سود سے پاک بینکاری کا دعوٰی ۔ یاسر پیرزادہ

ذرا ہٹ کے / یاسر پیرزادہ
سود سے پاک بینکاری کا دعوٰی
گزشتہ برس میرے دوست نے(جس کا نام ہم الف فرض کر لیتے ہیں ) ایک ایسے بینک میں کھاتہ کھلوایا جس کا دعوٰی تھا کہ وہ سود سے پاک اور عین اسلامی اصولوں کے مطابق بینکاری کرتا ہے ۔ ویسے تو یہ دعوٰی پاکستان کا ہر بینک کرتا ہے مگر زیادہ تر بینک اسلامی بینکاری کو ایک ’پراڈکٹ ‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں تاکہ مذہبی رجحان رکھنے والے افرادکی تسلیٰ ہو سکے کہ وہ عین اسلامی اصولوں کے مطابق کاروبار کرتے ہیں چاہے اُن کاکاروبار چرس اور گانجھے کا ہی کیوں نہ ہو! جس بینک کی میں بات کر رہاہوں اُس کا دعوٰی ہے کہ اُس کا سارا ’میزان‘ ہی اسلامی ہے اور وہ کسی سودی لین دین میں ملوث نہیں ، بینک کی ہر شاخ میں اسلامی بینکاری سے متعلقہ کتب رکھنا لازمی ہے اور یہاں کام کرنے والی خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر وقت حجاب اوڑھ کر بیٹھیں ۔میرا دوست الف بھی چونکہ مذہبی ذہن رکھتا ہے اِس لیے بینک کی یہ پالیسیاں اسے بہت پسند آئیں اور اُن نے اپنا کھاتا ایک غیر ملکی بینک سے بند کروا کےاِس بینک میں کھلوا لیا ۔اگلے روز میری الف سے ملاقات ہوئی تو باتوں باتوں میں اُس نے بتایا کہ وہ اپنے نئے بینک سے بہت پریشان ہے ،میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ آج کل ہر چھوٹا بڑا بینک بچت اکاؤنٹ پر چودہ فیصد منافع دے رہا ہے جبکہ اس کا بینک صرف سات فیصد پر ٹرخا رہا ہے ۔ میں نے کہا کہ کوئی بات نہیں ، تم کاروباری آدمی ہو، بینک سے قرض لے لو ، وہ بھی تو اسی شرح سے سستا ملے گا ۔اِس پر وہ جل کر بولا کہ نہیں ، بینک والے کہتے ہیں کہ قرضہ ہم آپ کو KIBOR جمع تین یعنی تقریباً اٹھارہ فیصد ’سود ‘ پر دیں گے ۔ ” میں نے بینک والوں سے پوچھا کہ اگر میں گاڑی لیز کرواؤں تو کیا صورت ہوگی ، اِس پر انہوں نے متانت سے جواب دیا کہ سر یہ اسلامی بینک ہے ، یہاں لیز نہیں ہوتی ، اجارہ ہوگا، ہم آپ سے گاڑی کے قرض پر سود نہیں لیں گے بلکہ اُس کا کرایہ لیں گے ، یہ سُن کر میں بہت خوش ہوا، میں نے انہیں کہا کہ جب دو ماہ کے لیے امریکہ جاؤں گا تو آپ گاڑی آپ کے دفتر کے باہرکھڑی کرکے جاؤں گا تاکہ دو ماہ کا کرایہ میرے کھاتے سے منہا ہوجائے، اِس پر انہوں نےمسکرا تے ہوئےکہا کہ آپ گاڑی استعمال کریں یا نہ کریں کرایہ وہی رہے گا ۔۔۔ اب تم مجھے بتاؤ یہ کس قسم کی اسلامی بینکاری ہے !‘‘ میرے دوست نے یہ آخری جملہ ایسے کہا جیسے ملک میں اسلامی بینکاری کا موجد میں ہوں اور یہ سب میرا کیا دھرا ہے۔
آج کل جن بینکوں پر ڈالر کا ریٹ بڑھا کر غیر قانونی منافع کمانے کا الزام ہے اُن میں یہ بینک بھی شامل ہے جو اپنے تئیں ’اسلامی بینکنگ ‘ کا سُرخیل ہے۔سال ۲۰۲۱ میں اِس بینک کی غیر ملکی زر مبادلہ سے کُل کمائی تقریباً تین ہزار ملین تھی جبکہ جون ۲۰۲۲ میں صرف تین ماہ کی کمائی دو ہزار تین سو ملین ہے ، گویا اِن تین ماہ میں اِس بینک نے گزشتہ برس کے منافع کا پچھتر فیصد کمایا۔اِس کے علاوہ یہ بینک اپنے ’کرم فرماؤں ‘ کوغیر ملکی کرنسی میں کیے جانے والے لین دین میں بھی ایسے نچوڑتے ہیں کہ صارف چوں بھی نہیں کرسکتا ۔ اسی بینک کی مثال لیتے ہیں جس نے مذہب کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے ، اگر آپ اِس بینک کے ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے غیر ملکی کرنسی میں کوئی خریداری کریں گے تو یہ اُس کرنسی کا انٹر بینک ریٹ لگانے کی بجائے اپنی مرضی کا ریٹ لگائیں گے جو آٹھ سے دس روپے تک زیادہ ہو سکتا ہے اور پھر اسی شرح سےرقم آپ کے کھاتے سے منہا کردیں گے اور اِس ’ڈکیتی ‘ کو ’بینک چارجز ‘ کا نام دے کر آپ کا منہ بند کردیں گے۔اگر آپ اِس واردات کی شکایت بینکنگ محتسب سے کریں گے تو وہ آپ کی داد رسی کرنے کی بجائے ایک گھڑا گھڑایا جواب آپ کے ہاتھ میں تھما دے گا کہ ہم بینک کے ’شیڈول آف چارجز‘ میں مداخلت نہیں کرتے حالانکہ یہ مقدمہ بینک کے واجبات کی وصولی کا نہیں بلکہ غیر ملکی کرنسی کی من مانی شرح لاگو کرنے کا ہے۔بینکنگ محتسب کا ادارہ ویسے تو صارفین کو اِس قسم کی وارداتوں سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنایا گیاتھا لیکن اُن کی کارکردگی کو دیکھ کریوں لگتا ہے جیسے وہ بینکوں کے کارٹل کے سامنے بے بس ہیں ۔خیر، یہ ایک علیحدہ موضوع ہےجس پر پھر کبھی بات ہوگی، اسلامی بینکنگ پر واپس آتے ہیں ۔
پاکستان میں سود سے پاک بینکاری کو یقینی بنانے کے لیے تقریباً ہر بینک نے ایک ’شریعہ بورڈ ‘ بنایا ہوا ہے جس میں علمائے کرام شامل ہیں ، الف کے بینک میں جناب تقی عثمانی اور دیگر مفتی صاحبان شامل ہیں ۔ اکثر سننے میں آتا رہتا ہے کہ پاکستانی بینک شریعہ بورڈ میں شامل مفتی صاحبان کو لاکھوں روپے مشاہرے کی مد میں ادا کرتے ہیں ، ممکن ہے یہ درست ہوتاہم ایسی کوئی دستاویز میری نظر سے نہیں گزری۔لیکن یہ بات بہرحال حقائق پر مبنی ہے کہ جو بینک انہیں اپنے بورڈ میں شامل کرلیتا ہے اُس کی تطہیر ہوجاتی ہے اور وہ ’اسلامی ‘ ہو جاتا ہے ۔سٹیٹ بنک نے اپنی ویب سائٹ پر اسلامی بینکنگ کا ایک علیحدہ حصہ بنایا ہوا ہے جہاں اُن تمام سوالات اور اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جو ہم جیسے کم فہم لوگ اکثر کرتےرہتے ہیں ۔مثلاً ایک اعتراض جو بہت شدو مد سے کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ جب اسلامی بینکنگ اور روایتی بینکنگ میں سوائے اِس کے اور کوئی جوہری فرق نہیں کہ اسلامی بینکنگ میں عربی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں ، تو پھر یہ اسلامی بینکنگ کیسے ہوگئی ؟ جب ہر کھاتہ دار کو شرح منافع اسی طرح ملتی ہے جیسے روایتی بینک میں تو پھر اسے سود سے پاک بینکاری کیوں کر کہا جا سکتا ہے ؟ اِن سوالوں کا جواب سٹیٹ بینک نے اِس دلیل کے ساتھ دیا ہے کہ اصل بات طریقہ کار کی ہے ،وہ اسلامی ہونا چاہیے چاہے اُس کا نتیجہ وہی نکلے جو روایتی بینکنگ کی صورت میں نکلتا ہے ۔ مثلاً آپ بکرے کو جھٹکا کرکے اُس کا گوشت کھائیں گے تو وہ حلال نہیں ہو لیکن اگر آپ اُسی بکرے کو کلمہ پڑھ کرذبح کریں گے تو وہ حلال ہوگا، اسلامی بینکنگ میں بینک کسی قسم کے غیر اسلامی کاروبار جیسے جوا، شراب وغیرہ میں سرمایہ کاری نہیں کرتا بلکہ جائز کاروبار میں پیسہ لگا کرآپ کو منافع دیتا ہے ۔ سٹیٹ بینک کی یہ تاویلات کسی دودھ پیتے بچے کو ضرور مطمئن کر سکتی ہیں مگر عام سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص اِن سے قائل نہیں ہوسکتا۔ اگر سٹیٹ بینک کی یہ دلیل مان لی جائے تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ کوئی بھی نا جائز کام ’حلال ‘ طریقے سے کیا جا سکتا ہے، فقہ میں اسے ‘حیلہ ‘ کہتے ہیں ، جب روایتی بینکنگ اور اُس کا سارا نظام ہی سود پر کھڑا ہے جس کی اسلام میں اجازت نہیں تو اُسے کسی عالم دین کا ٹھپہ لگا کرکیسے حلال قرار دیا جا سکتاہے ۔ یہ ایسے ہی جیسے سور کو ذبح کرکے کہا جائے کہ اب یہ حلال ہے ۔ اور رہی یہ بات کہ اسلامی بینکاری کرنے والے جوئے ،شراب اور دیگرغیر اسلامی کاروباروں میں سرمایہ کاری نہیں کرتے تو ایسا کون سا روایتی پاکستانی بینک ہے جو اِس قسم کے کاروبار میں پیسہ لگاتا ہے ؟
اسلام نے صرف سود کو ہی حرام نہیں قرار دیا بلکہ منافع خور ی اور ذخیرہ اندوزی کی بھی ممانعت کی ہے ، مزدور کو وقت پر اجرت دینے کا بھی حکم ہے اور کاروبار کرتے ہوئے سچ بولنے اور وعدہ ایفا کرنے کا بھی کہا گیا ہے ۔ یہ تمام کام چونکہ مشکل ہیں ، اِن سے ہمارا منافع کم ہوتا ہے اِس لیے یہ کام کرنے کی بجائے ہم کسی ایسے بینک میں کھاتہ کھلوا لیتے ہیں جس پر ’سود سے پاک‘ لکھا ہوتا ہے، کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ جو پیسہ اِس کھاتے میں ڈالا جائے گا وہ حرام ہوگا یا حلال کیونکہ اِس پر شریعہ بورڈ کی مہر لگی ہوتی ہےجس سے ہمیں اپنے گناہوں کی تاویل مل جاتی ہے ۔اور اصل بات بھی یہی ہے کہ ہم سب کو فقط اپنے گناہوں کی تاویل ہی درکار ہوتی ہے ، کم بخت ضمیر جو ہمیں کچوکے لگاتا رہتا ہے!

سورس

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.