خلاصہ قرآن پارہ نمبر 22

بائیسویں پارے کا آغاز سورہ احزاب کے بقیہ حصے سے ہوتا ہے۔ اس کے آغاز میں اللہ نے امہات المومنین سے مخاطب ہوکر فرمایا ہے کہ جو کوئی بھی امہات المومنین میں سے اللہ اور اس کے رسول کے لیے اپنے آپ کو وقف کرے گی اور نیک اعمال کرے گی، اللہ اس کو دو گنا اجر عطا فرمائے گا اور اس کے لیے پاک رزق تیار کیا گیا ہے۔ امہات المومنین کو اس امر کی بھی تلقین کی گئی ہے کہ جب وہ کسی سے بات کریں تو نرم آواز سے بات نہ کیا کریں تاکہ جس کے دل میں مرض ہے وہ ان کی آواز سن کر طمع نہ رکھے اور معروف طریقے سے بات کریں۔ نیز امہات المومنین اپنے گھروں میں مقیم رہیں اور جاہلیت کی بے پردگی اور بناؤ سنگھار نہ کریں، اور نماز قائم کریں، زکوۃ ادا کریں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں۔ بے شک اللہ چاہتا ہے کہ نبی کے گھر والوں سے ناپاکی کو دور کر دیا جائے اور ان کو پاک صاف کر دیا جائے۔

اس کے بعد معاشرے کے مثالی مسلمان کی دس صفات ذکر فرمائی گئیں: اسلام، ایمان، دائمی اطاعت، صدق، صبر، خشوع، صدقہ، روزے، شرمگاہ کی حفاظت اور اللہ کے ذکر کی کثرت.

اس کے بعد اللہ نے حضرت محمد علیہ السلام کے منہ بولے بیٹے زید کی بیوی کو طلاق کے بعد ام المومنین کا درجہ دے کر اس اصول کو واضح کیا کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہوتا اور اسلام لے پالک کے نام پر معاشرے میں پہچان کی گمشدگی (Theft of Lineage Identity) کی سختی سے نفی کرتا ہے۔ اس کے بعد حضرت محمد علیہ السلام کے خاتم النبیین ہونے کا تفصیلی اور بے غبار بیان ہے اور آپ کو ہدایت کے چمکتے سورج سے تشبیہہ دی گئی ہے۔

اللہ تعالی نے مومنوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کریں اور صبح شام اللہ کی حمد میں مشغول رہا کریں۔ نیز تین معاشرتی آداب کو ذکر کیا: کسی کے گھر بغیر اجازت داخل نہ ہوں، ضیافت سے فارغ ہوکر جلد رخصت ہوں تاکہ مہمانوں کے بیٹھنے سے اہل خانہ کو تکلیف نہ ہو، اور غیر محرم خواتین سے اگر کچھ مانگنا ہو تو پردہ کے پیچھے سے مانگیں.

ایمان والوں کو خبر دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور ملائکہ نبی پاک پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی اپنے نبی پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجا کرو۔

نیز اللہ نے نبی کریم کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومن عورتوں کو کہہ دیں کہ وہ جلباب اوڑھا کریں تاکہ پہچان لی جائیں اور کوئی ان کو تنگ نہ کرے۔

اس سورت کے آخر میں ارشاد ہے کہ جب قیامت کا دن آئے گا تو جہنمیوں کو اوندھے منہ جہنم میں ڈالا جائے گا۔ جہنمی کہیں گے کہ اے کاش ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی بات مانی ہوتی، اور کہیں گے کہ ہم نے اپنے بڑوں اور سرداروں کی بات مانی پس انھوں نے ہمیں گمراہ کر دیا، اور کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ان کو دوگنا عذاب دے اور ان پر لعنت برسا۔ نیز اہلِ ایمان کو نصیحت کی گئی ہے کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنھوں نے موسیٰ کو تکلیف پہنچائی تو اللہ نے ان لوگوں کی کہی ہوئی بات سے ان کی براءت ظاہر کر دی حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بڑی وجاہت والے تھے۔ اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے نبی کی تکریم کریں۔

اس سورت میں سچی بات کہنے کے فوائد بھی بتائے گئے ہیں کہ اگر سیدھی بات کی جائے تو معاملات سنور جاتے ہیں اور اللہ حق گو شخص کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔

سورۃ الاحزاب کے بعد سورۃ سبا ہے۔ اس میں اللہ فرماتا ہے کہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس کے لیے آسمان و زمین میں موجود سب کچھ ہے اور اس کی حمد آخرت میں ہے اور وہ باخبر حکمت والا ہے۔ وہ جانتا ہے جو زمین میں جاتا ہے اور جو اس سے نکلتا ہے اور جو آسمان سے اترتا اور اس کی طرف چڑھتا ہے اور وہ رحمت کرنے اور بخشنے والا ہے. اس سورت میں اللہ نے صابر و شاکر حکمران اور نافرمان اور ظالم حکمران کا موازنہ کیا ہے. جنابِ داؤد اور سلیمان پر اللہ نے بے شمار انعامات کیے. جنابِ داؤد کے لیے پہاڑ اور پرندوں کو مسخر فرما دیا گیا اور لوہے کو ان کے ہاتھوں میں نرم کر دیا گیا تھا، اور جنابِ سلیمان کے لیے ہواؤں مسخر فرما دیا تھا اور جنات کو ان کے احکامات کے تابع کر دیا تھا۔ اس قدر انعامات کے باوجود یہ دونوں انبیا صبر بھی کرتے تھے اور شکر بھی بجا لاتے تھے.

اس کے بالمقابل اللہ نے سبا کی بستی کا ذکر کیا ہے کہ یقینًا سبا والوں کے لیے ان کے مقامِ رہائش میں نشانی تھی کہ ان کے دائیں اور بائیں دو باغ تھے۔ اللہ نے فرمایا کہ تم اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو کہ پاکیزہ شہر ہے، لیکن انھوں نے روگردانی کی تو اللہ نے ان پر ایک سخت امڈتا ہوا سیلاب بھیج دیا اور ان کے دونوں باغوں کو بدمزہ پھل، جھاؤ اور کچھ بیری والے باغوں میں بدل دیا۔ اللہ فرماتا ہے کہ ہم نے ان کو یہ بدلہ ان کے کفر کی وجہ سے دیا تھا اور ہم صرف ناشکروں کو ایسا بدلہ دیتے ہیں۔

اس سورت میں یہ بھی ارشاد ہے کہ اللہ نے نبی کریم کو جمیعِ انسانیت کے لیے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا مگر لوگوں کی اکثریت اس بات کو نہیں جانتی۔ آگے چل کر اللہ نے ثروت و غنا کو سرکشی کے اسباب میں سے ایک ممکنہ سبب بتایا۔ مشرکین کو جب عذاب کی وعید سنائی جاتی تو کہتے ہمارے پاس تم سے زیادہ مال ہے اس لیے ہمیں عذاب نہیں دیا جائے گا۔ حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ روزی میں تنگی فراخی کرنے والا ایک اکیلا اللہ ہی تو ہے۔

سورۃ سبا کے بعد سورۃ فاطر ہے۔ اس میں ارشاد ہے کہ تمام تعریفیں زمین اور آسمان بنانے والے اللہ کے لیے ہیں۔ اس نے فرشتوں میں سے بھی رسول چنے ہیں۔ بعض فرشتے دو پروں والے بعض تین اور بعض چار پروں والے ہیں اور اللہ اپنی مخلوق میں جس طرح چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ نے اپنی قدرت کی نشانیاں ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ ان نشانیوں کو وہی لوگ سمجھتے جو اہلِ علم ہیں۔ اللہ نے ان گمراہ لوگوں کا ذکر کیا ہے جن کو ان کے غلط اعمال بھی اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ دنیا میں جتنی عورتیں حاملہ ہوتی اور جتنی بچوں کو جنتی ہیں اور جو کوئی بھی بوڑھا ہوتا ہے اور جس کی عمر کم ہوتی ہے، اللہ کو ہر بات کا علم ہے۔ مزید ارشاد ہوتا ہے کہ اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے اور نہ ہی دھوپ اور چھاؤں برابر ہو سکتے ہیں اور نہ ہی زندہ اور مردہ برابر ہو سکتے ہیں۔ جو شخص ہدایت کے راستے پر ہو وہ راہ گم کردگان کے برابر نہیں ہوتا۔

اللہ نے مسلمانوں کے تین طبقات کا ذکر فرمایا ہے۔ پہلے وہ جو طالب ہیں یعنی جن کے گناہ زیادہ اور نیکیاں کم ہیں۔ دوسرے وہ جو درمیانے ہیں، کبھی گناہ زیادہ کبھی نیکیاں۔ تیسرے وہ لوگ جو نیکیوں میں آگے بڑھنے والے ہیں۔ ان سب کی اللہ معذرت فرمائیں گے اور جنت ان کا ابدی ٹھکانہ ہوگی۔ اس کے بعد فرمایا کہ وہ لوگ جو ہماری آیات کو تکبر کی وجہ سے نہیں مانتے کیا انھوں پہلے تکبر کرنے والوں اور مکر کرنے والوں کا انجام نہیں دیکھا؟ اللہ کا طریقہ نہیں بدلے گا اور جیسا پہلوں کا انجام ہوا ان کا بھی ویسا ہی ہوگا۔ لیکن اللہ ایک وقت تک مہلت دیتا ہے کیونکہ اگر انسانوں کو گناہوں پر فوری پکڑ شروع کر دیں تو زمین پر جانور ہی بچ پائیں گے۔

"اللہ کا طریقہ نہیں بدلے گا” سے بسا اوقات یہ عمومی کلیہ اخذ کر لیا جاتا ہے کہ خدا اپنے اصولوں کا خود بھی ویسا ہی پابند اور بے بس و مجبور ہے جیسے کہ ہم انسان مجبور ہیں۔ غور سے سمجھنے کی بات ہے کہ خدا نے یہ بات اس عمومی مفہوم میں بیان ہی نہیں فرمائی۔ اس آیت سے پہلے اور بعد میں دیکھ لیجیے کہ اس میں اللہ پاک اپنے اختیارات یا قدرت کو بیان نہیں کر رہا بلکہ عذاب و عقاب میں اپنی سنت بیان فرما رہا ہے، کہ جب بھی قوموں نے ہمارے رسولوں کی بات کو جھٹلایا تو ہمارے عذاب کا کوڑا ان پر برسا اور ان کو نسیًا منسیًا کرکے رسولوں کو بچا لیا گیا۔ یہی بات مکے والوں سے بھی سورہ بنی اسرائیل میں کہی گئی کہ تم محمد علیہ السلام کو نکال تو رہے ہو مگر یاد رکھو اس کے بعد تم بھی یہاں زیادہ دیر اپنی من مانیاں نہ کرسکو گے۔ یہی اللہ کی سنت ہے اور تم نہ تو اس سنت کا رستہ روک سکتے ہو نہ اس کو کسی اور کی طرف موڑ سکتے ہو۔ اگر خدا ہی اپنے ہاتھ خود باندھ کر بیٹھ گیا ہے اور اسباب کا ماتحت ہوگیا ہے تو پھر خدا میں اور بندوں میں بھلا فرق ہی کیا رہ گیا؟ جب خدا خلافِ ضابطہ کچھ کر ہی نہیں سکتا تو پھر کوئی اس سے دعا کرے تو بھلا کیوں کرے؟؟یہ بات سمجھ لیجیے کہ خدا کے مجبور یا ضابطے کا پابند ہونے کا نظریہ ہی دراصل اپنے اندر الحاد کا خوفناک الاؤ چھپائے ہوئے ہے۔ الحاد باہر سے نہیں اندر سے امنڈتا ہے۔

سورۃ فاطر کے بعد سورۃ یٰس ہے۔ اس میں اللہ نے قرآنِ حکیم کی قسم کھا کر کہا ہے کہ بے شک محمد رسولوں میں سے ہیں اور ان کا راستہ ہی سیدھا راستہ ہے۔ ارشاد ہے کہ جو لوگ کافر ہیں ان کو ڈرایا جائے یا نہ ڈرایا جائے ان کے لیے برابر ہے، وہ ایمان نہیں لانے والے۔ رسول کریم اس کو ڈراتے ہیں جو قرآنِ مجید کی پیروی کرتا اور اللہ کے ڈر کو اختیار کرنے والا ہے۔

اللہ نے ایک بستی کا ذکر کیا جس میں دو رسولوں کو بھیجا گیا لیکن بستی والوں نے ان کو جھٹلایا۔ تب ایک تیسرے رسول نے آ کر اُن کی تائید کی۔ ان رسولوں نے کہا کہ ہم اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں جس پر بستی والوں نے کہا کہ رحمٰن نے کچھ بھی نازل نہیں کیا اور تم جھوٹ بول رہے ہو۔ دریں اثنا بستی کے پرلے مقام سے ایک شخص دوڑتا آیا اور قوم سے مخاطب ہو کر کہا اے میری قوم کے لوگو، ان تینوں کی پیروی کرو۔ یہ تم سے کچھ بھی طلب نہیں کر رہے اور ہدایت پر ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنِ مجید پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین.

.

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
ماخذ فیس بک
1 تبصرہ
  1. […] خلاصہ قرآن پارہ نمبر 22 […]

Leave A Reply

Your email address will not be published.