اللہ کی مدد کرنے سے مراد؟ از محمد نعیم خان
قرآن کریم کا مطالعہ کریں تو یہ بات ہمیں معلوم ہوتی ہے کہ اللہ نے انسانوں کی ہدایت کے لئے ہمیشہ ان ہی میں سے ان ہی کے جیسا نبی مبعوث فرمایا۔ یہ نبی ان ہی کے جیسا انسان ہوتا تھا۔ جو ان ہی کی طرح کھاتا پیتا، ان ہی کی زبان بولنے اور سمجھنے والا ایک انسان ہوتا۔ اس میں بھی بحثیت انسان وہی خوبیاں اور کمزوریاں ہوسکتی تھیں جو ایک عام انسان میں ہوسکتی ہیں ۔ بس اس فرق کے ساتھ کہ اس پر وحی نازل ہوتی تھی۔ وقت کا نبی سب سے پہلے خود پر نازل ہونے والی وحی پر ایمان لاتا تھا ، اس کے مطابق خود اپنی اصلاح کرتا تھا ، خود کو اس وحی کی اتباع میں چلاتا تھا ۔ پھر اس پیغام کو دوسرے لوگوں تک پہنچاتا۔ اس کے بعد اس وحی کے مطابق ایک معاشرہ قائم کرنے کی جدوجہد کرتا۔ اللہ کے منصفانہ نظام کو انسانوں کے بنائے ہوئے استحصالی نظام پر غالب کرنے کی کوشش کرتا ۔ جس کے نتیجے میں اس استحصالی نظام سے وابستہ جن لوگوں کے مفادات وابستہ ہوتے تھے وہ اس جدوجہد کو روکنے کے لئے کمر کس لیا کرتے تھے اور اس کے مقابلے میں کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔ جس کے نتیجے میں دو پارٹیاں وجود میں آتی تھیں ۔ ایک وہ جو اس دعوت کو قبول کرکے وقت کے نبی کے ساتھ شامل ہوجاتے اور دوسرے وہ لوگ جو اس کی مخالفت میں کھڑے ہوجاتے۔ یہ ہر نبی کے ساتھ ہوا۔ ان دونوں گروہوں کو قرآن حزب اللہ (سورہ المائدہ کی آیت 56 اور سورة المجادلة کی آیت 22) اور حزب شیطان ( سورة المجادلة کی آیت 19) سے تعبیر کرتا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ وحی حاصل کر لینے کے بعد اس نبی کا کام صرف یہ پیغام لوگوں تک پہنچانا نہیں ہوتا تھابلکہ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہوتی تھی جو مقصود پروردگار ہو۔ یہ مرحلہ اس قدر مشکل اور کٹھن ہوتا تھا کہ وقت کا نبی اس دین کے غلبے کی جدوجہد کے لئے اپنی دعوت کو لوگوں کے سامنے رکھتا اور کہتا کہ کون ہے جو اس جدوجہد میں اس کا ساتھ دے۔ اس کی مدد کرے۔ کون ہے جو اللہ کی پارٹی میں شامل ہو۔
سورہ آل عمران کی آیت 52 میں حضرت عیسی نے یہی اعلان کیا: فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّـهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّـهِ آمَنَّا بِاللَّـهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ﴿٥٢﴾ جب عیسیٰؑ نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کفر و انکار پر آمادہ ہیں تو اس نے کہا "کون اللہ کی راہ میں میرا مدد گار ہوتا ہے؟” حواریوں نے جواب دیا، "ہم اللہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے، گواہ رہو کہ ہم مسلم (اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دینے والے) ہیں (52) ترجمہ مولانا مودودی، حضرت عیسی کے حواریوں کا جواب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وقت کے نبی کی جدوجہد میں مدد اصل میں اللہ کی مدد ہے۔ یہاں اللہ کی مدد سے مراد اس کے دین کے غلبے کی جدوجہد ہے جو ہر نبی و رسول کی بنیادی ذمہ داری تھی۔ جس کے لئے اس کا انتخاب اللہ نے کیا تھا۔ صرف یہی نہیں کہ حزب اللہ ، اللہ کے دین کی بلندی کے لئے جدوجہد کرتے تھے بلکہ حزب الشیطان بھی اپنے معبودوں اور اس نظام کی بقا کے لئے بھرپور اس جدوجہد میں شریک ہوتے تھے۔ ایک ایسا ہی واقعہ ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زندگی میں ملتا ہے۔ سورہ الانبیا کی آیت 68 میں اللہ کا ارشاد ہے: قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ ﴿٦٨﴾ کہنے لگے کہ اسے جلا دو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے (68) ترجمہ محمد جونا گڑھی، اگر کسی وجہ سے وقت کا نبی اپنی زندگی میں دین کے غلبے میں کامیاب نہ ہوپاتا تو وہ اپنے حصہ کا کام کر جاتا اور پھر یہ ذمہ داری آنے والے نبی کو منتقل ہوجاتی تھی۔ جو اس جدوجہد میں اس کی مدد کرتا۔ ایک ایسے ہی میثاق کا ذکر ہمیں سورہ آل عمران کی آیت 81 میں ملتا ہے:
وَإِذْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚقَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ ﴿٨١﴾ یاد کرو، اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ، "آج ہم نے تمہیں کتاب اور حکمت و دانش سے نوازا ہے، کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اُسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے، تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی” یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا، "کیا تم اِس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟” اُنہوں نے کہا : ہاں ہم اقرار کرتے ہیں اللہ نے فرمایا، "اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں (81) ترجمہ مولانا مودودی ۔ بالکل یہی بات سورہ یسین کی آیت 14 میں بیان ہوئی ہے، اللہ کا ارشاد ہے: إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُم مُّرْسَلُونَ ﴿١٤﴾ ہم نے ان کی طرف دو رسول بھیجے اور انہوں نے دونوں کو جھٹلا دیا پھر ہم نے تیسرا مدد کے لیے بھیجا اور ان سب نے کہا "ہم تمہاری طرف رسول کی حیثیت سے بھیجے گئے ہیں” (14) ترجمہ مولانا مودودی، جس طرح ہدایت انسان کو اس ہی وقت ملتی ہے جب وہ ہدایت حاصل کرنا چاہے۔ اس ہی طرح اللہ کی مدد بھی اس ہی وقت آتی ہے جب اللہ کی مدد کی جائے۔ سورہ الحج کی آیت 40 میں اللہ نے اس ہی بات کا زکر کیا ہے: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَلَيَنصُرَنَّ اللَّـهُ مَن يَنصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ﴿٤٠﴾ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے (40) ترجمہ مولانا مودودی، یہی ہدایت اللہ نے مومنین کو دی ہے کہ جب کبھی تمہارا ٹکراو میدان جنگ میں حزب الشیطان سے ہوجائے تو پھر جو اللہ کی مدد کو آئے گا اور ثابت قدم رہے گا اللہ کی مدد اس ہی کو حاصل ہوگی۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّـهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ ﴿٧﴾ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا (7) ترجمہ مولانا مودودی ۔
لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے لئے یہ کام بہت آسان ہے کہ ان پر عذاب نازل کردے اور شیطان کی پارٹی کو اس کے انجام تک پہنچا دے پھر اس چھوٹی سی جماعت سے یہ کام کروانے کا کیا مقصد ہے؟ اس کا جواب سورہ محمد کی آیت 4 میں اللہ نے دیا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے: فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّـهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ۗ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ ﴿٤﴾ پس جب اِن کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے، یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو، اس کے بعد (تمہیں اختیار ہے) احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کر لو، تا آنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے یہ ہے تمہارے کرنے کا کام اللہ چاہتا تو خود ہی اُن سے نمٹ لیتا، مگر (یہ طریقہ اُس نے اس لیے اختیار کیا ہے) تاکہ تم لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے آزمائے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں گے اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا (4) ترجمہ مولانا مودوی۔ اس آیت میں الفاظ ” تاکہ تم لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے آزمائے“ قابل غور ہیں ۔ اس آزمائش کا مقصد اللہ نے دوسری جگہ اس ہی سورہ کی آیت 31 میں یوں بتایا ہے: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّىٰ نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ ﴿٣١﴾ اور ہم ضرور تمہاری آزمائش کریں گے یہاں تک کہ تم میں سے (ثابت قدمی کے ساتھ) جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو (بھی) ظاہر کر دیں اور تمہاری (منافقانہ بزدلی کی مخفی) خبریں (بھی) ظاہر کر دیں، (31) ترجمہ طاہرالقادری۔
سورہ البقرہ کی آیات میں اس کو یوں بیان کیا ہے: وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ﴿١٥٥﴾ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ﴿١٥٦﴾أُولَـٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ﴿١٥٧﴾ اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے (155) اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ: "ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے” (156) انہیں خوش خبری دے دو ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں (157) ترجمہ مولانا مودودی۔
اس کے علاوہ اس بات سے تو احباب بخوبی واقف ہونگے کہ کوئ بھی جدوجہد اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتی جب تک اس میں جان کے ساتھ ساتھ مال خرچ نہ کیا جائے اسی لئے آپ کو اس غلبہ دین کی جدوجہد میں اللہ کو قرض حسنہ دینے کی آیات بھی ملیں گی۔ یہ تمام آیات انفاق سے متعلق ہیں کہ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے۔ اس کو سورہ البقرہ کی آیت میں 245 میں یوں فرمایا ہے: مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ وَاللَّـهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴿٢٤٥﴾ تم میں کون ہے جو اللہ کو قرض حسن دے تاکہ اللہ اُسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے؟ گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی، اور اُسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے (245) ترجمہ مولانا مودودی۔ یہی بات سورہ الحدید کی آیات 11 اور 18، اور سورہ التغابن کی آیت 17 میں ملتا ہے۔ یہ میرا فہم ہے اور اس میں غلطی کی گنجائش یقیناً ہے۔