خلاصہ قرآن پارہ نمبر 19
انیسویں پارے کا آغاز سورۃ الفرقان کے بقیہ حصے سے ہوتا ہے۔ آغاز میں اللہ فرماتا ہے کہ جن لوگوں کو میری ملاقات کا یقین نہیں وہ بڑے تکبر سے کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر فرشتے کا نزول ہونا چاہیے یا ہم پروردگار کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب وہ قیامت کے روز اپنی آنکھوں سے فرشتوں کو دیکھیں گے تو اس دن مجرموں کو کوئی خوش خبری نہیں ملے گی.
اس سورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنی امت سے متعلق ایک شکوہ بھی بتایا کیا ہے کہ آپ قیامت کے دن اللہ سے ان لوگوں کی شکایت کریں گے جنھوں نے قرآن مجید کو چھوڑ دیا. نہ تلاوت کی نہ سمجھا اور نہ اس پر عمل کیا. لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کو وہ قرآن کو پڑھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا رہے.
اس سورت میں ارشاد ہے کہ قیامت کے دن ظالم اپنے ہاتھ کو کاٹے گا اور کہے گا اے کاش میں نے رسول کے راستے کو اختیار کیا ہوتا اور کاش میں نے فلاں کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس نے تو مجھے نصیحت آ جانے کے بعد غافل کر دیا۔ یعنی بہت سے لوگ بری صحبت کو اختیار کرنے کی وجہ سے گمراہ ہوں گے۔ انسان کو ہمیشہ نیکو کاروں کی صحبت اختیار کرنی چاہیے۔
اس سورت کے آخر میں اللہ نے اپنے بندوں (عباد الرحمٰن) کی صفات بیان فرمائی ہیں کہ اللہ کے یہ بندے زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے، جاہلوں سے واسطہ پڑے تو انھیں سلام کرکے الگ ہو جاتے ہیں، ان کی راتیں رکوع و سجود میں گزرتی ہیں، خرچ کرنے میں اعتدال رکھتے ہیں نہ بخل کرتے ہیں اور نہ فضول خرچی، شرک نہیں کرتے، قتلِ ناحق سے بچتے ہیں اور زنا بدکاری کے قریب بھی نہیں جاتے، جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور برائی کی مجالس سے دور رہتے ہیں، اور اپنے لیے اور بیوی بچوں کے لیے دعا مانگتے ہیں.
سورۃ فرقان کے بعد سورۃ الشعراء ہے۔ اس سورت اللہ نے قومِ نوح، قومِ ہود، قومِ ثمود اور قومِ لوط پر آنے والے عذابوں کا تذکرہ کیا کہ کس طرح ان تمام اقوام نے اپنے نبیوں کی نافرمانی کی اور عذاب کا نشانہ بنے۔ اللہ نے ان سب نبیوں کا اسلوبِ دعوت بیان فرمایا ہے کہ انھوں نے کارِ نبوت کے بدلے اپنی قوم سے کچھ نہیں چاہا بلکہ اپنی ساری تگ و دو کا اجر صرف اللہ سے چاہا۔ اس کے باوجود ان عاقبت نااندیش اقوام نے اپنے اپنے نبیوں کی تکذیب کی اور انجامِ کار عذاب کا نشانہ بنے اور رہتی دنیا کے لیے عبرت کا نشان بن گئے۔
اللہ نے جنابِ ابراہیم کا بھی ذکر کیا کہ انھوں نے اپنی قوم سے بت پرستی کی وجہ دریافت کی کہ کیا تم جب ان کو پکارتے ہو اور وہ تمھاری پکاروں کو سنتے ہیں اور کیا وہ تمھیں نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں، تو جواب میں قوم کے لوگوں نے کہا نہیں، بلکہ ہم نے اپنے آبا و اجداد کو ان بتوں کو پوجتے ہوئے دیکھا اس لیے ہم بھی انھیں پوجتے ہیں۔ اس پر جنابِ ابراہیم نے کہا کہ میں تمھارا اور تمھارے آبا و اجداد کے معبودوں کا مخالف ہوں۔ میری وفا اور محبت رب العالمین کے لیے ہے جس نے مجھے بنایا اور سیدھا راستہ دکھایا، جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے، جو مجھے امراض سے شفا عطا دیتا ہے، جو مجھے موت بھی دے گا اور پھر دوبارہ زندہ بھی کرے گا اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے قیامت کے دن معاف بھی کرے گا۔
اللہ نے قرآنِ مجید کے اپنی طرف سے نازل ہونے کا بھی ذکر کیا کہ اللہ نے قرآن کو واضح عربی زبان میں اتارا اور اس کو جبریلِ امین جنابِ رسولِ کریم کے سینہ مبارک پر لے کر آئے تاکہ وہ لوگوں کو ڈرائیں اور کہا کہ اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ بنی اسرائیل یعنی یہود و نصاریٰ کے علماء بھی اس کو پہچانتے ہیں۔
اس سورت میں اللہ نے ارشاد فرمایا کہ شیطان ہر جھوٹ بولنے والے بڑے گناہ گار پر نازل ہوتا ہے اور بھٹکے ہوئے شاعروں پر بھی، وہ شعرا جو ہر وقت وہم کی وادیوں میں ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں اور قوتِ عمل سے قاصر صرف باتیں بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور عملِ صالح کا راستہ اختیار کیا، اللہ ان سے شیاطین کو دور فرمائیں گے۔
سورۃ الشعراء کے بعد سورۃ النمل ہے۔ اس میں اللہ نے حضرت موسیٰ کی نشانیوں کا ذکر کیا جنھیں بے مثال معجزات عطا کیے گئے تھے۔ اس کے بعد اللہ نے داؤد اور سلیمان علیہما السلام کو علم کی نعمت سے مالامال فرمایا اور ان کو اپنے بہت سے بندوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ اللہ نے جنابِ سلیمان کو علم اور حکومت کے اعتبار سے جنابِ داؤد کا وارث بنایا اور ان کو پرندوں اور جانوروں کی بولیاں سکھائی تھیں اور جنات، انسانوں اور ہواؤں پر حکومت دی تھی۔
ایک بار سلیمان علیہ السلام کا لشکر گزر رہا تھا کہ جناب سلیمان نے دیکھا کہ ایک چیونٹی ملکہ دوسری چیونٹیوں کو کہہ رہی ہے کہ جلدی جلدی بل میں گھسو ایسا نہ ہو کہ سلیمان کا لشکر تمھیں روند ڈالے. جناب سلیمان نے اس کی آواز سنی اور بولی کو سمجھ لیا تو اللہ کا شکر ادا کیا کہ انھیں کیا کیا نعمتیں عطا فرمائی گئی ہیں.
اس سورت میں اللہ نے جنابِ سلیمان کے دربار کی ایک کیفیت کا بھی ذکر کیا کہ ایک دن آپ نے ہدہد کو غائب پایا تو اس کا نوٹس لیا اور فرمایا کہ اگر ہدہد نے اپنی غیر حاضری کی معقول وجہ بیان نہ کی تو اسے شدید عذاب دیا جائے گا یا ذبح کر دیا جائے گا۔ کچھ دیر بعد ہدہد آیا تو اس نے اپنی کارگزاری سنائی کہ آج دربار کی طرف آتے ہوئے میرا گزر ایک ایسی بستی سے ہوا جہاں کے لوگوں کو اللہ کی بہت سی نعمتیں حاصل ہیں اور ان پر ایک عورت بلقیس حکمران ہے اور قوم کی بدنصیبی یہ ہے کہ وہ سورج کی پوجا کر رہی ہے جب کہ انھیں اللہ کی پوجا کرنی چاہیے۔ جنابِ سلیمان نے اس ملکہ کو خط لکھا۔ جواب میں ملکہ نے تحفے تحائف بھجوائے۔ جنابِ سلیمان نے تحفوں کو دیکھ کر کہا کہ جو کچھ اللہ نے ہمیں عطا کیا ہے وہ ملکہ کے بھجوائے ہوئے ان تحفوں سے بہت بہتر ہے۔ آپ نے اپنے درباریوں سے کہا کہ تم میں سے کون ہے جو ملکہ کو تخت سمیت میرے دربار میں لے آئے۔ اس پر ایک بڑے جن نے کہا کہ میں دربار کے برخاست ہونے سے پہلے ملکہ کو تخت سمیت یہاں لاسکتا ہوں۔ ایک اور شخص کھڑا ہوا جو کتاب کا علم رکھنے والا اور اللہ کے اسمائے اعظم کا عالم تھا۔ اس نے کہا میں ملکہ کے تخت کو آپ کے پہلو بدلنے سے پہلے حاضر کر دوں گا۔ آنًا فانًا ملکہ بلقیس تخت سمیت وہاں آگئیں۔ جناب سلیمان نے ملکہ کے تخت میں تبدیلی کرکے ان سے پوچھا کیا یہ آپ ہی کا تخت ہے، تو ملکہ نے ہاں میں جواب دیا۔ اس کے بعد جنابِ سلیمان نے ملکہ کو اپنے محل کے ایک خاص حصے میں آنے کی دعوت دی جس کا فرش شیشے کا بنا ہوا تھا لیکن دیکھنے والی آنکھ کو پانی محسوس ہوتا تھا۔ جب ملکہ بلقیس شیشے کے فرش پر سے گزرنے لگیں تو اپنی پنڈلیوں سے کپڑے کو اٹھا لیا تاکہ پوشاک گیلی نہ ہو. جنابِ سلیمان نے کہا کہ یہ پانی نہیں شیشہ ہے۔ اس طرح انھوں نے ملکہ کو جتلایا کہ آپ پانی اور شیشے میں فرق نہیں کر سکیں۔ جنابِ سلیمان اصل میں ملکہ کو باور کرا رہے تھے کہ اسی طرح آپ سورج کی روشنی اور اللہ کے نور میں فرق نہیں کر سکیں چنانچہ سورج کی پوجا کرتی ہیں۔ ملکہ نے فوراً اعلان کیا کہ اے میرے پروردگار میں نے اپنی جان پر ظلم کیا۔ اور یوں انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔ یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ دین کی دعوت ہمیشہ حکمت اور دانائی سے دینی چاہیے اور مخاطب کو اپنے ماحول میں لاکر دینی چاہیے۔
اللہ تعالی ہمیں قرآنِ مجید پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین!