اقتدار پر غلبے کی پرامن تحریکیں ،،،،،،،، تحریر قاری حنیف ڈار
اگر کوئی دو چار نسلیں گزر جاتیں تو شاید کہ پاکستانی لال مسجد کی ” پرامن اسلامی تحریک ” کے انجام کو بھول چکے ھوتے اور کوئی اور یہ دعوی کرتا تو شاید مان بھی لیتے کہ ایسا ممکن بھی ھے ،، مگر ایک تلخ حقیقت ھے کہ غلبے اور حکومت تک رسائی کی کوئی پرامن تحریک پوری اسلامی تاریخ میں نظر نہیں آتی ،، اب جبکہ مولانا عبدالعزیز اقرار کر چکے ھیں کہ وہ داعش کی آئیڈیالوجی کو تسلیم کرتے ھیں ، ان سے رابطے میں ھیں اور ان کے مدرسے کی لڑکیاں داعش کی بیعت کر کے ابوبکر بغدادی کو پاکستان پہ حملے کی دعوت دے چکی ھیں ،مولانا کے پرامن احتجاج کی حقیقت اھلِ دانش سے پوشیدہ نہیں ھے ،،
اس ملک نے ان لوگوں کے اسلام کو بہت بھگتا ھے ،، اور ابھی تک بھگت رھے ھیں ،عورتوں کے پیچھے کھڑے ھو کر لڑنے والے بعد میں گلی گلی اور ویگن ویگن پوچھتے پھرتے تھے کہ ” لال مسجد بتا ، میری بہنیں کہاں ھیں ،میری بہنیں کہاں ھیں ” اور شیعوں کے ماتم کو ناجائز کہنے والے گلی گلی ماتم کرتے اور شامِ غریباں مناتے دیکھے جا سکتے تھے تا آنکہ ان ترانوں کے زور پر انہوں نے ٹی ٹی پی بنا کھڑی کی ،جس نے ان کے جھوٹے فسانوں سے متأثر ھو کر پاکستان کے فوجی جوانوں اور فوجی ٹھکانوں پر حملے کیئے اور اپنی مقصد براری کے لئے انڈیا کی مدد تک قبول کی ،،
پھر جب سپریم کورٹ کا کمیشن ان کی بہنوں کی تلاش میں مدد دینے کے لئے پہنچا اور ان سے ایسی بہنوں کے وجود کا کاغذی ثبوت مانگا جو بقول ان کے فوجی جوان اٹھا کر لے گئے تھے اور جن کو شھید کیا گیا تھا ،، تو شرم سے ڈوب کر مرنے کا مقام تھا کہ ان کے پاس ایسی کسی لڑکی کا پیدائشی سرٹیفکیٹ اور مدرسے کا اندراج تک برآمد نہ ھو سکا اور نہ کوئی باپ سامنے آیا کہ وہ بتائے کہ اس کی بیٹی یہاں شھید ھوئی تھی ،کمیشن نے تجویز کیا کہ سوائے غازی برادران کی والدہ کے اور کوئی خاتون اس آپریشن میں نہیں ماری گئ اور یہ لوگ اس فیصلے کو چیلنج تک نہ کر سکے ،مگر داستان کربلا کو جھوٹا کہنے والوں نے اس سے زیادہ دردناک داستانیں تراش کر پاکستان اور اس کی بے گناہ عوام کو ایک نہ ختم ھونے والی آگ میں جھونک دیا ،،
اقتدار پر غلبے کی کوئی بھی تحریک پرامن نہ ھو سکتی ھے اور نہ پرامن رہ سکتی ھے – اگر ایسا ممکن ھوتا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ کے درمیان کبھی جنگیں نہ ھوتیں اور نہ دونوں طرف سے لاکھوں انسان ان جنگوں کا ایندھن بنتے ، اگر اس بہترین دور اور بہترین لوگوں میں اقتدار کا فیصلہ گردن پر تلوار رکھ کر ھی ھوتا رھا ھے تو اب اس بدترین دور میں کسی بھی پرامن قبضے کی کوشش ایک فریب اور سراب کے سوا کچھ نہیں ،،
پھرِ طُرفہ تماشہ یہ ھے کہ حضرت امام حیسن رضی اللہ عنہ کے ایک سفر کو کہ جس میں سوائے ایک خاندان کے چند درجن مردوں ،عورتوں اور بچوں کے سوا کوئی شریکِ سفر نہ تھا ایک مسلح خروج اور بغاوت کہنے والے اور یزید کی طرف سے پورے خاندانِ نبی ﷺ کو تہہ تیغ کرنے کے اقدام کو جائز کہنے والے اور ” امیر المومنین یزید” کو جنت کی چابی اور بخشش کے سرٹیفیکیٹ جاری کرنے والے اور بخاری شریف کی حدیثِ مدینۃ القیصر کے زور پر اسے رضی اللہ عنہ بنانے والے ، اپنے اقدام کو پرامن کہہ رھے ھیں ،، ،
تحریکیں اٹھائی تو اپنی مرضی سے جاتی ھیں مگر چلائی اپنی مرضی سے نہیں جا سکتیں ،تحریک کو واقعات چلاتے ھیں ، آنے والا حالات چلاتے ھیں اور انسان ان حالات میں خس خاشاک کی طرح بہتا چلا جاتا ھے جس طرح اکابر صحابہؓ کے زمانے میں ھوا اور وہ بعد میں پچھتائے کہ کاش انہوں نے اس کو شروع ھی نہ کیا ھوتا ،، مسلمانوں میں اصلاح کے لئے مساجد موجود ھیں اور جمعے کا ادارہ موجود ھے ،تبلیغی جماعت نہایت پرامن طریقے سے کام کر رھی ھے مسلمان معاشرے میں اس سے بڑھ کر اور کوئی معقول و مناسب رستہ ھے بھی نہیں ،، مولوی عبدالعزیز صاحب جیسی نام نہاد پرامن تحریکیں تبلیغی جماعت کے کام پر بھی اثر انداز ھوتی ھیں اور دیگر اسلامی جماعتوں اور مدارس وغیرہ پر منفی اثر ڈالتی ھیں ، اس لئے اب بھی وقت ھے کہ ان کے خیرخواہ ان کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ وہ اس آگ سے نہ کھیلیں ،،