ارتقاء کے بارے میں غلط فہمیوں کا مختصر اور جامع ازالہ
حیاتیاتی ارتقا ۔ چند غلط فہمیاں
“جو آج حقیقت تسلیم نہیں کرتا، اس کے پاس ماضی تو ہو سکتا ہے، مستقبل نہیں”
نوٹ: اگر ٹاپک پسند نہیں تو مت پڑھئے، لیکن اگر کمنٹ کرنا ہو، تو پہلے پوری تحریر پڑھ لیں۔
پہلی غلط فہمی ۔ ارتقا ۔ تھیوری یا فیکٹ؟
تمام جانداروں کا ایک مشترک جد سے نکل کر ایک لمبے عرصے میں زندگی کی موجودہ حالت تک پہنچنا ایک فیکٹ ہے۔ یہ سب ہوا کیسے؟ اس کی وضاحت کے لئے ارتقا کی کئی تھیوریز ہیں۔ ان مختلف تھیوریز کے بہت سے پہلووٗں پر سائنسی حلقوں میں بڑی بحث ہوتی ہے۔ جینز، میوٹیشن، ماحول کے کردار پر۔ کتنی تبدیلی رینڈم ہے، کتنی کو پریڈکٹ کیا جا سکتا ہے۔ نیچرل سلیکشن، سکشوئیل سلیکشن کیسے کردار ادا کرتے ہیں؟ فرد اور گروپ کا انٹرایکشن کس طرح سے ہوتا ہے۔ جینیاتی ڈرفٹ کیسے ہوتی ہے۔ جانداروں کی کلاسیفیکشن کیسے کی جائے۔ زندگی کی ٹائم لائن اور آپس میں رشتہ بنانے کے لئے کونسے طریقے ٹھیک ہیں۔ یہ گرما گرم بحث اسی طرح ہوتی ہے جو سائنس کا خاصہ ہے۔ اور یہ بحث ارتقا کی تھیوری کی بحث ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ارتقا کا ہی حصہ ہے۔ کونسا کس قدر اہم ہے۔ اس میں اپڈیٹ ہوتی رہی ہے اور مزید شواہد ملنے پر اپڈیٹ ہوتی رہے گی۔
بیکٹیریا سے لے کر وہیل، برگد کے پیڑ تک تمام جاندار ایک ہی خاندان کا حصہ ہیں، اس پر کوئی ابہام یا اختلاف نہیں۔ یہ تو ہر ایک کے جسم میں لکھا ہے۔
دوسری غلط فہمی ۔ ایک نوع سے دوسری نوع کیسے بن سکتی ہے؟
کبوتر چڑیا سے نہیں بنتا، مینڈک کچھوے سے نہیں بنتا، چمپنیزی بندر سے نہیں بنتا۔ ارتقا سیدھی لکیر میں نہیں۔ اس حوالے سے جس طرح کی تصویر ساتھ لگی ہے، یہ عام پبلک میں اس علم کے بارے میں سب سے بڑی غلط فہمی ہے۔ چونکہ اس قسم کی تصاویر اس قدر عام ہیں اور ان کا امیج اس قدر طاقتور۔ کہ ارتقا کا مطلب اکثر یہی سمجھا جاتا ہے۔ یہ غلط ہے۔ انواع کی رشتہ داری ہے، ایک سے دوسرے میں تبدیلی نہیں۔ ایک مکھی، ایک سکوئیڈ اور ایک چوہا۔ یہ سب زندگی کے درخت کے الگ پتے ہیں جو اپنی الگ ارتقائی شاخوں پر ہیں۔ کوئی بھی ایک دوسرے سے نہیں بنا۔ اپنی ارتقائی شاخوں میں دور کہیں جا کر یہ ملتے ہیں۔
تیسری غلط فہمی ۔ مشترک جد ہونے کا ثبوت؟
کوئی ایک ثبوت؟ بات مختصر رکھنے کے لئے جینیاتی کوڈ دیکھا جا سکتا ہے۔ صرف اگر مکھی، انسان یا سکوئیڈ کی آنکھ کو دیکھ لیں تو ان کا ارتقا الگ ہوا ہے، ان کی بڑی دور کی رشتہ داری ہے، آنکھ کی فورم بالکل الگ ہے۔ لیکن ایک ہی جین ہے جو اس کی ڈویلپمنٹ کو کنٹرول کرتی ہے۔ ہر ممالیہ میں، فقاریہ اور غیرفقاریہ جانور سب میں یہ PAX6 جین ہے۔ اس کو تو ہم اس قدر اچھے طریقے سے جانتے ہیں کہ انسان کا جین لے کر مکھی کے پر کے اوپر انسانی آنکھ اگا سکتے ہیں (اور اگا چکے ہیں)۔ اس جین کے کوڈ کا موازنہ کر کے دیکھا جا سکتا ہے کہ کس حرف کی تبدیلی یا فائدہ مند میوٹیشن کس طرح ہوئی اور اس کا کیا اثر ہے۔
اسی طرح وہیل اور ڈولفن کی پچھلی ٹانگیں واضح طور پر کھر والے چوپائیوں کے ساتھ اپنے مشترک آباء کا بتاتی ہیں۔ (وہیل اور ڈولفن مچھلیاں نہیں، ممالیہ ہیں)۔ ان کی پچھلی ٹانگیں، جن کی ان کو ضرورت نہیں، ختم نہیں ہوئیں۔ اس کا سٹرکچر بالکل اسی طرح ان کے جسم میں موجود ہے۔ جب وہیل کا بچہ حمل کے دوران ڈویلپمنٹ کی سٹیج پر ہوتا ہے تو اس کی ٹانگوں کی ڈویلپمنٹ کی ابتدا چوپائیوں کی طرح ہی ہوتی ہے جو پھر رک جاتی ہے لیکن یہ سٹرکچر برقرار رہتا ہے۔ مورفیولوجیکل موازنہ بھی جینیاتی موازنے کی طرح مشترک جد ہونے کے طرح طرح کے ثبوت دیتا ہے۔ ہر جاندار میں ایسی فوسل جینز ہیں جو اگر ایکٹو ہو جائیں تو اپنے ماضی کے سٹرکچر کا اظہار بھی کر دیتی ہیں۔
چوتھی غلط فہمی ۔ ارتقا کا مطلب ڈارون ازم ہے
ڈارون اس فیلڈ کے بانی تھے اور اپنے وقت کے ایک ذہین سائنسدان، لیکن ان کا علم محدود تھا۔ نہ اس وقت ڈی این اے دریافت ہوا تھا، نہ جینومکس تھی، نہ جین نیٹ ورک کا پتا تھا، نہ ہی ایپی جینیٹکس کا، نہ جین کی کنزرویشن کا، نہ ڈورمینسی کا، نہ کلوننگ آتی تھی اور نہ ہی جینوم ایڈٹنگ۔ ان کے وقت سے آج تک تو سائنس کے نئے شعبے بن چکے ہیں۔ ہزاروں جانداروں کا پورا جینوم پڑھا جا چکا ہے۔ جین کو بدل کر لیباریٹری میں تجربے کئے جا رہے ہیں۔ سیکوئنس بدل کر، ایک نیوکلئیوٹائیڈ ایڈت کر کے۔ ایک نسل میں ہونے والے ارتقا کے عملی تجربوں کے ذریعے ثبوت موجود ہیں۔ ارتقا ڈارون کا بیان کردہ بتدریج عمل نہیں۔ کسی ایک طریقے سے نہیں ہوتا۔ تیز ہو سکتا ہے، سست رفتار ہو سکتا ہے۔ کئی عوامل سے مل کر ہو سکتا ہے۔ صرف یہ بحث کی جا سکتی ہے کہ کس وقت کس کا زیادہ ہاتھ ہوتا ہے اور رہا ہے۔
پانچویں غلط فہمی ۔ مسنگ لنک کہاں ہیں؟
آدھے مچھلی اور آدھے چھپکلی والا فاسل کیوں نہیں؟ اس قسم کے سوال صرف سائنس کی سمجھ نہ ہونے کی وجہ سے اور ارتقا کو لکیر کی صورت میں ہونے والا پراسس سمجھنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ ہم قریب کے رشتہ داروں میں مشترک خاصیتیں ہونے کی توقع تو کر سکتے ہیں لیکن ایک نوع دوسرے میں تبدیل ہوتی ہی نہیں تو آدھی ایک نوع اور آدھی دوسری نوع کے سوال کی کوئی تُک ہی نہیں بنتی۔ ان ٹرانزیشنس کی مثالیں تو بے شمار ہیں۔ ایک مثال مچھلی میں آنکھ کی جگہ کے ارتقا کی۔ فلیٹ ہیڈ مچھلی جو سمٹریکل ہے اور جو سمٹریکل نہیں۔ یعنی دونوں آنکھیں ایک ہی طرف ہیں اور دونوں الگ طرف۔ ایک وقت میں سوال تھا کہ ہیلی بٹ اور سول مچھلی کے درمیان ایک آنکھ نے یہ سفر کیسے کیا۔ جینز سے اور سوٹیوڈوز اور ستھارس کے مل جانے سے آنکھ کی جگہ کے ارتقا کی سمجھ آ گئی۔
چھٹی غلط فہمی ۔ خاصیتوں کی پیچیدگی کی تخفیف نہیں کی جا سکتی
آدھی آنکھ کا کیا فائدہ؟ یہ تو یکدم ہی کسی جاندار میں آئی ہو گی۔ نہیں، یہ تصور بالکل غلط ہے۔ اور اس کی مختلف حالتوں کو دیکھنے کے لئے تو ماضی میں بھی نہیں جانا پڑتا۔ ایسے کیچوے ہیں جو صرف روشنی کو کچھ خلیوں کی مدد سے ڈیٹیکٹ کرتے ہیں، گیسٹروپوڈ جن میں آنکھ کا سادہ نشیب ہوتا ہے۔ اینی لیڈ جس میں گہرا نشیب ہیں۔ مولسک جس میں اس کپ میں روشنی پکڑنے کے لئے سوراخ ہے۔ پھر ریفریکٹو لینز والے اور پھر چپٹا اور پگمنٹ والا آئرس رکھنے والے۔ تو آدھی آنکھ بیکار نہیں۔ خالی فوٹوسنتھیسز والے خلئے بھی زندہ رہنے میں فائدہ دیتے ہیں۔ ناقابلِ تخفیف پیچیدگی کا تصور درست نہیں۔
ساتویں غلط فہمی ۔ ارتقا رینڈم ہے
ویری ایشن بڑی حد تک رینڈم ہے لیکن میوٹیشن کو ہونے کے بعد پھیلنا بھی ہے۔ میوٹیشن خلیوں کی تقسیم کے درمیان رہ جانے والا فرق ہے۔ یہ والی ویری ایشن رینڈم ہے، اس کی سلیکشن بالکل بھی نہیں۔ تمام انواع میں سے صرف انسان ہے جو قدرتی ارتقا پر قابو پانے میں کامیاب ہوا ہے۔ جانوروں سے لے کر پودوں تک یہ سلیکشن کر کے ہم نت نئی انواع تخلیق کرتے رہے ہیں۔ سلیکشن یہی ہے۔ چناوٗ رینڈم نہیں ہے۔ جو زمانے سے مطابقت نہیں رکھتا، باقی نہیں بچتا۔ فطرت کا یہ اصول رینڈم نہیں۔
آٹھویں غلط فہمی ۔ ارتقا کا علم نسل پرستی اور یوجینکس کی طرف لے جاتا ہے
آئن سٹائن نے توانائی اور ماس کے درمیان تعلق کی مساوات پیش کی۔ ٹیکنالوجی کی ترقی اس کو بعد میں ایٹم بم کی طرف لے گئی۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ سرے سے اس مساوات کا ہی انکار کر دیا جائے۔ یا پھر فزکس کی تعلیم کو منع کر دیا جائے۔ کیونکہ اس کے کسی حصے کو تباہ کن ہتھیار بنانے کے لئے استعمال کیا گیا۔ کیمسٹری سے کیمیائی ہتھیار بنے ہیں۔ اس بنیاد پر کیمسٹری پڑھنا تو منع نہیں۔ اور یہ فہرست اسی طرح ہے۔ اگر کسی نے کبھی ارتقا کی سائنس کو نسل پرستی یا کسی غلط مقصد کے لئے کبھی استعمال کیا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو پڑھا نہ جائے یا پھر انکار ہی کر دیا جائے۔
نویں غلط فہمی ۔ ارتقا کو مان لینے کا مطلب مذہب کا انکار ہے
نہیں۔ سائنس کے اس شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی سائنس کے دوسروں شعبوں کی طرح متنوع مذہبی پسِ منظر رکھتے ہیں۔
پسِ تحریر نوٹ نمبر ایک: اگر آپ کو کسی مذہب کی مخالفت کرنا ہے اور آپ کے خیال میں ارتقا آپ کے خیالات کے حق میں دلیل ہے تو یہ بودی دلیل ہے۔ یہ صرف ان کے لئے کارگر ہو سکتی ہے جو زیادہ علم نہیں رکھتے۔ کچھ بہتر تلاش کیجئے اور براہِ کرم، سائنس کو معاف رکھئے۔
اور اگر آپ سائنس کی مخالفت مذہبی جذبے کے تحت کرتے ہیں تو بس ایک جملہ۔ اگر کوئی آپ کو جاہل کہتا ہے تو لازم تو نہیں کہ اس کی بات کو واقعی سچ ثابت کرنے کے لئے زور لگایا جائے۔ مشورہ یہ ہے کہ اپنی توانائی کسی بہتر جگہ پر لگائیے اور براہِ کرم، سائنس کو معاف رکھئے۔
پسِ تحریر نوٹ نمبر دو: اگر یہ سمجھ نہیں آیا، تو مندرجہ ذیل ویڈیو پوری دیکھ لیں، یہ تحریر اس کا صرف ایک خلاصہ ہے۔
اس ویڈیو کو دیکھنے کے لئے
سورس