حضرت یونس علیہ السلام اور مچھلی تحریر محمد نعیم خان
حضرت یونس علیہ السلام اور مچھلی
تحریر محمد نعیم خان
حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ میں جانے کا قصہ ہمیں سوره الصفات میں تفصیل سے ملتا ہے . اس کے علاوہ سوره یونس اور سوره الانبیا میں بھی اس کا ذکر موجود ہے .تمام ہی مفسرین نے یہ قصہ بائبل سے متاثر ہو کر لکھا ہے . لیکن اگر صرف قرآن کے الفاظ پر غور کیا جاے بغیر اس کے کہ پہلے سے کوئی عقیدہ ذہن میں ہو تو میرے نزدیک ایسی کوئی بات قرآن بیان نہیں کرتا .
اب کیوں کہ ہمارے ذہنوں میں بائبل کا پیش کردہ عقیدہ ہوتا ہے اس لیے قرآن کے ہر لفظ سے وہی مطلب نکالتے ہیں جو بائبل کا پیش کردہ ہے .
اب ایک ایک آیت پر غور کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں قرآن کے الفاظ کس طرف اشارہ کرتے ہیں .
سوره الصفات کی آیات ہیں ..
وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ ﴿139 ﴾
اور یقیناً یونسؑ بھی رسولوں میں سے تھا (139)
إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ ﴿140 ﴾
یاد کرو جب وہ ایک بھری کشتی کی طرف بھاگ نکلا (140)
ان دو آیات میں لفظ أَبَقَ اور الْمَشْحُونِ قابل غور ہیں .
أَبَقَ کا مطلب غلام کا بھاگنا اور چلے جانا ہے جب نہ اس کو کوئی خوف ہو اور نہ ہی اس سے زیادہ مشقت لی جاتی ہو .لیکن اس کے باوجود چپکے سے چلے جانا . بھاگ جانے والے غلام کے لیے یہ لفظ عربوں کے ہاں بہت معروف تھا . اپنے فرائض منصبی سے احتراز کرکے بھاگ جانے والا یا چھپ جانے والا .اس کا عام سا مطلب بھاگنا یا دوڑنا بھی ہے
دوسرا لفظ الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ ہے جس کے معنی ہیں بھری ہوئی اور لدی ہوئی کشتی .
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک رسول جو یہ بات جانتا ہے کہ الله ہر جگہ موجود ہے اور انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے . کیا یہ ممکن ہے کہ انسان اس سے چھپ سکے یا اس سے کہیں دور بھاگ سکے ؟. کیا حضرت یونس یہ بات نہیں جانتے تھے ؟. وہ الله جو دلوں کے حال جانتا ہے کیا اس سے کوئی بات چھپائی جا سکتی ہے ؟. جب یہ بات ایک عام انسان جانتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت یونس الله سے دور بھاگ رہے ہوں ؟. ایک غلام تو اپنے آقا سے دور بھاگ سکتا ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اس کا آقا انسان ہے اور ہر جگہ موجود نہیں ہے اس لیے اس سے دور بھاگ جانا تو قرین قیاس ہے لیکن ایک رسول کا اپنے آقا سے دور بھاگنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا .
خود الله نے قرآن میں رسول کے مخالفین کو یہ بات کہی ہے کہ اگر اس کائنات سے نکل سکتے ہو تو نکل کے دکھاؤ . اس بات کا بتانے کا مقصد ہی یہی تھا کہ کوئی بھی الله سے چھپ نہیں سکتا نہ ہی بھاگ سکتا ہے تو پھر حضرت یونس کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آئی ؟
اس جواب سے پہلے اس بات پر غور کرتے ہیں کہ وہ کیا نوبت تھی جس کی وجہ سے حضرت یونس کو یہ فیصلہ کرنا پڑا.
اس کا ذکر ہمیں سوره الانبیا کی آیت 87 میں ملتا ہے
وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿87 ﴾
اور ذوالنون، کو (یاد کرو) جب چلا غصہ میں بھرا تو گمان کیا کہ ہم اس پر تنگی نہ کریں گے تو اندھیریوں میں پکارا کوئی معبود نہیں سوا تیرے پاکی ہے تجھ کو، بیشک مجھ سے بے جا ہوا (87 )
اب ظاہر ہے یہ غصہ الله پر تو نہیں تھا بلکے اپنی قوم پر غصہ تھا . بعض مفسرین نے اس آیت کے ترجمے میں لکھا ہے کہ ” ہم اس پر گرفت نہ کریں گے” جو اس سیاق میں غلط ترجمہ ہے .
لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ کے معنی گرفت نہ کرنے کے بجاے تنگی نہ کریں گے زیادہ مناسب ہے اور قرآن میں خود لفظ قدر تنگی کے بھی معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسے سوره الرعد کی آیت 26 اور سوره الطلاق کی آیت7 میں .
حضرت یونس نعوز باللہ کافروں یا یقین نہ کرنے والوں میں سے نہ تھے جن پر گرفت کی جاتی . یا انہونے الله کے کسی صریح حکم کی خلاف ورزی کی تھی جس پر الله کی پکڑ ان کے لیے ہوتی
جب حضرت یونس کی قوم ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر ای اور کسی طرح ان کی دعوت کو قبول نہیں کیا تو حضرت یونس نے اپنی قوم پر غصہ کیا اور یہ اجتہادی فیصلہ کیا کہ ان سے دور چلے جائیں اور یہ گمان کیا کہ شائد ان کی قوم کی ہدایت کا کوئی اور راستہ نکل اے . ان پر لفظ ابق کا اطلاق اس ہی مناسبت سے ہوا کیوں کہ مشیت الہی سے پہلے انہونے اپنی قوم کو چھوڑ دیا اور اس گمان میں وہاں سے چلے گے کہ شائد اب ان کی ہدایت کا کوئی دوسرا راستہ نکل جاے . اس ہی سے اندازہ لگائیں کہ ایک رسول کی زندگی کتنی احکام الہی کے تابع ہوتی تھی اور جن معملات میں فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہوتا تھا ان میں رسول ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتا تھا . دوسرے معملات میں البتہ اس کو آزادی ہوتی تھی کہ وہ وحی کے دے ہوے اصولوں کی روشنی میں اپنا پروگرام آپ مراتب کرے
انبیا بھی انسان تھے اس لیے ان کے بھی اپنے جذبات ہوتے ہیں . اپنی قوم سے ایک دلی لگاو ہوتا ہے اس لیے ان کا غصے میں آنا ایک فطری عمل ہے لیکن کسی رسول سے الله کی نافرمانی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا . اس لیے حضرت یونس نے الله کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی تھی البتہ ان سے اجتہادی غلطی ہوئی تھی .
بائبل میں یہ واقعہ قرآن سے مختلف ہے جہاں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت یونس کو تو الله نے ایک بستی جس کا نام نینوہ تھا اس کی طرف تبلیغ اور انذار کے لیے بھیجا لیکن حضرت یونس اس کے بجاے کسی اور بستی کی طرف نکل گے . اب کیوں کہ یہاں الله کے حکم کی صریح خلاف ورزی تھی اس لیے ہمارے مفسرین نے اس واقعہ کے اس حصہ کو نہیں لیا . اس سے اندازہ لگا لیں کہ بائبل میں پیش ہونے والے اس پورے واقعہ میں کتنی سچائی ہوگی .
اس تمہید کے بعد اگر اپ منظر اپنے ذہنوں میں تشکیل دیں تو صورتحال کچھ یوں تھی کہ جب حضرت یونس نے اپنی قوم سے دور جانے کا فیصلہ کیا تو ساحل پر ایک مسافروں سے بھری ہوئی کشتی تیار مل گئی جو کہ روانہ ہونے کو تھی . حضرت یونس نے دوسری کشتی کا انتظار کیے بغیر ہی اس کشتی کی طرف دوڑ لگا دی اور بھری ہوئی کشتی میں سوار ہونے لگے . آگے کیا ہوا اس کی تفصیل اگلی آیت میں ہے .
اگلی آیت ہے .
فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ ﴿141﴾
پھر قرعہ اندازی میں شریک ہوا اور اس میں مات کھائی (141)
تمام ہی مفسرین نے اس آیت کی یہی تشریح کی ہے . کیوں کہ تمام ہی نے بائبل کے زیرے اثر تفسیر لکھی ہیں اس لیے ان کو یہ معنی کرنے پڑے .
قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تین مقامات پر پانسوں کا ذکر ہے جس کو ڈال کر لوگ فیصلہ کرتے تھے .
ان میں سے وہ جو جوے کے لیے استعمال ہوتے تھے ان پانسوں کی ممانعت قرآن میں سوره المائدہ کی آیت ٣ میں ہے جس کو قرآن ازلام سے تعبیر کرتا ہے . اس میں تو کسی شک کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے .
ایک پانسوں کا ذکر تب ہے جب بی بی مریم کی کفالت کا ذکر سوره ال عمران کی آیت44 میں ملتا ہے جہاں اس کے توسط سے یہ فیصلہ ہوا کہ اس کی کفالت کون کرے گا . اس میں بھی کوئی ایسی قباحت کی بات نہیں کیوں کہ اس میں کسی کا نقصان ہرگز نہیں تھا . نہ ہی کسی نے بی بی مریم کی کفالت کے لیے کوئی پیسا ان پر لگایا تھا, نہ ہی کسی کی جان داؤ پر لگی تھی ، نہ ہی کسی کا حق مارا جا رہا تھا . اس میں امیدوار سب ہی تھے لیکن کسی ایک کا فیصلہ کرنے کے لیے یہ قرعہ اندازی کی گئی . اگر یہ کوئی ایسی بات ہوتی تو الله حضرت زکریا کو اس پر روکتے لیکن ایسی کوئی بات نہیں ملتی .
اب یہ تیسرا موقع ہے جہاں ان پانسوں کا ذکر ہے اس کی تشریح میں غامدی صاحب فرماتے ہیں .
” اُس زمانے کے ملاحوں میں روایت تھی کہ کشتی طوفان میں گھر جائے تو قرعہ ڈال کر دیکھتے کہ اُس میں کوئی مجرم تو سوار نہیں ہے، جس کی وجہ سے یہ مصیبت آ گئی ہے۔ پھر جس کے نام پر قرعہ نکلتا، اُس کو دریا میں پھینک دیتے۔ اُن کا عقیدہ تھا کہ اِس کے بغیر کشتی ورطۂ ہلاکت سے نہیں نکل سکتی۔اِس موقع پر بھی، معلوم ہوتا ہے کہ یہی کیا گیا”
اب اپ اندازہ لگائیں کہ کیا کوئی رسول ایسی توہمات پر یقین کر سکتا ہے ؟. کیا یہ معلوم ہوتے ہوے بھی کہ اس کائنات میں جو قوانین رائج ہیں وہ سب الله کے بناے ہوے ہیں اور جو بھی اچھائی یا برائی آتی ہے وہ الله ہی کے حکم سے ہوتی ہے . سمندر میں طوفان بھی ان ہی قوانین کا نتیجہ ہے . یہ نہ تو کسی کی منحوسیت یا کسی مجرم کی وجہ سے نہیں . لیکن اس کے باوجود بھی وہ رسول نہ صرف اس بات پر یقین کرتا ہے بلکے کسی بے گناہ انسان کی جان بھی داؤ پر لگا دیتا ہے . اس کی خاموشی کیا خود اس کو مجرم نہیں بنا دیتی ؟. کیسے ایک رسول خاموشی اختیار کر کے کسی بے گناہ کی جان کو سمندروں کی نذر کرنے پر رازی ہوگیا ؟. ایسی نہ جانے کتنی توہمات آج ہمارے معاشرے میں رائج ہیں . اس کی ایک مثال ، کوئی کالی بلی راستہ کاٹ جاے تو لوگ راستہ بدل جاتے ہیں کہ یہ نیک شگون نہیں . اس کے علاوہ قرآن کا مطالعہ کریں تو رسولوں کے مخالفین ان رسولوں کو اپنی قوم کے لیے بد شگون قرار دیتے تھے .
اس لیے میرے نزدیک اس موقع پر پانسوں کا کھیل جوے ہی کی زمرے میں آتا ہے . جس کی ممانعت قرآن میں صاف الفاظوں میں درج ہے .
اب اس آیت کے الفاظوں پر غور کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ مزید تصویر کیا سامنے آتی ہے .
اس آیت میں لفظ سَاهَمَ اور الْمُدْحَضِينَ استعمال ہوے ہیں .
سَاهَمَ کہتے ہیں حصہ کو . حصہ دار کو عربی میں سہیم کہتے ہیں . یہ ان تیروں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جس سے قرعہ اندازی کر کے حصے کیے جاتے ہیں .
دوسرا لفظ الْمُدْحَضِينَ ہے جس کا بنیادی مطلب ڈھلنا ، پھسلنا ہے . سورج کے ڈھلنے پر یہی لفظ بولا جاتا ہے ،وحضِت الشمس کے معنی ہوتے ہیں سورج ڈھل گیا .اوحضِ الرجل کے معنی آدمی پھسل گیا . چنانچہ پھسیلنی جگہ کو مُدْحَضِہ کہتے ہیں .
اب صورتحال کچھ یوں ہوئی کہ جب بھاگ کر حضرت یونس بھری ہو کشتی میں سوار ہوے تو کشتی روانہ ہو چکی تھی لیکن کیوں کہ کشتی مسافروں سے لدھی ہوئی تھی اور کچھا کچھ بھری ہوئی تھی اور پاؤں رکھنے کی جگہ نہ تھی . ایسے میں جب حضرت یونس نے اپنا حصہ حاصل کرنے کے لیے کوشش کی تو ان کا پاؤں پھسل گیا اور وہ پانی میں گر گے .
پانی میں گرتے کے بعد کی آیت اگلی ہے .
فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ ﴿142 ﴾
پھر اسے مچھلی نے لقمہ بنا لیا اوروہ پشیمان تھا (142)
الْتَقَمَ- لقم ، جلدی سے کھا جانا ہے . لقمہ اور التقم کے معنی منہ میں لینے کے ہیں . یہ لفظ مہلت کے ساتھ نگل جانے پر بھی بولا جاتا ہے .
الْحُوتُ بڑی اورچھوٹی دونوں مچھلی پر بولا جاتا ہے .
ہمارے تمام ہی مفسرین بشمول ، جن میں اصلاحی صاحب ، غامدی صاحب اور مودودی صاحب شامل ہیں ، وہیل کو مچھلی قرار دیا ہے جب کہ سائنس جاننے والے یہ بات بغوبی جانتے ہیں کہ وہیل مچھلی نہیں ہے بلکے اس کا شمار دودھ پلانے والے جانداروں میں ہوتا ہے . یہ گرم خون والا جاندار ہے جو پھیپھڑوں سے سانس لیتا ہے اور انڈوں کے بجاے بچے دیتا ہے . اس ہی لیے وہیل کو اکسیجن کے لیے پانی کی سطح پر آنا پڑنا ہے .
مچھلی سرد خون والی جاندار ہے جو انڈے دیتی ہے اور گلز سے سانس لیتی ہے . پانی مچھلی کے گلز سے گزرتا ہے جو آکسیجن کو خون میں شامل کرتا ہے اور اس طرح آکسیجن مچھلی کے خلیے میں پہنچتی ہے .
سب سے بڑی مچھلی جو سمندر میں پائی جاتی ہے وہ وہیل شارک کہلاتی ہے لیکن یہ مچھلی صرف پودوں پر گزارا کرتی ہے اس کی خوراک میں گوشت شامل ہی نہیں ہے . یہ انسانوں کی انتہائی دوست ہوتی ہیں اور ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتی . اگر کسی نے ٹی وی پر ان کی ڈوکومنٹری دیکھی ہو تو اکثر تیراک اس کی پیٹھ پر سفر کرتے اور تصویریں کھنچواتے ہیں .
اب اگر شارک کی بات کریں تو شارک یقینن انسانوں کا شکار کرتی ہے اور مچھلی میں شمار ہوتی ہے لیکن یہ خوراک کو نگلتی نہیں بلکے اپنے تیز دانتوں سے حملہ کر کے اس کو ٹکڑوں میں بانٹ دیتی ہے .
اب ظاہر ہے کہ اس کائنات کا بنانے والا یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ کون سا جاندار دودھ پلانے والا ہے اور کون سی مچھلی ہے . اس لیے ان شواہد کی بنیاد پر یہ کہنا کہ حضرت یونس کو کسی مچھلی نے نگل لیا تھا اور وہ اس کے پیٹ میں رہے درست نہیں ہے .
اب کیوں کہ التقم کا مطلب منہ میں لینا ہے تو جب حضرت یونس پانی میں گرے اور تیرتے ہوے ساحل کی جانب سفر کیا تو وہیں کسی مچھلی نے ان کو منہ میں لینے کی کوشش کی بلکے قرین قیاس ہے کہ ان کا پاؤں یا ایڑی کو منہ میں لینے کی کوشش کی . لیکن الله نے ان کو اس سے بچایا .
اب یہ بات کہ جو الله حضرت یونس کو مچھلی کے منہ میں لینے سے بچا سکتا ہے وہ مچھلی کے پیٹ میں اس کی حفاظت کیوں نہیں کر سکتا . اس کائنات کا بنانے والا یقینن اس کی حفاظت کر سکتا تھا اور ان کو زندہ رکھ سکتا تھا . اس میں کوئی مشکل بات بھی نہیں لیکن اس وقت جو الفاظ قرآن میں استعمال ہوے ہیں ان پر غور کرنے سے جو بات سامنے آتی ہے . اس وقت ہم اس پر غور کر رہے ہیں . اس وقت یہ موضوع بحث ہی نہیں ہے کہ الله کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں .
اپنے عقیدہ کو درست ثابت کرنے کے لیے تو مودودی صاحب نے اردو ڈائجسٹ سے ایک حوالہ پیش کیا جو1891 میں پیش آیا جس میں ایک وہیل بقول مودودی صاحب کے ایک مچھیرے کو نگل گئی جو اس کا شکار کرنے نکلے تھے لیکن اتفاق سے جب اس ہی وہیل کا شکار کیا تو ان مچھیروں کو اس کے پیٹ میں سے اس ہی مچھیرے کو زندہ پایا جس کو وہیل نے نگلا تھا اور دو دن کے بعد بھی وہ زندہ رہا .
ہمیں اپنے بزرگوں کے متعلق حسن ظن سے کام لینا چاہیے لیکن اس واقعہ کو بتانے کا مقصد یہی تھا کہ جب پہلے سے ایک عقیدہ انسان کے ذہن میں ہو تو پھر وہ پوری طاقت لگا دیتا ہے اس کو درست ثابت کرنے کے لیے . اردو ڈائجسٹ میں چھپنے والی کہانیاں کتنی حقیقت رکھتی ہیں اور یہ حوالہ کتنا مستند ہے اس کو بتانے کی ضرورت نہیں . پھر وہیل مچھلی نہیں جس کا ذکر میں نے اوپر تفصیل سے دیا ہے پھر وہیل کا حلق بھی اتنا بڑا نہیں ہوتا کہ پورے انسان کو نگل جاے اس لیے یہ واقعہ سواۓ کسی قصے سے کم نہیں .
اگلی دو آیتوں سے مفسرین حضرت یونس کے پیٹ میں جانے کا استدلال پیش کرتے ہیں.
فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ ﴿143 ﴾ لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿144 ﴾
پس اگر یہ بات نہ ہوتی کہ وہ تسبیح کرنے والوں میں سے تھا (143) تو وہ اس کے پیٹ میں اس دن تک رہتا جس میں لوگ اٹھائے جائیں گے (144)
سبح کے معنی ہیں تیرنا ، سبح با لنھر کے معنی ہیں وہ نہر میں تیرا ، اسبحهُ فی الماء یعنی اسے پانی میں تیرا دیا . کشتیوں کو بھی السَّابِحَاتِ کہتے ہیں . السَّابِحَ اچھے تیراک کو کہتے ہیں .
سوره یٰسین میں ہے .
لَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ﴿41 ﴾
نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں (40 ).
کشتی البتہ اتنی دور سفر کر گی تھی کہ ساحل سے دور ہو چکی تھی اس لیے جب حضرت یونس کا پاؤں پھسلا ہے تو وہ ساحل سے اتنا دور تھے کہ تیر کر وہاں پہنچ سکتے تھے . اس ہی کا ذکر اوپر اس آیت میں ہے . کہ اگر وہ تیراک نہ ہوتے تو مچھلی ان کو لقمہ بنا لیتی . لیکن مفسرین یہ بیان کرتے ہیں کہ اگر وہ مچھلی کے پیٹ میں یہ دعا نہ پڑھتے لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ (یہ سوره النبیا کی آیت 87 ہے ) تو پھر قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے اور باہر نہ نکلتے .
پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن میں صریح ایسے الفاظ نہیں پاۓ جاتے جس سے یہ سمجھا جاے کہ حضرت یونس مچھلی کے پیٹ میں چلے گے . اوپر اس کو تفصیل سے بیان کر چکا ہوں
دوسری بات آیت 144 پر کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ ایسی کون سی مچھلی ہے جو قیامت تک زندہ رہے اور حضرت یونس اس کے پیٹ میں رہتے ؟ جب کے تمام چیزیں فنا ہو جائیں گی تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ مچھلی جس کے پیٹ میں حضرت یونس تھے وہ باقی رہے .
پھر اگر یہ کہا جاے کہ مچھلی تو مر جاے لیکن حضرت یونس اس کے پیٹ میں صحیح سالم رہتے تو یہ بھی ممکن نہیں کہ مری ہوئی چیز کے اجزا قایم رہتے . اس لیے اس آیت سے یہ استدلال لینا کہ وہ مچھلی کے پیٹ میں تھے درست نہیں .
پھر ظلمات کے معنی مشکلات بھی ہیں . جیسے یوم مظلم اس دن کو کہتے ہیں جس میں سخت مشکلات و مصایب کا سامنا کرنا پڑے . ظلمات البحر کے معنی ہے سمندر کی مشکلات .
اس لیے حضرت یونس نے مچھلی کے پیٹ میں نہیں بلکے مشکلات میں الله کو پکارا اور الله نے ان کو نجات دی اور وہ تیر کر ساحل تک پہنچے .
فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ سَقِيمٌ ﴿145 ﴾
آخرکار ہم نے اسے بڑی سقیم حالت میں ایک چٹیل زمین پر پھینک دیا (145 )
نبذ کے بنیادی معنی پھینک دینا یا ڈال دینا ہے . اس ہی طرح العری کھلے میدان کو کہتے ہیں ، کھلی جگہ جہاں کوئی آڑ نہ ہو . اس ہی طرح سقیم کے معنی یہاں نڈھال ہونے کے ہیں لیکن بعض مفسرین نے بیمار ہونے کے معنی لیے ہیں . اب ظاہر ہے جب مچھلی کے پیٹ میں ہونگے تو بیمار تو ہونگے ہی لیکن اگر تیز تیز تیرتے ہوے ساحل تک پہنچیں گے تو پھر نڈھال ہی ہونگے .
جب وہ ساحل پر پہنچے تو …
وَأَنبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِّن يَقْطِينٍ ﴿146 ﴾
اور ہم نے اس پر کدو کا پیڑ اگایا (146)
اگایا سے مراد اس ہی وقت اگا دینا نہیں ہے . بلکے وہ وہاں پہلے سے اگا ہوا تھا . ایسا ہی اسلوب قرآن میں جگہ جگہ ملتا ہے . اس کی ایک مثال نیچے بیان کر رہا ہوں .
سوره بقرہ کی آیت 61 ہے .
وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نَّصْبِرَ عَلَىٰ طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ مِن بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا ۖ قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَىٰ بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ ۚ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُم مَّا سَأَلْتُمْ ۗ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّـهِ ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۗ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ ﴿61 ﴾
یاد کرو، جب تم نے کہا تھا کہ، "اے موسیٰؑ، ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ساگ، ترکاری، کھیرا، ککڑی، گیہوں، لہسن، پیاز، دال وغیرہ پیدا کرے” تو موسیٰؑ نے کہا: "کیا ایک بہتر چیز کے بجائے تم ادنیٰ درجے کی چیزیں لینا چاہتے ہو؟ اچھا، کسی شہری آبادی میں جا رہو جو کچھ تم مانگتے ہو، وہاں مل جائے گا” آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری اور پستی و بد حالی اُن پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے یہ نتیجہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے یہ نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ وہ حدود شرع سے نکل نکل جاتے تھے (61)
جو خدا معجزاتی طور پر من و سلوا آسمان سے اتار سکتا تھا کیا وہ اس پر قادر نہیں تھا کہ ان کے لیے زمین سے یہ تمام چیزیں اگاتا ؟. لیکن اس کے بجاے حضرت موسیٰ کا یہ کہنا کہ کسی شہر میں اتر جاؤ جہاں یہ چیزیں تمہیں ملیں گی یہی بتاتا ہے کہ یہ تمام نباتات پہلے سے موجود تھیں . ان کے لیے اس ہی وقت نہیں اگائیں .
پھر سوره النمل کی آیت 60 میں الله کا ارشاد ہے .
أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَّا كَانَ لَكُمْ أَن تُنبِتُوا شَجَرَهَا ۗ أَإِلَـٰهٌ مَّعَ اللَّـهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ ﴿60 ﴾
بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعہ سے وہ خوشنما باغ اگائے جن کے درختوں کا اگانا تمہارے بس میں نہ تھا؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا بھی (اِن کاموں میں شریک) ہے؟ (نہیں)، بلکہ یہی لوگ راہِ راست سے ہٹ کر چلے جا رہے ہیں (60)
کیا زمین اور آسمان کے بننے میں چھ یوم نہیں لگے ؟ کیا الله کا کن فیا کن بولتے کے باوجود یہ کائنات چھ یوم میں وجود میں نہیں آئی؟
. کیا باغ کچھ سیکنڈز میں اگے ؟. جب ہم زمین میں بیج بوتے ہیں تو کیا ایک فصل چند سیکنڈ میں تیار ہو جاتی ہے؟ .
ظاہر ہے ان تمام چیزوں کو الله نے ہی پیدا کیا . اس ہی نے اگایا . ان تمام چیزوں کا فاعل الله ہی ہے . جب ہم فصل اگاتے ہیں تو اس کا اگانے والا بھی الله ہی ہے . اس کا ذکر الله نے قرآن میں کیا ہے کہ یہ فصل کون اگاتا ہے تم یا ہم ؟. اس لیے یہ تصور لینا کہ معجزاتی طور پر ایک درخت وہاں اگا دیا گیا درست نہیں بلکے ایک چوڑے پتوں والا درخت وہاں پایا
پھر اس آیت میں کدو کے درخت کی بات ہے جب کہ سب جانتے ہیں کہ کدو کی بیل ہوتی ہے درخت نہیں ہوتا .اصلاحی صاحب ، غامدی صاحب اور مودودی صاحب نے اپنی تفسیر میں ان ہی کا ذکر کیا ہے جو مشاہداتی اعتبار سے درست نہیں .
يَقْطِينٍ کے معنی وہ بیل جو زمین میں پھیل جاے . جیسے خربوزہ ، تربوز ، کدو کی بیلیں . تاج العروس کے مطابق ہر وہ پودا جو ایک سال کے اندر ہی پیدا ہو کر ختم ہو جاے يَقْطِينٍ کہلاتا ہے . اس کے علاوہ ہر بڑا پتہ يَقْطِينٍ کہلاۓ گا
اس لحاظ سے اس آیت میں شَجَرَةً مِّن يَقْطِينٍ سے مراد چوڑے پتوں والا درخت ہے . اس لیے جب حضرت یونس ساحل پر نڈھال حالت میں پہنچے تو ان ہونے ایک سایہ دار درخت کے نیچے سانس لی .
ختم شد
٭٭٭٭٭
[…] Download from Archive Download from Scribd Download from PDF Archive Unicode Text […]