کیا کعبہ اپنے اصل مقام پر نہیں ہے؟ اعتراضات اور اُن کےجواب
کیا کعبہ واقعی مکہ میں تھا؟ کیا مکہ کبھی کوئی شہر بھی تھا؟
کئی رومن اور یونانی جغرافیہ دانوں اور تاریخ دانوں نے عرب کا سفر کیا اور اس کے بارے میں لکھا لیکن کسی نے بھی مکہ کا ذکر نہیں کیا۔ نبونیڈس (Nabonidus) پانچویں صدی قبل مسیح کا ایک بابلی بادشاہ ہے، جو خطہ عرب میں کئی دفعہ آیا اور یہاں اپنی بادشاہت قائم کی۔ مدینہ کے مشرق میں ایک علاقہ جسے تیما کہا جاتا تھا، اس کے حوالے سے اس کا سفر ایک نظم کی شکل میں موجود ہے۔ اس نے تیما کے بادشاہ کو قتل کرکے وہاں پر اپنی سلطنت قائم کی۔ اس کے بعد اس نے حجاز کے شہر مدینہ اور خیبر کو بھی فتح کیا۔ اس کی تمام تر کہانی میں مکہ شہر کے نام کا ذکر تک نہیں ہے۔
بانچویں صدی قبل مسیح کا ایک تاریخ دان ہیروڈ و ٹس (Herodotus) ایک کتا ب لکھتا ہے، جس کا نام ہی “تاریخ” ہے۔ اس میں وہ عرب کے بارے میں لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ جنوب میں عرب نام کا ایک نیا علاقہ آباد ہوا ہے کہ جہاں بخور ، لوبان ، دار چینی اور افیون پیدا کی جاتی ہے ۔ اس میں اس نے کئی شہروں کو ذکر کیا مگر مکہ کا نہیں۔ اس سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ عرب اگر 2000 قبل مسیح میں حضرت ابراہیم کے ہاتھوں آباد ہوا ہوتا تو ہسٹری لکھنے والا کبھی یہ نہ کہتا کہ عرب نام کا کوئی علاقہ نیا نیا آباد ہوا ہے۔ تھیو فراسٹس (Theophrastos’) چوتھی صدی قبل مسیح نے یمنی اور عربی علاقوں اور ان کے کلچر کے بارے میں کئی جگہ لکھا مگر اس نے بھی مکہ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ایراستھونیس(Eratosthenes) تیسری صدی قبل مسیح نے بحیرہ احمر کے ساتھ موجود عربی معاشروں کا ذکر کیا ہے لیکن مکہ کا نام نہیں لیا، بلکہ جہاں آج مکہ آباد ہے، اس سارے جغرافیے کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ یہ جگہ ابھی تک مکمل طور پہ غیر آباد ہے۔
سکندر اعظم کی خواہش تھی کہ وہ عرب علاقوں پہ قبضہ کرے اور اس سلسلے میں اس نے چار عد د جاسوسی قافلے بھیجے،جن کا کام عرب کی ثقافت، ان کی فوجی صلاحیتیں، ان کاکاروبار اور نان نفقہ اور تمام تر راستوں کی جانکاری حاصل کرنا تھا۔ سکندر اعظم کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ حملہ کرنے سے پہلے اس جگہ کی تفصیلی جانکاری لیا کرتا تھا۔ اس کے چار عدد بھیجے گئے جاسوسی قافلوں کا ریکارڈ تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ سب سے زیادہ اہمیت انیکسی کریٹ (Anaxicrates) کو دی جاتی ہے، جس نے باقاعدہ راستوں کو بھی ماپا تھا، اور اس کا کام بعد میں آنے والے کئی تاریخ دانوں کے لیئے بہت مفید ثابت ہوا۔ایگتھرچی(Agatharchides) دوسری صدی قبل مسیح میں عرب شہروں کے بارے میں لکھتا ہےاور بحیرہ احمر کے ساتھ تمام تر عبادت گاہوں کا ذکر کرتا ہے لیکں مکہ یا کعبہ کا ذکر نہیں کرتا۔ سٹرابو (Strabo) پہلی صدی قبل مسیح میں وسطی اور مغربی عرب کے تمام قبیلوں اور شہروں کا ذکر کرتا ہے مگر مکہ کا نہیں۔
رومیوں نے 24 قبل مسیح میں ایک فاتح گیلس (Aelius Gallus) کو عرب اور اس سے ملحقہ علاقوں پہ قبضے کے لیے بھیجا۔ اس کی تمام تر فتوحات میں عرب کے باقی کئی شہروں کا تو ذکر ہے، لیکن مکہ نام کے کسی شہر کا ذکر نہیں۔ صحرا میں اگر کوئی نخلستان ہو تو سب کو اس کا پتہ ہوتا ہے اور وہ ایک قیمتی جگہ مانی جاتی ہے۔قبضہ کرنے والے ایسی جگہوں کو نہیں چھوڑتے۔ پلائنی (Pliny) نے پہلی صدی عیسوی میں عرب کے اندر 92 قبیلوں اور 62 شہروں کا ذکر کیا لیکن مکہ کا نام تک نہیں لیا اور زبردست بات یہ کہ اس نے جورہم قبیلے کا بھی کوئ ذکر نہیٰں کیا۔ ٹالمی (Ptolemy) ، جس نے دنیا کے نقشہ جات بنائے، اس نے پہلی صدی عیسوی میں عرب کے 114 شہروں کا جغرافیہ بتایا لیکن اس میں مکہ کا کہیں ذکر نہیں۔ ٹالمی نے اک شہر مکارابہ (macaraba) کا ذکر کیا ہے جسے کچھ مسلمان نام کی مماثلت کی وجہ سے مکہ سمجھتے ہیں،لیکن ٹالمی کے مکارابہ کا جو حدوداربعہ بیان کیا گیا ہے، وہ مکہ کے حدود اربعہ سے یکسر مختلف ہے۔
آرکیالوجی یا کسی بھی قسم کی ہسٹری کے ریکارڈ میں مکہ کا ذکر نہیں مل رہا۔ ہاں ملتا ہے تو صرف اور صرف اسلامی تاریخی کتابوں میں، جو آٹھویں نویں صدی سے لکھنا شروع ہوئیں یا پھر قرآن میں اس کا ذکر ملتا ہے ۔ مسلمان اگر ہسٹری میں اسے کہیں ملانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس میں ایک ٹالمی کے مکارابہ کا ذکر ہے، جس کے بارے میں بیان کیا جاچکا ہے۔
دوسرا وہ Diodorus Siculus ڈیوڈورس جو ایک تاریخ دان ہے،جس نے عرب کے اپنے سفر، جو اس نے پہلی صدی قبل مسیح میں کیا تھا اور لکھا تھا کہ وہاں اس نے ایک عبادت گاہ دیکھی جو لوگوں کے لیے بہت مقدس تھی۔ اس بات کو مومنین ثبوت کے طور پر بیان کرتے ہیں لیکن ساتھ میں بدنیتی یہ کرتے ہیں کہ اس کی اس بات کو سیاق و سباق میں پڑھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس نے جس علاقے کا ذکر کیا اور اس علاقے کی جو خصوصیات بتائیں، ان میں سے ایک بھی مکہ سے نہیں ملتیں اور دوسرا یہ کہ اس نے علاقے میں بسنے والوں کو بنیزومیں کے نام سے بتایا ۔ لیکن اگر اسے سچ بھی مان لیا جائے تو یہ واقعہ پہلی صدی عیسوی کا ہے، اس سے پہلے 2000 سال میں مکہ کا کچھ پتہ نہیں۔ تیسرا، مسلمان اسے بائبل کے اندر موجود ایک نام بکا (bacca) سے ملاتے ہیں۔اگر بکا کے ساتھ شامل سابقے لاحقے میں تمام آیات کو غور سے پڑھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں یروشلم کا ذکر کرتے ہوئے ایک وادی، جس میں ایک مخصوص پھول ” بکا ” لگتےہیں، اس کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
قارئین، قرآن، تاریخ، اور احادیث کی کتابوں میں اس شہر کی جو تفصیلات دی گئی ہیں وہ مکّہ پر نہیں بلکہ “پترا” پر فٹ آتی ہیں۔ مثلا قرآن اسے “شہروں کی ماں” یعنی قدیم شہر کہتا ہے۔ نیز یہ شہر ایک وادی میں ہے جس کے نزدیک ایک اور وادی ہے. ابن اسحاق، طبری، اور حدیث کے اماموں نے شہر کے نزدیک پہاڑوں، وادی میں سبزہ، چکنی مٹی، زرخیز زمین، ندی، درختوں، پھلوں (انگوروں)، ایک حصے کا بلند اور دوسرے حصے کا نشیب میں ہونا اور دونوں اطراف سے سڑکوں کا شہر میں داخل ہونا، اور شہر کا تجارتی گزرگاہ کے راستے میں ہونا بیان کیا ہے. یہ خصوصیت پترا میں تو موجود ہیں، مکّہ میں نہیں. رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اور ان کی وفات کے سو سال بعد تک جتنی مسجدیں تعمیر ہوئیں ان کا رخ نہ تو یروشلم یعنی بیت المقدس کی طرف تھا اور نہ ہی موجودہ مکّہ کی طرف. ان کا رخ پترا کی طرف ہے. جس کعبہ میں عبداللہ ابن زبیر نے پناہ لی اور حجاج بن یوسف نے پتھر برسائے وہ بھی پترا میں ہے.
تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سن ٤٠٠ عیسوی سے پہلے مکّہ شہر کا کوئی وجود ہی نہ تھا- لھذا ابراہیم یا اسماعیل علیہ السلام کبھی مکّہ نہیں گئے. پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش پترا میں ہوئی تھی جو کہ عربوں کا قدیم ترین شہر ہے. قرآن میں جس کعبہ کا ذکر ہے وہ بھی پترا میں تھا. نیز قرآن میں اس شہر کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں وہ بھی صرف پترا پر فٹ آتی ہیں، مکّہ پر نہیں. مکّہ میں خانہ کعبہ کی تعمیر ٩٠٠ عیسوی یعنی پیغمبر اسلام کی وفات کے کوئی ٢٠٠ سال بعد ہوئی اور یہ عباسیوں کا دور تھا. انہوں نے حجر اسود کو پترا والے کعبہ سے نکال کر مکّہ والے نئے کعبہ میں لگا دیا. کچھ عرب قبیلوں کو یہ جعل سازی پسند نہیں آئ اور انہوں نے طاہر قرامطی کی سربراہی میں مکّہ پر چڑھائی کر دی، حاجیوں کو قتل کر دیا، کعبہ کو مسمار کر دیا، اور حجر اسود کو اغوا کر لیا. حجر اسود ٢٣ سال تک قرامطیوں کے قبضے میں رہا اور اس دوران مکّہ میں حج نہ ہو سکا. عباسی خلیفہ نے بھاری تاوان ادا کرکے حجر اسود کو رہا کرایا. لیکن واپسی سے پہلے قرامطیوں نے حجر اسود کے ایک درجن ٹکڑے کر دئیے۔
یقینا پیش کردہ دلائل بہت حیرت انگیز اور چونکا دینے والے ہیں۔ لیکن ان سے یہ ہی لگتا ہے کہ کعبہ مکہ میں نہیں بلکہ پترا میں تھا۔ پترا میں موجود کعبہ کو ڈھا دیا گیا اور تاریخ کے ساتھ ایک شدید کرپشن کی گئی۔ آج خدا کا گھر موجود تو ہے مگر شاید اپنے اصل مقام پر نہیں۔
عرض مصنف: یہ تمام دلائل و ثبوت تاریخ کے مطالعہ سے اکٹھے کئے گئے ہیں اور اس تحریر کو ایک تاریخی مضمون کے طور پر ہی لیا جائے۔ اگر کوئی محقق اس کے جواب میں دلائل پیش کریں تو ہمیں نیا سیکھنے کو ملے گا۔ شاید یہ ہی “مکالمہ” کا مقصد بھی ہے۔
جوابات
کیا کعبہ “واقعی” اپنے اصل مقام پر نہیں ہے؟
محمد حسنین اشرف
مکہ کے متعلق یہ بحث ایک عرصہ سے جاری ہے لیکن افسوس کہ ہمیشہ تاریخ کا ایک رخ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ڈین گبسن کی کتاب “قرانک جیالوجی” میں اس نے کافی اعتراضات کئے اور مکہ کو “پترا” ثابت کرنے کی کوشش کی۔ انکے نزدیک اصل میں وہ جگہ پترا تھی نہ کہ مکہ جہاں بنی اسماعیل آباد ہوئے اور محمد رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ مکالمہ پر چھپنے والی اس موضوع پر تحریر میں اسی کتاب سے اقتباسات اور دعوی جات کو بنیاد بنا یا گیا ہے۔ مکہ اور پترا کی تہذیبوں کا موازنہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ موجودہ مکہ اصل میں پترا نہیں تھا۔ خیر میں یہ بحث کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتا ہوں ابھی کے لئے بہت اختصار سے مکالمہ پر شائع کردہ تحریر میں کئے دعویٰ جات پر کلام کرنے کی کوشش کرونگا۔ ( مذکورہ تحریر کا لنک: https://www.mukaalma.com/7686
فاضل دوست نے جن لوگوں کے نام اور حوالہ جات دئیے ہیں ان میں سے بہت کم لوگ اسفار کرنے والے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے اپنے مجموعہ جات کو صرف اور صرف دوسرے لوگوں کی معلومات کی بنیاد پر ترتیب دیا ہے۔ مثال کے طور پر “ٹالمی” نے جس نقشہ کو بنایا اور جس “مکرابہ” کا ذکر کیا، اسکو اس نے پہاڑیوں سے بہت دور نکال کر رکھا ہے، اور مکہ پہاڑوں کے درمیان گھرا ہوا تھا۔ ٹالمی پر سب سے بڑی کی جانے والی تنقید اصل میں یہی تھی کہ اسکی معلومات کا ماخذ سفر کرنے والے لوگ اور قافلے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اگر کسی نے ذکر کیا تو اسے نقشے پر بہت آگے پیچھے رکھ دیا اور اگر کسی نے ذکر نہیں کیا تو اسکی زیادہ اہم وجہ اسکا خود سفر کرکے علاقوں کو نہ دیکھنا بھی تھا۔ ٹالمی نے آئر لینڈ کا جو نقشہ بنایا تھا اسکی ڈی کوڈنگ کی گئی ہے اور اس پر جو تبصرہ کیا گیا ہے اسکے الفاظ کچھ یوں ہیں:
Claudius Ptolemy (roughly AD 90168) presents us the oldest surviving account of Ireland in the form of a set of coordinates showing different geographical features or a ‘virtual map’. While Ptolemy’s map looks roughly like today’s Ireland there are a number of discrepancies. Likewise, while some locations are obvious, others are disputed or obscure.
یہ اقتباس فاضل کو اس بات کا احساس دلانے کو کافی ہوگا کہ مکارابہ کو نقشہ پر درست جگہ کیوں نہی رکھا گیا۔ آپ اگر ٹالمی کے نقشہ کو دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مکارابہ کو وہ پہاڑی ٹیلوں سے کچھ آگے لے آیا ہے جبکہ اسکی جگہ پہاڑی ٹیلوں کے پاس ہے۔ مکارابہ پر زیادہ زور دینے کی وجہ جرمن مورخ “ایڈورڈ گلاسر” ہیں جنکے نزدیک یہ عربی کے لفظ” مکراب” سے ہوسکتا ہے۔ جسکا معنی بڑا معبد ہوسکتا ہے۔
اگر آپ “ہیروڈٹس” کی ہسٹریز کو اٹھائیں اور اسکا باب کھولیں جہاں اس نے عرب کے علاقوں پر بحث کی ہے تو اصل میں، اس نے صرف ان چیزوں کا ذکر کیا ہے جس سے اسے واسطہ پڑا، یعنی وہاں وہ پورے جزیرہ نمائے عرب کو بیان نہی کررہا، بلکہ وہ صرف اور صرف چند علاقوں کو انکی خصوصیات کی بنا پر بیان کر رہا ہے۔ اسکے علاوہ تمام بادشاہ یا جاسوس چونکہ کسی نقشہ کی تعمیل یا سیاحت کی غرض سے نہیں نکلے تھے اس لئے انہوں نے صرف ان چند علاقوں کا تذکرہ کیا جو انہوں نے فتح کئے یا جہاں سے انکا گذر ہوا۔
اسکے بعد ڈی اورڈس سکولس نے بھی عرب میں ایک معبد کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے:
The inhabitants of the land about the gulf, who are known as Banizomenes, find their food by hunting the land animals and eating their meat. And a temple has been set up there, which is very holy and exceedingly revered by all Arabians.
فاضل دوست نے دعویٰ کیا ہے جو کہ اصل میں “ڈین گبسن” کا ہی دعویٰ ہے کہ یہ اصل پترا کی نشاندہی کروائی گئی ہے۔ حالانکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ پترا کے باشندوں کو “بانیزہمینز ” نہیں کہا جاتا تھا بلکہ وہ تو “نباتیان” تھے۔ اور انہیں اسی نام سے ہیروڈٹس نے بھی لکھا ہے۔ تو صاف ظاہر ہے کہ “ڈی اورڈس” جس قوم کا نام لے رہے ہیں وہ پترا کی رہنے والی نہیں ہے۔” ڈکشنری آف گریک اینڈ رومن جیو گرافی” میں “ویلم سمتھ” نے ان باشندوں کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
. BANIZOMENES a maritime tribe of the western coast of Arabia, towards the north of the Red Sea, situated next to the country of the Nabataei.
اور اسکے بعد اس نے پھر “سکولس” کا حوالہ دے کر ساری بات کو واضح کیا ہے اور یہ بات بہت واضح کردیتی ہے کہ اصل میں یہ سکولس جسکی طرف اشارہ کر رہا تھا وہ پترا نہی مکہ ہی تھا۔
اس پر “ایڈورڈ گبن” ایک اور مورخ کی گواہی میری بات کو مزید تقویت دیتی ہے وہ لکھتے ہیں:
The genuine antiquity of “Caaba” ascends beyond the Christian era: in describing the coast of the Red sea the Greek historian “Diodorus” has remarked, between the Thamudites and the Sabeans, a famous temple, whose superior sanctity was revered by all the Arabians; the linen or silken veil, which is annually renewed by the Turkish emperor, was first offered by the Homerites, who reigned seven hundred years before the time of Mohammad.
“— Edward Gibbon, Decline And Fall Of The Roman Empire, Volume V, pp. 223–24”
رہی بات “بکا” کی، تو بکا کی وجہ تسمیہ جو صاحب تحریر نے بیان کی ہے وہ انتہائی ناقص ہے۔ “عبدالستار غوری” صاحب نے اس پر ایک لمبی بحث کردی ہے کہ بکا کی وجہ تسمیہ کیا تھا۔ اسمیں ایک وجہ اسکا دو پہاڑوں کے درمیان ہونا بھی ہے۔
عربی زبان کی ایک مشہور لغت ’لسان العرب‘ میں اس کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے:
قال یعقوب: بَکَّۃُ ما بین جبلی مَکَّۃ لأن الناس یبکُّ بعضہم بعضًا فی الطواف أی یَزْحَمُ؛ (…) وقیل: بَکۃ اسم بطن مَکّۃ سمیت بذلک لازدحام الناس. وفی حدیث مجاہد: من أسماء مَکّۃَ بَکّۃُ، قیل: بَکّۃُ موضع البیت ومکۃُ سائر البلد، وقیل: ہما اسما البلدۃ، والباء والمیم یتعاقبان.۴۷
یعقوب کہتا ہے: بَکَّہ وہ ہے جو مَکّے کے دوپہاڑوں کے درمیان واقع ہے، کیونکہ لوگ طواف کے دوران میں یہاں ایک دوسرے کو کچل دیتے تھے یا یہاں بہت زیادہ ہجوم ہو جاتا تھا ۔(…)۔ کہا جاتا ہے کہ بَکَّہ اندرون مَکّہ کا نام ہے اور اسے یہ نام لوگوں کی وہاں بہت بھیڑ ہو جانے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ مجاہد کی روایت میں بیان کیا گیا ہے ’بَکَّہ مَکّہ کے ناموں میں سے ہے‘ اور کہا جاتا ہے: ’بکّہ خانۂ خدا کا محل وقوع ہے اور مکّہ پورے شہر کا نام ہے۔‘ یہ بھی کہا گیا ہے [بَکَّہ اور مَکّہ] دونوں ہی اس شہر کے نام ہیں اور’ب‘ اور’م‘ [حروفِ ابجد] ایک دوسرے کی جگہ آتے ہیں۔
انسائیکلو پیڈیا برطانیہ ان الفاظ میں اسے بیان کرتا ہے:
before the rise of Islam it was revered as a sacred sanctuary and was a site of pilgrimage.
چونکہ وہاں فاضل دوست نے قران کی آیات اور احادیث بیان نہیں کیں اسلئے میں ان آیات اور احادیث کو بیان کرنا درست نہی سمجھتا۔ رہی بات مساجد کی تو یہ وہ مساجد ہیں جو مدینہ میں ہیں یا طائف میں ہیں۔ ان مساجد کے قبلہ کے تعین میں جس چیز کو بطور ثبوت ڈین گبسن نے پیش کیا ہے وہ کچھ پرانے نقشہ جات ہیں جنکے ماخذ کا مجھے علم نہیں۔ لیکن اگر آپ نقشے پر دیکھیں تو مدینہ اور پترا کے سنٹر میں مکہ آتا ہے، اور اس دور میں اونٹوں پر ہزاروں میل کا سفر کرنے کے بعد کسی دوسرے علاقے میں بنائی جانے والی مسجد کو آج بیٹھ کر بطور ثبوت پیش کیا جارہا ہے۔ اس ثبوت پر صرف ماتم کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ جب نماز سورج کے رخ کو دیکھ کر پڑھی جاتی تھی، تب قبلہ کے تعین میں غلطی ہونا بہت عام بات ہے۔ یعنی اگر تو وہ جدید آلات کی مدد سے تعین کی گیا ہو تو مانا جاسکتا ہے کہ عین سیدھ میں مکہ کو تھوڑی سائڈ پر چھوڑ کر پترا کو قبلہ بنایا گیا ہے۔ لیکن اگر عقل کام کرتی ہو تو پتہ چلتا ہے کہ مساجد کا رخ بلکل درست نہیں بلکہ اسمیں غلطی ہوئی ہے۔
“اے جے ڈیوس” نے اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے :
” In short, within the margin of error that mosques could be oriented at the time, there is no such pattern as the author claims.
اسکے بعد انہوں نے جتنی باتیں کی وہ سب ایک جاسوسی ناول ہی تھا، جس پر انہیں داد دی جاسکتی ہے لیکن حقائق کو ایسے نہیں پیش کیا جاتا جیسے پیش کیا گیا ہے۔ میں نے ان تمام لوگوں کو جنہیں بطور تائید ڈین گبسن صاحب نے اور انکے اردو مترجم نے پیش کیا تھا چھوڑ دیا تھا تا کہ تحریر کے آخر میں اس پر کلام کیا جاسکے۔ ڈین گبسن کے کام کو جن لوگوں نے دوبارہ دیکھا ہے ان میں سے ایک دو کے تاثرات کیا ہیں وہ خود دیکھ لیں:
پروفیسر “مائکیل لیکر” نے دو ہزار چودہ میں سائنٹفک میگزین میں ان الفاظ میں اس پر تبصرہ کیا ہے:
: “This book’s imaginative writing may have its followers, perhaps even in academic circles. But the study of early Islamic history is better served by small steps, one at a time.”
“اے جے ڈیوس” تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے:
Thus, would Gibson have been just a little bit more careful, or had his work been reviewed by an alert peer, it would have become clear that the evidence provides no grounds to conclude that Petra had a play in Islam. Quite in contrary, one can make a confident case that Petra has nothing to do with the emergence of Islam.
پروفیسر “ڈینل سی” نے “سلک روڈ” میں اس پر تنقید کی اور اسکی کئی غلطیوں کی نشاندہی کی۔
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ڈین گبسن کی تحقیق اور جس انداز میں اسے مترجم نے پیش کیا اسمیں کتنا دم ہے۔ جبکہ ٹالمی اسکا ذکر کر چکا ہے اور اسکے بعد اسکی تصدیق سکولس، گبن اور ایسے کئی مورخین کرچکے ہیں۔ ھذا ما عندی والعلم عندال