پیالے کی چوری میں حضرت یوسف علیہ السلام کا کردار تحریر محمد نعیم خان

پیالے کی چوری میں حضرت یوسف علیہ السلام کا کردار

تحریر محمد نعیم خان

(پی ڈی ایف فائل لنک)

کیا حضرت یوسف علیہ السلام نے خود اپنے بھائی کے تھیلے میں پیالہ رکھا تھا، جس سے ان کا بھائی چور ثابت ہوتا تھا؟؟؟

تمآم پڑھنے والے یہ بات جانتے ہیں کہ میرا اشارہ کس واقعہ  کی طرف ہے ، اس لیے بغیر کسی تمہید کے اس واقعہ پر غور کرتے ہیں .

یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی دوبارہ غلہ لینے آتے ہیں اور اس بار اپنے ساتھ اپنے چھوٹے بھائی کو بھی لاتے ہیں جیسا کہ  حضرت یوسف نے  ان کو پہلی بار غلہ دیتے ہؤے ہدایت کی تھی . حضرت یوسف ان سب کو اپنے پاس بلاتے ہیں اور بن یامین کو خاص اپنے پاس بیٹھاتے ہیں اور کسی تنہائی کے موقع پر جب اں کے باقی بھائی  آس پاس ںہیں ہوتے تو بن یامین پر یہ بات کھول دیتے ہیں کہ وہی ان کے حقیقی بھایہ ہیں جو کھو گئے تھے . اس کے بعد یہ قصہ بیان ہوتا ہے جس پر آج میں نے کچھ لکھنے کی جسارت کی ہے .

سوره یوسف کی آیت 70 میں اس بات کا ذکر ہے که حضرت یوسف جب ان کا سامان تیار کردیتے ہیں تو ایک پیالا جس کے لیے قران نے  السِّقَايَةَ کا لفظ استعمال کیا ھے اس کو اپنے بھائی کے تھیلے میں رکھ دیتے ہیں .

آگے بڑهنے سے پہلے اس بات کی وضاحت کردوں کہ حضرت یوسف اس ملک کے خزانوں کے مالک ہونے کے ناطے خود غلہ نہیں بھرا کرتے تھے بلکے اپنے ماتحتوں ہی کے توسط سے یہ کام کرواتے تھے . یہ سمجھنا بلکل غلط ھے کہ حضرت یوسف خود یہ تمام تھیلے تیار کیا کرتے تھے . پھر جس طرح پہلے اپنے ماتحتوں کو حکم دے کر ان کا مال ان ہی کے غلے میں رکھوا دیا تھا جس کا ذکر اس ہی سوره کی ایت 62 میں ملتا ھے بلکل اس ہی طرح جب اس بار بھی جب سب کا سامان تیار کروادیا تو پھر اپنے ماتحتوں کو حکم دے کر السِّقَايَةَ کو اپنے بھائی کے تھیلے میں رکھوا دیا .

پھر جیسے ہی یہ قافلہ کچھ دور گیا تو ایک منادی کرنے والے نے اواز لگائی کہ  اے قافلے والوں تم لوگ چور ہو(آیت 71) . جس پر قافلہ والے پلٹ کر متوجہ ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تمہاری کیا چیز گم گئی ہے؟

 جس پر وہ جواب دیتے ہین کہ صُوَاعَ الْمَلِكِ یعنی بادشاہ کا پیمانہ گم گیا ھے(ایت 72)۔

اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس چوری کا الزام لگانے کے پیچھے کیا وجہ تھی ؟ ان کا شک ان کی طرف کیسے گیا؟۔ جب بایبل کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ سلام نے ان تمام بھائیوں کو اپنے گھر میں بلایا اور کھانے کا انتظام کیا۔ وہیں پر ان کی ملاقات اپنے چھوٹے بھائی سے ہوتی ہے۔ جس کو وہ اپنے پاس بٹھاتے ہیں۔ اپنے پاس بیٹھانے کی وجہ اس طرح بنی، جیسا کہ عبداللہ یوسف علی بائبل کے اس واقعہ کے بارے میں، اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ کیوں کہ گیارہ بھائی تھے اس لیے دو دو کا جوڑا بنا اور کیوں کہ بن یامین اکیلے رہ گے اس لیے انہوں نے بن یامین کو خاص اپنے پاس بٹھایا اور وہیں موقع پا کر اپنے آپ کو ان پر ظاہر کردیا۔

پھر کھانے کے بعد حضرت یوسف علیہ سلام اپنے ماتحتوں کو ان کا سامان تیار کرنے کو کہتے ہیں اور وہیں یہ ہدایت بھی کرتے ہیں کہ السِّقَايَةَ ان کے چھوٹے بھائیؑ کے تھیلے میں رکھ دیں۔ اب ظاہر ہے کہ اس سے پہلے جو لوگ بھی غلہ لینے آتے تھے ان کی ایسی خاطر داری نہیں ہوئی جیسے ان لوگوں کی ہوئی اور ان کو خاص اپنے مہمان خانے میں جگہ دی جہاں ظاہر ہے کہ قیمتی سامان بھی موجود تھا۔ اس لیے اس سے پہلے کسی اور پر شک نہیں گیا۔ پھر دوسری بات کہ ان کے روانہ ہوتے ہی ایک قیمتی پیالا گم گیا جس پر ان لوگون کا شک ان ہی کی طرف جانا بلکل قرین قیاس ہے اور درست بات ہے۔

دوسری بات یہاں غور طلب یہ ہے که قران نے  بادشاہ کے پیالے کے لیے صُوَاعَ کا لفظ استعمال کیا ہے. اب غور طلب بات یہ ہے کہ گم تو صُوَاعَ ہؤا ہے تو پھر جس کے تھیلے سے بھی صُوَاعَ نکلے گا وہی چور ثابت ہوگا کیوں کہ تلاش تو اس ہی کی تھی . السِّقَايَةَ تو خود حضرت یوسف نے اپنے ماتحتوں سے کہہ کر اپنے بھائی کے تھیلے میں رکھوایا تھا اور السِّقَايَةَ تو گم ہی نہیں ہؤا تھا . اس بات کو سمجھنا بلکل آسان ہے اور اس مین کوئی مشکل بھی نہیں ۔ اب صرف تحقیق یہ کرنی ہے کہ یہ صُوَاعَ کس نے رکھا؟ حضرت یوسف نے یا ان کے کسی بھائیوں میں سے کسی کی شرارت تھی؟

میرے نزدیک جو شواہد قران سے ملتے ہیں ان کے مطابق صُوَاعَ کی چوری حضرت یوسف کے بھائیوں میں سے کسی نے کی تھی اور جب صُوَاعَ کے گم ہونے پر شور مچتا ہے تو اس ڈر سے کہ پکڑے نہ جائیں جس بھائی نے چوری کی تھی اس نے صُوَاعَ چپکے سے بن یامین کے تھیلے میں ڈال دیا تاکہ اگر الزام لگے تو اس ہی پر لگے ۔ ان بھائیوں کا حضرت یوسف اور بن یامین سے حسد تو تھا ہی اس لیے یہ بلکل قرین قیاس ہے کہ یہ شرارت ان ہی بھائیوں میں سے کسی کی تھی۔ پھر جب حضرت یوسف السِّقَايَةَ خاص طور پر بن یامین کے تھیلے میں ڈلواتے ہیں تو کوی بعید نہیں کہ اس حسد نے ہی اس بھائی سے یہ کام کروایا۔

پھر قران کی ایت 72 سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اتنا قیمتی تھا کہ اس کو واپس لانے والے کے لیے انعام کا بھی اعلان کیا گیا۔ پھر یہی نہیں بلکہ جب بات الزام کو ثابت کرنے اور نہ کرنے کی آتی ہے اور الزام ثابت ہونے پرچور کو کیا سزا دی جائے تو اس کی سزا بھی یہی لوگ تجویز کردیتے ہیں کہ جو مجرم ہو اس کو رکھ لیا جاے ۔ پھر جب تلاشی لی جاتی ہے تو صُوَاعَ بن یامین کے تھیلے سے نکلتا ہے۔

اب خود بہ خود حالات ایسے بن گے کہ حضرت یوسف اپنے بھائی کو اپنے پاس رکھ سکتے تھے اور اس ہی کو اللہ نے اپنی تدبیر سے تعبیر کیا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اس بات کی وضاحت کروں کہ اللہ کی تدبیر سے کیا مراد ہے درج ذیل میں اپنی بات کے حق میں ترتیب وار قران سے استدلال پیش کر رہا ہوں ۔

پہلا استدلال :

الله کے نبی نہ جھوٹ بولتے تھے اور نہ ہی فریب کاری کرتے تھے . اس ہی سوره کی آیت 24 میں حضرت یوسف کی شان میں الله کیا فرما رہا ہے ملاحظہ فرمائیں .

……إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ ﴿24﴾

بےشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے (24)

دوسری دلیل :

اپنے ہی بھائی کے سامان میں پیالہ چھپا کر پھر یہ اعلان کروانا کہ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ ، حضرت یوسف جیسے مخلص بندے کا کام نہیں ہو سکتا

تیسری دلیل :

جب بھائیوں نے کہا …

قَالُوا إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ

بھائی بولے اگر یہ چوری کرے تو بیشک اس سے پہلے اس کا بھائی چوری کرچکا ہے

تو اس پر حضرت یوسف نے اپنےآپ کو ظاہر کے بغیر کہا …

فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ ۚ قَالَ أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۖ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ ﴿77﴾

تب یوسف نے اپنے دل میں آہستہ سے کہا اور انہیں نہیں جتایا کہا تم درجے میں بدتر ہو اور الله خوب جانتا ہے جو کچھ تم بیان کرتے ہو (77)

چونکے اس وقت الله کے نبی نے اپنے بھائیوں سے کہا أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ، اس لیے اگر پیالہ حضرت یوسف نے چھپایا تھا تو اپنے بھائیوں کو شرم نہ دلاتے ، اس لیے پیالہ چھپانے والے حضرت یوسف کے بھائی تھے حضرت یوسف نہیں .

چوتھی دلیل :

جب بھائیوں نے یوسف کی خدمت میں عرض کیا کہ

قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ ۖ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ ﴿78﴾

انہوں نے کہا اے عزیز! بے شک اس کا باپ بوڑھا بڑی عمر کا ہے سو اسکی جگہ ہم میں سے ایک کو رکھ لے ہم تم کو احسان کرنے والا دیکھتے ہیں (78)

اس پر حضرت یوسف علیہ السلام نے جواب دیا

قَالَ مَعَاذَ اللَّـهِ أَن نَّأْخُذَ إِلَّا مَن وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِندَهُ إِنَّا إِذًا لَّظَالِمُونَ ﴿79﴾

کہا الله کی پناہ کہ ہم بجز اس کے جس کے پاس اپنا اسباب پایا کسی اور کو پکڑیں تب تو ہم بڑے ظالم ہیں (79)

اگر پیالہ اپ نے رکھا ہوتا تو یہ بات کہنا یقیناً جھوٹ بھی ہوتا اور خلوص کے خلاف بھی . اور اس ہی سوره کی آیت 24 میں الله اپ کو اپنے مخلص بندوں میں شمار کرتا ہے .

پانچوی دلیل :

جب حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی بن یامین کو چھوڑانے میں ناکام ہوگی تو ایک جگہ جا کر مشورہ کرنے لگے وہاں ان میں سے بڑے بھائی نے یوں کہا …

فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا ۖ قَالَ كَبِيرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُم مَّوْثِقًا مِّنَ اللَّـهِ وَمِن قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِي يُوسُفَ …….

جب وہ یوسفؑ سے مایوس ہو گئے تو ایک گوشے میں جا کر آپس میں مشورہ کرنے لگے ان میں جو سب سے بڑا تھا وہ بولا "تم جانتے نہیں ہو کہ تمہارے والد تم سے خدا کے نام پر کیا عہد و پیمان لے چکے ہیں اور اس سے پہلے یوسفؑ کے معاملہ میں جو زیادتی تم کر چکے ہو وہ بھی تم کو معلوم ہے……..

بڑے بھائی کا یہ قول کہ ” اس سے پہلے یوسفؑ کے معاملہ میں جو زیادتی تم کر چکے ہو وہ بھی تم کو معلوم ہے.”

یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ شرارت حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ہی کی تھی .

چھٹی دلیل :

آخری اور قاطعہ دلیل یہ ہے کہ جس طرح حضرت یوسف کے ساتھ ان بھائیوں نے ایک بھاری شرارت کی تھی اس ہی طرح بن یامین کے ساتھ بھی کی جب حضرت یوسف اپنے اپ کو ان پر ظاہر کرتے ہیں تو یوں فرماتے ہیں

قَالَ هَلْ عَلِمْتُم مَّا فَعَلْتُم بِيُوسُفَ وَأَخِيهِ إِذْ أَنتُمْ جَاهِلُونَ ﴿89﴾

بولے کچھ خبر ہے تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کِیا تھا جب تم نادان تھے(89)

اب ظاہر ہے کہ اور کوئی واقعہ بن یامین کے ایسا نہیں ہوا جس میں ان کے ساتھ قریب قریب ویسا ہی سلوک ہوا ہو جیسا یوسف کے ساتھ ہوا تھا . صرف یہی ایک واقعہ ہے اور ان کی شرارت کی مزید تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ انہونے جھوٹا الزام حضرت یوسف پر بھی لگایا جس کا ذکر آیت 77 میں بیان ہوا ہے حلانکے یہ دونوں جھوٹ تھے اور بجاے چوری کی بات کی صفائی کی شہادت دینے کے دونوں بھائیوں پر چوری کے الزام کی تائید یہی بتاتی ہے کہ یہ کام حضرت یوسف کا نہیں بلکے ان بھائیوں کا تھا .

اب ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کی تدبیر سے کیا مراد ہے؟۔ کیوں کہ اللہ نے اس کو اپنی تدبیر قرار دیا ہے۔ جیسے اللہ قران میں فرماتا ہے کہ

إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا ﴿15﴾ وَأَكِيدُ كَيْدًا ﴿16﴾

یہ لوگ تو اپنی تدبیروں میں لگ رہے ہیں (15) اور ہم اپنی تدبیر کر رہے ہیں(16)

سورہ الطارق ایت 15

اس ہی بات کو سورہ ال عمران میں بیان کیا ہے کہ

وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّـهُ ۖ وَاللَّـهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ ﴿54﴾

اور انہوں نے خفیہ تدبیر کی اور الله نے بھی خفیہ تدبیر فرمائی اور الله بہترین خفیہ تدبیر کرنے والو ں میں سے ہے (54)

یہ بات میں اکثر بیان کرتا ہوں کہ اللہ علیم ہے وہ ہر بات کا جاننے والا ہے ۔ وہ سب حالات کا بخوبی علم رکھتا ہے ۔ اس کو کوئ ضرورت نہیں کہ بلکل اخری لمحات میں ایسی تدبیر کرے جس سے اس کے چنے ہوے رسول پر حرف آئے۔ یہ تو وہ ذات ہے جو شر میں سے بھی خیر کو نکال لاتا ہے۔ لوگ اپنی دانست میں تدبیر کر رہے ہوتے ہیں اور اللہ اپنی۔

اب غور کریں کہ کیا اگر حضرت یوسف علیہ سلام کے بھائیوں کہ یہ بات معلوم ہوتی کہ ان کو کنوئیں میں پھینک دینے کا نتیجہ  ان کو مصر کی حکمرانی ملے گی تو کیا وہ یہ عمل کرتے ؟ ہرگز نہیں۔ جبکہ اللہ یہ بات جانتا تھا اس لیے وہ اپنی تدبیر کر رہا تھا۔ اس ہی بات کو قران نے یوں بیان کی ہے۔

وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ ۚ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَن نَّشَاءُ ۖ وَلَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ ﴿56﴾

اِس طرح ہم نے اُس سرزمین میں یوسفؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں، نیک لوگوں کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا(56)

اب اپ لوگ خود غور کریں کہ اس تدبیر میں کیسے ابتدا سے ہی اللہ نے تدبیر کی اور شر سے خیر نکالا۔ اس ہی کو بہترین تدبیر کہتے ہئں۔

ایک مثال اور لیں قران سے۔ سب جانتے ہیں کہ جب اللہ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے چنگل سے ازادی کا ارادہ کیا تو بلکل ابتدا سے اس کی تدبیر شروع کی اور حضرت موسی کی ماں کو وحی کی کہ اپنا بچہ پانی میں ڈال دیں۔ پھر باقی کی کہانی تو سب جانتے ہی ہیں کہ کس طرح پھر یہی بچہ فرعون کی موت اور بنی اسرائیل کی ازادی کا سبب بنا۔ اس کو کہتے ہیں بہترین تدبیر ۔

آخری مثال پھر میں اپنے تحریر کو اختتام کروں۔ یہ بات توآپ سب جانتے ہی ہیں کہ رسول اللہ پر جب کفار نے مظالم ڈھاے تو مجبورا ان کو مدینہ ہجرت کرنی پڑی اور کفار یہی سمجھے کہ یہ مٹھی بھر لوگوں کا قصہ تمام کیا لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ اللہ اپنی تدبیر کرتا ہے ۔ پھر کیا ہوا کہ رسول اللہ نے اپنی دعوت کو اور پھیلایا اور بلااخر آپ کو مدینہ میں ایک چھوٹی سی ریاست قائم کرنے کا موقعہ مل گیا۔۔یہ ہوتی ہیں اللہ کی تدبیریں اور اس ہی کو اللہ اپنی تدبیر سے تعبیر کرتا ہے کہ کس طرح حضرت یوسف کی دل کی تمنا پوری ہوئ۔

ایک آخری بات جو غامدی مکتبہ فکر کی طرف سے ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ آیت 76 میں پیالا کے لیے مونث کی ضمیر استعمال کی گی ہے جو کہ السِّقَايَةَ کی طرف لوٹتی ہے اور صُوَاعَ مذکر ہے اس لئے بن یامین کے تھیلے سے السِّقَايَةَ ہی برآمد ہوا تھا۔

یہ بات یاد رکھئے کہ صُوَاعَ مذکر اور مونث دونوں میں مستعمل ہے اور قرطبی اس ایت کی تفسیرمیں یہی بات بیان کرتے ہیں۔ اس لئے مونث کی ضمیر صُوَاعَ ہی کی طرف جاتی ہے کیوں کہ یہی گم ہوا تھا۔

دیکھیں قران میں پیالا کے لیے ایک اور لفظ ” کاس “ کو مذکر اور مونث دونوں معنوں میں استعمال کیا ہے۔

سورہ النبا کی آیت 34 میں یہ لفظ مذکر کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اس ہی طرح سورہ انسان کی ایت 5 میں مونث کے طور پر۔ اس لئے یہ استدلال درست نہیں ۔

دوسری بات لوگ کہتے ہیں کہ ایک ہی پیالا تھا۔ اب سوچنے والی بات ہے کہ اتنے بڑے ملک میں صرف ایک ہی سرکاری پیمانہ تھا جس سے بادشاہ پانی پینے کا بھی کام لیتا تھا اور اس ہی سے ناپنے کا بھی۔ایسا ملک جو سب کو اناج دےرہا ہو اتنا غریب ہے کہ خود اسں کے بادشاہ کے پاس ایک ہی پیالا ہے اس لئے یہ استدلال بھی درست نہیں

اس لیے اوپر پیش کیے گے شواہد سے بن یامین کے تھیلے سے نکلنے والا پیالا صُوَاعَ ہی تھا جو ان ہی کے بھائیوں میں سے کسی ایک کی شرارت تھی اور ان کی تدبیر ان ہی پر الٹی پڑ گی جیسے اللہ قران میں فرماتا ہے

اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ ۚ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ ۚ فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ ۚ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّـهِ تَحْوِيلًا ﴿43﴾

کہ ملک میں سرکشی اور بری تدبیریں کرنے لگ گئے اور بری تدبیر تو تدبیرکرنے والے ہی پر لٹ پڑتی ہے پھر کیا وہ اسی برتاؤ کے منتظر ہیں جو پہلے لوگوں سے برتا گیا پس تو الله کے قانون میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا اورتو الله کے قانوں میں کوئی تغیر نہیں پائے گا (43)

دیکھیں کتنی صاف آیت ہے کہ بری تدبیر کرنے والوں کی تدبیر ان ہی پر الٹی پڑتی ہے اور اس کی مثالیں میں اوپر بیان کر چکا ہوں ۔

یہاں ایک بات کی وضاحت کردوں کہ حضرت یوسف کی طرف سے اپنے بھائی کی تلاشی آخر میں لینے کی وجہ یہی تھی کہ وہ جانتے تھے کہ ان کا بھائی چور نہیں ہے اور اس ہی بات کا اظہار ان کے باپ نے بھی کیا تھا جب ان کو معلوم ہوتا ہے کہ بن یامین چوری کی وجہ سے روک لیے گے ہیں تو ان کے باپ بلکل وہی الفاظ استعمال کرتے ہیں جو حضرت یوسف کے لیے استعمال کیے تھے جب وہ گم جاتے ہیں ۔

حضرت یوسف کے لئے ان کے باپ کا بیان :

قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ ۔۔۔۔۔۔ ﴿18﴾

یہ سن کر ان کے باپ نے کہا "بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک بڑے کام کو آسان بنا دیا اچھا، صبر کروں گا ۔۔۔۔۔۔”(18)

بن یامین کے لئے ان کے باپ کا بیان :

قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ ۔۔۔۔﴿83﴾

باپ نے یہ داستان سن کر کہا "دراصل تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک اور بڑی بات کو سہل بنا دیا اچھا اس پر بھی صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا۔۔۔۔۔۔

دیکھا آپ نے کس طرح دونوں واقعات میں ان کے باپ کا بیان بلکل ایک جیسا ہے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ان ہی لوگوں کی شرارت ہے۔

جو کچھ قران سے سمجھا بیان کردیا اس خیال سے کہ اس میں غلطی کی گنجائش یے۔ یہ میرا استدلال ہے اس سے اپ کو اختلاف کا پورا حق ہے۔

ختم شد

٭٭٭٭٭

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
1 تبصرہ
  1. […] Download from Archive Download from Scribd Download from PDF Archive Unicode Urdu Text […]

Leave A Reply

Your email address will not be published.