یاجوج و ماجوج کا روز دیوار کھودنا۔ روایت پر تبصرہ از مبین قریشی

یاجوج و ماجوج کا ذکر قرآن اور کتب سابقہ کے ساتھ ساتھ بہت سی صحیح احادیث میں بھی موجود ہے۔ لیکن ان کے متعلق کچھ لکھنے سے پہلے ضروری ہے کہ ان روایات پر نقد کرلیا جائے جوخود ساختہ ہیں ۔ ان من گھڑت روایات میں سے کچھ روایات ایسی ھیں مثلاً یاجوج اور ماجوج کا حضرت حوا کے بغیر ( یعنی بن ماں ) براہ راست مٹی پر مادہ منویہ کے گرنے سے پیدا ہونا وغیرہ۔ لیکن اس روایت کو سرے سے اہل علم نے کبھی قبول ہی نہیں کیا۔ اس لئے یہ زبان زد عام بھی نہ ہوئی۔ کچھ روایات کو اہل علم نے قبول تو نہ کیا مگر واعظین و ذاکرین کے توسط سے وہ زبان زد عام ہوگئیں مثلاً ان میں سے کچھ کا قد صنوبر کے درخت کی طرح طویل جبکہ کچھ ایک بالشت جتنے پست قد جو ایک کان زمین پر بچھا کر اور دوسرا اوپر لے کر سو جاتے ہیں ۔ اس طرح کی روایات پر بھی تبصرے کی ضرورت نہیں کیونکہ انھیں اہل علم قبول ہی نہیں کرتے۔ جس روایت پر مجھے تبصرہ کرنا ہے وہ ایسی روایت ہے کہ یاجوج و ماجوج کے موضوع پر اس سے زیادہ مشہور اور زبان زد عام روایت شائد ہی کوئی ہو اور شائد ہی اس موضوع پر کوئی تبصرہ اس روایت کے بغیر بھی ہوتا ہو۔ اسے کچھ اہل علم نے قابل قبول بھی کہہ دیا جس کی وجہ سے یہ روایت اس موضوع پر تقریباً فیصلہ کن روایت بن کر رہ گئی ہے۔ لیکن مجھے اس روایت پر تبصرہ کرنا اس لئے ضروری محسوس ہوا کیونکہ میں اس روایت کو اس موضوع کی صحیح تفہیم و تحقیق کی راہ میں ردم ذوالقرنین کی طرح حائل محسوس کرتا ہوں ۔ روایت الفاظ کے تھوڑے بہت اختلاف کیساتھ یوں ہے؛
روایت؛
حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ یاجوج و ماجوج ہر روز دیوار کو کھودتے ( یا چاٹتے ) رہتے ہیں ، جب قریب ہوتا ہے کہ وہ پوری کھد جائے ( کہیں الفاظ ہیں کہ سورج کی کرنیں انھیں دکھائی دینے لگیں ) تو جو شخص انکا سردار ہوتا ہے کہتا ہے اب گھر چلو کل آکر اسے کھودیں گے۔ پھر رات کو اللہ اس دیوار کو ویسا ہی مضبوط کردیتا ہے جیسے وہ کھدنے سے پہلے تھی۔ پھر ایک شام انکا سردار کہے گا کہ چلو گھروں کو لوٹ چلیں کل اگر خدا نے چاہا ( انشااللہ ) تو ہم اسے پورا کھود ڈالیں گے۔ وہ ایسا انشااللہ کے لفظ سے کہے گا۔ لہذا وہ دیوار اسی حالت میں رہے گی جیسا وہ چھوڑ کرگئے تھے اور اسطرح وہ اسکا بقیہ حصہ کھود کر باہر نکل پڑیں گے اور سارا پانی پی جائیں گے۔ لوگ ان سے بچ کر بھاگیں گے ۔ اور وہ اپنے تیر آسمان کی جانب پھیکیں گے جو خون سے لت پت واپس پلٹیں گے تو وہ کہیں گے کہ ہم زمین والوں پر بھی غالب آگئے اور آسمان والے پر بھی ۔

تبصرہ؛
درج بالا روایت پر تبصرے سے قبل جو صحیح السند اور متین المتن حدیث میں نے پچھلی پوسٹ میں نقل کی تھی اسے ایک بار پھر دیکھ لیں؛
فتح الیوم من ردم یاجوج و ماجوج مثل ھذہ، وحلق باصبعہ الابھام
رسول اللہ نے انگوٹھے اور انگلی کو ملا کر کہا کہ ردم ذوالقرنین میں اسکی مثل چھید ہوچکا۔ ( بخاری، مسلم ، ترمذی ، ابن ماجہ وغیرہ وغیرہ)
اب درج بالا پہلی روایت کو اس دوسری مزکورہ بالا روایت سے ملالیں تو بات یہ بنے گی کہ جس دن رسول اللہ کو دیوار کی رویاء کروائی گئی اس روز سے ایک رات پہلے وہ انشااللہ کہہ چکے تھے جب ہی تو چھید برقرار رہا اسلئے انھیں اسں روز یقیناً باہر نکل آکر دنیا کا سارا پانی پی کر لوگوں کو قتل کردینے کے بعد آسمان کی جانب تیر برسادینے چاہیئے تھے۔
مذکورہ بالا روایت بتاتی ہے کہ وہ روز اتنا کھود لیتے ( جبکہ کچھ کو تو کھودنے میں لطف محسوس نہیں ہوا اسلئے انھوں نے کہہ دیا کہ چاٹ لیتے ) ہیں کہ بس وہ کھلنے کے قریب ہوجاتی ہے مگر ہر روز عین چند مزید ضربیں لگا لینے سے قبل ہی واپس لوٹ جاتے ہیں ، لیکن اتنا کھود چکے ہوتے ہیں کہ وہ کھلنے کے قریب پہنچ جاتی ہے ( جبکہ کچھ نے کہا کہ دوسری جانب سے سورج کی کرنیں ، وہ بھی رات میں ، انھیں نظر آنے کے قریب ہوجاتی ہیں ۔ جبکہ اسکے برعکس قرآن کہتا ہے کہ ؛
وما استطاعوا لہ نقبا۔ وہ اسمیں نقب کی استطاعت نہیں رکھتے تھے ( الکہف -۹۷)
قرآن نے جس چیز پر انکی استطاعت ہی کی نفی کردی انھیں پھر روایت نے اسی کام پر لگادیا۔ جب استطاعت ہی نہیں تو اتنا کیسے کھود لیتے ہیں کہ وہ بس دو چار مزید ضربوں کی مار رہ جاتی ہے؟ قرآن ان میں استطاعت کی ہی نفی کرتا ہے جبکہ روایت بتاتی ہے کہ استطاعت تو ان میں بھرپور ہے مگر خدا براہ راست مداخلت کردیتا ہے۔ المنقب وہ چیز ہوتی ہے جسے کھودا جاسکے جب کہ قرآن نے اسکے المنقب ہونے کے خلاف پہلے لوہے اور تانبے کی تفصیل سنائی اور پھر کہا کہ وہ ایسی تھی کہ اسکے زمین بوس ہوجانے کے دن تک ان کے لئے نقب کی استطاعت ہی نہ تھی۔ اندازہ لگائیں کہ یہ روایت کس قدر تضادات کا مجموعہ ہے۔ جس چھید کی رسول اللہ نے خبر دی اسکا فاعل اللہ تھا ناکہ قرآن کے برعکس یاجوج اور ماجوج ۔
درایت کے بعد اگر اس روایت کی سند پر بات کریں تو وہ بھی ایسی مفلوک الحال ہے کہ محدث کبیر علامہ انور شاہ کاشمیری نے فیض الباری شرع صحیح بخاری کی جلد ۳ میں قصہ یاجوج و ماجوج کے تحت اس روایت کو نقل کرکے اپنی تحقیق یوں بیان کردی کہ انا لیس بمرفوع، بل ھو کعب نفسہ۔ یعنی یہ روایت اوّل تو مرفوع ہی نہیں ہے بلکہ یہ حضرت ابوھریرہ کے قریبی دوست کعب احبار کی اپنی ذاتی پروڈکشنز میں سے ہے۔ محدث کاشمیری کے تبصرے کے علاوہ بھی آپ دیکھیں کہ یہ روایت جہاں کہیں بھی تھوڑے تھوڑے لفظوں کے رد و بدل کیساتھ بھی آئی ہے صرف اور صرف واحد راوی قتادہ بن دعامہ سے آئی ہے۔ یعنی سند کا کل مدار اپنے ہر ممکنہ طریق کیساتھ بھی صرف اور صرف قتادہ پر ہے۔ جبکہ قتادہ فن رجال کے علماء کے نزدیک مدلسین کے بے تاج بادشاہ ہیں اور ساتھ کثرت سے ارسال بھی کرتے ہیں ۔ یعنی وہ ایسے لوگوں کے ناموں سے روایت کرتے ہیں جن سے ان کی ملاقات شائد قیامت کے دن ہی ہوسکے۔ مثلاً وہ اصحاب رسول میں سے براہ راست حضرت سعید الخذری اور حضرت عبداللہ بن بریدہ سے روایت کرتے ہوئے بھی نہیں چوکتے۔ اسی طرح وہ بشر المحتفد البصری، سلیمان بن قیس الیشکری، حبیب بن سالم انصاری، حمید بن عبدالرحمن بن عوف، زھدم بن مضرب، سلیمان بن یسار، سنان بن سلمہ، عامر بن شراحیل، مجاہد بن جبر، مسلم بن یسار، یحیی بن یعمر، نفیع ابی رافع، ابی قلابہ الجرمی، معاذہ بنت عبداللہ، ابو العالیہ رفیع بن مھران، اور طاوس بن کیسان وغیرہ سے بھی بے دھڑک روایت کر جاتے ہیں ۔ یہی پریشانی امام ترمذی نے دیکھی تو صاف ڈسکلیمر لگایا کہ بھائی لوگو بچ کے ؛وانما نعرفہ من ھذا الوجہ ، کہ میں نے خود اسے اس سند کے علاوہ کبھی نہیں سنا بلکہ سند کے شروع میں ہی کہا کہ حدثنا محمد بن بشار وغیر واحد کہ محمد بن بشار کے علاوہ بھی کبھی کسی کے منہ سے نہیں سنی۔
درج بالا مختصر تبصرے سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس روایت کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔ یہ سند کے لحاظ سے بھی گئی گزری اور متن کی درایت کے لحاظ سے بھی غیر معقول اور قرآن کے راستے میں کھڑی ہوئی ہے۔ بلکہ جونہی اس روایت کو نظر انداز کرکے یاجوج و ماجوج کو قرآن ، صحیح حدیث اور عہدنامہ قدیم کی کتب سے سمجھا جائے تو یہ روایت بزات خود ہی سر چڑھ کر کر بولتی ہے کہ یہ کسی قصہ گو کی ٹکسال کی پروڈکشن ہے۔ بلکہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک وقت میں بغداد میں الف لیلی و لیلی کی تین سو کہانیوں کا بہت چرچا تھا جسمیں شہرزار اپنی چھوٹی بہن دنیا زاد کے توسط سے مسلسل ہزار راتوں تک ظالم بادشاہ کو تین سو کہانیاں سنا کر نہ صرف اپنی جان بچانے کی ترکیب بھی کرلیتی ہے بلکہ روز کسی باکرہ کے قتل کو رکنے کا سامان بھی کرلیتی ہے۔ اسی طرح کسی نے جب سنا کہ بنو اسمعیل پر ہلاکت یاجوج و ماجوج کے ہاتھوں آئے گی تو اس نے شہرزاد کی طرح یہ ترکیب سوچی کہ کیوں نہ انھیں دیوار چاٹنے یا کھودنے پر لگادیا جاے ۔ نہ ہی وہ خدا بیزار قیامت تک انشااللہ کہیں اور نہ ہی بنو اسمعیل پر ان کے ہاتھوں ہلاکت کا موقع پیدا ہوسکے۔
یاجوج و ماجوج کون ہیں ان پر لکھنے سے پہلے میں نے سوچا کہ ان روایات پر پہلے بات کر لی جائے جو میری اگلی پوسٹس کے پڑھتے وقت بہت سے لوگوں کے ذھن میں بار بار آئیں گی۔ اور یقین جانیے جس نے بھی ان ضعیف روایات سے جونہی جان چھڑوا کر اس موضوع کو پڑھا پھر حقیقت حال تک یا اسکے قریب تک پہنچنے میں اسکے راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ ہوسکی۔ مثلاً میں نے اپر محدث کبیر انور شاہ کاشمیری کا حوالہ دیا ہے کہ اس روایت پر انھوں نے کیا تبصرہ کیا اور پھر اس تبصرے کے بعد کس نتیجے پر پہنچے ، ملاحظہ ہو؛
اما الکلام فی یاجوج و ماجوج ، فاعلم انھم من ذریہ یافث باتفاق المورخین۔ ویقال لھم فی لسان آروبا؛ کاک و میکاگ۔ و فی مقدمہ ابن خلدون غوغ و ماغوغ۔ وللبرطانیہ اقرار بانھم من ذریہ ماجوج و کذا المانیا ایضا منھم ۔ واما الروس فھم من زریہ یاجوج ۔
یاجوج و ماجوج کے امور میں ہم جانتے ہیں کہ مورخین کا اس پر اجماع ہے کہ وہ یافث کی اولاد ہیں ۔ انھیں یورپی زبان میں گاگ اینڈ میگاگ کہا جاتا ہے اور مقدمہ ابن خلدون میں انھیں گوگ ماگوگ کہا گیا ہے۔ برطانیہ اور جرمنی کے لوگ یاجوج کی نسل جبکہ روس کے لوگ ماجوج کی نسل سے ہیں ۔ ( علامہ انور شاہ کاشمیری۔ فیض الباری شرح بخاری جلد ۳ باب قصہ یاجوج و ماجوج ۔ سورہ الکھف) ۔

 
Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
ماخذ فیس بک
Leave A Reply

Your email address will not be published.