تصویر اور قرآن از قاری حنیف ڈار

قرآنِ حکیم میں لکھا ھے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جنات سے فرمائش کر کے تماثیل بنوایا کرتے تھے –

و یعملون لہ ما یشاء من محاریب و تماثیل و جفان کالجواب و قدور راسیات -( سبا -13)

اس کا ترجمہ مولانا اشرف تھانوی صاحب نے یہ کیا ہے کہ "وہ جنات اُن (حضرت سلیمان علیہہ السلام) کے لئے وہ وہ چیزیں بناتے تھے جو ان کو بنوانا منظور ہوتا تھا – بڑی بڑی عمارتیں اور مورتیں اور لگن ایسے بڑے جیسے حوض اور بڑی بڑی دیگیں جو ایک ہی جگہ جمی رہیں –

قرآن پاک کی اس آیت کا ترجمہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے بھی یہی کیا ہے اور کہا ہے کہ "تمثایل کا ترجمہ تصویر لکھا ہوا ہے”

مولانا شبیر احمد عثمانی نے اسی ترجمے کے ساتھ اس کے حاشیے میں تسلیم کیا ہے کہ جنات مجسم تصویریں بناتے تھے لیکن اسی کے ساتھ عذر پیش کیا ہے کہ اُس وقت جائز ہو گا اب نہیں –

تصویر کشی ذوقِ سلیم کا اظہار ھے ، اور اس پر شریعت میں کبھی پابندی نہیں رھی ، سلیمان علیہ السلام بھی اللہ کے رسول تھے اور جنات سے بڑی نفیس تماثیل بنوایا کرتے تھے ،، یا تو یہود کی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام پر بھی شرک کا فتوی لگا دیجئے یا تسلیم کیجئے کہ مجرد تصویر حرام نہیں بلکہ وہ تصویر یا مجسمہ حرام ھے جس کی عبادت یا پوجا کی جاتی ھے ، اور یہ بات قرآن نے خود واضح کر دی ھے – کہ تماثیل جب سلیمان بنوائے تو جائز ھوتی ھے اور جب اس کی پوجا کی جائے تبھی حرام ھوتی ھے ، ورنہ سلیمان علیہ السلام اللہ کا رسول رھتے ھوئے کسی کو حرام کام کرنے کا حکم کیسے دے سکتے تھے ؟

یہی تماثیل کا نام لے کر حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے پوچھا تھا کہ یہ تماثیل کیسی ھیں کہ جن کے مجاور تم بن کر بیٹھے ھوئے ،اعتکاف کیئے بیٹھے ھو ،،
ماھذہ التماثیل التی انتم لھا عاکفون ( الانبیاء)
ثابت ھوا کہ بتوں یا مجسموں یا تصویروں کو عبادت کے لئے بنانے والے مصور اور ان مجسموں کو پوجنے والے لوگ اور وہ مجسمے قیامت کے دن آگ میں اکٹھے کیئے جائیں گے ،، وقودھا الناس والحجارہ ،، یہ حجارہ یا پتھروھی بت ھونگے ، یہی الفاظ اللہ کے رسول ﷺ نے بھی اشارہ کر کے استعمال فرمائے تھے کہ یہ تصویریں اور ان کو بنانے والے جھنم میں اکٹھے کیئے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ ان میں جان ڈالو ( اور انہی سے دعا کرو کہ یہ تمہیں اس آگ سے بچا لیں )

قرآن نے جس عمل کو ایک جلیل القدر پیغمبر کی طرف منسوب کیا ھے اس کو آپ تب تک حرام نہیں کہہ سکتے جب تک خود قرآن اس کو حرمت کے لفظ کے ساتھ حرام قرار نہ دے دے – کیا کوئی پیغمبر اپنی رسالت کے دوران کسی بھی ایسے فعل میں ملوث پایا گیا ھے کہ جس کو بعد میں حرام کیا گیا ھو- مثلاً معاذ اللہ شراب بیچنے یا سود دینے لینے یا بدکاری کو فروغ دینے میں ؟

اپنے یا دوسروں کے یادگار فوٹو لینا بالکل بھی ناجائز نہیں ، ان کے کمرے یا گھر میں ھونے سے نہ تو نماز پر کوئی اثر پڑتا ھے اور نہ ھی فرشتوں کی آمد رفت پر کوئی فرق پڑتا ھے – صرف جس گھر میں شرک کیا جا رھا ھو یعنی پوجا کا بت ھو یا پوجا کی تصویر ھو وھی اللہ کی رحمت سے محروم ھوتا ھے ، اس طرح دیکھا جائے تو وہ درخت یا بےجان چیزیں اور ان کی تصویریں بھی حرام ھیں جن کی پوجا کی جاتی ھے- مثلا ایک ھندو کے گھر میں پیپل یا بڑ کے درخت کی تصویر بھی حرام ھو گی کیونکہ وہ اس درخت کی پوجا کرتے ھیں جبکہ مسلمان کے یہاں وہ حرام نہیں ھو گی کیونکہ مسلمان پیپل کی پوجا نہیں کرتا بلکہ بس قدرتی منظر کی تصویر سمجھی جائے گی- یہی حدیث کا مقصود بھی ھے – نقش و نگاروالے کپڑے یا پردے کی ممانعت والی احادیث میں وجہ اور سبب بھی ساتھ بیان کر دیا گیا ھے کہ نماز کے دوران بار بار مجھے اس کا خیال آتا رھا ،، نماز کے دوران میرا خیال اس منظر کی طرف منتقل ھوتا رھا یا جیسا کہ مینڈھے کے سینگ بھی کمرے سے نکلوا دیئے کہ نماز میں میرا دھیان ان کی طرف چلا جاتا تھا –

واللہ اعلم بالصواب –

صحابہؓ اور تصویر !
صحابہ کے عمل سے بھی یہی ثابت ھوتا ھے کہ وہ انہی تصاویر سے اجتناب کرتے تھے جن کی پوجا کی جاتی تھی ، نیز انہی قبروں کو مسمار کرنے کا حکم دیا جاتا تھا جن پر منتیں مانی جاتی تھیں اور نذر نیاز ،ذبیحہ وغیرہ کی دیگر مشرکانہ رسوم ادا کی جاتی تھیں جیسا کہ آج کل مزاروں پر جاری و ساری ھے ، اب اگر کوئی مزاروں کو مسمار کرنے کا حکم دیتا ھے تو اس کو عام قبور سے متعلق نہیں سمجھا جائے گا !!

 

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
ماخذ فیس بک
Leave A Reply

Your email address will not be published.