانگنی ہو اس کے مناسب أسماء حسنی کا انتخاب کر کے اسے پکاریں، مثلاً معافی کے لیے غفور، عفو اور تواب ہی کہا جائے گا نہ کہ قہار، منتقم وغیرہ.
دعا کے لیے عاجزی اور سرگوشی دو ایسے آداب ہیں جو قرآن نے بتائے ہیں.