اضطرار کیا ھے ؟ کہاں پایا جاتا ھے ؟ از قاری حنیف ڈار

اضطرار کی حالت مجبوری کی حالت ھوتی ھے ۔ جس میں حالات آپ کو آپکی مرضی کے خلاف مخالف سمت میں گھسیٹتے چلے جاتے ھیں جس طرح ھوا کسی چیز کو اپنی مرضی کی سمت اڑائے چلی جاتی ھے ۔ مضطر اصل میں حالات کے ھاتھوں یرغمال ھوتا ھے اور وھی کرنے پر مجبورھوتا ھے جو اس سے یرغمال بنانے والا طلب کرتا ھے ۔

اللہ پاک نے حرام چیزوں کی ایک فہرست دینے کے بعد جس میں خنزیر کا گوشت بھی ھے آخر میں فرمایا ” سوائے اس کے کہ جس کے لئے تم مجبور ھو جاؤ ” الا ما اضطررتم الیہ ” ۔
اس میں شرط یہ رکھی گئ کہ نیت اللہ کے قانون سے بغاوت کی نہ ھو ۔ رغبت سے نہیں کراھت سے کیا جائے ۔ اور جتنا ضرورت ھو بس اُتنے پر ھی اکتفا کیا جائے ۔ اور اسے عادت نہ بنا لیا جائے ۔ بلکہ اس سے نکلنے کی سبیل سوچتے رھنا چاھئے ۔

ان شرائط کے ساتھ مضطر پر کوئی گناہ نہیں ۔

مضطر کسی سے مسئلہ پوچھنے کا روادار نہیں ۔ خود وھی جانتا ھے کہ وہ اس وقت کس حالت سے گزر رھا ھے ۔

اس کی سب سے بڑی دو مثالیں ھیں ۔

کلمہ کفر اور حالتِ اضطرار ۔

سورہ النحل کی آیت 106 میں حضرت عمارؓ بن یاسرؓ کے واقعے کے پس منظر میں کلمہ کفر کی اجازت دے رھا ھے۔ اس شرط پر کہ دل ایمان پر مطمئن ھو ۔اگرچہ زبان کلمہ کفر کہنے پر مجبور ھو ۔ جناب عمارؓ بن یاسرؓ کو مشرکین مکہ ان کے والد اور والدہ سمیہؓ کو وحشیانہ طریقے سے شہید کرنے کے بعد اٹھا لے گئے اور انہیں پانی میں طویل غوطے دیئے ۔جن سے ان کی عقل مختل ھو گئ ۔

وہ ان سے مطالبہ کر رھے تھے کہ وہ نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی کریں ۔کافی دیر کی مزاحمت کے بعد حضرت عمارؓ نے نبی کریمﷺ کے بارے میں ان کے مطلوبہ جملے بول دیئے جس پر مشرکین نے انہیں چھوڑ دیا اور عمارؓ سیدھے نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ھوئے اور سارا ماجرا بیان کیا ۔

اس پر اللہ تعالی نے فرمایا ” جس نے کفر کیا اللہ کے ساتھ ایمان لانے کے بعد ” سوائے اس کے کہ جس کو مجبور کر دیا جائے لیکن اس کا دل ایمان پر مطمئن ھو ” ( النحل 106 )

بدکاری اور اضطرار !

غلاموں سے کام کروانا آقـاؤں کا بزنس تھا ۔ مگر کچھ لوگوں نے ایکسٹرا لونڈیاں خرید کر ان سے پیشہ کرانا شروع کر دیا اور اس کو جائز بھی سمجھنا شروع کر دیا ۔ اس پر اللہ پاک نے انہیں حکم دیا کہ وہ کنیزوں سے پیشہ کرانا بند کر دیں اور اگر کسی لونڈی کو اس کام کے لئے مجبور کیا گیا تو اللہ پاک ان کی مجبوری کو دیکھتے ھوئے ان لونڈیوں کے ساتھ تو شفقت اور بخشش کا معاملہ کرے گا ۔ مگر اس بدکاری کا وبال ان کو مجبور کرنے والوں کو بھگتنا ھو گا ( النور 33 )

اضطرار جس طرح افراد کا ھوتا ھے اسی طرح قوموں کا بھی ھوتا ھے ۔

اس وقت ھم جس سب سے بڑے اضطرار سے گزر رھے ھیں اس کا نام سود ھے ۔
ایک طرف اس کی تباہ کاریاں ھیں تو دوسری طرف اس کی گرفت کا شکنجہ ھے ۔
سود کے بارے میں حکم شروع سے ھی افراد کو دیا گیا ھے اس لئے کہ اس زمانے میں کوئی سودی ادارہ موجود نہیں تھا اور نہ ھی صدیوں تک قائم ھوا ،، افراد کو ھی مخاطب کیا جاتا رھا کہ وہ اس لعنت سے بچیں ۔ چادر کے مطابق پاؤں پھیلائیں ۔ اسراف و تبذیر سے پرھیز کریں ۔

خواھشات کے عفریت کا نشانہ نہ بنیں لوگوں کو ترغیب دی گئ کہ وہ قرضِ حسنہ دیں اور اس قسم کے قرض کے فضائل بیان کیئے گئے۔ دوسری جانب ایمان والوں کو کہا گیا کہ وہ اپنی حقیقی ضرورت سے زیادہ مال دوسروں کی مدد کے لئے استعمال کریں ۔ عمر فاروقؓ نے پبلک الاؤنس مقرر کر دیا تھا یوں لوگ کم از کم اپنی بنیادی ضرورتوں کے بارے میں بے فکر ھو گئے ۔

نیز یہ کہ اس زمانے میں سود ہاتھ در ہاتھ تھا ،نہ کوئی آفس نہ کوئی لائسنس اور نہ اسٹاف ، نہ بجلی پانی کا بل اور نہ دیگر اخراجات ،، جبکہ اب بینکوں کو بڑی بڑی بلڈنگیں کرائے پر لینی پڑتی ہیں ، لائسنس فیس دینی ھوتی ھے ، ڈیکوریشن اور سیکورٹی انتظامات پر کروڑوں لگانے ھوتے ہیں اور پھر اسٹاف کی تنخواہیں ہیں ،، گویا لازمی ھے کہ وہ اپنی خدمات کا سرچارج لیں ، اور کاروبار کے اصول کے مطابق کچھ منافع بھی کمائیں ِ جبکہ اس زمانے میں مجرد ایک بندہ توبہ کر لیتا تھا تو سود کا در اسی لمحے بند ھو جاتا تھا ،

موجودہ صورتحال یہ ھے کہ سودی ادارے ایک بین الاقوامی عفریت بن چکا ھے جس کے سامنے سپر پاورز بھی ایک بھیگی بلی کی حیثیت رکھتی ھیں ۔ ھم تواربوں ڈالرز کے مقروض ھیں جس کے سود کی ادائیگی بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کے مطابق ھمیں ھر حال میں کرنی ھے ۔ اور جس سے انکار کا مطلب اجتماعی خودکشی کے سوا کچھ نہیں ۔

جو ھم ھاتھوں اور جھولیوں میں نوٹ بھرے پھرتے ھیں ۔یہ صرف ایک گھنٹے کے اندر کاغذ کے بے مصرف ٹکڑوں کے سوا کچھ نہیں رھتے ۔ جونہی ھم اپنے کیئے گئے معاھدوں سے منکر ھوں گے ھمیں ان پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جن میں ھمارے ساتھ تجارت ممنوع ھو جائے گی ۔

جہازوں کی آمد و رفت ممنوع ھونگی ۔ یہانتک کہ حاجیوں کی فلائٹس بھی نہیں اڑ سکیں گی ۔کوئی بینک ھمارے کریڈٹس قبول نہیں کرے گا۔ یاد رکھیں روس جو کسی کا مقروض نہیں پیٹرول اور گیس یورپ تک سپلائی کرتا ھے یوکرین کے معاملے میں صرف دو بینکوں کی جانب سے اپنے کریڈیٹس قبول نہ کرنے کے فیصلے پر گھٹنے ٹیک بیٹھا تھا ۔

ھم تو پیناڈول کی ایک گولی کے لئے بھی مواد باھر سے امپورٹ کرتے ھیں اور وہ بھی ڈالرز میں ۔ ھماری ساری پروڈکٹس اسی قسم کے درآمد کردہ پیٹنٹ مواد کی بنیاد پر بن رھی ھیں ۔ یہانتک کہ تیل صاف کرنے اور کھاد بنانے والے کیمیکلز بھی ۔ گویا پورا ملک انارکی کا شکار ھو جائے گا ۔ روپے کوئی قبول کرے گا نہیں اور عوام جان بچانے کے لئے ذخیرے اور دکانیں لوٹنے پر مجبور ھو جائیں گے ۔ یہ خانہ جنگی اور گینگ وار کی ابتدا ھو گی ۔

وہ ممالک جو کسی کے ایک ڈالر کے بھی مقروض نہیں تھے اور جن کی ایک دن کی کمائی ھمارے پانچ سال کے بجٹ سے زیادہ ھے وہ بھی تیل کے عوض ڈالرز کی بجائے گندم اور پیاز خریدنے پر مجبور ھو گئے اور آخر کار چار پانچ سال کی پابندیوں کے بعد سو جوتوں کے ساتھ سو گنڈے بھی کھانے پر مجبور ھو گئے ۔ اس میں لیبیا ،عراق اور ایران کا ایٹمی کارڈ سب شامل ھیں ۔ جب لیبیا اور عراق بین الاقوامی پابندیوں کا شکار تھے تو ان کی ائیر لائنز کو کسی ملک مین اترنے کی اجازت نہیں تھی ۔ سعودیہ ان کی حج فلائیٹس کو بھی اپنی حدود میں داخل نہیں ھونے دے رھا تھا اور لیبیا کے حاجی ھفتوں بسوں پر سفر کر کے سعودیہ پہنچتے تھے ۔ اور معاملہ بھی صرف ایک جہاز کے فضا میں تباہ ھونے کا تھا اخر لیبیا کو وہ مجرم بھی یورپ کو دینا پڑے اور ایٹمی مواد اور بھٹیاں بھی امریکہ کو سونپنی پڑ گئیں ۔ دوسری جانب مومنین کی ایمانی حالت یہ ھے کہ ایک دفعہ کوئی ان کو قرضِ حسنہ دے دے پھر وہ روتا بھی رھے تو یہ واپس کرنے کے روادار نہیں، بے شک وہ ان کا بھائی یا بھتیجا ھو یا چچا اور ماموں ھو ، قریبی رشتوں میں دیانت کا یہ حال ھے تو غیروں کی کوئی کیا بات کرے –

آج کوئی چیز بینکنگ ذرائع کے علاوہ نہ درآمد کی جا سکتی ھے اور نہ برآمد ۔ اسلامی بینکگ صرف اتنی ساری اسلامی ھے جتنا فاصلہ آپ کے واش بیسن کے پانی کو کموڈ کے پانی میں ملنے تک طے کرنا پڑتا ھے ۔ یعنی کوئی میٹر ڈیڑھ میٹر۔ سارے بینک چاھے وہ اسلامی ھوں یا غیر اسلامی اپنی دن بھر کی کمائی شام کو سینٹرل بینک میں مارک اپ پر جمع کراتے ھیں ۔ ملک کا سینٹرل بینک یہ ساری کمائی سیٹی بینک میں مارک اپ پر جمع کرا دیتا ھے ۔ یوں اگلے دن 9 بجے وھاں سے ملنے والا سود بقدرِ جُثہ اسلامی اور غیر اسلامی بینکوں کو چھٹانک چھٹانک اور تولہ تولہ دے دیا جاتا ھے ۔

امارات میں جہاں اسلامی بینکوں کے پاس ڈھیر سارا سرمایہ ھے اور دنیا بھر کا بینکنگ ٹیلنٹ ان کے ھاتھ بِکا ھوا ھے ۔ آپ کو تعجب ھو گا کہ یہاں کے اسلامی بینکوں اور اسلامی تکافل کے اداروں میں 70٪ اسٹاف ھندو ھے۔ اپنے مفتی دوست سے جو تکافل کے ایک اسلامی ادارے میں مفتی ھیں اور 20 ھزار درھم تنخواہ لے رھے ھیں ۔ انہوں نے جب مجھے حقائق سے آگاہ کیا تو میں نے ان سے سوال کیا کہ اسلامی اداروں میں ھندوؤں کا وجود کیونکر ممکن ھوا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ مسلمانوں میں تکافل کا تجربہ نہیں ھے ۔

پوچھا تجربہ کیوں نہیں ھے ؟ انہوں ساتھ بیٹھے ھوئے میرے استاد مفتی بشیر صاحب کی طرف دیکھا جو کہ کافی متشدد ھیں اور مسکرا کر جواب دیا ھمارے فتوؤں کی وجہ سے مسلمان اس فیلڈ میں کام نہیں کرتے اس طرح ھم ھندؤں کے رحم وکرم پر ھیں ۔ حالانکہ مفتی صاحب نےسر سے پاؤں تک جو لباس اور جوتے پہنے ھوئے تھے وہ سودی فیکٹریوں میں ھی بنے ھوئے تھے۔ مسجد کے امام کا مصلی۔ مسجد کی صفیں تسبیح کے دانے اور دھاگہ۔ منبر کی لکڑی اور پالش ۔ لاؤڈ اسپیکر اور ایمپلی فائر ۔مسجد کی لائٹیں اور ڈیکوریشن کا سامان ۔ حمام کے لوٹے اور ٹونٹیاں ۔ جن ٹائلوں سے مسجد اور مینار چم چم کر رھے ھیں وہ سب سودی فیکٹریوں کا کمال ھے۔

کوئی امام نہیں کہتا کہ وہ سودی کارپٹ پہ نماز پڑھنے کی بجائے ریت اور کنکریوں پر نماز پڑھ لے گا۔ آخر نبیﷺ نے بھی تو مٹی پر نماز پڑھ کر ماتھا خاک آلود کیا ھے ۔مسجد نبوی میں پہلا چراغ حضرت تمیم داریؓ نے 9 ھجری میں جلایا تھا ۔ورنہ اندھیرا ھوتا تھا۔ الغرض جامعہ دارالعلوم ھو یا جامعہ فاروقیہ ۔ جامعہ بنوری ٹاؤن ھو یا جامعہ بنوریہ ۔ ساری گیٹ سے لے کر مہتمم کے دفتر تک اور حمام سے لے کر مطبخ کی مشینوں تک ۔سب سود سے لَـتھڑی ھوئی ھیں ۔

مروجہ اسلامی بینکنگ جس پہ ھمارے علماء نازاں ھیں کراچی جاتی ھوئی ٹرین پر منہ پشاور کی طرف کر کے بیٹھنے سے زیادہ کچھ نہیں ۔ ظاھر ھے آپ کے رخ پلٹ لینے سے ٹرین کی منزل پہ کوئی اثر نہیں پڑتا ۔کھا سارے ھی سود رھے ھیں مگر کچھ لوگ اس پہ مطمئن ھیں اور دوسروں کو وعیدیں سناتے ھیں ۔

اضطرار اور مولوی –

وعن ابن عباس قال : جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال : إن لي امرأة لا ترد يد لامس فقال النبي صلى الله عليه و سلم : ” طلقها ” قال : إني أحبها قال : ” فأمسكها إذا ” . رواه أبو داود والنسائي،،،،ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا میری ایک بیوی ہے جو مجھے بہت محبوب ہے۔ مگر اس کا حال یہ ہے کہ کسی ہاتھ لگانے والے کا ہاتھ نہیں جھٹکتی (واضح رہے کہ یہ کنایہ تھا جس کے معنی زنا کے بھی ہو سکتے ہیں اور زنا سے کم تر درجے کی اخلاقی کمزوری کے بھی)۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تو تم اس کوطلاق دے دو ۔ اس نے کہا مگر میں اس کے بغیر رہ نہیں سکتا۔ فرمایا تو پھر اسے پکڑے رکھ –

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے استفتاء کے جواب میں ٹھیک فتوی دیا کہ ” تو اس کو طلاق دے دے ” کیا اس کو یہ کہتے کہ اس کو قتل کر دے ؟ یا ناک اور گُت کاٹ دے ؟ آپ نے شرعی جواب دے دیا کہ تو اس کو طلاق دے دے – جب اس نے رسول اللہ کے فتوے پر عمل درآمد سے انکار کر دیا اورعذر یہ پیش کیا کہ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا تو اس کے بعد رسول اللہ کا جواب تو کوٹ کر دیا گیا کہ ” پھر اس کو پکڑے رکھ ، یا اس سے چمٹا رہ ،، مگر کیا راوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لہجہ اور چہرے کے تاثرات بھی نقل کئے کہ کس کراہت اور نفرت کے ساتھ اس کو یہ الفاظ کہے گئے تھے ؟ بھائی تم رسول اللہ سے آخر کیا ڈسکاّنٹ لینے آئے تھے ؟ بیوی تو پہلے ہی تمہارے پاس تھی صرف بیوی کو اور اپنے آپ کو ایکسپوز کرنے آئے تھے ،،

یہ خود میرے ساتھ بھی ھوتا ہے کہ ایک بندہ سودی معاملہ کرنا چاہتا ہے ، جب اس کو کہا جائے کہ اس سے بچو تو کہتا ہے کہ اس کے بغیر چارہ بھی نہیں ، تو پھر میں تھوڑا سا گرم ہو کر کہتا ہوں کہ بھائی اپنے عذر اور اضطرار سے تم خود بخوبی واقف ہو اور اور پر یقین ہو کہ اللہ کو حشر میں مطمئن کر لو گے کہ واقعتاً یہ حقیقی اضطرار ہے تو اس پر عمل کر گزرو اس میں مولوی کا منہ کالا کرنا ضروری ہے ؟ کیا مولوی آپ کی خاطر اب شریعت بھی تبدیل کر دے ؟ اضطرار میں عمل جائز تو ہو جاتا ہے مگر حرام تو حرام ہی رہتا ہے اور اضطرار ختم ہوتے ہی واپس ڈیفالٹ سیٹنگز پر واپس چلا جاتا ہے ، یعنی شریعت کو کوئی بھی تبدیل نہیں کر سکتا ،،

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
ماخذ فیس بک فیس بک
Leave A Reply

Your email address will not be published.