ابن عربی کے بعض کلامی اقوال کے معنی اور غلط فہمیاں ۔ از زاہد مغل

ولایت کا درجہ نبوت سے بالاتر ھے”، "غیر تشریعی نبوت کا سلسلہ جاری ھے”۔۔۔۔۔۔۔ ابن عربی کے بعض کلامی اقوال کے معنی اور غلط فہمیاں (طوالت کے لئے معذرت)

تصوف کے بعض غالی مخالفین صوفیاء کے بیان کردہ چند کلامی عقائد و مسائل کی آڑ میں تصوف کو عظیم ترین گمراہی قرار دیتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کو وہ ان کی بعض باتوں کو مرزا قادیان کے صریح کفر کے لئے بطور ڈھال استعمال کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ تصوف کے مباحث میں ایسا ہی ایک نزاعی مسئلہ (جسے یہ حضرات بارہا جواب دئیے جانے کے باوجود اچھالتے رہتے ہیں) وہ ہے جسےشیخ ابن عربی نے پیش کیا کہ "ولایت کا درجہ نبوت کے درجے سے بالا تر ہے”، نیز "غیر تشریعی نبوت کا سلسلہ جاری ہے”۔

ان عبارات کے مصداق کو سمجھنے کے لئے یہ سمجھنا چاہئے کہ اس مخصوص عقیدے کے بیان میں ابن عربی "ولایت و نبوت "سے کیا مراد لیتے ہیں اور ان میں کس نوعیت کا تعلق بیان کرتے ہیں۔ یہ بات سمجھ رکھئے کہ ابن عربی معمولی سطح کے آدمی نہیں، ان کا ایک اپنا مخصوص کلامی ڈسکورس ہے اور اس کے اندر جن اصطلاحات کو وہ استعمال کرتے ہیں ان کے معنی سمجھنے کے لئے اس ڈسکورس کے اندر جانے کی ضرورت ہے، نہ یہ کہ اس ڈسکورس سے باہر ان اصطلاحات کے کسی متعین یا معلوم معنی کی بنیاد پر ان پر کوئی حکم لگا دیا جائے۔ ہمارے یہ دوست ابن عربی کی عبارات کو ان کے نظام فکر سے الگ کرکے دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ ابن عربی کہتے ہیں کہ پیغمبر (منصب نبوت) کی دو جہات یا حیثیتیں ہیں:
1) ایک وہ جسکا تعلق "بطور عارف” خدا اور اسکی اسماء و صفات میں تدبر سے ہے، اسے وہ ولایت (یا "نبوت عامہ”، اسکی تشریح آگے آرہی ہے) سے تعبیر کرتے ہیں
2) دوسرا پہلو "بطور شارع” بندوں کی اصلاح و تزکیہ اور تہذیب تمدن سے ہے، اسے وہ "نبوت” کہتے ہیں
غور کیجئے کہ ابن عربی ولایت کو نبوت کا ایک پہلو قرار دیتے ہیں، اسکا حریف و مدمقابل نہیں۔ چنانچہ دوسرے پہلو کے اعتبار سے وہ واضح طور پر ختم نبوت کے قائل ہیں ("جان لو کہ ہمارے لئے ( یعنی اس امت کے لئے ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف الہام ہے وحی نہیں ۔ وحی کا سلسلہ آنحضرت ﷺ کی وفات پر ختم ہوچکا ہے ۔ آپ سے پہلے بے شک یہ وحی کا سلسلہ موجود تھا ۔ اور ہمارے پاس کوئی ایسی خبر الہٰی نہیں پہنچی کہ آنحضرت ﷺ کے بعد بھی کوئی وحی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور وحی کی گئی تیری طرف اور تجھ سے پہلوں کی طرف ۔ ( الزمر :65 ) اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے بعد کسی وحی کا ذکر نہیں فرمایا۔ ہاں آنحضرت ﷺ کی حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے بارے میں سچی خبر پہنچی ہے، اور آپ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی طرف آنحضرت ﷺ سے پہلے وحی کی گئی تھی۔ آپ جب امت کی قیادت کریں گے تو ہماری شریعت کے مطابق عمل کریں گے۔ آپ جب نازل ہوں گے تو آپ کے لئے مرتبہ کشف بھی ہوگا اور الہام بھی جیسا کہ یہ مقام (اولیاء) امت کے لئے ہے” ۔۔۔۔۔۔۔ نیز "جو وحی نبی اور رسول کے ساتھ خاص تھی کہ فرشتہ ان کے کان یا دل پر (وحی لے کر) نازل ہوتا تھا وہ وحی بند ہوچکی ، اور اب کسی کو نبی یا رسول کا نام دینا ممنوع ہوگیا”)۔ ختم نبوت سے وہ یہی مراد لیتے ہیں کہ اب کوئی اور شارع آنے والا نہیں جسکا قول و فعل شریعت و حجت قرار پائے۔
البتہ انکے خیال میں ولایت (نبوت عامہ) کی حیثیت ایک پہلو سے نبوت (تشریعی) سے مختلف ہے، یہ اللہ تعالی کے ساتھ ایسا تعلق ہے جو دنیا و آخرت دونوں میں جاری و ساری ہے، لہذا یہ دائمی و غیر منقطع ہے جبکہ نبوت (تشریعی) اب منقطع ہوچکی۔ ولایت (نبوت عامہ) کا یہی وہ پہلو ہے جس کی رو سے وہ ولایت (نبوت عامہ) کی نبوت (تشریعی) پر گوں نا گوں ایک پہلو سے برتری ثابت کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ ولایت کے نبوت پر فوقیت کے اور کوئی معنی نہیں۔ ولایت کے اس پہلو میں بھی نبی ہر غیر نبی ولی سے افضل ہوتا ہے (یعنی وہ خدا تعالی کا ان سے بڑھ کر عارف ہوتا ہے)۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ابن عربی اس قسم کی بحث کیوں کررہے ہیں؟ دراصل ابن عربی اپنے مخصوص ڈسکورس کے اندر "ختم نبوت” سے پیدا ہونے والی ایک گتھی کو سلجھانا چاہتے تھے۔ وہ گتھی یہ تھی کہ کیا ختم نبوت کا معنی یہ سمجھا جائے کہ اسکے بعد عرفان خداوندی کا سلسلہ اپنے بندوں پر ختم ہوچکا؟ کیا ختم نبوت کے اس عقیدے سے ان لوگوں کی حوصلہ شکنی نہ ہوگی جو خلوص و دیانتداری سے معرفت خداوندی کے درجات میں بلندی چاہتے ہیں؟
اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ابن عربی ختم نبوت کی تین جہات متعین کرتے ہیں:
الف) ایک جہت اللہ تعالی کے فیضان ربوبیت کی ہے ۔۔۔ اس اعتبار سے سوال یہ ہے کہ کیا اب خدا کی نوازشیں آئندہ کسی شخص کی طرف متوجہ نہیں ہوں گی؟
ب) دوسری جہت بندگی و ذوق عبادت کی ہے ۔۔۔ اس میں حل طلب سوال یہ ہے کہ کیا ختم نبوت کے بعد بندوں پر روحانی ارتقا کے تمام دروازے بند کردیئے گئے ہیں؟
ج) تیسری جہت تہذیب اخلاق و تمدن کی ہے ۔۔۔ کیا اسکا مفہوم یہ ہے کہ آئندہ فقہ و تفنین کے لئے کوئی زحمت برداشت کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟
ان تینوں سوالوں کا حل ان کے خیال میں یہ ہے کہ ولایت (نبوت عامہ) کے اس تصور کو مان لیا جائے کہ خدا کی نظر کرم اب بھی اپنے بندوں کو الہام و کشف کے ذریعے علوم و معارف سے بہرہ مند کرتی ہے (جس کے حق میں نصوص بھی موجود ہیں)، اب بھی ذوق عبادت اس لائق ہے کہ بندہ روحانی ارتقاء کی منازل کو طے کرکے اس مقام کو پالے کہ خدا بندے کا ہاتھ پیر بن جائے، اسی طرح اب بھی فقہ و تفنین کے ذریعے مسائل کا استنباط ہوتا رہے گا (البتہ اب کوئی شارع نہیں آئے گا)۔ ولایت کو انہی معنی میں ابن عربی مجازا نبوت عامہ سے تعبیر کرتے اور اسکے جاری رہنے کے قائل ہیں کہ اس کے فرائض میں اجتہاد کے پیمانوں کو دریافت کرنا یا بذریعہ کشف انہیں جان لینا ہے۔ چنانچہ اس بارے میں وہ یوں رقمطراز ہوتے ہیں:
"فابقی لہم النبوۃ العامۃ التی لاتشریع فیہا وابقی لہم التشریع فی الاجتہاد فی ثبوت الاحکام” (خدا نے نبوت کے بعد مخلوق کے لئے نبوت عامہ کو باقی رکھا جس میں (وحی پر مبنی) تشریع شامل نہیں، البتہ ان کے لئے جس تشریع کو جاری رکھا وہ اجتہاد سے متعلق ہے جسکے ذریعے احکامات ثابت کئے جاتے ہیں)۔
پس معلوم ہوا کہ ابن عربی ولایت ہی کو نبوت عامہ کہتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے وہ اجتہاد کو مجازا تشریع قرار دیتے ہیں (حالانکہ اجتہاد "حقیقی معنی” میں تشریع نہیں جیسا کہ وہ خود بھی فرماتے ہیں)۔ اس تفصیل سے یہ نکتہ بھی صاف ہوجاتا ہے کہ ابن عربی کے یہاں جو "غیر تشریعی نبوت کے جاری رہنے کی” بات ملتی ہے وہ دراصل "مجتہد” کا منصب ہے جسے درج بالا تین پہلووں کے تناظر میں مجازا "غیر تشریعی نبوت” کہہ دیا گیا ہے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ ابن عربی کے یہاں نبوت عامہ ایک خاص اصطلاح ہے جسے سمجھے بغیر ان کے فکری نظام کو سمجھنا ممکن نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہےکہ ابن عربی کے ڈسکورس میں اس ولایت عامہ کے تحت غیر تشریعی نبوت کا دائرہ انسانوں تک نہیں بلکہ جمیع مخلوقات تک پھیلا ہوا ہے کیونکہ وہ سب کسی نہ کسی درجے میں خدا کے عارف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "اور یہ نبوت (ولایہ عامہ) حیوانات میں بھی جاری ہے اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی” ۔۔۔۔۔ (یہ) نبوت ہر موجود چیز میں جاری وساری ہے اور یہ بات اہل کشف خوب جانتے ہیں "۔
خلاصہ یہ کہ ابن عربی کے یہاں:
– رسول اللہﷺ کے بعد کسی نبی اور وحی کا امکان نہیں
– نہ وہ خود کو اور نہ ہی کسی اور کو معمول بہ معنی میں نبی کہتے ہیں
– غیر تشریعی نبوت سے مراد اجتہاد کا منصب ہے (جو "ولایت عامہ” کا ایک مظہر ہے)، یہ کسی طور بھی دین کی اصطلاحی معنی والی نبوت نہیں اور نہ ہی اس میں وحی کا عنصر شامل ہے۔

یہ ابن عربی کا اپنا نظام فکر ہے کس کے اندر وہ تصورات کو کیٹیگرائز کرتے ہیں۔ اس پر یہ بات تو کہی جاسکتی ہے کہ ابن عربی کا اسلوب و انداز بیان غلط تھا کہ انہیں نبوت و تشریع جیسی ٹھیٹھ دینی اصطلاحات میں ولایت و اجتہاد جیسے نظریات بیان نہیں کرنا چاہئے تھے مگر اس کی بنا پر ان پر ختم نبوت کے منکر ہونے کا الزام دھر دینا اور پھر اس کو مرزا کے صریح کفر کے لئے ڈھال بنانا بات سمجھے بغیر لب کشائی کرنے کے مترادف ہے۔

آخری بات یہ کہ اہل تصوف کے یہا ں بعض ایسی چیزو ں کا ذکر ملتا ہے جو ذوقی و تجربے سے متعلق ہیں (کہ مثلا کشف کے ذریعے ہمیں فلاں امور معلوم ہوگئے یا ہم نے فرشتوں کا دیدار کیا وغیرہ)۔ صوفیاء یہ دعوی نہیں کرتے کہ ہمارے ان تجربات و دعووں کو ماننا دین کا حصہ ہے اور جو نہیں مانتا وہ کافر ہے۔ یہ ان کے تجربات کا بیان ہوتا ہے کہ ایک خاص محنت کے بعد ہمیں جو مقام حاصل ہوا ہے یہ اس کے فیوض و برکات ہیں لہذا اگر تم بھی ان مقامات کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس طریقے پر چلو۔ جسے لگتا ہے کہ وہ سچ بول رہے ہیں وہ مان لے، جسے نہیں لگتا وہ نہ مانے۔ اگر امام غزالی کہتے ہیں کہ مجھ پر خدا نے اپنے فضل و کرم سے کچھ ایسی عنایتیں کیں تو کم از کم میرے پاس اسے رد کرنے کی کوئی شرعی و عقلی دلیل موجود نہیں۔ جو کوئی یہ کہتا ہے کہ ایسا ہونا ناممکن ہے یا ایسا دعوی کرنا ہی کفر ہے، تو ایساکہنے والے کو پھر اس کےلئے دلیل بھی دینا ہوگی۔

متاثرین المورد جمع خاطر رکھیں، ہم نے ابن عربی کے کلام کی تاویل نہیں کی بلکہ صرف اس کی وضاحت کی ہے کہ ان کا نظام فکر کیا ہے اور اس کے اندر وہ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہو کہ مرزا قادیان بھی ایسا ہی کچھ کہتا تھا تو اس کی ایسی ہی وکالت پیش فرمائیں۔

سورس

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.