خلاصہ قرآن پارہ نمبر 12

بارھویں پارے کا آغاز سورۃ ہود کے بقیہ حصے سے ہوتا ہے۔ ارشاد ہے کہ زمین پر چلنے والا کوئی چوپایہ ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور اللہ اس کے ٹھکانے یعنی Habitat کو اور اس کے پلٹنے کی جگہ کو نہ جانتے ہوں اور یہ سب کچھ روشن کتاب یعنی لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔

انسان کا حال ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہے کہ اگر ہم انسان کو نعمت بخش دیں اور پھر اس سے اس نعمت کو چھین لیں تو وہ ناامید اور ناشکرا ہو جاتا ہے، اور اگر تکلیف پہنچنے کے بعد آسائش کا مزہ چکھائیں تو وہ خوشیاں منانے اور فخر کرنے لگتا ہے۔ ہاں جنھوں نے صبر کیا اور نیک عمل کیے وہی ہیں جن کے لیے بخشش اور اجرِ عظیم ہے۔

ارشاد ہے کہ لوگ یہ کیا کہتے ہیں کہ محمد علیہ السلام نے قرآن ازخود بنا لیا ہے؟ کہہ دیجیے کہ اگر سچے ہو تو تم بھی ایسی دس سورتیں بنا لاؤ اور اپنی مدد کے لیے اللہ کے سوا جس جس کو بلا سکتے ہو بلا لو، اگر وہ تمھاری بات قبول نہ کریں تو جان لو کہ یہ قرآن اللہ کے علم سے اترا ہے اور تمھیں بھی اسلام لے آنا چاہیے۔

ارشاد ہے کہ جو لوگ دنیا کی زندگی اور زیب و زینت کے طالب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ دنیا ہی میں دے دیتے ہیں اور ان کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ اور نہیں۔

ارشاد ہے کہ فریقین یعنی کفار و مومنین کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اندھا بہرا ہو اور ایک دیکھتا سنتا۔ بھلا دونوں کا حال یکساں ہوسکتا ہے؟

اس سورت میں اللہ نے ان اقوام کا ذکر کیا جو اپنی نافرمانیوں کی وجہ سے الوہی غضب کا نشانہ بنیں۔ حضرت نوح کی قوم بتوں کی پوجا کرتی تھی جنھیں نوح علیہ السلام نے شرک سے باز رہنے کی تلقین کی مگر انھوں نے جنابِ نوح کا شدید مذاق اڑایا اور کہا کہ ہماری قوم میں تمھارے پیروکار وہی لوگ ہوئے ہیں جو ہم میں نہایت ادنیٰ درجے کے لوگ ہیں۔ اللہ نے جنابِ نوح کی مدد فرمائی اور آسمان سے بارش اور زمین سے یہاں تک کہ تنور سے سیلاب کی شکل میں پانی جاری کر دیا جس کی زد میں جنابِ نوح کا بیٹا اور نافرمان بیوی سمیت تمام کافر آگئے۔

اس کے بعد قومِ عاد کا ذکر ہے جو قومِ نوح کی طرح شرک کی بیماری میں مبتلا تھی۔ ان کے لیے بھیجے گئے نبی جنابِ ہود ان کو توحید کی دعوت دیتے رہے اور ترغیب دیتے رہے کہ اپنے پروردگار سے بخشش مانگو اور توبہ کرو تاکہ وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار بارش برسا کر تمھاری طاقت بڑھائے لیکن انھوں نے ان کی ایک نہ سنی۔ قومِ عاد کو اپنی طاقت پر گھمنڈ تھا۔ اللہ نے ایک طاقتور طوفانی ہوا کو ان پر مسلط کر دیا جس نے پوری قوم کو اکھاڑ کر پھینک دیا اور اپنی طاقت پر ناز کرنے والے زمین پر یوں پڑے تھے جیسے کٹے ہوئے درخت کی شاخیں ہوتی ہیں۔

قومِ عاد کے بعد قومِ ثمود کے لیے اللہ نے اپنی ایک نشانی کو ظاہر فرمایا۔ ان کے نبی حضرت صالح کی دعا پر اللہ کے حکم سے بستی کی ایک بڑی پہاڑی پھٹی جس سے ایک اونٹنی نکلی جس نے فوراً ہی بچہ دیا، مگر بستی کے لوگوں نے اتنے بڑے معجزے کو دیکھ کر ایمان لانے کے بجائے اونٹنی کے پیروں کو کاٹ دیا۔ اس پر خدا ان سے ناراض ہوا اور ان پر ایک چنگھاڑ کو مسلط کر دیا۔ فرشتے نے چیخ ماری اور اس چیخ کی آواز سے بستی کے لوگوں کے بھیجے پھٹ گئے۔

اس کے بعد قومِ لوط کا ذکر ہے جو ہم جنس پرستی کی بیماری کا شکار تھی۔ اللہ نے ان کی طرف عذاب والے فرشتے بھیجے اور انھیں حکم دیا کہ بدکاروں کی اس بستی پر عذاب کو مسلط کر دیں۔ فرشتوں نے بستی کو اپنے پروں پر اٹھا کر زمین پر پھینک دیا اور پوری بستی کو پتھروں سے کچل دیا۔

اس کے بعد قومِ مدین کا ذکر ہے جو شرک کے ساتھ ساتھ ناجائز منافع خوری کرتی تھی۔ اللہ نے ان پر اسی طرح کی چیخ کو مسلط کر دیا جیسی چیخ سے قومِ ثمود تباہ ہوئی تھی۔

اس کے بعد حضرت موسیٰ اور فرعون کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے ارشاد ہے کہ یہ پرانی بستیوں کے تھوڑے سے حالات ہیں جن میں سے بعض تو باقی ہیں اور باقی تہس نہس ہو چکی ہیں۔ ہم نے ان لوگوں پر ظلم نہیں کیا بلکہ انھوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا اور اللہ کے سوا جن معبودوں کو یہ پکارتے تھے ان میں سے کوئی ان کے کام نہ آ سکا۔

ارشاد ہے کہ ان قصوں میں اس شخص کے لیے عبرت ہے جو عذابِ آخرت سے ڈرے۔ یہی وہ دن ہوگا جس میں سب اکٹھے کیے جائیں گے اور سب اللہ کے روبرو حاضر کیے جائیں گے۔ اس دن کے آنے میں ہم ایک معین وقت تک کے لیے تاخیر کر رہے ہیں۔ اور جب وہ دن آ جائے گا تو کوئی متنفس اللہ کے حکم کے بغیر بول بھی نہ سکے گا۔ ان میں سے کچھ بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت۔ جو بدبخت ہوں گے وہ آگ میں ڈالے جائیں گے اور چیخم چاخا کریں گے اور جو نیک بخت ہوں گے وہ بہشت میں داخل کیے جائیں گے اور جب تک آسمان اور زمین ہیں ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔

ارشاد ہے کہ دن کے دونوں سِروں میں یعنی صبح اور شام کے اوقات میں اور رات کے کچھ حصے میں نماز پڑھا کرو۔ کچھ شک نہیں کہ نیکیاں گناہوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ نصیحت ہے ان کے لیے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں۔

سورۃ ہود کے بعد سورۃ یوسف ہے جس کے شروع میں ارشاد ہے کہ ہم نے قرآن کو عربی میں نازل کیا ہے تاکہ تم سمجھ سکو۔ یہ اس لیے ارشاد ہوا کہ قرآن جس نبی پر اور جس قوم والوں پر اترا وہ عرب تھے۔

اس سورت میں اللہ نے حضرت یوسف کے واقعہ کو بیان کیا ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ ہم اس قرآن کے ذریعے جو آپ پر اتارا ہے، آپ کو ایک نہایت اچھا قصہ سناتے ہیں جس سے آپ پہلے بے خبر تھے۔ جنابِ یوسف نے بچپن میں ایک خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند ان کو سجدہ کر رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے والد حضرت یعقوب سے اپنا یہ خواب بیان کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اے بیٹے تم اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا کیونکہ وہ اسے سننے کے بعد حسد کا شکار ہوجائیں گے۔

ادھر یہ معاملہ ہو رہا تھا اُدھر جنابِ یوسف کے سوتیلے بھائی آپس میں مشورہ کر رہے تھے کہ ہم جوان ہیں لیکن ہمارے والد یعقوب صرف یوسف ہی سے پیار کرتے ہیں۔ کیوں نہ کسی بہانے سے بھائی یوسف کو والد سے علیحدہ کر دیا جائے تاکہ ہم ان کے منظورِ نظر بن سکیں۔ چنانچہ بھائی اکٹھے ہوکر جنابِ یعقوب کے پاس آئے اور کہا کہ آپ یوسف کو ہمارے ساتھ کیوں روانہ نہیں کرتے کہ وہ ہمارے ساتھ جنگل کی طرف جائے اور ہم اس کے ساتھ کھیلیں۔ جنابِ یعقوب نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم اپنے کاموں میں مصروف ہو جاؤ اور کوئی بھیڑیا اس کو نہ کھا جائے۔ بھائیوں نے کہا کہ بابا ہم جوان ہیں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے ہوتے ہوئے کوئی بھیڑیا اس کو کھا جائے۔ جنابِ یعقوب نے یقین دہانیوں پر یوسف کو اپنے بیٹوں کے ساتھ روانہ کر دیا۔ یوسف کے بھائیوں نے انھیں ایک کنویں میں پھینک دیا اور رات کے وقت روتے ہوئے جنابِ یعقوب کے پاس آگئے کہ بھیڑیا یوسف کو کھا گیا ہے۔ اس پر جنابِ یعقوب نے کہا کہ میں صبر کروں گا۔ اللہ کو معلوم ہے کہ حقیقت کیا ہے۔

یوسف جس کنویں میں تھے وہاں سے ایک قافلے والوں کا گزر ہوا جنھوں نے پانی نکالنے کے لیے کنویں میں ڈول ڈالا۔ یوسف کنویں سے باہر نکل آئے۔ اہلِ قافلہ مصر جا رہے تھے۔ انھوں نے یوسف کو مصر کے ایک بڑے گھرانے میں فروخت کر دیا ۔ یوسف کی خوبصورتی اور وجاہت کو دیکھ کر اس گھر کے مالک نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ ہم یوسف کو اپنا بیٹا بنا لیتے ہیں، امید ہے کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائے گا۔ یوسف جب جوان ہوئے تو گھر کی مالکن ان پر بری نظر رکھنے لگی اور ایک دن اس نے ان کو برائی کی دعوت دی جسے یوسف نے ٹھکرا دیا۔ عورت نے یوسف پر برائی کا الزام لگایا لیکن اللہ نے محل میں ایک بچے کو قوتِ گویائی عطا کرکے جنابِ یوسف کو اس الزام سے بری کروا دیا۔

عزیزِ مصر کی بیوی فتنے کا شکار تھی۔ اس نے جنابِ یوسف کو مصر کی دیگر عورتوں کے ساتھ مل کر فتنے کا نشانہ بنانا چاہا تو یوسف نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے برائی سے بچاکر جیل میں پہنچا دے۔ اللہ نے دعا قبول فرما کر ان کو جیل میں پہنچا دیا۔ جیل میں آپ کی ملاقات دو قیدیوں سے ہوئی جنھیں آپ نے توحید کی دعوت دی۔ ان دونوں قیدیوں نے اپنے خواب یوسف کو سنائے۔ ایک قیدی نے خواب دیکھا کہ وہ انگوروں کو نچوڑ رہا ہے جب کہ دوسرے قیدی کو خواب آیا کہ اس کے سر پر روٹیاں ہیں اور پرندے چگ رہے ہیں۔ جنابِ یوسف نے فرمایا کہ ایک آدمی بادشاہ کا ساقی بنے گا جب کہ دوسرے کو پھانسی ہوگی۔ جس آدمی نے بادشاہ کا ساقی بننا تھا، اس کو جنابِ یوسف نے کہا کہ بادشاہ کو بتلانا کہ جیل میں ایک بے گناہ قیدی پڑا ہے لیکن آزاد ہونے والا قیدی یہ بات بھول گیا اور جنابِ یوسف کئی برس تک جیل میں قید رہے۔

اسی اثنا میں بادشاہ کو خواب آیا کہ سات پتلی گائیں سات موٹی گائیوں کو کھا رہی ہیں اور سات سرسبز بالیاں ہیں اور سات خشک بالیاں ہیں۔ اس پر بادشاہ کے ساقی کو جنابِ یوسف کی یاد آئی۔ اس نے کہا کہ بادشاہ سلامت، جیل خانے میں ایک بہت بڑا عالم فاضل قیدی ہے جو اس کی صحیح تعبیر بتلا سکتا ہے۔ جنابِ یوسف نے تعبیر بتائی کہ آنے والے سات سال قحط سالی کے ہوں گے اور اس کے بعد خوشحالی اور ہریالی ہوگی۔ جنابِ یوسف کی تعبیر سننے کے بعد بادشاہ نے کہا کہ انھیں جیل سے بلایا جائے۔ یوسف نے کہا کہ جب تک میری علانیہ بے گناہی ثابت نہیں ہوگی میں جیل سے نہیں نکلوں گا۔ اس مطالبے پر عزیزِ مصر کی بیوی نے برملا جنابِ یوسف کو پاک دامن قرار دیا۔ اس پر جنابِ یوسف جیل سے باہر آنے پر آمادہ ہوگئے۔

حضرت یوسف کے واقعے کا باقی حصہ تیرھویں پارے میں بیان ہوگا۔

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں قرآنِ پاک پڑھنے، سمجھنے اور اس میں بیان کردہ واقعات سے صحیح نصیحت حاصل کرنے کی توفیق دے۔ آمین

 
Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
ماخذ فیس بک
Leave A Reply

Your email address will not be published.