خلاصہ قرآن پارہ نمبر 27
ستائیسویں پارے کا آغاز سورت الذاریات کے بقیہ حصے سے ہوتا ہے. پارے کے شروع میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس آنے والے فرشتوں کا تذکرہ ہے جو قوم لوط پر عذاب نازل کرنے کی غرض سے آئے تھے. اس کے علاوہ فرعون، قومِ عاد، قومِ ثمود اور قومِ نوح کا انجام ذکر کرکے مسلمانوں کو غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ نیز اللہ پاک نے انسانوں اور جنات کی تخلیق کا مقصد صرف اور صرف اپنی عبادت اور بندگی بتایا ہے۔ ارشاد ہوا کہ نہ تو مجھے ان لوگوں سے رزق کی طلب ہے اور نہ میں نے کبھی ان سے کھانا مانگا ہے اور دنیا جہان کی کل مخلوقات کے رزق کی کفیل ایک اللہ کی ذات ہے.
اس کے بعد سورۃ طور ہے جس میں اللہ نے طور پہاڑ، بیتِ معمور، بلند و بالا آسمان، سمندر کی لہروں اور کتابِ مقدس کی قسم اٹھا کر کہا ہے کہ اللہ کا عذاب ضرور نازل ہو کر رہے گا. قیامت کا دن ضرور آئے گا اور اس دن پہاڑ چلنے لگیں گے۔ اس دن یومِ جزا کو جھٹلانے والوں کو جہنم کی آگ کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہ آگ ہے جس کا تم انکار کر تے تھے۔ پھر فرمایا کہ اہلِ تقویٰ جنت میں پروردگار کی عطاؤں سے بہرہ مند ہو رہے ہوں گے اور ان کا رب ان کو عذابِ جہنم سے بچا لے گا۔ ان سے کہا جائے گا کہ اپنے اعمال کے بدلے جو جی چاہے کھاؤ اور پیو۔ وہ ایک دوسرے سے جڑے قطار میں بچھے تکیوں پر ٹیک لگائے ہوں گے اور اللہ بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ان کی زوجیت میں دے گا، اور اہلِ ایمان کی اولاد نے بھی اگر ایمان اور اعمالِ صالحہ میں اپنے آباء کی پیروی کی ہوگی تو اللہ جنت میں ان کی اولاد کو ان سے ملا دے گا۔
اس کے بعد ذکر ہے کہ حضرت محمد علیہ السلام نہ تو کاہن ہیں اور نہ ہی شاعر۔ اگر کافر اپنے الزامات میں سچے ہیں تو ان کو چاہیے کہ قرآنِ مجید کی مثل کوئی بات پیش کریں۔ جو لوگ اللہ کو نہیں مانتے ان کو سوچنا چاہیے کہ ان کو کس نے بنایا ہے، یا وہ خود ہی اپنے خالق ہیں؟ درحقیقت اللہ کی ذات کا انکار کرنے والوں کے دلائل انتہائی بودے ہیں۔ نیز رسول اللہ کو صبر کی تلقین بھی کی گئی ہے اور ارشاد ہوا کہ آپ اپنے پروردگار کے حکم پر صبر کریں۔ بے شک آپ آنکھوں کے سامنے ہیں (یعنی جو صبر بھی آپ کریں گے اللہ اس سے بخوبی آگاہ ہے) اور اللہ کی محبت اور معیت ہمیشہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے۔
سورہ طور کے بعد سورۃ النجم ہے۔ اس میں ارشاد ہے کہ حضرت محمد علیہ السلام اپنی مرضی یا خواہش کا بول نہیں بولتے بلکہ صرف وحی کے تابع رہ کر بولتے ہیں، یعنی رسول اللہ جو کچھ قرآن کے طور پر پیش کرتے ہیں وہ واقعی وحی کردہ ہوتا ہے نہ کہ آپ کی اپنی بات۔ سفرِ معراج کا ذکر ہے کہ اس میں نبی کریم نے اپنے پروردگار کی بہت سی نشانیاں دیکھیں۔ فرمایا کہ کیا جو میرے بندے نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تم اس پر شک کرتے ہو؟ نیز مشرکین کی مذمت بیان فرمائی گئی جو لات منات اور عزیز کو پوجتے تھے. اس کے بعد اہل کفر کے اس باطل عقیدے کا ذکر کیا گیا کہ وہ فرشتوں کو عورتیں قرار دیتے تھے۔ ارشاد ہوا کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے وہ فرشتوں کو عورتیں قرار دیتے ہیں اور ان کے پاس اس حوالے سے کچھ بھی علم نہیں. وہ لوگ صرف وہم اور گمان کی پیروی کرتے ہیں جب کہ گمان حق کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دیتا۔
پھر ذکر فرمایا گیا کہ جو لوگ کبیرہ گناہوں اور فحاشی کے کاموں سے اجتناب کرتے ہیں اللہ ان کو معاف فرما دے گا۔ اللہ نے اپنے علم کی وسعت کا بھی ذکر فرمایا کہ اللہ انسانوں کو اس وقت سے جانتے ہیں جب ان کے خمیروں کو مٹی سے اٹھایا گیا تھا اور جب وہ اپنی ماؤں کے پیٹوں میں جنین کی شکل میں موجود تھے۔ جنابِ ابراہیم کے صحیفوں اور جنابِ موسیٰ پر نازل ہونے والی وحی کے اہم مضامین کا ذکر کیا گیا کہ ان صحیفوں میں اللہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ بے شک انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور وہ اپنی کوشش کے نتیجے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔
اللہ تعالٰی نے اپنی قدرت کا اظہار فرمایا ہے کہ ہنستا بھی وہی ہے رلاتا بھی وہی ہے، اور وہی مارتا ہے اور وہی زندہ کرتا ہے. اس نے نر اور مادہ پیدا کیے. وہی مالدار بناتا ہے اور اسی نے سرمایہ عطا کیا ہے.
آخرِ سورت میں اللہ پاک نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو قرآنِ مجید پر تعجب کرتے اور رونے کے بجائے ہنسی مذاق میں اپنا وقت بِتا رہے ہیں۔ پس اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیے اور اسی کی عبادت کیجیے۔
اس کے بعد سورۃ القمر ہے جس کے شروع میں ارشاد ہے کہ قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا (یا جب قیامت آئے گی تو چاند پھٹ جائے گا)۔ شقِ قمر کا واقعہ ہجرت سے تقریبًا پانچ برس قبل رونما ہوا اور چاند جبلِ حرا کے دونوں طرف ہوگیا محسوس ہوا۔ اتنی بڑی نشانی کو دیکھ کر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کافر ایمان لے آتے لیکن وہ سرکشی پر تلے رہے جس پر اللہ نے اعلان فرما دیا کہ کفار اگر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو ایک جادو ہے جو پہلے سے چلا آرہا ہے۔
اس سورت میں قومِ نوح، قومِ لوط ،قومِ عاد اور قومِ ثمود کا ذکر ہے جو اللہ کی نافرمانیوں کی وجہ سے غضبِ خداوندی کا نشانہ بنیں۔ قومِ نوح پر سیلاب، قومِ عاد پر ہوا، قومِ ثمود پر چنگھاڑ اور قومِ لوط پر پتھروں کی بارش کے عذابات آئے۔ نیز اس سورت میں متعدد مقامات پر یہ ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ نے قرآنِ مجید کو سمجھنے والوں کے لیے آسان بنا دیا ہے، پس ہے کوئی جو نصیحت کو حاصل کرے؟
آخرِ سورت میں اللہ نے متقیوں کے مقام کا ذکر کیا ہے کہ وہ نہروں اور باغات میں اپنے مقتدر بادشاہ کے ہاں عزت کا مرتبہ پائیں گے.
اس کے بعد سورۃ الرحمن ہے جس کے شروع میں ارشاد ہے کہ رحمٰن نے قرآن سکھایا، انسان کو بنایا اور اس کو بیان کرنے کی صلاحیت عطا فرمائی۔ سورج اور چاند اللہ کی تسبیح کرتے ہیں اور ستارے اور درخت اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ اسی نے آسمان کو بلند بنایا اور ترازو قائم کیا۔ انسانوں کو چاہیے کہ ترازو کو صحیح طریقے سے قائم کیا کریں اور تولنے میں ڈنڈی نہ مارا کریں۔ پھر زمین کی تخلیق کا ذکر ہے کہ اس میں مختلف طرح کے پھلوں اور خوشبوؤں کو پیدا کیا گیا ہے۔ کھارے اور میٹھے پانی کے دریا اپنے اپنے مقام پر رواں دواں ہیں اور انسانوں اور جنات کو مخاطب ہو کر کہا گیا ہے کہ تم دونوں گروہ پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
آگے فرمایا گیا کہ ہر چیز پر فنا آئے گی اور باقی رہنے والی چیز صرف خدائے ذو الجلال کا چہرہ ہے۔ کائنات کو اللہ ہر روز نئے سرے سے بناتا ہے۔ اے جنوں اور انسانوں کے گروہو، اگر تم میں طاقت ہے تو آسمانوں اور زمینوں کی حدود سے سے باہر نکل کر دکھاؤ۔ جب آسمان پھٹ کر گلابی رنگ کی تیل کی طرح بن جائے گا اس دن مجرم اپنی پیشانیوں سے پہچانے جائیں گے اور وہیں سے پکڑ کر انھیں جہنم میں داخل کر دیا جائے گا.
اس سورت میں ایک اعلی انسانی قدر کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ کیا احسان کا بدلہ احسان کے سوا بھی کچھ ہے؟ نیز جنت کے حسین مناظر کو بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص اپنے رب کے مقام سے ڈرتا ہے اس کے لیے دو باغ ہیں، وہ دونوں باغ سبز شاخوں والے ہوں گے، ان دونوں باغوں میں دو چشمے رواں ہوں گے، ان دونوں میں ہر پھل کی دو قسمیں ہوں گی۔ یہ نعمتیں دو دو بار ملیں گی. جنت والوں کو اللہ یاقوت و مرجان جیسی پاکباز عورتیں عطا فرمائے گا جن کو کسی نہ چھوا تک نہ ہوگا. یہ حوریں خیموں میں مقیم ہوں گی. نیز سورت کے آخر میں خدائے ذوالجلال والاکرام نے اپنے نام کے بابرکت ہونے کا ذکر کیا ہے۔
سورۃ الرحمٰن کے بعد سورہ واقعہ ہے جس میں اللہ پاک نے تین گروہوں کا ذکر کیا ہے: ایک گروہ مقربین کا، دوسرا عام جنتیوں کا اور تیسرا گروہ جہنمیوں کا ہے۔ مقربین کے لیے اللہ نے ہر طرح کی نعمتیں تیار کی ہیں جب کہ عام جنتی بھی اللہ کی عنایات پر شاداں و فرحاں ہوں گے، البتہ جہنمیوں کو تھوہر کا درخت کھانا پڑے گا جس سے ان کے معدے ابل اور پگھل جائیں گے اور ان کو پیپ اور بھاپ والا پانی پلایا جائے گا۔ اللہ نے اپنی قدرتوں کا ذکر بھی کیا ہے کہ تمھیں میں نے پیدا کیا پھر بھی تم تصدیق نہیں کرتے. ہم نے تمھارے لیے موت مقرر کی. ہم عاجز نہیں. مخلوق کو ہم پیدا کرتے ہیں یا تم؟ ہم نے زرعی پیداوار کو اگایا یا تم نے؟ ہم نے پانی نازل کیا یا تم نے؟ پس اپنے ربِ عظیم کی پاکی بیان کرو۔
پھر ستاروں کی قسم کھاکر ارشاد فرمایا گیا کہ بے شک قرآن کرامت والا ہے۔ اسے پاک لوگ ہی چھوتے ہیں. یہ رب العٰلمین کا نازل کردہ ہے۔ اس کو سرسری نہ سمجھو. ہم تم سے زیادہ تمھارے قریب ہیں. جب قیامت قائم ہوگی تو اگر لوگ نیک ہوئے تو انعام پائیں گے اور اگر بدکار ہوئے تو جہنم کا عذاب ملے گا.
اس کے بعد سورۃ الحدید ہے جس میں اللہ پاک نے اپنی صفات کا ذکر کیا کہ وہ اول بھی ہے اور آخر بھی اور ظاہر بھی ہے اور پوشیدہ بھی، اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ اس میں اللہ پاک نے اسلام کی سربلندی کے لیے جان و مال خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے کہ کیا ہو گیا ہے تمھیں کہ تم اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے؟ کون ہے جو اللہ کو قرض دے اور اللہ اس کے لیے اجر کو بڑھاتا چلا جائے. پھر اہلِ کتاب کی ایمانی حالت کو ذکر کیا گیا ہے کہ کتاب کے نزول کے بعد ایک عرصہ بیت جانے کے بعد ان کے دل سخت ہوگئے اور ان کی اکثریت گناہ گار ہوگئی۔ اللہ پاک اہلِ ایمان کو تلقین فرماتے ہیں کہ ان کی مانند مت ہوجانا۔
اللہ پاک ہمیں قرآنِ مجید میں بیان کردہ مضامین سے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین