خلاصہ قرآن پارہ نمبر 1
قرآنِ مجید دعا سے شروع ہوتا ہے جسے فاتحۃ الکتاب یا سورہ فاتحہ کہتے ہیں۔ اس میں خدا کی حمد و ثنا کے بعد اسی کو کارسازِ حقیقی مانتے ہوئے یہ کہلوایا گیا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا (صراطِ مستقیم کیا ہے؟ دیکھیے الانعام 151-153)، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا نہ کہ ان لوگوں کا جن پر تو نے غضب کیا اور نہ ہی گمراہوں کا۔
اس کے بعد سورہ بقرہ شروع ہوتی ہے جو قرآن کی سب سے لمبی سورت ہے۔ اس کا آغاز قرآن کے بارے میں اس اعلان سے ہوتا ہے کہ یہ کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔ یہ پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے، جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ یہ لوگ آپ پر اور آپ سے پہلے جو کچھ نازل کیا گیا ہے، سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ یہی ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور حقیقی کامیابی پانے والے ہیں۔ بے شک جنھوں نے کفر اپنا لیا ہے ان کے لیے آپ کا ڈرانا نہ ڈرانا برابر ہے اور وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے اور ان کے لیے سخت عذاب ہے۔
لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر اور یومِ قیامت پر ایمان لائے حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں۔ وہ اللہ کو اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔ ان کے دلوں میں بیماری ہے، پس اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرو، تو کہتے ہیں: ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ خوب آگاہ ہو جاؤ کہ یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں۔ اور جب وہ (منافق) اہلِ ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ایمان لے آئے ہیں، اور جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم یقینًا تمھارے ساتھ ہیں اور ہم مسلمانوں کا تو محض مذاق اڑاتے ہیں۔ اللہ انھیں ان کے مذاق کی سزا دیتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی۔ یہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں اور یہ راہِ راست کی طرف نہیں لوٹیں گے۔
اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمھیں اور تمھارے پچھلوں کو پیدا کیا تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ اور اگر تم اس کلام کے بارے میں شک میں مبتلا ہو جو ہم نے اپنے بندے حضرت محمد علیہ السلام پر نازل کیا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔ اگر تم ایسا نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اور اے نبی، آپ ان لوگوں کو خوشخبری سنا دیں جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے کہ ان کے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان کے لیے جنت میں پاکیزہ بیویاں بھی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ بے شک اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ سمجھانے کے لیے کوئی بھی مثال بیان فرمائے خواہ مچھر کی ہو یا ایسی چیز کی جو حقارت میں اس سے بھی بڑھ کر ہو۔
اور وہ وقت یاد کیجیے جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، انھوں نے عرض کیا: کیا تو زمین میں کسی ایسے شخص کو نائب بنائے گا جو اس میں فساد انگیزی اور خونریزی کرے گا، حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا: میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ اور اللہ نے آدم کو تمام چیزوں کے نام سکھا دیے۔
اور وہ وقت بھی یاد کیجیے جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار اور تکبر کیا اور نتیجۃً کافروں میں سے ہو گیا۔ اور ہم نے حکم دیا کہ اے آدم، تم اور تمھاری بیوی اس جنت میں رہائش رکھو اور تم دونوں اس میں سے جو چاہو، جہاں سے چاہو کھاؤ، مگر اس درخت کے قریب نہ جانا۔ پھر شیطان نے انھیں اس جگہ سے ہلا دیا اور انھیں اس راحت کے مقام سے جہاں وہ تھے الگ کر دیا، اور بالآخرہم نے حکم دیا کہ تم نیچے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔ اب تمھارے لیے زمین میں ہی ایک معین مدت تک جائے قرار ہے۔ پھر آدم نے اپنے رب سے عاجزی اور معافی کے چند کلمات سیکھ لیے۔ اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔
اللہ نے فرمایا: تم سب جنت سے اتر جاؤ، پھر اگر تمھارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو بھی میری ہدایت کی پیروی کرے گا، نہ ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو میں نے اپنے رسول حضرت محمد علیہ السلام پر اتاری ہے۔ میری آیتوں کو دنیا کی تھوڑی سی قیمت پر فروخت نہ کرو اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔ اور باطل کا رنگ چڑھاکر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو۔ اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کرو۔
کیا تم دوسرے لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم اللہ کی کتاب پڑھتے ہو۔ اور صبر اور نماز کے ذریعے اللہ سے مدد چاہو۔ اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی جان کسی دوسرے کی طرف سے کچھ بدلہ نہ دے سکے گی اور نہ اس کی طرف سے کسی شخص کی کوئی سفارش قبول کی جائے گی۔
اور وہ وقت بھی یاد کرو جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ فرمایا تھا پھر تم نے بچھڑے کو معبود بنا لیا اور تم واقعی بڑے ظالم تھے۔ پھر ہم نے اس کے بعد بھی تمھیں معاف کر دیا تاکہ تم شکرگزار ہو جاؤ۔ اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم، بے شک تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، تو اب اپنے پیدا فرمانے والے رب کے حضور توبہ کرو۔ اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا: اپنا عصا اس پتھر پر مارو، پھر اس پتھر سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے، واقعۃً ہر گروہ نے اپنا اپنا گھاٹ پہچان لیا۔ ہم نے کہا کہ ہمارے عطا کردہ رزق میں سے کھاؤ اور پیو لیکن زمین میں فساد انگیزی نہ کرتے پھرو۔ اور جب تم نے کہا: اے موسیٰ، ہم فقط ایک کھانے یعنی منّ و سلویٰ پر ہرگز صبر نہیں کر سکتے اور آپ اپنے رب سے دعا کیجیے کہ وہ ہمارے لیے زمین سے اگنے والی چیزوں میں سے ساگ اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز پیدا کر دے۔
بے شک جو لوگ ایمان لائے یعنی مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست، جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا، تو ان کے لیے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر ہے۔ ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔
اور وہ واقعہ بھی یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو، تو وہ بولے: کیا آپ ہمیں مسخرہ بناتے ہیں؟ موسیٰ نے فرمایا: اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں۔
اے مسلمانو! کیا تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہودی تم پر یقین کر لیں گے جب کہ ان میں سے ایک گروہ کے لوگ ایسے بھی تھے کہ اللہ کا کلام یعنی تورات سنتے پھر اسے سمجھنے کے بعد خود بدل دیتے حالانکہ وہ خوب جانتے تھے کہ حقیقت کیا ہے اور وہ کیا کر رہے ہیں۔ ان کا حال تو یہ ہو چکا ہے کہ جب اہلِ ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی تمھاری طرح حضرت محمد پر ایمان لے آئے ہیں، اور جب آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تنہائی میں ہوتے ہیں تو مکر جاتے ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ کو وہ سب کچھ معلوم ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں؟ پس ایسے لوگوں کے لیے بڑی خرابی ہے جو اپنے ہی ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے عوض تھوڑے سے دام کما لیں، سو ان کے لیے اس کتاب کی وجہ سے ہلاکت ہے جو ان کے ہاتھوں نے تحریر کی۔ کیا تم کتاب کے بعض حصوں پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو؟ پس تم میں سے جو شخص ایسا کرے اس کی کیا سزا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ دنیا کی زندگی میں ذلت ہو، اور قیامت کے دن بھی ایسے لوگ سخت ترین عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے آخرت کے بدلے میں دنیا کی زندگی خرید لی ہے۔
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس کتاب پر ایمان لاؤ جسے اللہ نے اب نازل فرمایا ہے، تو کہتے ہیں کہ ہم صرف اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی، اور وہ اس کے علاوہ کا انکار کرتے ہیں۔ بے شک ہم نے آپ کی طرف روشن آیتیں اتاری ہیں اور ان نشانیوں کا سوائے نافرمانوں کے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں تو بہرصورت اس سے بہتر یا ویسی ہی کوئی اور آیت لے آتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے؟
اے مسلمانو! کیا تم چاہتے ہو کہ تم بھی اپنے رسول سے اسی طرح سوالات کرو جیسا کہ اس سے پہلے موسیٰ سے سوال کیے گئے تھے؟ تو جو کوئی ایمان کے بدلے کفر حاصل کرے پس وہ واقعتًا سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔
اہلِ کتاب کہتے ہیں کہ جنت میں ہرگز کوئی بھی داخل نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ وہ یہودی ہو یا نصرانی، یہ ان کی باطل امیدیں ہیں۔ ہاں، جس نے اپنا چہرہ اللہ کے لیے جھکا دیا اور وہ صاحبِ اِحسان ہو گیا تو اس کے لیے اس کا اجر اس کے رب کے ہاں ہے اور ایسے لوگوں پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔
اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کیے جانے سے روک دے اور انھیں ویران کرنے کی کوشش کرے۔ اور مشرق و مغرب سب اللہ ہی کا ہے، پس تم جدھر بھی رخ کرو ادھر ہی اللہ کی توجہ ہے، یعنی ہر سمت ہی اللہ کی ذات جلوہ گر ہے۔ وہی آسمانوں اور زمین کو وجود میں لانے والا ہے، اور جب کسی چیز کی ایجاد کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو پھر اس کو صرف یہی کہتا ہے کہ تو ہو جا، پس وہ ہوجاتی ہے۔
اور یاد کرو جب ہم نے اس گھر یعنی خانہ کعبہ کو لوگوں کے لیے رجوع اور اجتماع کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور حکم دیا کہ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف کر دو۔ اور ابراہیم نے عرض کیا: اے میرے رب! اسے امن والا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں کو طرح طرح کے پھلوں سے نواز یعنی ان لوگوں کو جو تجھ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائے۔
اور جب ابراہیم اور اسماعیل خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے تو دونوں دعا کر رہے تھے کہ اے ہمارے رب! تو ہماری یہ خدمت قبول فرما لے۔ اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنے حکم کے سامنے جھکنے والا بنا اور ہماری اولاد سے بھی ایک امت کو خاص اپنا تابع فرمان بنا اور ہمیں ہماری عبادت قواعد بتا دے اور ہم پر رحمت و مغفرت کی نظر فرما۔ اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان قلوب کو خوب پاک صاف کر دے۔ اور جب ان کے رب نے ان سے فرمایا کہ میرے سامنے گردن جھکا دو، تو عرض کرنے لگے: میں نے سارے جہانوں کے رب کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا۔ اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی یہی کہا کہ اے میرے لڑکو! بے شک اللہ نے تمھارے لیے یہی دین یعنی اسلام پسند فرمایا ہے، سو تم بہرصورت مسلمان رہتے ہوئے ہی مرنا۔
اے مسلمانو! تم کہہ دو: ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس کتاب پر جو ہماری طرف اتاری گئی اور اس پر بھی جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب اور ان کی اولاد کی طرف اتاری گئی اور ان کتابوں پر بھی جو موسیٰ اور عیسیٰ کو عطا کی گئیں اور اسی طرح جو دوسرے انبیاء کو ان کے رب کی طرف سے عطا کی گئیں، ہم ان میں سے کسی ایک پر بھی ایمان میں فرق نہیں کرتے اور ہم اسی معبودِ واحد کے فرمانبردار ہیں۔ کہہ دو کہ ہم اللہ کے رنگ میں رنگے گئے ہیں، اور کس کا رنگ اللہ کے رنگ سے بہتر ہے۔
وہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی، جو اس نے کمایا وہ اس کے لیے تھا اور جو تم کماؤ گے وہ تمھارے لیے ہوگا، اور تم سے ان کے اعمال کی نسبت نہیں پوچھا جائے گا۔
دعا ہے کہ خدا تعالیٰ قرآنِ پاک کو پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
[…] خلاصہ قرآن پارہ نمبر 1 […]