خلاصہ قرآن پارہ نمبر 5
چوتھے پارے کے آخر میں ان رشتوں کا ذکر ہے جن سے نکاح کرنا حرام ہے۔ پانچویں پارے کے آغاز میں سورہ النساء یہی مضمون چل رہا ہے اور اللہ نے نکاح کے لیے چنی جانے والی عورتوں کے اوصاف کا ذکر فرمایا ہے کہ نہ ان میں برائی کی علت ہونی چاہیے اور نہ غیر مردوں سے خفیہ مراسم پیدا کرنے کی بری عادت۔ اسی طرح انسان جب کسی عورت سے نکاح کا ارادہ کرے تو اسے عورت کے اہلِ خانہ کی اجازت سے یہ کام کرنا چاہیے۔
مومنوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ ان کو باطل طریقے سے ایک دوسرے کا مال ہڑپ کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ باہمی رضا مندی سے ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کیا کریں۔ نیز خدا نے اپنے بندوں کو خوشخبری بھی دی ہے کہ اگر وہ بڑے گناہوں سے بچ جائیں گے تو وہ ان کے چھوٹے گناہوں کو معاف فرما دے گا اور ان کو جنت میں داخل فرما دے گا۔
سماج کی بنیادی اکائی گھر ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے گھریلو سطح پر اختیارات کا تعین ان الفاظ میں فرمایا ہے کہ مرد عورتوں پر نگران کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس لیے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ میاں بیوی میں ان بن ہو تو میاں اور بیوی دونوں کے خاندانوں سے منصف مقرر کرنے اور صلح کرانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ نیز والدین، قریبی اعزہ و اقارب، یتیموں، مسکینوں، اور قریبی اور دور کے ہمسایوں سے حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔
آگے ارشاد ہے کہ اے ایمان والو, نماز کے قریب نہ جاؤ جب کہ تم نشہ کی حالت میں ہو یہاں تک کہ تمھیں معلوم ہو جائے کہ کیا کہہ رہے ہو، اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ غسل کرلو۔ نیز تیمم کے مسائل کا ذکر بھی اسی موقع پر کیا گیا ہے۔
اس کے بعد زبانیں مروڑ مروڑ کر خدا کے کلام میں الفاظ اور معانی بدلنے والے علما کا ذکر ہے اور ان پر لعنت کی گئی ہے۔ اللہ نے شرک کو سب سے بڑا گناہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ خدا شرک کے علاوہ ہر گناہ کو معاف کر دے گا لیکن شرک کو کسی بھی طور پر معاف نہیں کرے گا۔ اس کے بعد حسد کی شدید مذمت کرتے ہوئے ارشاد ہے کہ حسد کرنے والے لوگ درحقیقت اللہ کے فضل اور عطا سے حسد کرتے ہیں۔ پھر حضرت ابراہیم کی آل پر کیے جانے والے انعامات کا ذکر ہے کہ اللہ نے اپنے فضل سے ابراہیم کی آل کو نبوت اور حکومت سے نوازا تھا۔
اس کے بعد ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے پاس پہنچا دو۔ امانتوں میں اللہ اور بندوں دونوں کی امانتیں شامل ہیں۔
اس پارے میں سماجی اور حکومتی نظام کے چلانے کا اسلامی طریقہ بھی بیان فرمایا گیا ہے۔ ارشاد ہے کہ اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے اختیار والوں کی، اور پھر اگر کسی معاملے میں اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو۔
اس کے بعد حضرت محمد علیہ السلام کی اطاعت کی اہمیت کا ذکر ہے کہ جو رسول اللہ کی اطاعت کرتا ہے وہ درحقیقت اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔ مزید ارشاد ہوا کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ قیامت کے دن نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صلحاء کے ہمراہ ہوں گے۔
اس پارے میں تحفے اور سلام کے جواب کے آداب بھی بتلائے گئے ہیں کہ جب کوئی کسی کو سلام کہے یا تحفہ دے تو ایسی صورت میں بہتر تحفہ پلٹانا چاہیے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم اتنا جواب اور اتنا تحفہ ضرور دینا چاہیے جتنا وصول کیا گیا ہو۔
آگے دارالکفر میں رہنے والے مسلمانوں کا ذکر ہے کہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فرائض اور واجبات کو احسن انداز میں ادا کریں لیکن اگر وہ ایسا نہ کرسکیں تو ان کو اس ملک سے ہجرت کر جانی چاہیے۔ اگر وہ ہمت اور استطاعت رکھنے کے باوجود ہجرت نہیں کرتے تو ان کو اللہ کی بارگاہ میں جوابدہ ہونا پڑے گا تاہم ایسے لوگ اور عورتیں جو معذوری اور بڑھاپے کی وجہ سے ہجرت سے قاصر ہوں تو اللہ ان سے مواخذہ نہیں کریں گے۔
اس پارے میں نماز کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ارشاد ہے کہ نماز حالتِ جہاد میں بھی معاف نہیں ہے تاہم جہاد اور سفر کے دوران نماز کو قصر کیا جا سکتا ہے۔ خوف اور جنگ کی حالت میں فوج کے ایک حصہ کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے جب کہ ایک حصے کو نماز ادا کرنا چاہیے اور جونہی امن حاصل ہو جائے، نماز کو بروقت اور احسن انداز میں ادا کرنا چاہیے۔
آگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والوں کی مذمت میں ارشاد ہے کہ جو کوئی ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول اللہ کی مخالفت کرے گا خدا اس کا رخ اس کی مرضی کے راستے کی طرف موڑ دے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہے جو بہت برا ٹھکانہ ہے۔
منافقین کے بارے میں ارشاد ہے کہ یہ لوگ اپنی چالوں سے خدا کو دھوکہ دیتے ہیں۔ یہ اس کو کیا دھوکہ دیں گے کیونکہ خدا خود انھیں دھوکے میں ڈالنے والا ہے۔ یہ جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے، اور خدا کو یاد ہی نہیں کرتے مگر بہت کم۔ یہ لوگ بیچ میں پڑے لٹک رہے ہیں، نہ ان کی طرف ہوتے ہیں نہ ان کی طرف۔ جس کو خدا بھٹکا دے تو تم اس کے لیے کبھی رستہ نہ پاؤ گے۔ اور ایمان والوں سے ارشاد ہے کہ تم اپنے سوا کافروں کو دوست نہ بناؤ۔ ارشاد ہے کہ منافق لوگ آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔
اس پارے کے آخر میں خدا نے اپنی رحمت کے بارے میں اپنے بندوں کو بتایا ہے کہ اگر لوگ اللہ کی ذات پر ایمان لے آئیں اور اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کریں تو اللہ کو انھیں عذاب دینے کی کیا ضرورت ہے؟
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کو پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین