آدمی نامہ یا آرمی نامہ از انور مقصود
اردو کے پہلے عوامی شاعر تھے نظیرؔ اکبر آبادی…. جن کی وجہ سے مجھے ڈان گروپ سے نکال دیا گیا۔ میں حریت اخبار کا میگزین ایڈیٹر تھا، نظیر اکبر آبادی کی برسی کے دن میں نے ان کا آدمی نامہ لکھ کر کاتب کو دے دیا۔ آدمی نامہ، ’’د‘‘ کو میں نے ذرا سا سیدھا لکھ دیا، کاتب سمجھا کہ ’’ر‘‘ ہے، اس نے آرمی نامہ لکھ کر مضمون چھاپ دیا۔ ضیاء الحق کی حکومت تھی۔
دنیا میں پادشہ ہے سو ہے وہ بھی آرمی
اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آرمی
زردار بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آرمی
نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آرمی
ٹکڑے چبا رہا ہے سو ہے وہ بھی آرمی
مسجد بھی آرمی نے بنائی ہے یاں میاں
بنتے ہیں آرمی ہی امام اور خطبہ خواں
پڑھتے ہیں آرمی ہی قرآن اور نماز یاں
اور آرمی ہی ان کی چراتے ہیں جوتیاں
جو اُن کو تاڑتا ہے سو ہے وہ بھی آرمی
فرعون نے کیا تھا جو دعویٰ خدائی کا
شداد بھی بہشت بنا کر ہوا خدا
نمرود بھی خدا ہی کہلاتا تھا برملا
یہ بات ہے سمجھنے کی آگے کہوں میں کیا
یاں تک جو ہو چکا ہے سو ہے وہ بھی آرمی
اشراف اور کمینے سے لے شاہ تا وزیر
یہ آرمی ہی کرتے ہیں سب کار دل پذیر
یاں آرمی مرید ہے اور آرمی ہی پیر
اچھا بھی آرمی ہی کہاتا ہے اے نظیرؔ
اور سب میں جو برا ہے سو ہے وہ بھی آرمی۔۔۔۔۔
حریت کے مالک تھے محمود ہارون، انٹیریئر منسٹر…. جنرل مجیب الرحمان انفارمیشن کے وزیر تھے…. میرے بڑے بھائی انفارمیشن کے سندھ کے سیکریٹری تھے۔ حمید ہارون میرے پاس آئے اور بولے تمہارے میگزین میں کیا چھپ گیا؟ میں نے کہا کاتب کی غلطی۔ کاتب کو بلایا تو معلوم ہوا کہ وہ رات ہی میں بیوی بچوں کے ساتھ میرپورخاص چلے گئے۔ میں نے جنرل مجیب کو فون کیا اور کہا سر کتابت کی غلطی ہے، ہماری آرمی میں کوئی غلطی نہیں ہے۔ انہوں نے غصے سے فون بند کردیا۔ دو دن یہ ہنگامہ چلتا رہا۔ پھر جنرل ضیاء کو اطلاع کردی گئی کہ مجھے ملازمت سے الگ کردیا گیا ہے۔ کاتب کی کوئی غلطی نہیں تھی، میں نے جان بوجھ کر ‘ د ‘ کی جگہ ‘ ر ‘ لکھ دیا تھا۔