تقیہ کے فضائل ! قاری حنیف ڈار

سورہ آل عمران کی جس آیت کو تقئیے کو ثابت کرنے کے لئے پیش کیا جاتا ھے وہ کفار سے جان بچانے کے لئے ھے نہ کہ مسلمانوں میں منافق بن کر رھنے کے بارے میں ـ

[ لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللَّهِ المصیر] آل عمران ۲۸

اسی طرح سورہ النحل کی جس آیت کا حوالہ دیا جاتا ھے وہ کفار کی جانب سے کمزور طبقے کی جان بچانے کے لئے ایک استثناء ھے ، مسلمانوں میں منافق بن کر رھنے کی دلیل نہیں ھے ورنہ جس غلام ابن غلام صحابی حضرت عمار بن یاسرؓ کے بارے میں نازل ھوئی تھی وھی تقیہ کرتے رھتے اور امیر معاویہؓ کے خلاف لڑتے ھوئے جان نہ دیتے ،[ مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (النحل ـ 106)

تعجب کی بات یہ ھے کہ جب اس آیت سے استدلال کر کے شان نزول کا سبب بننے والے صحابی عمارؓ نےکہ جن کو اجازت دی گئ تھی تقیہ نہیں کیا تو شیر خدا اس سے استدلال کر کے تین خلفاء کے ساتھ منافقت کی زندگی کیسے گزار سکتے تھے ؟
توریہ تو سنت میں ملتا ھے وہ بھی کفار کے خلاف مگر تقیئے کے نام پر منافقت نہیں ملتی ، مثلا اللہ کے رسولﷺ نے ایک غزوے کے دوران ایک بوڑھے سے دشمن کے لشکر کے بارے میں پوچھا کہ وہ کتنی تعداد میں تھے اور کس وقت گزرے ہیں تو اس بوڑھے بدو نے کہا کہ پہلے تم بتاؤ کہ کون ھو پھر بتاؤں گا ، جس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم ہمیں پہلے بتاؤ پھر ھم تمہیں بتائیں گے کہ ھم کون ہیں ،، اس کے بعد آپ نے اس سے فرمایا کہ [ نحن من ماء ] ھم پانی سے ہیں ،، اس پر وہ پوچھتا رہا کہ کس پانی سے فلاں قوم کے یا فلاں قبیلے کے مگر آپ ﷺ نے پلٹ کر جواب نہیں دیا کیونکہ آپ سچا جواب دے چکے ،، [ وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا ( الفرقان ـ54) ]اور وھی ھے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا اور اس کا نسب اور سسرال بنایا ،،

ھجرت کے واقعے کے وقت جب کہ کفار نے رسول اللہ ﷺ کو زندہ یا مردہ پکڑنے پر ۱۰۰ اونٹ کی قیمت رکھی ھوئی تھی ، رستے میں ایک کافر نے جو حضرت ابوبکرؓ کو پہچانتا تھا رسول اللہ ﷺ کی طرف اشارہ کر کے ان سے پوچھا کہ یہ کون ھے ؟ من معک ھذا ؟ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا رخِ انور عمامے میں لپیٹ رکھا تھا ، تو ابوبکر صدیقؓ نے جواب دیا [ ھذا رجل یھدینی الطریق ، یہ بندہ مجھے راہ دکھائے گا یعنی گائیڈ اور راہبر ھے ،، ] یہ بات سچ تھی اور آج بھی سچ ھے اور قیامت تک سچ رھے گی کہ رسول اللہ ﷺ نہ صرف ابوبکر صدیقؓ کو راہ دکھانے والے تھے بلکہ پوری دنیا کو راہ دکھانے والے ھیں ـ

خنزیر کھانا بھی ایک استثناء ھے جو جان کنی کے عالم میں جائز قرار دیا گیا ھے وہ بھی سانس کی ڈور چلانے کی حد تک مگر یہاں تو خنزیر کھانے کے فضائل بھی بیان کیئے جا رھے ہیں کہ ۹۰ فیصد دین تقیئے میں ھے اور جس نے تقیہ نہ کیا وہ ھم اہل بیت میں سے نہیں ہے اور اللہ اس کو رسوا کرے گا وغیرہ وغیرہ ، پھر اھل کوفہ کے تقیہ کرنے پر ماتم کیوں ؟

صاحب عزیمت امام حسین سلام اللہ علیہ کے نام لیواؤ کو تقیئے کی مخالفت کر کے عزیمت کی راہ دکھانی چاہئے تھی اس لئے کہ تقیہ اگر کہیں پایا بھی جاتا تھا تو امام عالی مقام کی شہادت کے ساتھ ہی وہ مر گیا تھا ، حسین علیہ السلام کی راہ تقیئے کی نہیں عزیمت کی ھے ؎

جس کو ہو جان و دل عزیز، ان کی گلی میں جائے کیوں ؟

پھر جو دین ۹۰ فیصد تقیئے اور منافقت پر قائم ھے اس دین پر کوئی اعتبار کرے ہی کیوں اور دنیا میں کونسی ایسی مشین ایجاد ھوئی ھے جو کسی امام کے فتوؤں میں سے تقیئے کو اور سچ کو الگ کرے گی ، ایک امام مجمعے میں کوئی اور فتوی دیتا ھے اور پھر تھوڑی دیر بعد پوچھتا ھے کہ یہاں کوئی غیر تو نہیں ؟ اصل فتوی اس طرح ھے وہ پہلے والا تقیہ تھا ،،

ان احباب کو اپی روایات کی کتب کی تشکیل الالبانی کی طرز پر صحیح ابوداؤد اورضعیف ابوداؤد کی طرح کتاب التقیہ ،، اور کتاب الحق جدا کر کے لکھنی چاہیں ، امام جعفر صادق کے تقیئے اور امام جعفر صادق کے سچ ، امام زین العابدین کے تقیئے اور امام زین العابدین کے سچ وغیرہ وغیرہ

سورس

تقیہ سیزن ـ 2

ھر کمزور چاھے وہ کسی مذھب سے تعلق رکھتا ھو یا بلا مذھب ھو جان بچانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے یہانتک کہ بیوی شوھر سے اور شوھر بیوی سے ، نیز بچے اپنے والدین سے جھوٹ بولتے ہیں ، مگر اس کو دین اور مذھب بنا لینا اور اس کے فضائل بڑھ چڑھ کر بیان کرنا کمال کی حرکت ہے ، ایک آدھ فرد کا موقعے کی مناسبت سے جان چھڑانے کے لئے جھوٹ بولنا تو سمجھ میں آتا ھے مگر پورے مذھب کی بنیاد ھی جھوٹ پر رکھنا کسی طور سمجھ میں آنے والی بات نہیں ھے ،،

قال علامہ نعمة الله الجزائري في (الأنوار النعمانية): (وهذا مما يناسب جواب الصادق (ع) وقد سئل في مجلس الخليفة عن الشيخين فقال إمامان عادلان قاسطان كانا على الحق فماتا عليه عليهما رحمة الله يوم القيامة، فلما قام من المجلس تبعه بعض أصحابه وقال يا ابن رسول الله قد مدحت أبا بكر وعمر هذا اليوم، فقال: أنت لا تفهم معنى ما قلت، فقال بينه لي، فقال ع: أما قولي: هما إمامان فهو إشارة إلى قوله تعالى: وجعلنا منهم أئمة يدعون إلى النار، وأما قولي: عادلان فهو إشارة إلى قوله تعالى: والذين كفروا بربهم يعدلون، وأما قولي: قاسطان فهو المراد من قوله عز من قائل: وأما القاسطون فكانوا لجهنم حطبا، وأما قولي: كانا على الحق فهو من المكاونة أو الكون ومعناه أنهما كاونا على حق غيرهم لأن الخلافة حق علي بن أبي طالب، وكذا ماتا عليه فإنهما لم يتوبا بل استمرا على أفعالهم القبيحة إلى أن ماتوا، وقولي عليهما رحمة الله المراد به النبي ص بدليل قوله تعالى وما أرسلناك إلا رحمة للعالمين، فهو القاضي والحاكم والشاهد على ما فعلوه يوم القيامة،

علامہ نعمۃ الجزائری انوار النعمانیہ میں میں لکھتے ہیں ،امام جعفر صادق علیہ السلام سے خلیفہ کی مجلس میں دو شیخین( ابی بکر و عمررضی اللہ عنھما ) کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ امامان، عادلان، قاسطان ، کانا علی الحق و ماتا علیہ علیھما رحمۃ اللہ ،، دونوں عادل ،قاسط امام تھے ، حق پر تھے اور اسی پر مرے دونوں پر اللہ کی رحمت ھے قیامت کے دن ،، 
جب مجلس برخواست ھوئی تو آپ علیہ السلام کے بعض متبع ان کے پیچھے لپکے اور عرض کیا کہ ’’ یہ آج آپ نے کیا فرما دیا ، ابوبکر و عمر کی مدح و ستائش کر دی ؟ اس پر آپ نے فرمایا کہ تم لوگ میرے قول کو سمجھ نہیں سکے کہ میں نے کیا کہا ھے !

جو میں نے کہا کہ دونوں امام تھے تو میرا مقصد تھا کہ یہ وہ امام تھے جو اللہ کے قول [وجعلنا منهم أئمة يدعون إلى النار،] کے مطابق آگ کی طرف دعوت دیتے ہیں ، اور جو عادل کہا تو اللہ کے قول [ والذين كفروا بربهم يعدلون] کے مطابق یہ ان کافروں میں سے تھے جو اللہ کے برابر شریک ٹھہراتے تھے ـ
اور جو قاسطان کہا تو مقصد یہ تھا کہ اللہ کے قول [ وأما القاسطون فكانوا لجهنم حطبا،] اور قاسطون جھنم کا ایندھن ہیں کو سامنے رکھ کر کہا تھا ـ
اور جو کہا کہ وہ حق پر تھے تو مراد یہ تھی کہ وہ دونوں کسی کے حق پر قابض تھے ،

اور جو کہا کہ وہ اسی پر مرے تو مراد تھا کہ توبہ نصیب نہیں ھوئی اور اپنے انہی قبیح افعال پر مرے ،
اور میرا یہ کہنا کہ ان دونوں پر قیامت کے دن رحمت ھے اس سے مراد تھا کہ اللہ کی رحمت یعنی رسول اللہ ﷺ ان دونوں کے خلاف ھونگےجیسا کہ اللہ نے رسول اللہ کو رحمۃ للعالمین کہا ھے ( علی بمعنی خلاف، کما قیل فی قول الرسولِ ﷺ القران حجۃ لک او علیک ،، ) علی کو خلاف کے معنوں میں استعمال فرما لیا جیسا کہ رسول اللہ کے قول میں بیان ھوا ھے کہ قرآن تیرے حق میں حجت ھے یا تیرے خلاف حجت ھے ،،

سورس

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.