سورۃ البقرہ، آیت 259 (تفسیر)۔ تحریر محمد نعیم خان

سورۃ البقرہ، آیت 259 (تفسیر)۔

تحریر محمد

(پی ڈی ایف فائل لنک)

سورہ البقرہ کی آیت 259 پر اپنی رائے دینے سے پہلے میں یہ در خواست کروں گا کہ  یہ میرا فہم ہے  اور اسے اس خیال سے پیش کر رہا ہوں کہ اس میں غلطی کی گنجائش ہے اور یہ حرف آخر نہیں ۔ اب آئیے آیت پر غور کرتے ہیں :

أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىٰ يُحْيِي هَـٰذِهِ اللَّـهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۖ فَأَمَاتَهُ اللَّـهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۖ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۖ وَانظُرْ إِلَىٰ حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ ۖوَانظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿259﴾

یا اس شخص کے مانند کہ جس کا گزر اس بستی پر ہوا جو چھت کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی، وه کہنے لگا اس کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ اسے کس طرح زنده کرے گا؟ تو اللہ تعالی نے اسے مار دیا سو سال کے لئے، پھر اسے اٹھایا، پوچھا کتنی مدت تجھ پر گزری؟ کہنے لگا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ، فرمایا بلکہ تو سو سال تک رہا، پھر اب تو اپنے کھانے پینے کو دیکھ کہ بالکل خراب نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو بھی دیکھ، ہم تجھے لوگوں کے لئے ایک نشانی بناتے ہیں تو دیکھ کہ ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھاتے ہیں، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں، جب یہ سب ﻇاہر ہو چکا تو کہنے لگا میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (259) [ترجمہ محمد جونا گڑھی]

عربی جاننے والے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ حرف ”ک“ مثال کے لئےآتا ہے ۔ ایک ایسی ہی مثال کاذکر سورہ البقرہ کی آیت 17 میں گزر چکا ہے۔ اس لئے كَالَّذِي سے صاف ظاہر ہے کہ یہ ایک مثالی واقعہ ہے۔ یعنی تو نے اس شخص کی مثالی حالت پر غور نہیں کیا ۔ اس لئے یہاں کسی ایسے واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو ایک شخص کو عالم مثال یا عالم رویا میں پیش آیا ہے۔ ایسے رویا اللہ اپنے رسول یا نبیوں کو دکھاتا رہتا ہے۔ اس کی مثال ہمیں قران سے حضرت ابراہیم ، حضرت یوسف اور رسول اللہ کے رویا سے ملتی ہے۔ انبیاء کے رویا بھی حق ہوتے ہیں ۔ اس لئے یہاں جس واقعہ کا ذکر ہے وہ بھی کسی نبی کو عالم رویا میں پیش آیا ہے۔ جس کا ذکر قران یہاں کر رہا ہے۔ ’’اَلَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ‘‘ سے یہاں کس کی طرف اشارہ ہے؟ اس سوال کا کوئی قطعی جواب دینا مشکل ہے۔ اربابِ تفسیر میں سے کسی نے خضرؑ کا نام لیا ہے، کسی نے عزیرؑ کا لیکن قدیم صحیفوں میں ان دونوں بزرگوں سے متعلق کوئی اس قسم کا واقعہ منقول نہیں ہے جس کی طرف قرآن نے یہاں اشارہ کیا ہے۔ قرانی واقعات پر جب غور کرتےہیں توہمیں بلکل ایسا ہی ایک واقعہ بائبل میں حزقی ایل نبی کا ملتا ہے۔ مولانا اصلاحی اس واقعہ کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’خداوند کا ہاتھ مجھ پر تھا اور اس نے مجھے اپنی روح میں اٹھا لیا اور اس وادی میں جو ہڈیوں سے پر تھی مجھے اتار دیا اور مجھے ان کے پاس چوگرد پھرایا اور دیکھ وہ وادی کے میدان میں بکثرت اور نہایت سوکھی تھیں اور اس نے مجھے فرمایا اے آدم زاد، کیا یہ ہڈیاں زندہ ہو سکتی ہیں؟ میں نے جواب دیا، اے خداوند خدا تو ہی جانتا ہے ، پھر اس نے مجھے فرمایا تو ان ہڈیوں پر نبوت کر اور ان سے کہ اے سوکھی ہڈیو، خداوندی کلام سنو۔ خداوند خدا ان ہڈیوں کو یوں فرماتا ہے کہ میں تمھارے اندر روح ڈالوں گا اور تم زندہ ہوجاؤ گی اور تم پر نسلیں پھیلاؤں گا اور گوشت چڑھاؤں گا اور تم کو چمڑا پہناؤں گا اور تم میں دم پھونکوں گا اور تم زندہ ہو گی اور جانو گی کہ میں خداوند ہوں۔ پس میں نے حکم کے مطابق نبوت کی اور جب میں نبوت کر رہا تھا تو ایک شور ہوا اور ایک زلزلہ آیا اور ہڈیاں آپس میں مل گئیں۔ ہرایک ہڈی اپنی ہڈی سے۔ اور میں نے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ نسیں اور گوشت ان پر چڑھ آئے اور ان پر چمڑے کی پوشش ہو گئی پر ان میں دم نہ تھا، تب اس نے مجھے فرمایا کہ تو نبوت کر، تو ہوا سے نبوت کر اے آدم زاد اور ہوا سے کہہ خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ اے دم تو چاروں طرف سے آ اور ان مقتولوں پر پھونک کہ زندہ ہو جائیں۔ پس میں نے حکم کے مطابق نبوت کی اور ان میں دم آیا اور وہ زندہ ہو کر اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئیں۔ ایک نہایت بڑا لشکر۔‘‘ (حزقی ایل باب 37: 1۔11)

اب اگر بایبل اور قران کی آیات کا موازنہ کریں تو دونوں میں ایک ہی واقعہ کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ جیسے  بائبل میں ذکر ہے کہ نبی حزقی ایل کا گزر کشف کی حالت میں ایک ہڈیوں سے بھری ہوئ وادی سے ہوا اور وہ ایک ویران بستی تھی جیسا کہ قران نے فرمایا اور بائبل میں بھی سوال ہے کہ اے آدم زاد کیا یہ ہڈیاں زندہ ہو سکتی ہیں؟ اور قران میں بھی ہے کہ أَنَّىٰ يُحْيِي هَـٰذِهِ اللَّـهُ بَعْدَ مَوْتِهَا اس ہی طرح کشف میں دکھایا گیا کہ کس طرح ہڈیوں کو اٹھایا جاتا ہے اور اس پر گوشت چڑھایا جاتا ہے بلکل اس ہی طرح کا بیان قران میں بھی ہے كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا۔ اس ہی طرح بائبل میں ہے کہ ان ہڈیوں کو بنی اسرائیل بتایا گیا ہے اور قران میں وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ میں الناس سے مراد ان ہی کی قوم بنی اسرائیل ہے ۔ اس لئے قران اور بائبل میں واقعات کی مطابقت اس ہی بات کی دلالت کرتی ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ کا ذکر ہے۔ پھر ایک بات اور یہ کہ بائبل میں اس کو عالم مثال کا واقعہ یہ کہہ کر ظاہر کیا گیا ہے کہ خداوند کا ہاتھ مجھ پر تھا اور اس نے مجھے اپنی روح میں اٹھا لیا جسے قران نے بہت خوبصورتی سے حرف ”ک“ لا کر اس کو ایک مثالی واقعہ قرار دیا ہے۔ البتہ قران میں کچھ واقعات زائد ہیں جس نے بائبل کے واقعات کی کمی کو دور کیا ہے۔ اس پر مولانا اصلاحی اس ایت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ :

” قرآن میں بعض باتیں زیادہ ہیں جو تورات میں نہیں ہیں۔ ایسے مواقع میں قرآن کے بیان کو ترجیح حاصل ہو گی اس لیے کہ وہ براہِ راست خدا کا کلام اور بالکل محفوظ ہے۔ مثلاً تورات میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ خود حزقی ایل پر بھی سو سال کے لیے موت طاری کر دی گئی۔ اسی طرح ان کے کھانے کے نہ بسنے اور گدھے کے دوبارہ زندہ ہو نے کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔ لیکن ان کے ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ مشاہدات حزقی ایل کو نہیں ہوئے۔ جو مشاہدات ان کو کرائے گئے ان میں یہ بھی ہیں لیکن تورات میں یا تو ان کا ذکر نہیں ہوا یا ذکر تو ہوا لیکن اہل تورات نے اس کو ضائع کر دیا۔ ”
 اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حزقی ایل نبی کو یہ رویا دکھانے کا کیا مقصد تھا ؟۔ اگر اپ ان آیات کا سیاق و سباق دیکھیں تو یہ پورا سلسلہ کلام قوموں کی موت و حیات کا چل رہا ہے۔ اس آیت سے پہلے والی آیت اور بعد کی آیت میں یہی سلسلہ کلام ہے۔ اس آیت میں بنی اسرائیل کی قوم کی دوبارہ سے زندگی بخشے گا۔ مولانا اصلاحی اس پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

” بنی اسرائیل کے لیے پیغامِ حیات: ’’اور تاکہ ہم تم کو لوگوں کے لیے اس بات کے لیے نشانی بنائیں‘‘ یعنی ہم نے تم کو آیاتِ الٰہی کا یہ مشاہدہ اس لیے بھی کرایا ہے کہ تم بنی اسرائیل کے لیے اس بات کی نشانی بن سکو کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے یہ بات بعید نہیں ہے کہ وہ ان کو ازسرِ نو غلامی و محکومی کی ذلت سے چھڑا کر آزادی اور قوتِ و عزت کی زندگی بخش دے۔ یہ امر یہاں واضح رہے کہ حزقی ایل نبی منکروں کی طرف نہیں بلکہ بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے تھے اور ان کا خاص مقصد بنی اسرائیل کو ازسرِ نو زندہ کرنا تھا لیکن تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بنی اسرائیل اپنے مستقبل کی طرف سے بہت مایوس تھے۔ چنانچہ اوپر ہم نے صحیفہ حزقی ایل کی جو عبارت نقل کی ہے اس کا خاتمہ ان الفاظ پر ہوتا ہے۔ ’’تب اس نے مجھے فرمایا اے آدم زاد یہ ہڈیاں تمام بنی اسرائیل ہیں، دیکھ یہ کہتے ہیں، ہماری ہڈیاں سوکھ گئیں اور ہماری امید جاتی رہی ہم تو بالکل فنا ہوگئے اس لیے تو نبوت کر اور ان سے کہہ خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ اے میرے لوگو، دیکھو میں تمھاری قبروں کو کھولوں گا اور تم کو ان سے باہر نکالوں گا تب تم جانو گے کہ خداوند خدا میں ہوں اور میں اپنی روح تم میں ڈالوں گا، اور تم زندہ ہو جاؤ گے اور میں تم کو تمھارے ملک میں بساؤں گا تب تم جانو گے کہ میں خداوند نے فرمایا۔‘‘(حزقی ایل باب37: 11۔14) ”

اب اس کے بعد آیت کو حصوں میں تقسیم کر کے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں :

  1. أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا

یا اس شخص کے مانند کہ جس کا گزر اس بستی پر ہوا جو چھت کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی،

چھت کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی سے مراد یہ نہیں کہ کہیں واقعی میں کوئ بستی گری ہوئ تھی۔ یہ ایک تباہ حال مردہ بستی کی تصویر ہے . حزقی ایل کو بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا تھا اس لئے استعارہ کے طور پر اس بستی اور اس میں رہنے والے لوگوں کی مردہ حال تصویر کشی کی گئ ہے۔ بنی اسرائیل کی قوم اس وقت بلکل مردہ ہو چکی تھی اور غلامی اور محکومی کے دلدل میں دھنسی ہوئ تھی۔ جس کی تصویر کشی ایک گری ہوئ بستی سے کی ہے جس میں کوئ نہ رہتا ہو۔

  1. قَالَ أَنَّىٰ يُحْيِي هَـٰذِهِ اللَّـهُ بَعْدَ مَوْتِهَا

وه کہنے لگا اس کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ اسے کس طرح زنده کرے گا؟

دیکھیں اس آیت کے دوسرے حصے نے پہلے حصے کی وضاحت کردی ۔ لفظ موت قران میں مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ موت کا مادہ ”م و ت“ ہے جس کے معنی ہر وہ چیز جس میں جمود کی وجہ سے حرکت و ارتقاء رک جائے اس کو موت کہتے ہیں ۔ یہ دراصل حیات کی ضد ہے۔ اس لئے کہتے ہیں کہ ”ماتت الریح“ یعنی ہوا رک گئ۔ ”ماتت النار“ یعنی آگ بجھ گئ، ”ماتت الخمر“ یعنی شراب کا جوش جاتا رہا ۔ اس کا اطلاق نیند پر بھی ہوتا ہے اس لئے کہتے ہیں ”مات الرجل“ یعنی وہ سو گیا۔

 اب دیکھتے ہیں کہ قران اس کو کن کن معنوں میں استعمال کرتا ہے۔ میں صرف قران سے حوالے دوں گا باقی اپ خود اس کو قران سے دیکھ سکھتے ہیں ۔ جیسے جب زمین پھلنے پھولنے کے قابل نہ رہے تو اس کو بھی قران موت کہتا ہے(سورہ الروم کی ایت 19)۔ محسوس کرنے کی قوت کا زائل ہوجانا (سورہ مریم کی ایت 23)۔ جیسے عقل و شعور کا زوال یعنی وہ لوگ جو عقل و شعور سے کام نہیں لیتے (سورہ النمل آیت 80) اور نیند کو تو موت کہتا ہی ہے (سورہ الزمر آیت 42)۔ 

 یہاں موت اس معنوں میں نہیں آیا ہے جس کو ہم عام طور پر لیتے ہیں بلکہ یہ قوموں کی حیات اور موت کے معنوں میں آیا ہے۔

  1. فَأَمَاتَهُ اللَّـهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ

تو اللہ تعالی نے اسے موت دے دی سو سال کے لئے، پھر اسے اٹھایا

اب یہ ضروری نہیں کہ یہ واقعہ سوال پوچھنے کے دوسرے لمحے ہی انجام پایا ہو۔ فَأَمَاتَهُ میں حرف "ف ” سے یہ مراد نہیں کہ نبی نے سوال کیا اور دوسرے ہی لمحے ان پر موت طاری کردی گئ۔ یہاں ایک بات کی وضاحت کرتا جاؤں کہ موت سے مراد جیسا کہ اس لفظ کی تفسیر میں بیان کیا تھا نیند بھی ہے (سورہ الزمر ایت 42)۔ اس لئے یہاں موت طاری ہونا دراصل نیند ہے۔

عربی زبان میں حرف "ف ” متعدد معنوں میں استعمال ہوتا ہے .

 مثال کے طور پر ایک واقعہ ہونے کے دوسرے لمحے جب دوسرا واقعہ ہو تو اس کو بھی حرف "ف ” سے بیان کیا جاتا ہے . جیسے …
فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ…

تو موسیٰ نے اسے ایک مکا مارا۔ بس اس کا کام تمام کر دیا

یہاں گھونسا مارتے ہی دوسرے لمحے اس کی موت ہوگی . اس لیے ایسے جملوں میں بھی حرف "ف ” کا استعمال ہوتا ہے .

پھر ایک واقعہ کے بعد جتنی مدت میں دوسرا واقعہ ہونا ہو وہ اس مدت میں ہو جاے تو اس کا اظہار بھی حرف "ف” سے کرتے ہیں جیسے …
تزوج فلاں فولد له

اس نے شادی کی اور پھر ایک مدت صحیح کے بعد اس کے ہاں بچہ  پیدا ہوا .

پھر ایسے واقعہ کو بھی بیان کرنے کے لیے بولا جاتا ہے جس میں تاخیر ہو جیسے .

یسلمہ فہو ید خل الجنه 

اگر وہ مسلمان ہوگیا تو پھر یقیناً جنت میں جاے گا

اس لئے جو لوگ اس سے یہ استدلال لیتے ہیں کہ نبی کے سوال کرنے کے دوسرے لمحے ان پر موت طاری کردی گئ میرے نزدیک درست نہیں ۔ 
پھر دوسرا لفظ جو غور طلب ہے وہ  بَعَثَ ہے جس کا مادہ ”ب ع ث“ ہے جس کے بنیادی معنی ہیں وہ چیز جو کسی کے آزادانہ نقل و حرکت میں حائل ہو اس کو دور کردینا اور اس کی حرکت کو جاری کردینا البعث کہنتے ہیں ۔ یہ لفظ موت کے بعد قیامت میں اٹھائے جانے پر اور نیند پر بھی بولا جاتا ہے۔ پھر اس کے معنی کسی کو بھیجنے کے بھی ہیں ۔

 اس لئے یہاں بعث کے معنی یہ نہیں کہ موت (جس کے بعد انسان قیامت میں اٹھایا جائے گا) بلکہ نیند سے اٹھانے کا ذکر ہے۔

  1. قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۖ وَانظُرْ إِلَىٰ حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ۔

پوچھا کتنی مدت تجھ پر گزری؟ کہنے لگا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ۔ فرمایا بلکہ تو سو سال تک رہا، پھر اب تو اپنے کھانے پینے کو دیکھ کہ بالکل خراب نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو بھی دیکھ، ہم تجھے لوگوں کے لئے ایک نشانی بناتے ہیں ۔

اب یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ جب اللہ نبی سے پوچھتا ہے کہ کتنے عرصہ اس حال میں رہے تو نبی جواب دیتے ہیں کہ ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ تو ان کا یہ جواب بلحاظ رویا اور نیند کے دن کے کچھ ہی حصہ تھا لیکن اللہ کا کہنا تھا کہ رویا میں یہ عرصہ سو سال کا تھا ۔ دیکھیں یہ بلکل اس ہی طرح ہے جیسے رسول اللہ کو رویا میں معراج کی سیر کرائ جاتی ہے تو وہاں کتنے ہی عرصہ کے واقعات عالم رویا میں کروادیے جاتے ہیں ۔ 
 یہ سوال و جواب اس حقیقت کے اظہار کے لیے ہے کہ آدمی کا جو زمانہ عالم بزرخ میں گزرے گا، اٹھنے پر اس کا کوئی احساس باقی نہیں رہے گا، ایسا معلوم ہو گا کہ ابھی سوئے تھے ابھی جاگ اٹھے ہیں۔ آج معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی زندگی، پھر موت، پھر برزخ، پھر قیامت ایک بہت دور کی بات ہے، اس کے لیے ابھی سے اپنا عیش مکدر کرنے کی کیا ضرورت ہے لیکن جب قیامت کو اٹھیں گے تو معلوم ہو گا کہ جو کچھ گزرا ہے وہ بہت دور کی بات نہیں بلکہ بالکل صبح و شام کا قصہ ہے ۔

پھر یہ حالت نیند کی تھی اس کی بھی تائید آیت کے اس حصے سے ہوتی ہے جہاں اللہ کا یہ کہنا کہ اپنے کھانے پینے اور گدھے کی طرف دیکھو یہ بلکل ویسے ہی ہیں ۔ ہم نے اتنے کم عرصے میں ان تمام باتوں کا مشاہدہ عالم رویا میں کروایا ہے جس کا سوال تم نے ہم سے کیا تھا۔ اب چونکہ مفسرین پہلے سے عقیدہ ذہن میں ہوتا ہے اس لئے آیت کو اس ہی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ اب ان کو ہر چیز سو سال تک مردہ دکھائ دے رہی ہوتی ہے۔ اپ خود سوچیں ایک انسان سوال کرے اور اللہ کو اس کو سمجھانے کے لئے اور کوئ طریقہ نہیں بجا سوائے اس کے کہ اس کو سو سال تک مردہ کردے۔ کیا ایسی توقع اپ ایک علیم و خبیر اللہ سے کر سکتے ہیں ؟۔

  1. وَانظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

تو دیکھ کہ ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھاتے ہیں، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں، جب یہ سب ﻇاہر ہو چکا تو کہنے لگا میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے

میں یہ بات بیان کر چکا ہوں کہ لفظ انظُرْ کے معنی صرف آنکھ سے دیکھنا نہیں ہیں بلکہ اس کے معنی کسی چیز میں غور کرنا ۔ اندازہ کرنا اور دوسری چیزوں کے ساتھ ملا کر اس کی بابت قیاس کرنا۔ توجہ دینے کے معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ ابن فارس نے بھی اس کے بینادی معنی غور کرنا اور معائینہ کرنے کے لئے ہیں ۔

 اس لئے یہاں اللہ ان رویا کے واقعات پر غور کرنے کی بات کر رہا ہے کہ کس طرح ہڈیوں کو اٹھاتے ہیں جس کو رویا میں بنی اسرائیل سے تعبیر کیا ہے اور اس پرگوشت چڑھاتے ہیں یعنی نئ حیات بخشتا ہے .اس ہی طرح ہم قوموں کو بھی اپنے کلام سے نئ حیات بخشتے ہیں ۔

پھر اس آیت میں غور طلب لفظ تَبَيَّنَ ہے جس کا مادہ ”ب ی ن“ ہے جس کے معنی کسی چیز کا کھل کر سامنے آجانا، نمودار ہوجانا، واضع ہوجانا ۔ صاحب محیط کے مطابق وہ دلیل جس سے کوئ چیز آشکار اور واضع ہوجائے بیان کہلاتی ہے۔ اس ہی لئے قران اپنے آپ کو قران مبین کہتا ہے ۔ 
 پس جب ان پر اس غور و فکر کے بعد اور اللہ کے توجہ دلانے پر جب یہ بات آشکار ہوگی تو بے اختیار کہنے لگے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ اپنی بات دلیل و برھان سے واضع کرتا ہے اس کو کوئ ضرورت نہیں کہ ان مشاہدات سے وہ انسانوں کو قائل کرے ۔ یہی تعلیم وہ اپنے آنبیاہ کو دیتا ہے کہ دوسرے کے سامنے بھی دلیل و پرھان سے ہی قائل کرنا ہے ۔

اب ایک آخری بات رہ گئ کہ یہ تھے تو نبی تو کیا ان کو یقین نہیں تھا جو اس طرح کا سوال کیا۔ اس کے لئے پھر سے میں مولانا اصلاحی کی تحریر سے کچھ اقتباس یہاں منتقل کرتا ہوں جو اس کی اچھی وضاحت ہے۔ اپ لکھتے ہیں :

” اس کا یہ سوال کہ ’’اس بستی کو خدا اس طرح فنا ہو جانے کے بعد کس طرح زندہ کرے گا۔‘‘ انکار کی نوعیت کا نہیں بلکہ اظہار حیرت کی نوعیت کا ہے۔ انسان بسا اوقات ایک چیز کو مانتا ہے اس لیے کہ عقل و فطرت اس کی گواہی دے رہی ہوتی ہے لیکن وہ بات بجائے خود ایسی حیران کن ہوتی ہے کہ اس سے متعلق دل میں بار بار یہ سوال ابھرتا رہتا ہے کہ یہ کیسے واقع ہو گی؟ یہ سوال انکار کے جذبہ سے نہیں بلکہ جستجوئے حقیقت کے جوش سے ابھرتا ہے اور خاص طور پر ان مواقع پر زیادہ زور سے ابھرتا ہے جب سامنے کوئی ایسا منظر آ جائے جو باطن کو جھنجھوڑ دینے والا ہو۔ یہ حالت ایمان کے منافی نہیں بلکہ اس ایمان کے مقتضیات میں سے ہے جس کی بنیاد عقل و بصیرت پر ہو۔“

ختم شد

٭٭٭٭٭

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
1 تبصرہ
  1. […] Download from Archive Download from Scribd Unicode Text […]

Leave A Reply

Your email address will not be published.