خلاصہ قرآن پارہ نمبر 15

پندرھویں پارے کا آغاز سورہ بنی اسرائیل سے ہوتا ہے۔ ارشاد ہے کہ پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم انھیں اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

ارشاد ہے کہ یہ قرآن مجید نیک اعمال کرنے والے مومنوں کے لیے بشارت ہے اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اللہ تعالی نے فیصلہ کر لیا ہے کہ پوجا صرف اللہ تعالی کی ہونی چاہیے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔ اگر وہ دونوں (والد والدہ) یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کو اُف بھی نہیں کہنا چاہیے اور نہ ان کو جھڑکنا چاہیے اور ان کو اچھی بات کہنی چاہیے اور ان کے سامنے محبت کے ساتھ اپنے کاندھوں کو جھکانا چاہیے اور یہ دعا مانگنی چاہیے کہ پروردگار ان پر رحم کر جس طرح وہ بچپن میں مجھ پر رحم کرتے رہے۔

اللہ تعالی نے اس سورت میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ قرابت داروں، مساکین اور مسافروں کے حق ادا کرنا چاہییں اور فضول خرچی نہیں کرنی چاہیے۔ بے شک فضول خرچ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا ناشکرا ہے۔

ارشاد ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی ہر شخص کو اس کے امام کے نام سے بلائیں گے یعنی جس کی پیروی انسان کرتا ہے اسی کی نسبت سے انسان کو بلایا جائےگا۔ اس سورہ میں آیا ہے کہ اللہ نے بنی آدم کو اکرام والا بنایا ہے چنانچہ انسانیت کا احترام اللہ کا حکم ہے اور انسانیت کا احترام نہ کرنا حرام ہے اور ایسا کرنے والا حرامکار ہے۔ نیز یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ فجر کے وقت فرشتے قرآن سننے کو حاضر ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی نے نبی کریم علیہ السلام کو تہجد کی نماز ادا کرنے کا حکم دیا کہ یہ نماز آپ پر فرض ہے، اور اس کا سبب یہ بتلایا کہ آپ کو قیامت کے دن مقامِ محمود پر فائز کیا جائے گا۔ سورہ کے آخر میں ارشاد ہے کہ رب تعالی کو چاہے اللہ کہہ کر پکارو چاہے رحمان کہہ کر پکارو، اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں اس کو جس نام سے چاہو پکارو۔

سورت اسراء کی خاص بات اس میں مذکور معاشرتی آداب ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو، والدین کے ساتھ بھلائی کا رویہ اپناؤ، رشتہ داروں مسکینوں ناداروں کو ان کا حق دو، مال خرچ کرنے کے معاملہ میں اعتدال کا رویہ اپناؤ یعنی نہ فضول خرچی کرو نہ ہی مال پر سانپ بن کر بیٹھے رہو، اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو (اس میں Abortion کی طرف اشارہ ہے جس سے روکا گیا ہے)، کسی جان کا ناحق خون مت کرو، یتیم کا مال انصاف سے خرچ کرو، وعدہ کرو تو پورا کرو، ناپ تول میں کمی بیشی مت کرو، زمین پر اکڑ کر مت چلو، اور جس بات کا علم نہ ہو اس کی ٹوہ میں نہ لگو.

سورہ بنی اسرائیل کے بعد سورۃ کہف ہے۔ ارشاد ہے کہ قرآن مجید بشارت دیتا ہے نیک عمل کرنے والے مسلمانوں کو کہ ان کے لیے بڑے اجر کو تیار کیا گیا ہے۔ اس میں عیسائیوں اور یہودیوں کو ڈرایا گیا ہے جو عیسیٰ اور عزیر علیہما السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ نہ ان کے پاس علم ہے اور نہ ان کے آبا و اجداد کے پاس علم تھا اور یہ بات گھڑی ہوئی ہے۔ پس یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔

سورۃ کہف میں اللہ تعالی نے بعض مومن نوجوانوں کا ذکر کیا ہے جو وقت کے بے دین بادشاہ کے شر اور فتنے سے بچنے کے لیے ایک غار میں پناہ گزین ہوگئے تھے۔ اللہ تعالی نے اپنی قدرت کاملہ کے اظہار کے لیے انھیں تین سو نو برس کے لیے سلا دیا اور جب وہ بیدار ہوئے تو آپس میں بات چیت کرنے لگے کہ ہم کتنا سوئے ہوں گے تو ان کا خیال تھا کہ ایک دن یا اس کا کچھ حصہ سوئے ہوں گے۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ایسے واقعات بیان کر کے درحقیقت توجہ آخرت کی طرف مبذول کروائی ہے کہ جو اللہ تین سو نو برس سلا کر بیدار کر سکتا ہے کیا وہ قبروں سے مردوں کو برآمد نہیں کر سکتا؟

اس کے بعد جنابِ موسیٰ کا واقعہ ذکر ہوا۔ ہوا یوں کہ جناب موسیٰ ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے اجتماع میں موجود تھے کہ آپ سے سوال کیا گیا کہ اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑا عالم کون ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں۔ اللہ تعالی نے موسیٰ کو بہت بڑا مقام عطا کیا تھا لیکن یہ جواب اللہ تعالی کی منشا کے مطابق نہ تھا۔ اللہ تعالی نے جناب موسیٰ کو کہا کہ دو دریاؤں کے سنگم پر چلے جائیں، وہاں پر آپ کی ملاقات ایک ایسے بندے سے ہوگی جس کو میں نے اپنی طرف سے علم اور رحمت عطا کی ہے۔ جناب موسیٰ دو دریاؤں کے سنگم پر پہنچے تو آپ کی ملاقات ایک صاحب سے ہوئی۔ جناب موسیٰ نے اس سے پوچھا اگر میں آپ کے ہمراہ رہوں تو کیا آپ رشد و ہدایت کی وہ باتیں جو آپ کے علم میں ہیں مجھے بھی سکھلائیں گے۔ اس نے جواب دیا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ اور آپ ان باتوں کی بابت کیونکر صبر کریں گے جن کا آپ جانتے ہی نہیں۔ جنابِ موسیٰ نے ان کو صبر کی یقین دہانی کرائی تو دونوں اکٹھے چل پڑے۔ کچھ چلنے کے بعد دونوں ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ جب اترنے لگے تو اس آدمی نے کشتی میں سوراخ کر دیا۔ موسیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی کہ جس کشتی میں سفر کیا اس میں سوراخ کر دیا۔ آپ نے کہا کہ تم نے یہ کیا کر دیا۔ اس نے کہا کہ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میر ے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ جناب موسیٰ نے کہا کہ آپ میرے بھول جانے پر مواخذہ نہ کریں اور نہ ہی میرے سوالات پر تنگی محسوس کریں۔

وہ آدمی اور موسیٰ پھر چل دیے۔ کچھ آگے جا کر ایک خوبصورت بچہ نظر آیا ۔ اس آدمی نے بچے کو قتل کر ڈالا۔ جناب موسیٰ سے نہ رہا گیا اور آپ نے پھر اس کے اس عمل پر اعتراض کیا۔

اس کے بعد کیا ہوا؟ اس کا ذکر سولھویں پارے کے شروع میں کیا جائے گا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں قرآنِ پاک پڑھنے، سمجھنے اور اس میں مذکور مضامین سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
ماخذ فیس بک
1 تبصرہ
  1. […] خلاصہ قرآن پارہ نمبر 15 […]

Leave A Reply

Your email address will not be published.