سورہ النساء کی آیت ۱۱ کی تفہیم- مسئلہ وراثت
سورہ النساء کی آیت ۱۱ کی تفہیم- مسئلہ وراثت
از: بصیرت حق
ایک محترم کا کہیں ایک کمینٹ پڑھا جس میں اس نے سوال کیا تھا کہ اس آیت کے اس ٹکڑے کے مطابق میری والدہ کو تیسرا حصہ میری ملکیت میں سے ملے گا لیکن میرے والد صاحب کو کچھ بھی نہیں ملے گا کیونکہ میں بے اولاد ہوں ۔۔۔آیت مبارکہ کا ٹکڑا یہ ہے "فَاِنۡ لَّمۡ يَكُنۡ لَّهٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ ؕ” ترجمہ” اگر میت کے وارث اس کے ماں باپ ہوں اس میت کی کوئی اولاد نہ ہو تو اس صورت میں اس میت کی ماں کو ورثہ میں سے ایک ثلث ملے گا ”
اس ٹکڑے کے متعلق اس محترم نے سوال کیا تھا کہ اس کی تفہیم پیش کی جائے ۔میں نے تلاش کیا لیکن مجھے دوبارہ وہ مقام اور کمینٹ نہیں ملا اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ اس کی تفہیم میں اپنے وال پر پیش کردوں ۔
اس کے لیے گذارش ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ سارے حصے وصیت کے بعد ہیں اس لیے آپ اپنی ملکیت کے متعلق جس طرح چاہیں وصیت کرکے جائیں اس میں بیشک آپ پوری ملکیت اپنے والد صاحب کے نام کرکے جاءیں اللہ کا کلام آپ کو اس بات کی اجازت دے رہا ہے ۔دوم یہ کہ اگر آپ وصیت نہیں کرسکے یا کسی بھی رکاوٹ کی وجہ سے آپ کی وصیت نافذ العمل قرار نہیں پاتی تو اس صورت میں یہ قرآن مجید کے مقرر کردہ حصے نافذ ہوںگے اور اس آیت کے مطابق آپ اگر بے اولاد ہیں اور آپ کے وارثوں میں صرف آپ کے والدین یعنی ماں اور باپ ہی وارث ہیں تو آپ کی ملکیت میں سے ثلث آپ کی والدہ کو اور بقایا دو ثلث آپ کے والد کو ملیں گے ۔۔۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بات تو آیت مبارکہ میں ہے کہ ماں کو ثلث ملے گا مگر یہ بات آیت میں کہاں ہے کہ باقی دو ثلث باپ کو ملیں گے یہ کہاں ہے ؟ تو اس کے لیے گذارش ہے کہ یہ بھی اسی آیت کے اسی ٹکڑے میں ہی ہے اور اسی آیت کے ماقبل الفاظ سے بھی ظاہر ہے ۔اسی آیت مبارکہ کے الفاظ کو غور سے پڑھیں اس میں کہا گیا ہے کہ "وورثہ ابواہ” یعنی اس کے وارث اس کے ماں اور باپ ہوں ۔ تو وارث دو ہیں ٹوٹل ملکیت کے اس میں سے ماں کا حصہ بتادیا کہ کل مال میں سے ماں کو تیسرا حصہ ملے گا ۔۔اس سے ظاہر ہے کہ باقی مال کا وارث دوسرا وارث ہے اور وہ باپ ہے جو باقی دو ثلث مال کا وارث ہے ۔ اسی طرح اسی آیت کا ماسبق میں بھی اس بات کو واضح کیا گیا ہے ۔آیت مبارکہ کے یہ الفاظ ہیں "وَلِاَ بَوَيۡهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنۡ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ يَكُنۡ لَّهٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ ؕ فَاِنۡ كَانَ لَهٗۤ اِخۡوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ” ترجمہ”اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ ہے بشرطیکہ میت کے اولاد ہو۔ اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ۔ اور اگر میت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ۔”فتح محمد جالندھری
ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ ماں اور باپ دونوں کی وراثت کا بیان کیا جا رہا ہے اور ساری صورتیں بیان کی جارہی ہیں ۔ اس لیے دو میں سے یا تو دونوں کا مشترکہ حصہ بیان کیا گیا یا صرف ایک یعنی ماں کا حصہ بیاں کیا گیا ، جسے سے باقی فریق کا حصہ خود بخود واضح ہے۔