خلاصہ قرآن پارہ نمبر 25

پچیسویں پارے کا آغاز سورت حٰم سجدہ کے بقیہ حصے سے ہوتا ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ قیامت کا علم اسی کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔ اسی طرح ہر اگنے والے پھل کا علم اسی کے پاس ہے اور ہر عورت کے حمل اور اس کے بچے کی پیدائش کا علم اللہ کے پاس ہے۔ اللہ مشرکین سے کہے گا کہاں ہیں وہ شریک جنھیں تم پکارا کرتے تھے. تب مشرکین کہیں گے آج ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جو آپ کے علاوہ کسی کو پکارتا ہو. اللہ چونکہ خود موجد ہے اس لیے اس سے کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اللہ نے یہ بھی بتایا ہے کہ وہ انسان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائے گا اور ان کے اپنے نفوس میں بھی، یہاں تک کہ انسانوں کو یقین ہو جائے گا کہ اللہ ہی حق ہے۔

اس کے بعد سورۃ الشوریٰ ہے جس میں اللہ پاک نے اس امر کا ذکر کیا کہ فرشتے اپنے رب کی پاکی اور اس کی تعریف بیان کرتے ہیں اور زمین میں رہنے والے اہلِ ایمان کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اپنی مخلوق پر کس درجہ مہربان ہے کہ اس کے نورانی فرشتے جہاں اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں وہاں اللہ کے حکم سے اہلِ ایمان کے لیے دعائے مغفرت بھی کرتے ہیں۔ اس کے بعد ارشاد ہے کہ ہم نے نبی کریم پر قرآنِ عربی کی وحی کی ہے تاکہ آپ ام القریٰ اور اس کے چار چوفیر بسنے والوں کو قیامت کے دن سے ڈرائیں جس کی آمد میں کوئی شبہ نہیں ہے اور جس کے بعد ایک گروہ جنت رسید ہوگا اور ایک گروہ جہنم رسید۔ حضرت محمد علیہ السلام سے پہلے جتنے بھی انبیاء مبعوث ہوئے وہ سب کے سب اپنی بستیوں اور اپنے علاقوں کے لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے رہے. ان تمام انبیا کا دین ایک ہی تھا. ان کے متبعین کو تفرقہ بازی سے سختی سے منع کیا تھا لیکن انھوں نے تفرقہ بازی کی اور اسی کو ختم کرنے کے لیے اللہ نے قولِ فیصل کے لیے حضرت محمد کو جمیع انسانیت کا رہنما بنا دیا.

مزید ارشاد ہے کہ جب قیامت کا دن آئے گا تو آپ اس دن ظالموں کو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے خوفزدہ دیکھیں گے اور اس کا وبال ان پر آکر رہے گا، اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے وہ جنت کے باغات میں ہوں گے۔ نبیِ کریم کو تلقین کی گئی کہ آپ اعلان فرما دیں کہ میں دین کی دعوت کے سلسلے میں لوگوں سے کسی اجر کا طلب گار نہیں ہوں لیکن میں اتنا ضرور چاہوں گا کہ میرے اعزہ و اقارب سے بھلا سلوگ کیا جائے۔ انبیاء علیہم السلام دعوتِ دین کا کام صرف اللہ کی رضا کے لیے کرتے ہیں اور اس کے بدلے وہ دنیا کی خیرات کے طلب گار نہیں ہوتے۔

اس کے ایمان والوں کی چند صفات کا تذکرہ فرمایا گیا ہے. ایمان والے اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں، بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں، غصہ آ جائے تو معاف کر دیتے ہیں، اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے، نماز کی پابندی کرتے ہیں، اپنے کام باہمی مشورے سے کرتے ہیں، اور اگر کوئی زیادتی کر گزرے تو مناسب طریقے سے بدلہ لیتے ہیں. اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ انسان کو زندگی میں جتنی بھی مصیبتیں آتی ہیں ان کا بنیادی سبب انسان کے اپنے گناہ ہوتے ہیں اور اللہ پاک بہت سے گناہوں کو نظر انداز بھی فرما دیتے ہیں۔ نیز فرمایا کہ اولاد دینا یا نہ دینا صرف اللہ کا اختیار ہے. وہ چاہے تو بیٹا بیٹی دونوں دے دے اور چاہے تو کچھ بھی نہ دے.

سورۃ الشوریٰ کے بعد سورۃ الزخرف ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں کہ اس قرآن کو عربی میں اتارنے کی وجہ یہ تھی کہ اہلِ عرب اس زبان کو جانتے تھے اور اس کو پڑھ کر وہ شعور حاصل کرسکتے ہیں، نیز یہ بھی بتایا گیا کہ اپنے نزول سے قبل قرآنِ مجید لوحِ محفوظ میں موجود تھا. یہ سورت زمانہ جاہلیت کی ایک مکروہ سوچ کا تذکرہ کر کے اس کی مذمت کرتی ہے کہ بعضے عرب بیٹی کی پیدائش کو معیوب سمجھتے تھے اور جس کی بیٹی پیدا ہوتی وہ منہ چھپاتا پھرتا تھا، اور کچھ تو بیٹی کو زندہ درگور کر دیتے تھے. چنانچہ اس سے منع فرمایا گیا.

پھر جنابِ ابراہیم کا ذکر فرمایا گیا کہ انھوں نے اپنے والد اور قوم سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ میں بے شک تمھارے معبودوں سے براءَت کا اظہار کرتا ہوں، سوائے اپنے پروردگار کے جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور یقینًا وہی میری رہنمائی کرے گا۔ ابراہیم نے اپنی اس بات کو اپنی اولاد میں بھی جاری فرما دیا تاکہ وہ حق کی طرف رجوع کرتے رہیں۔ اللہ نے مشرکینِ مکہ کے اس خاص اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا جو کہتے تھے کہ قرآن مکہ اور طائف کے کسی بااثر شخص پر کیوں نہیں اترا۔ اللہ نے فرمایا کیا میری رحمتوں کو تقسیم کرنا ان کے اختیار میں ہے؟ میں جب چاہتا ہوں اور جہاں چاہتا ہوں اپنی رحمت کو اتار دیتا ہوں۔ نیز فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے ذکر سے اعراض کرتے ہیں، اللہ شیطان کو ان کا ساتھی بنا دیتا ہے اور وہ راہِ ہدایت سے بھٹک جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ سیدھے راستے پر ہیں۔

اس سورت میں اللہ پاک نے اس امر کا بھی ذکر کیا کہ عیسیٰ اللہ کے بندے تھے جن پر اللہ نے اپنا انعام کیا تھا اور ان کو بنی اسرائیل کے لیے اپنی نشانی بنایا تھا۔ مزید فرمایا کہ عیسیٰ قیامت کی ایک نشانی ہیں. سورت کے آخر میں پیغمبر علیہ السلام کو تعلیم دی گئی ہے کہ جب جاہل بحث کریں تو ان سے جدا ہو جائیں اور ان کو سلام کہیں.

اس کے بعد سورۃ الدخان ہے جس میں ارشاد ہے کہ قرآنِ مجید کو برکت والی رات میں نازل فرمایا گیا۔ پھر قومِ فرعون کا ذکر ہے کہ اللہ نے قومِ فرعون کو آزمائش میں ڈالا اور ان کے پاس ایک عزت والے رسول یعنی موسیٰ آئے جنھوں نے اُن سے کہا کہ تم اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کر دو، میں بے شک تمھارے لیے اللہ کا امانت دار پیغمبر ہوں اور اللہ کے حکم سے سرکشی اختیار نہ کرو، بے شک میں تمھارے پاس ایک واضح دلیل لے کر آیا ہوں۔ فرعون نے جناب موسیٰ کو سنگسار کرنا چاہا تو آپ نے اس سے کہا کہ میں اپنے اور تمھارے رب سے پناہ مانگتا ہوں کہ تم مجھے سنگسار کرو۔ اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھ سے دور ہوکر رہو۔

جنابِ موسیٰ نے پروردگارِ عالم کو پکار کر کہا کہ اے رب یہ تو مجرموں کی قوم ہے۔ اللہ نے ان سے کہا کہ آپ میرے بندوں کو لے کر رات میں نکل جائیے، آپ کا پیچھا کیا جائے گا اور آپ سمندر کو ٹھہری ہوئی حالت میں چھوڑ دیں گے، بے شک یہ (تعاقب کرنے والے) ڈوبنے والا لشکر ہیں۔ اللہ نے اس طریقے سے بنی اسرائیل کو سرکش اور حد سے تجاوز کرنے والے فرعون کے لشکر سے نجات دی۔

فرعونی کتنی ہی نہریں اور باغات بنی اسرائیل کے لیے ترکے میں چھوڑ گئے اور نعمتیں اور خزانے اور عمدہ جگہیں. کچھ بھی ان کے کام نہ آیا. جب انھوں نے اپنے بنے بنائے گھر بنی اسرائیل کے لیے چھوڑے تو ان پر نہ زمین میں کوئی رویا اور نہ آسمان میں کوئی رویا.

آخر میں کفار اور مومنین کے انجام کا ذکر کیا گیا ہے. کافروں کو زقوم کھانے کو دیا جائے گا جو پگھلے ہویے تانبے کی طرف پیٹ کو جلائے گا. اور ان کے سر پر بھی عذاب کا کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا. جب کہ مومنین امن کی جگہ ہوں گے، باریک ریشم پہنے ہوئے اور اونچی جگہوں پر براجمان ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوں گے.

اس کے بعد سورۃ الجاثیہ ہے۔ اس میں اللہ پاک نے اپنی بہت سی نشانیوں کا ذکر کیا۔ فرمایا کہ زمین و آسمان میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کے لیے، اور انسانوں اور جانوروں کی تخلیق میں نشانیاں ہیں یقین رکھنے والوں کے لیے، اور صبح و شام کی گردش میں اور آسمان سے اترنے والے پانی میں جس سے مردہ زمینیں زندہ ہوتی ہیں اور ہواؤں کے چلنے میں نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ نے سمندروں کو مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے ان میں کشتیوں کو چلایا جائے اور اس کے فضل کو تلاش کیا جائے تاکہ اس کا شکریہ ادا کیا جائے۔ فرمایا جو شخص نیک اعمال کرتا ہے سو اپنے لیے کرتا پے، اسی طرح برائی کا وبال برائی کرنے والے پر ہوگا.

آگے ارشاد ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب و حکمت اور نبوت دی اور پاکیزہ رزق بھی دیا اور جہانوں پر فضلیت دی۔ پھر اللہ نے شریعت کو بنی اسرائیل سے لے کر حضرت محمد کے سپرد کر دیا اور آپ کو بھی تلقین کی کہ آپ نے یہود و نصاریٰ کی خواہشات کو اہمیت نہیں دینی اور اللہ کے احکامات کی پابندی کرنا ہے۔ آخر میں قیامت کا تذکرہ فرمایا کہ قیامت حق ہے اور قائم ہوکر رہے گی. اس دن اللہ منکرین قیامت کو ایسے ہی فراموش کر دیں گے جیسے وہ دنیا میں قیامت کو فراموش کیے ہوئے ہیں اور یہ سزا اس لیے کہ وہ اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے تھے.

اللہ پاک ہمیں قرآنِ مجید میں بیان کردہ مضامین سے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
.

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
ماخذ فیس بک
Leave A Reply

Your email address will not be published.