‎خلیفۂ ثالث و راشد ، پیکر حمیت و غنیت، ذوالنورین ، ذوالھجرتین ، ذوالبیعتین ، ذوالبشارتین ، ناشر القرآن ، مظلوم مدینہ ، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مختصر حالات زندگی اور مناقب و فضائل تحریر؛ صاحبزادہ ضیاءالرحمٰن ناصر

‎خلیفۂ ثالث و راشد ، پیکر حمیت و غنیت، ذوالنورین ، ذوالھجرتین ، ذوالبیعتین ، ذوالبشارتین ، ناشر القرآن ، مظلوم مدینہ ، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مختصر حالات زندگی اور مناقب و فضائل

تحریر؛ صاحبزادہ ضیاءالرحمٰن ناصر

‎قسط نمبر 1
‎مختصر تعارف:
‎نام مبارک آپ کا عثمان اور لقب ذوالنورین تھا۔

‎مختصر تعارف:
‎آپ کا نسب اطہر پانچویں پشت میں سید عالم ﷺ سے جا ملتا ہے۔ عبد مناف کے دو فرزندوں میں سے ایک کی اولاد جناب رسول اللہ ﷺ ہیں جبکہ دوسرے کی اولاد سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ کی والدہ ارویٰ رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی ام حکیم بنت عبدالمطلب کی صاحبزادی ہیں۔ ام حکیم نبی کریم ﷺ کے والد حضرت عبداللہ کے ساتھ توام (جڑواں ) پیدا ہوئیں۔ ان دونوں نسبتوں میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ بہت قریب کی قرابت رکھتے تھے۔ 
‎ولادت با سعادت:
‎ولادت مبارک واقعہ فیل کے چھ(6) برس بعد ہوئی۔

‎ولادت با سعادت:
‎سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی رہنمائی سے مشرف با اسلام ہوئے ۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے قبل اسلام بھی آپ کے گہرے مراسم تھے۔

‎حلیۂ مبارک:
‎آپ کا قد درمیانہ ، رنگ مائل بہ زردی تھا ، چہرہ انور پر چیچک کے چند نشانات تھے۔ سینہ کشادہ ، داڑھی گھنی تھی، سر میں بال رکھتے تھے اور اخیر عمر میں زرد خضاب بالوں میں لگاتے تھے اورہلتے دانتوں کو سونے کی تار سے بندھوایا کرتے تھے۔

‎حالات قبل از اسلام:
‎خاندان قریش کے باعزت لوگوں میں سے تھے۔ ثروت و سخاوت میں ثانی نہ رکھتے تھے اور پیکر حمیت و حیاء تب بھی تھے ۔ گھر کے اندر بھی دروازہ بند کرکے نہانے کے لئے کپڑے اتارتے تھے اور کبھی کھڑے نہ ہوتے تھے۔
‎بت پرستی اور شرک سے بے زار تھے اور کبھی شراب نہیں پی۔ اس صفت میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور موصوف رضی اللہ عنہ ممتاز ہیں۔

‎مختصر حالات بعد از اسلام:
‎اسلام قبول کرنے کے بعد دیگر صحابہ کی طرح آپ نے بھی تکالیف برداشت کیں۔ آپ کے چچا حکم بن عاص نے آپ کو رسی سے مضبوط باندھ کر کہا :

‎”تم نے اپنے باپ دادا کا دین ترک کرکے نیا دین اختیار کیا ہے۔ اللہ کی قسم میں تم کو نہ کھولوں گا یہاں تک کے تم اس نئے دین کو ترک نہ کر دو”۔
‎سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جواباََ فرمایا:

‎”اللہ کی قسم میں دین اسلام کبھی ترک نہ کروں گا”۔
‎آپ کی استقامت دیکھ کر چچا عاجز آگئے اور آپکو رہا کر دیا۔ (تاریخ الخلفاء)۔

‎ایک یگانہ و منفرد اعزاز:

‎جہاں آپ کے اعزازات کی ایک طویل فہرست ہے وہیں پر ایک سب سے الگ یہ بھی ہے کہ سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام و لوط علیہ السلام کے بعد عثمان غنی رضی اللہ نے اپنے اہل بیت کے ہمراہ ہجرت حبشہ فرمائی اور دو بار فرمائی۔ اسی لئے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:

‎”عثمان پہلے شخص ہیں جنہوں نے بعد ابراہیم و لوط علیہم السلام کے مع اپنے اہل بیت کے ہجرت کی”۔

‎آپ نبی کریم ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں بہ نفس نفیس شریک رہے ۔ غزوۂ بد رکے موقع پر نبی کریم ﷺ کی صاحبزادی اور آپ کی زوجہ مطہرہ سیدہ رقیہ سلام اللہ علیہا چونکہ علیل تھیں اس لئے سید عالم ﷺ نے حضرت ذوالنورین سے فرمایا:
‎”اے عثمان ! تم رقیہ کی تیمارداری کرو تم کو شرکت بدر کا ثواب ملے گا”۔
‎نبی کریم ﷺ نے ان کو بدریوں میں شمار فرمایا اور بدر کے مال غنیمت سے ان کو حصہ عطا فرمایا۔

‎ایک نفیس نقطہ:

‎دیکھئے بدر میں عدم شرکت کے باوجود بدری صحابہ میں شمار ہے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا، جو ان کے خلوص و ایمانداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 
‎دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں قزمان نامی شخص جو بدر میں مسلمانوں کی جانب سے لڑتا ہوا قتل ہوا، اور محض اپنے قبیلے کی سربلندی کے لئے لڑا نہ کہ اسلام کی سربلندی کے لئے۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے اس کے لئےجہنم کی وعید سنائی باوجود اس کے ، کہ صحابہ اس قزمان کی شجاعت اور میدان جنگ میں کفار کے خلاف لڑتا دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے۔ سیدنا سہل بن سعدی رضی اللہ عنہ نے قزمان کےمتلعق فرمایا:

‎((ما اجز امنا الیوم احد کما اجزاََ فلان))
‎”آج ہم میں سے کسی نے اتنا کام نہیں کیا کہ جتنا کام فلاں نے کیا”۔

‎قزمان کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ :
‎((اما انہ من اھل النار))
‎”آگاہ ہواجاؤ کہ وہ(قزمان) دوزخی ہے”۔(بخاری ، باب من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیا)

‎سیدنا عثمان رضی اللہ کی فضیلت، بدر میں عدم شرکت کے باوجود بھی اسی طرح اظہر من الشمس
‎اور قزمان کی شرکت اور اس کا لڑنا اس کے جہنمی ہونے کی وجہ تھی۔ 
‎یہ ہے مقام صحابہ کہ جو نسبی یا قبائلی شرف نہیں بلکہ خالصتاََ اللہ کا چناؤ اور اس کا فضل ہے۔

بیعت رضوان بیعت مبارکہ

لَـقَدۡ رَضِىَ اللّٰهُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذۡ يُبَايِعُوۡنَكَ تَحۡتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ فَاَنۡزَلَ السَّكِيۡنَةَ عَلَيۡهِمۡ وَاَثَابَهُمۡ فَتۡحًا قَرِيۡبًاۙ•

ترجمہ؛ یقینا اللہ تعالی مؤمنوں سے خوش ہوگیا، جب کہ وہ درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کررہے تھے، ان کے دلوں میں جو تھا اس نے اسے معلوم کرلیا ، اور ان پر اطمینان نازل فرمایا ، اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔

صلح حدیبیہ کے موقع پر جب سیدنا عثمان رضی اللہ کو بطور سفیر مقرر فرما کر مکے بھیجا گیا تو ان کے متعلق افواہ پھیلی کہ (معاذ اللہ) انکو شہید کر دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے 1400 صحابہ سے موت کی بیعت لی، مگر جب خبر ہوئی کہ عثمان رضی اللہ عنہ زندہ تو ہیں مگر ان کو قید کر دیا گیا ہے، اس پر نبی ﷺ نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دیا اور دوسرے ہاتھ پر رکھ دیا اور فرمایا:
"یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے”۔
اسی بیعت کو "بیعت رضوان” کہتے ہیں جس کا ذکر آیت بالا میں گزر چکا اور جس کی بنیاد پر صحابہ کرام کے خلوص اور ایمان کی گواہی حق تعالی شانہ نے خود دی۔
امام اہلسنت علامہ عبدالشکور لکھنویؒ فرماتے ہیں:
"حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا اس بیعت میں سب سے زیادہ حصہ رہا کیونکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ سے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی”۔(خلفائے راشدین، ص 161)

حضرت عثمان زوالنورین رضی اللہ عنہ کی خدمات:

حضرت رضی اللہ عنہ کی خدمات کا احاطہ مجھ ناچیز کے لئے ممکن نہیں، اپنی نا اہلی اور کم علمی کے باوجود چند اہم کارنامے قارئین کی نظر کئے جاتے ہیں:

بئر رومہ کی خرید اور اس کا مسلمانوں کے لئے وقف ؛

مدینہ منورہ میں مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے والے تشریف لائے تو مدینہ میں پانی کی قلت تھی۔ 
ایک ہی میٹھے پانی کا کنواں ، اور اس کا مالک بھی یہودی ، جو مہنگے داموں مسلمانوں کو پانی فروخت کرتا تھا ، رسول اللہﷺ کی ترغیب پہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کم و بیش پینتیس ہزار درہم اور ایک روایت کے مطابق ایک لاکھ درھم قیمت دے کر وہ خریدا اور فی سبیل اللہ وقف کر دیا۔ اس پر حضورﷺ نے عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

” عثمان جنت تجھ پہ واجب ہوچکی "

بئر رومہ کا تفصیلی واقعہ یوں ہے؛

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اس یہودی کے پاس گئے اور کنواں خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا، کنواں چونکہ منافع بخش آمدنی کا ذریعہ تھا ، اس لیے یہودی نے اسے فروخت کرنے سے انکار کر دیا ، توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ تدبیر کی ، کہ پورا کنواں نہ سہی ، آدھا کنواں فروخت کر دو۔۔۔ آدھا کنواں فروخت کرنے پر ایک دن کنویں کا پانی تمہارا ہو گا اور دوسرے دن میرا ہو گا۔۔یہودی ان کی اس پیشکش پر لالچ میں آ گیا۔۔۔ اس نے سوچا کہ میں اپنے دن میں پانی مہنگے داموں فرخت کروں گا ، اس طرح مجھے زیادہ منافع کمانے کا موقع مل جائے گا۔۔ چنانچہ اس نے آدھا کنواں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فروخت کر دیا۔
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے وہ کنواں اللہ کی رضا کے لئے وقف کر کے اپنے دن مسلمانوں کو کنویں سے مفت پانی حاصل کرنے کی اجازت دے دی، لوگ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دن مفت پانی حاصل کرتے اور اگلے دن کے لئے بھی ذخیرہ کر لیتے۔۔ یہودی کے دن کوئی بھی شخص پانی خریدنے نہ جاتا ، یہودی نے دیکھا کہ اس کی تجارت تو ختم ہوگئی ہے ، تو اس نے حضرت عثمان سے باقی آدھا کنواں بھی خریدنے کی پیشکش کر دی جس پر حضرت عثمان راضی ہو گئے ، اور پورا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا۔
اس دوران ایک مالدار آدمی نے عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو کنواں دوگنی قیمت پر خریدنے کی پیش کش کی، حضرت عثمان نے فرمایا کہ "مجھے اس سے کہیں زیادہ کی پیش کش ہے” تو وہ شخص بھی اپنی پیشکش بڑھاتاچلاگیااور حضرت عثمان یہی جواب دیتے رہے۔یہاں تک اس آدمی نے کہا کہ "حضرت آخر کون ہے جو آپ کو دس گنا دینے کی پیش کش کر رہا ہے؟”سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ’میرا رب مجھے ایک نیکی پر دس گنا اجر دینے کی پیش کش کرتا ہے۔

وقت گزرتا گیا اور یہ کنواں مسلمانوں کو سیراب کرتا رہا یہاں تک کہ عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں اس کنویں کے اردگرد کھجوروں کا باغ بن گیا ، جو آج تک موجود ہے،

آلِ سعود کے عہد میں اس باغ میں کھجور کے درختوں کی تعداد تقریباً پندرہ سو پچاس ہو گئی ، تو حکومتِ وقت نے اس باغ کے گرد چاردیواری بنوائی ، اور یہ جگہ میونسپلٹی میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر رجسٹرڈ کر دی ، وزارتِ زراعت یہاں کی کھجوریں بازار میں فروخت کرتی ، اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر بینک میں جمع کرواتی رہی ، چلتے چلتے یہاں تک اس اکاونٹ میں اتنی رقم جمع ہو گئی ، کہ مدینہ منورہ کے مرکزی علاقہ میں اس باغ کی آمدنی سے ایک کشادہ پلاٹ لیا گیا ، جہاں فندق عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے ایک رہائشی ہوٹل تعمیر کیا جانے لگا۔

اس رہائشی ہوٹل سے سالانہ پچاس ملین ریال آمدنی متوقع ہے

جس کا آدھا حصہ غریبوں اور مسکینوں کی کفالت ، اور باقی آدھا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بینک اکاونٹ میں جمع ہوگا ، ذوالنورین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے اس عمل اور خلوصِ نیت کو اللہ رب العزت نے اپنی بارگاہ میں ایسے قبول فرمایا اور اس میں اتنی برکت عطا فرمائی کہ قیامت تک ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دیا۔حضرت عثمان کا اکاوئنٹ یہاں بھی موجود ہے اور وہاں بھی موجود ہے ، جہاں کے اکاؤنٹ کسی کو نظر تو نہیں آتے ، لیکن حقیقی اور اصلی اکاؤنٹ وہی ہیں ، جن کے ” وہاں ” کے اکاؤنٹس مال سے بھرے ہوئے ہیں ، دنیا وآخرت میں کامیاب و کامران وہی لوگ ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں ، جن کی جانیں اور مال اللہ تعالیٰ نے اپنی جنتوں کے بدلے خرید لئے، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے ساتھ تجارت کی،جنہوں نے اللہ عزوجل کو قرض دیا، اچھا قرض اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں کئی گنا بڑھا کر لوٹایا۔

جیش عسرت ( غزوۂ تبوک ) کے لئے ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی سخاوت:

غزوہ تبوک کے موقع پر عثمان رضی اللہ عنہ نے پہلی ترغیب پر ایک سو اونٹ سازو سامان سے لدھے ہوئے پیش کئے۔ بنی کریمﷺ نے فرمایا:
”جو شخص اس لشکر کا سامان درست کرے گا اس کو جنت ملے گی”۔
عثمان رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر کہا:
"یا رسول اللہ میں 300 اونٹ مال تجارت سے لدے ہوئے دوں گا”۔

دوسری بار پھر آپ نے اپیل کی ، عثمان کھڑے ہوئے ، اور 300 مزید اونٹوں کا ہدیہ بارگاہ رسالت میں پیش کردیا ، تیسری مرتبہ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا ، تو آپ پھر اٹھے ، 300 اونٹ سامان کے لدے لدائے بارگاہ رسالت میں پھر پیش کردئے ،

چوتھی بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اعلان کیا ،
عثمان رضی اللہ عنہ اٹھے ، اپنے گھر گئے اور 1000 اشرفیاں لاکر نبی کریم ﷺ کے دامن میں ڈال دیں۔ نبی کریم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ان اشرفیوں کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں ڈالتے تھے اور فرماتے تھے:

((ما ضر عثمان ما عمل بعد الیوم))
"یعنی آج کے دن کے بعد عثمان جو چاہے کریں کوئی عمل ان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا”۔ (خلفائے راشدین، ص 161، عبدالشکورؒ)

ابو عمر کی روایت ہے کہ اونٹوں کی تعداد ساڑھے نوسو (950) بتائی گئی علاوہ ازیں پچاس گھوڑے بھی ساتھ کر دئے۔ جناب قتادہ کی روایت کے مطابق عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار (1000) صحابہ کو اونٹوں پر اور ستر (70) کو گھوڑوں پر جنگ کرنے کے لئے تیار کیا۔ (دشمنان امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا علمی محاسبہ، جلد دوم، ص 231)

توسیع مسجد نبوی:
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ مسجد نبوی کی توسیع کے لئے پچیس ہزار (25000) درہم دے کر یہ سودا کر لیا،
مسجد حرام بیت اللہ کی توسیع کے لئے جب ایک مکان کو اس میں شامل کرنے کا وقت آیا ، تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وہ مکان دس ہزار(10000) درہم عطا کرکے مکان خرید لیا اور پھر اسے مسجد حرام میں شامل کرلیا۔

خلافت عثمانی رضی اللہ عنہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شہادت سے قبل ان چھ صحابہ کرام کے نام خلافت کے لئے پیش فرمائے تھے ان میں عثمان، علی، طلحہ، زبیر، عبدالرحمان ابن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم شامل تھے۔چنانچہ شہادت فاروقی کے بعد یہ چھ اشخاص جمع ہوئے۔ حضرت عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:
"چھ میں سے تین افراد کو سب اختیار دے دئے جائیں”۔
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنا اختیار سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دے دیا اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنا اختیار حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو دیا اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اپنا اختیار عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔ حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"اب عثمان اور علی رضی اللہ عنہم میں سے جو اپنی خلافت نہ چاہتا ہو انتخاب کا اختیار اسی کو دیا جائے”۔
یہ سن کر ختنین رضی اللہ عنہم (عثمان و علی رضی اللہ عنہم) خاموش رہے۔

حضرت عبدالرحمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اپنے لئے خلافت نہیں چاہتا آپ دونوں میں سے جو افضل ہوگا میں اس کا انتخاب کروں گا۔ اس کے بعد عبدالرحمان رضی اللہ عنہ نے خفیہ طور پر مسلمانوں سے رائے لی اور سب کو حضرت عثمان رضی اللہ کے حق میں پایا کہ وہ خلیفہ مقرر ہوں۔ اس طرح بغیر کسی اختلاف کے عثمان رضی اللہ عنہ امت کے تیسرے خلیفہ منتخب ہوئے۔ آپ کی مدت خلافت علی منہاج النبویہ کم و بیش بارہ برس پر محیط ہے اور اسلامی تاریخ میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔
(جاری ہے)

سورس

خلیفۂ ثالث و راشد ، پیکر حمیت و غنیت، ذوالنورین ، ذوالھجرتین ، ذوالبیعتین ، ذوالبشارتین ، ناشر القرآن ، مظلوم مدینہ ، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مختصر حالات زندگی اور مناقب و فضائل

قسط نمبر 2

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں فتوحات:
آپ رضی اللہ عنہ کے دور مبارکہ میں اسلامی خلافت 22 لاکھ مربع میل سے پھیل کر کم و بیش 45 لاکھ مربع میل ہوئی۔
آپ رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ہونے والی فتوحات دو قسم کی ہیں:
قسم اول
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد بعض شہروں نے علم بغاوت کردیاتھا ، یہ علاقے از سرنو دوبارہ مفتوح ہوئے جیسا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد مرتدین سے قتال کیا تھا۔
1۔ ہمدان سیدنا مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ فتح ہوا۔
2۔ اہل ری کا فتنہ سیدنا ابوموسی اشعری و برا بن عازب رضی اللہ عنھما کے ہاتھوں فرو ہوا۔
3۔ اسکندریہ سیدنا عمر بن العاص رضی اللہ عنہ کے ہاتھ دوبارہ فتح ہوا۔
4۔ آذربائیجان سیدنا ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ نے فتح کیا۔ اس کے ساتھ آرمینیہ بھی مکمل فتح ہوگیا۔
5۔ رومیوں کے خلاف عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے کوفہ سے حضرت سلمان بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کو چھ ہزار (6000) کے لشکر کے ساتھ شام میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی نصرت کے لئے روانہ کیا۔ یہ لوگ بے شمار مال غنیمت لائے۔
6۔ عثمان بن ابی العاص کی قیادت میں شہر گازرون صلح سے فتح ہوا اور ساتھ ہی ساتھ عثمان بن ابی العاص نے حرم بن حیان کو دز سفید کی جانب روانہ کیا جو کہ آسانی سے فتح ہوگیا۔
قسم دوم
اس قسم میں وہ علاقے ہیں جو اس سے قبل خلافت اسلامیہ کاحصہ نہ تھے بلکہ ان کو اقدامی جہاد کرکے فتح کیا گیا۔ ان کی تفصیل ملاحظہ ہو:
فتح طرابلس:
مہم طرابلس کا اہتمام تو 25ھ میں ہوا مگر لشکر کشی 27ھ کو ہوئی۔ حضرت عبداللہ ابن ابی سرح رضی اللہ عنہ مصر کے گورنر تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہنے دارالخلافہ سے سیدنا عبداللہ ابن زبیر، عبداللہ بن عمرو بن عاص اور عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنھم کو مع لشکر روانہ کیا۔ سیدنا عبداللہ ابن سرح رضی اللہ عنہ کی حکمت عملی اور مسلمانوں کی طاقت دیکھ کر اہل طرابلس صلح پر آمادہ ہوئے اور یوں طرابلس فتح ہوا۔
فتح افریقہ:
افریقہ سے مراد وہ علاقے ہیں جن کو اب الجزائر اور مراکش کہا جاتا ہے۔افریقہ کی جنگ عظیم اسلامی تاریخ میں حرب العبادلہ کے نام سے مشہور ہے۔ 
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فتح افریقہ کے لئے سیدنا عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کو مصر کی حکومت عطا فرمائی۔ افریقہ کا حاکم قیصر روم کی جانب سے جرجیر نامی ایک شخص تھا جو بہت متکبر تھا اسکی حکومت طرابلس سے لے کر طبحہ تک تھی۔ اس نے مسلمانوں سے لڑنے کے لئے ایک لاکھ بیس ہزار فوج فراہم کی۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی بڑی فوج تشکیل دی جس میں عبداللہ ابن عباس و عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھم جیسے جید صحابہ موجود تھے۔ اس فوج کی نصرت عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نے بھی ایک بڑی فوج کے ساتھ کی اور یوں یہ فوجیں یکسوئی کے ساتھ افریقہ پہنچیں۔ معرکہ حق و باطل شروع ہوا۔ تاریخ اسلام میں قادسیہ اور یرموک کے بعد یہ تیسری بڑی جنگ شمار ہوتی ہے جو مسلسل چالیس (40) دن تک لڑی گئ۔ اسی اثنا میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے بہترین حکمت عملی کا ثبوت دیتے ہوئے سیدنا عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہکو افریقہ لشکر کے ساتھ روانہ کیا اور فرمایا کہ:
"جلد سے جلد افریقہ پہنچ کر اپنے بھائیوں کی مدد کرو”۔
سیدنا عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر مسلمانوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور لشکر اسلامی میں ایک نیا جذبہ پیدا ہوا۔ جرجیر نے اعلان کروایا تھا کہ جو شخص عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کا سر کاٹ کر لائے گا اس کو ایک لاکھ اشرفیاں بطور انعام ملیں گی، اس کے جواب میں سیدنا عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے بھی منہ توڑ اعلان کیا کہ:
"جو شخص جرجیرکا سر کاٹ کرلائے گا اس کو ایک لاکھ اشرفیوں کے ساتھ جرجیر کی لڑکی بھی دی جائے گی”۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے لشکر اسلامی کو دو حصوں میں منقسم کرکے ایک حصے کو خیموں میں آرام کرنے کا کہا اور دوسرے کو میدان جنگ میں بھیجا۔ اللہ کی تائید غیبی سے جرجیر کو خود سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں جہنم واصل کیا۔ بے شمار مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ لگا، خمس جدا کرنے کے بعد فی سوار تین ہزار اشرفیاں اور فی پیادہ ایک ہزار اشرفیاں تقسیم ہوئیں اور حسب اعلان ایک لاکھ اشرفیاں اور جرجیر کی لڑکی سیدنا ابن زبیر کے حصے میں آئیں۔
اسپین پر حملہ:
27ھ میں عثمان رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن نافع بن عبدقیس اور عبداللہ بن نافع بن حصین کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ کچھ فتوحات حاصل ہوئیں لیکن پھر مہم روک دی گئ۔ اس کے بعد عبداللہ ابن ابی سرح رضی اللہ عنہ کو واپس مصر بھیجا گیا اور عبداللہ بن نافع بن عبدقیس والی افریقہ مقرر ہوئے۔
فتح قبرص:
سیدعالم ﷺنے جو پیشن گوئی فرمائی تھی:
"میری امت کا پہلا لشکر جو سمندر کی لڑائی لڑے گا اس پر جنت واجب ہے”(بخاری)
فتح قبرص سے پوری ہوئی۔سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسلامی بیڑا تیار کروایا اور عبداللہ بن قیس حارثی امیر البحر مقرر ہوئے مگر ان کی ناگہانی موت واقع ہوئی جس کے بعد سفیان بن عوف ازدی نے علم سنبھال کر اہل قبرص کو مغلوب فرمایا اور درج ذیل شرائط پر مصالحت ہوئی:
ا۔اہل قبرص سالانہ 70000 خراج دیں گے۔
ب۔ مسلمان قبرص کی حفاظت کے ذمہ دار نہ ہوں گے۔
ج۔ بحری جنگوں میں اہل قبرص مسلمانوں کو دشمن کی نقل و حرکت کی اطلاع دیں گے۔ (ابن اثیر،3/47-75)
اہل قبرص نے کچھ دن بعد معاہدے کی خلاف ورزی کی جس کے بعد 33ھ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے قبرص پر لشکر کشی کی اور آئندہ اہل قبرص کو رومیوں سے قطع تعلق کا حکم دیا۔
فتح طبرستان:
30ھ میں والی بصرہ عبداللہ بن عامر اور سعید بن عاص رضی اللہ عنھما نے دو مختلف راستوں سے خراسان اور طبرستان کا رخ کیا۔ سعید بن عاص کے ساتھ سیدنا حسن، سیدنا حسین، عبداللہ بن عمر بن العاص اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنھم جیسے اکابر واصاغر صحابہ شامل تھے، پیش قدمی فرما کر جرجان، خراسان اور طبرستان کے علاقے فتح کر لئے۔
عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے ہرات، کابل، سجستان، نیشاپور، بست و اشبند ورخ، خواف، اسبرائن فتح کئے۔ اہل نیشاپور نے سات لاکھ درہم سالانہ پر مصالحت کی۔ اس کے علاوہ سرخس، ماوراء النہر وغیرہ کے لوگوں نے اطاعت قبول کی۔
ایک عظیم الشان بحری جنگ:
31ھ میں رومیوں نے 500 جہاز شام پر لشکر کشی کے لئے روانہ کئے۔ امیر البحر عبداللہ ابن ابی سرح رضی اللہ عنہ نے اسلامی بیڑے کو آگے بڑھایا اور خون ریز جنگ کے بعد اللہ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔ خود قسطنطین بھی زخمی ہوا۔
متفرق فتوحات:
1۔ 31ھ میں حبیب بن مسلمہ فہری نے آرمینیہ فتح کیا۔ 
2۔ 32ھ میں معاویہ رضی اللہ عنہ قسطنطنیہ تک چلے گئے۔
3۔ 32ھ میں عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے مردورود، طالقان، فاریاب اور جوزجان فتح کر لئے۔
4۔ 33 ھ میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے حصن المراۃ پر حملہ کیا۔
(مآخذ مضمون: سیرت خلفائے راشدین، شاہ معین الدین ندوی، سیرت خلفائے راشدین، عبدالشکور لکھنویؒ، خلافت راشدہ، شیخ ادریس کاندھلوی، دشمنان امیر معاویہ کا علمی محاسبہ، جلد دوم)

قال النبی ﷺ ألا استحي من رجل تستحي منه الملائكة او کما قال علیه الصلٰوة والسلام۔ 
ترجمہ؛ کیا میں اس بندے سے حیاء نہ کروں جس سے الله کے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔ 
عزیز دوستو؛ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے محاسن و مناقب اتنے زیادہ ہیں ، کہ کئی کتب میں بھی نہیں سماسکتے ، مختصراً ان کے کچھ محاسن کا تذکرہ کیا گیا،
ھجری سال کے 355 ( ھجری سال عیسوی سال سے دس دن کم ہوتا ہے ) دنوں میں کوئی دن ایسا نہیں ، جس میں کسی نہ کسی صحابئی رسول کی شھادت نہ ہوئی ہو، لیکن رمضان المبارک ، ذی الحجہ ، اور محرم یہ تین ماہ تاریخ اسلامی میں منفرد مقام رکھتے ہیں ، کیونکہ رمضان المبارک میں وفات سیدتنا عائشہ صدیقہ ، شھادت سیدنا علی المرتضی ، ذی الحج میں شھادت سیدنا عثمان غنی ، محرم میں شھادت سیدنا عمر فاروق اور شھادت سیدنا حسین رضی اللہ عنھم اجمعین کے واقعات ظہور پذیر ہوئے ، 
ان سب واقعات میں شھادت عثمان رضی اللہ عنہ کا واقعہ سب سے زیادہ المناک ، دردانگیز و مظلومانہ ہے، لیکن سبائیت کے پروپیگنڈے نے شھادت حسین رضی اللہ عنہ پہ اس طرح واویلا کیا ، کہ آج اھل سُنت کی کثیر تعداد بھی شھادت عثمان رضی اللہ عنہ کے واقعات سے ناآشنا و بے بہرہ ہے، 
میں اس وقت دونوں شھادتوں کا تقابل پیش کرنا نہیں چاہتا ، صرف شھید مدینہ کی مظلومانہ شھادت کے ان منتخب واقعات کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں ، جو آپ کی حیات طیبہ کے انوکھے اور مظلومانہ شھادت کے عجیب و غریب مناظر ہیں۔ 
سبائیوں نے مدینہ پہ کس طرح چڑھائی کی، وہ کون سے عوامل تھے ، جس کی وجہ سے انہوں نےمدینہ کو اپنے حصار میں لیا ، کون کون ان کا لیڈر تھا ، کس کس مقام سے آئے ؟
یہ بھی آج کا موضوع نہیں ، زندگی رہی ، تو اس کی تفصیل بھی کبھی ذکر کروں گا ان شاءاللہ۔ 
شھادت عثمان کی ابتدا ہوتی ہے، مسجد نبوی میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پہ سنگ باری کرنے سے۔۔۔۔۔۔۔۔شھید مدینہ منبر نبوی پہ خطبۂ جمعہ کے لئے تشریف لاتے ہیں ، منبر نبوی ﷺ پہ کھڑے ہوتے ہیں ، مسجد نبوی کے ایک کونے سے ایک باغی اٹھتا ہے ، اور اعلان کرتا ہے ، آپ خطبہ نہیں دے سکتے! اس کی آواز سنتے ہی اس کے دوسرے ساتھی بھی چلانا شروع کردیتے ہیں ، کہ آپ خطبہ نہیں دے سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔
” عصائے نبوی کی توہین "
ایک باغی آگے بڑھتا ہے، اور آپ کے ہاتھ میں موجود عصاء نبوی کو چھین کے توڑ دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یہ وہ عصاء تھا ، جسے پکڑ کے رسول اللہ ﷺ خطبہ دیا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔یہی وہ عصاء تھا ، جسے خلیفۂ رسول اللہ ﷺ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پکڑ کے خطبہ دیا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔یہی وہ عصاء تھا ، جسے پکڑ کے عمر فاروق رضی اللہ عنہ خطبہ دیا کرتے تھے، آج باغی اسی عصاء کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے چھین کے توڑ رہے ہیں ، اس عصاء کو توڑ دینا اک قیامت تھا ، جو اصحاب رسول ﷺ اور عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دلوں پہ گذرگئی ۔۔۔۔۔۔۔ عصاء کو دو ٹکڑے کرنے کو اک استعارہ سمجھ لی جئے ، یہ عصاء خود تو دو ٹکڑے ہوا ہی ، امت رسول ﷺ کے بھی ایسے ٹکڑے ہوئے، جن کا نتیجہ بعد میں جنگ جُمل و جنگ صفین کی شکل میں دنیا نے دیکھا، 
” مسجد نبوی کی توہین اور امام مظلوم پہ حملہ "
عصاء کو دوٹکڑے کرنے ہی پہ بس نہیں کیا گیا ، مسجد نبوی کے اندر عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور ان کی مدد کے لئے آگے بڑھنے والے مسلمانوں پہ سنگ باری بھی شروع کردی گئی۔۔۔۔۔ بڑی مشکل سے خطبۂ جمعہ و نماز جمعہ ختم ہوئی ، نماز کے بعد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پھر منبر پہ جلوہ افروز ہوئے ، اور کھڑے ہوکےباغیوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا! 
اے باھر سے آنے والو! اللہ سے ڈرو! اللہ کی قسم اہل مدینہ ( اصحاب رسول ﷺ ) جانتے ہیں ، کہ باارشاد رسول ﷺ تم ملعون ہو، پس تم اپنی خطا سے نیکی مٹاؤ، اور اللہ برائیوں کو نیکیوں سے مٹاتے ہیں۔۔۔۔۔۔حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوکےفرماتے ہیں ، میں اس کی گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے تم لوگوں کو ملعون فرمایا ہے۔ 
حکیم بن جبلہ ( ایک باغی لیڈر ) نے انکا ہاتھ پکڑ کے انہیں بٹھایا تو ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے، ان کو بھی بزور بٹھا دیا گیا ، اور تمام مسلمانوں پہ سنگ باری شروع کردی گئی۔۔۔۔۔ سنگ باری اس قدر شدید تھی ، کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ پتھر لگنے سے بیہوش ہوکے منبر سے نیچے گر گئے۔۔۔۔۔۔۔ مسجد نبوی وہ قابل عز و مرتبت مقام ہے، جہاں روضۂ رسول ﷺ ہے، جہاں بلند آواز سے بولنا بھی جائز نہیں ، حکمِ الٰہی ہے ، لاترفعو اصواتکم فوق صوت النبی ، اپنی آوازوں کو نبی ﷺ کی آواز سے اونچا نہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔یہ مقام ادب ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن یہاں صرف آواز ہی اونچی نہیں کی جارہی ایمان والوں پہ پتھراؤ بھی ہورہا ہے، آوازے بھی کسے جارہے ہیں ، اور اس مسجد اور پوری امت کے امام چوالیس لاکھ مربع میل کے حکمران سیدنا عثمان پہ پتھراؤ کر کے انہیں بیہوش بھی کردیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” مسجد میں نماز پڑھنے کی ممانعت ” 
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بیہوشی کے عالم میں ان کے گھر پہنچایا جاتا ہے، ہوش میں آتے ہی پہلا سوال یہ کرتے ہیں، اھل مدینہ کو کوئی تکلیف تو نہیں پہنچی ؟ 
یہ باادب و باحیا لوگوں کا وطیرہ ہے، کہ محبوب کے شھر میں رہنے والوں کی تکلیف کا احساس ہے! اپنی تکلیف پہ کوئی شکوہ و گلہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ زخمی حالت میں اپنے گھر میں آرام کررہے ہیں ، کہ مدینہ کی گلیوں میں اک اور اعلان کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
!! خبردار!! آج کے بعد عثمان ( رضی اللہ عنہ ) نہ تو نماز پڑھانے کے لئے اور نہ ہی نماز پڑھنے کے لئے مسجد نبوی میں آسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے بڑھ کے اور کیا ظلم ہوگا ، کہ جس مسجد کو اپنا مال خرچ کر کے عثمان ( رضی اللہ عنہ ) نے تعمیر کروایا تھا ، جس کی توسیع میں سب سے زیادہ عثمان ( رضی اللہ عنہ ) کا حصہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی مسجد کی امامت اور اس میں نماز پڑھنے سے عثمان کو روک دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر روز کا نیا سورج عثمان کے لئے مصائب و آلام کا اک نیا انداز سامنے لارہا ہے۔۔۔۔۔۔پہلے کی نسبت زیادہ تشدد اور مظالم کا پیغام لارہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب سے پہلے مسجد نبوی میں خطبہ دیتے ہوئے زخمی کیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔پھر مسجد نبوی میں امامت سے روکا گیا۔۔۔۔۔۔۔پھر مسجد نبوی میں باجماعت نماز پڑھنے سے روکا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب گھر میں محصور کردیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔باغیوں کی طرف سے اعلان کردیا گیا۔۔۔۔۔۔۔عثمان اپنے گھر سے باھر نہیں نکل سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔مدینہ کے اکثر لوگ تو حج بیت اللہ کےلئے مکہ مکرمہ گئے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔جو تھوڑےسے باقی ہیں وہ قصر خلافت میں تشریف لاکے التجا کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ہم سے آپ کی یہ کسمپرسی نہیں دیکھی جاتی ہمیں اجازت دی جئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔تاکہ ہم ان کی اکڑی ہوئی گردنوں کو جھکاسکیں۔۔۔۔۔۔۔ہم ان کے ساتھ مقابلہ کرکے انہیں مدینہ سے باھر نکال دیں گے۔۔۔۔۔۔۔فان معک عددا و قوةً وانت علی الحق۔۔۔۔۔۔آپ کے ساتھ لوگ بھی ہیں ۔۔۔۔۔قوت بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔اور آپ حق پہ بھی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔دوسری تجویز یہ ہے، آپ مدینہ منورہ سے نکل کے مکہ معظمہ یا شام تشریف لے جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔مکہ کی حرمت کی وجہ سے وہاں آپ کو کوئی کچھ نہیں کہ سکے گا۔۔۔۔۔۔۔۔شام میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔وہ آپ کی حفاظت کریں گے۔۔۔۔۔۔۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے دونوں تجاویز قبول کرنے سے انکار کردیا۔۔۔۔۔فرمایا۔۔۔۔۔۔۔میں رسول اللہﷺ کے شھر مدینہ میں کسی کو خون ریزی کی اجازت نہیں دے سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں حرم رسول کے احترام کو پامال کردوں ؟ ۔۔۔۔۔یہ ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔میں مدینہ چھوڑ کے مکہ چلا جاؤں ۔۔۔۔۔یہ بھی ناممکن ہے۔۔۔۔۔۔فلن افارق دار ھجرتی ومجاورة رسول ﷺ ۔۔۔۔۔۔۔میں اپنے ھجرت کے گھر اور رسول اللہ ﷺ کے قرب اور ہمسائیگی کو نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔۔۔۔۔نیز میرے مکہ میں جانے سے اگر وہاں بھی باغی آجاتے ہیں ۔۔۔۔۔اور ان سے قتال کرنا پڑجاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں یہ بھی گوارا نہیں کرسکتا۔۔۔۔۔کہ میں نے اپنے آقا کریم علیھم الصلوة والتسلیم سے سنا ہے۔۔۔۔۔۔ایک قریشی مکہ میں ظلم کرے گا ۔۔۔۔۔۔۔اس پہ آدھی دنیا کا عذاب نازل ہوگا۔۔۔۔۔۔۔سبحان اللہ ۔۔۔۔۔کیا انداز محبت ہے۔۔۔۔۔۔گھر میں قید ہیں ۔۔۔۔معلوم ہے۔۔۔۔یہ باغی مجھے نہیں چھوڑیں گے۔۔۔۔۔۔۔صحابہ کی کثیر تعداد جان قربان کرنے کوتیار ہے۔۔۔۔۔۔لیکن اپنے محبوب کے شھر میں کسی کو خون بہانے کی اجازت نہیں دے رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شھادت تو منظور ہے۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن حرم مدینہ میں قتال منظور نہیں ۔۔۔۔۔۔مکہ یا شام جا کے اپنی جان بچاسکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔لیکن رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک سے جدائی بھی برداشت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔دل و نگاہ میں رسول اللہ کا اک فرمان سجا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔۔۔۔۔۔۔من استطاع ان یموت فی المدینة فلیمت بھا فانی اشفع لمن یموت بھا۔۔۔۔۔۔جو آدمی مدینہ میں فوت ہونے کی خواہش رکھے ( میری محبت میں ) اور ۔۔۔۔۔۔پھر مدینہ میں فوت بھی ہوجائے۔۔۔۔۔۔۔۔تو میں محمد ﷺ اس کی شفاعت کرونگا۔۔۔۔۔۔۔۔اسی لئے ہمیشہ سے فنا فی عشق الرسول لوگوں کی خواہش یہ رہی ۔۔۔۔۔۔کہ مستقل قیام مدینہ میں کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔تاکہ موت بھی وہیں پہ آئے۔۔۔۔۔۔۔اور قبر کی مٹی بھی مدینہ کی نصیب ہو( یا اله العالمین مجھ ناکارہ کو بھی مدینہ کی موت اور مدینہ میں دفن عطا فرما آمین ) ۔۔۔۔۔۔۔
مدینہ نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔کہ رسول اللہ کا قرب مجھے میسر ہے۔۔۔۔۔اب اک نیا اعلان ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔عثمان کا آج سے کھانا بند ہے۔۔۔۔۔اس کے گھر میں کھانے کی کوئی چیز جانے نہ دی جائے۔۔۔۔۔۔من گھڑت روایات کا سہارا لے کے کربلا میں سیدنا حسین پہ کبھی نہ ہونے والے مظالم کا سینکڑوں صدیوں سےواویلا کرنے والو۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے تاریخ عالم کا کوئی ایسا مظلوم تو لاکے دکھاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چوالیس لاکھ سے زائد مربع میل کا حکمران ہے۔۔۔۔۔۔۔سونے کا چمچ منہ میں لے کے پیدا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔اپنے لاکھوں دینار اسلام اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرچکا ہے ۔۔۔۔۔۔مدینہ میں پیا جانے والا پانی کا ہر ہر گھونٹ عثمان کے سرمایہ سے خرید کر کے وقف کردہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔سینکڑوں یتامی ، مساکین ، بیواؤوں جو نان شبینہ کے ایک ایک لقمے کو ترستے تھے۔۔۔۔۔ان کو آسودہ کرنے والا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔جس عثمان کے ہاتھوں علی کے گھر میں رونق آئی ۔۔۔۔۔۔۔جس عثمان کے ہاتھوں سینکڑوں لوگ سُہاگ کی مسرتوں سے مالا مال ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔جس عثمان کے ہاتھوں سخاوت نے عزت حاصل کی ۔۔۔۔۔۔۔جس عثمان نے سخاوتوں کی اک نئی مثال رقم کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو عثمان رسول اللہﷺ کی ہر آواز پہ بلا چوں و چرا لبیک کہتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ آج اس کے گھر میں کھانے کی اشیاء کا داخلہ بند کردیا جاتا ہے۔۔۔۔۔وہ پھر بھی تلوار اٹھانے کی کسی کو اجازت نہیں دے رہا۔۔۔۔۔۔۔۔آج نیا سورج طلوع ہوا ہے اک نئے انداز کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مدینہ کی گلیوں میں باغیوں کی طرف سے اک نیا اعلان کیا جارہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” خبردار ” آج سے عثمان کا پانی بند ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو شخص عثمان کے گھر پانی پہنچانے کی کوشش کرے گا ۔۔۔۔۔۔۔اسے سخت سزا دی جائےگی ۔۔۔۔۔۔اس سے قبل ایک شخص نے کھانا پہنچانے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔اسے سخت سزا دی جاچکی ہے۔۔۔۔۔۔۔وہ عثمان جس سے غرباء و مساکین کی بھوک برداشت نہیں ہوتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔اپنا مال ان پہ لٹادیا کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔وہ عثمان جس سے رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام کی پیاس دیکھی نہ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔جس نے پینتیس ہزار درھم خرچ کرکے بئر رومہ خریدا ۔۔۔۔۔۔۔پانی کا پیالہ بھرا ۔۔۔۔۔۔رسول اللہ کی خدمت میں آکے پیش کیا ۔۔۔۔۔۔۔رسول اللہ پانی پیتے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہر ہر سانس کے ساتھ عثمان کو دعائیں دیتے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔آج اسی عثمان پہ ۔۔۔۔۔۔۔اسی کے خرید کردہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مسلمانوں کے لئے وقف کردہ——-کنویں کا پانی بند کردیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیااھل سُنت ۔۔۔۔۔۔۔کیا اھل تشیع ۔۔۔۔۔۔اخبارات ۔۔۔۔۔۔۔ٹی وی۔۔۔۔۔۔۔علماء۔۔۔۔۔۔۔خطباء ۔۔۔۔۔۔فصحاء ۔۔۔۔۔۔شعراء۔۔۔۔۔۔ادباء۔۔۔۔۔۔۔مقررین ۔۔۔۔محدثین ۔۔۔۔۔۔مجتھدین ۔۔۔۔۔۔۔یکم محرم کو شروع ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔دس محرم تک ہر طرف ۔۔۔۔۔۔۔ایک ہی شور و غوغا ہے۔۔۔۔۔۔۔نواسۂ رسول ﷺ کا پانی بند ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔کوئی کہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔تین دن کے لئے بند ہوا۔۔۔۔۔۔کوئی کہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔دس دن کے لئے بند ہوا۔۔۔۔۔۔بند کہاں سے ہوا؟ دریائے فرات سے! پانی بھی بند ہے ۔۔۔۔۔لیکن نواسۂ رسول ﷺ غسل بھی کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔پانی بھی بند ہے۔۔۔۔۔۔لیکن نواسۂ رسول ﷺ وضو بھی کررہے ہیں یاللعجب۔۔۔۔۔ان روایات کا من گھڑت ہونا میرے اوپر روز روشن کی طرح عیاں ہے۔۔۔۔۔۔لیکن آج مجھے ان پہ بحث نہیں کرنی ۔۔۔۔۔۔۔مجھے تو اس مظلوم کا واقعہ سُناناہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔جسے جھوٹے پراپیگنڈا کی رو میں بہ کےپرائے تو کیا؟ ہر اپنا بھی بھول چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔پانی بند ہے۔۔۔۔۔کس کا؟ 
اس عثمان کا ! 
جس کا جرم فقط یہ ہے! 
خونے نہ کردہ ایم وکسے رانہ کشتہ ایم 
جرمم ہمیں است کہ عاشق روئے تو گشتہ ایم 
جس نے کسی کا خون نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔۔کسی کو قتل نہیں کیا۔۔۔۔۔۔اس کا جرم فقط اتنا ہے۔۔۔۔۔۔کہ وہ رسول اللہ ﷺ کا دیوانہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ان کے اشارۂ ابرو پہ گھر بار لٹانے والا ہے۔۔۔۔۔۔۔اس کا کھانا بھی بند ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا پانی بھی بند ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی امامت و خطابت بھی بند ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا مسجد نبوی میں داخلہ بھی بند ہے۔۔۔۔۔لیکن واعظ ، خطیب ، ادیب ، عالم ، فلاسفر ، دانشور ، مقرر ، پرنٹ میڈیا ، الیکٹرونک میڈیا ، ان سب کا منہ بھی بند ہے۔۔۔۔۔۔۔انہیں وہ مظلوم نظر نہیں آرہا۔۔۔۔۔۔جو بھوک و پیاس سے نڈھال ہے۔۔۔۔۔۔کئی دن گذر گئے ۔۔۔۔۔۔روٹی کا ایک نوالہ جس کے منہ میں نہیں گیا ۔۔۔۔۔۔پیاس سے نڈھال ہے۔۔۔۔۔شدت پیاس سے مجبور ہوکےام المؤمنین اور اپنے دوستوں کو اک پیغام بھیجتے ہیں ۔۔۔۔۔۔طبری لکھتا ہے۔۔۔۔۔۔محاصرین عوام اور عثمان کے گھرکے درمیان حائل ہیں ۔۔۔۔۔۔کوئی چیز اندر جانے نہیں دے رہے۔۔۔۔۔۔ عثمان ، حضرت علی ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنھم کے پاس پیغام بھیجتے ہیں ۔۔۔۔۔فانھم قد منعوناالماء فان قدرتم ان ترسلوا الینا شیئامن الماء فاافعلوا۔۔۔۔۔۔۔۔باغیوں نے ہمارا پانی بند کردیا ہے، اگر تم تھوڑا پانی بھیج سکتے ہو، تو بھیج دو! 
” سیدنا علی ساقئی عثمان بنتے ہیں "
آج تاریخ عالم عجب نظارہ دیکھتی ہے۔۔۔۔۔۔ وہ عثمان جس نے سیدنا علی کی شادی میں تمام سامان بمعہ حق مہر کی رقم سیدنا علی کو بطور ہدیہ و تحفہ دی تھی ۔۔۔۔۔اس عثمان کا تڑپنا سیدنا علی سے دیکھا نہ گیا ۔۔۔۔۔۔پانی کا مشکیزہ بھرا۔۔۔۔۔اپنے شانوں پہ لٹکایا۔۔۔۔۔اور عثمان کے گھر کی طرف قدم بڑھانے شروع کردئے۔۔۔۔۔۔چند قدم بھی ابھی نہیں چلے۔۔۔۔۔کہ باغیوں نے گھیر لیا۔۔۔۔۔۔پانی کا مشکیزہ پھاڑ دیا ۔۔۔۔۔۔۔سارا پانی زمین پہ بہادیا ۔۔۔۔۔۔۔سیدنا علی چلا اٹھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔او بدبختو ، ظالمو، کچھ تو حیاء کرو۔۔۔۔۔۔جو کچھ تم کررہے ہو۔۔۔۔یہ دستور نہ تو مسلمانوں کا ہے نہ کافروں کا! 
روم و فارس کے کفار بھی کسی کا کھانا پینا بند نہیں کرتے ۔۔۔۔۔۔وہ تو قیدیوں کو بھی کھانے پینے کی تمام سہولتیں دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔فیما تستحلون حصرہ و قتله ۔۔۔۔۔۔۔۔کس جواز سے تم نے عثمان کا محاصرہ کیا ہوا ہے؟ اور کیوں اس کے قتل کو جائز سمجھ رہے ہو؟ 
لیکن ان سبائیوں کو کوئی حیاء نہیں ۔۔۔۔۔سیدنا علی اپنے سر سے اپنا عمامہ مبارک اتارتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔پھٹے ہوئے مشکیزے میں جو تھوڑا بہت پانی بچ گیا ہے ۔۔۔۔۔۔اپنا عمامہ اس میں بھگوتے ہیں ۔۔۔۔۔اور اس عمامے کو سیدنا عثمان کے گھر میں دیوار کے اوپر سے پھینک دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔تاکہ عثمان رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوجائے ۔۔۔۔۔۔۔علی رضی اللہ عنہ نے تو حق دوستی ادا کرنی کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔۔۔لیکن باغی آڑے آگئے۔۔۔۔۔۔سیدنا علی کا یہ اقدام اس لئے تھا۔۔۔۔۔تاکہ رہتی دنیا تک محبت علی و عثمان کی روشن تصویر اھل نظر کے دلوں میں ٹھنڈک پہنچاتی رہے۔۔۔۔۔۔محبت عثمان کا حق ادا ہوجائے۔۔۔۔۔۔۔اور اعتماد علی و محبت عثمان کی روشن تصویر دنیا کو نظر آجائے۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے

سورس

خلیفۂ ثالث و راشد ، پیکر حمیت و غنیت، ذوالنورین ، ذوالھجرتین ، ذوالبیعتین ، ذوالبشارتین ، ناشر القرآن ، مظلوم مدینہ ، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مختصر حالات زندگی ، مناقب و فضائل اور شھادت 
——————————
قسط نمبر 3 ( آخری قسط )

کربلا میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا پانی تین دن بند رہا یا دس دن ؟
( اس کی حقیقت کا پردہ میں اپنے سلسلۂ تحاریر ” خانوادۂ رسول صلی الله علیه وسلم اور سانحۂ کربلا ” میں شرالبریه کی کُتب سے چاک کر چکا ہوں دو دن بعد ان شاء الله ان تمام اقساط کو دوبارہ شئیر کرنا شروع کرونگا )
یہ بھی کوئی معمولی ظلم نہیں ، جو نواسۂ رسول ﷺ اور ان کے خانوادے پہ روا رکھا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اسلامی تاریخ کے سب سے بڑے مظلوم کو تو دیکھئے۔۔۔۔۔۔۔۔مظلوم عثمان جو دھرا داماد نبی ﷺ ہے، جو ناشر قرآن ہے، جو ذوالھجرتین ہے، جو ذوالبیعتین ہے، جسے کئی بار رسول اللہﷺ کی زبان مقدس سے جنت کی خوشخبریاں مل چکی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔اس پہ پانی تین دن نہیں ۔۔۔۔۔۔دس دن نہیں ۔۔۔۔۔۔بیس دن نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔تیس دن نہیں ۔۔۔۔۔۔۔پورے چالیس دن ۔۔۔۔۔ہاں! ہاں ! پورے چالیس دن پانی بند رہا! 
ذرا تصور کی آنکھ سے دیکھئے تو سہی ۔۔۔۔۔۔اس کے گھر نہ کھانا جانے دیا جارہا ہے۔۔۔۔۔۔نہ پانی ۔۔۔۔۔۔ان سے سوال کیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔عثمان ! اتنے دنوں سے پانی بند ہے۔۔۔۔۔جب پیاس کی شدت نڈھال کرتی ہے تو کیا کرتے ہو؟
عثمان نے وہ جواب دیا۔۔۔۔۔جو رہتی دنیا تک سُنہرے حروف سے لکھا جائیگا! 
فرمایا؛ جب پیاس کی شدت ناقابل برداشت ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔تو اللہ کے قرآن کی تلاوت شروع کردیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔قرآن پڑھتا جاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔پیاس بجھتی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔سبحان اللہ 
تمام اھل مدینہ کی پیاس بھجانے والا آج خود پیاسا ہے۔۔۔۔۔پھر کہوں گا تقابل نہ سمجھئے گا ۔۔۔۔۔۔۔اگر سیدنا حسین پیاسوں کے امام ہیں ۔۔۔۔۔۔۔تو سیدنا عثمان پیاسے اماموں کے امام ہیں ۔۔۔۔۔۔حسین پہ کربلا میں پانی بند ہوا ۔۔۔۔۔۔آپ نے کس کی مدد حاصل کی ؟ 
قرآن کی اور نماز کی !
حسین کو بھی جب کربلا کے بے آب و گیاہ دشت میں پیاس تنگ کرتی تھی ۔۔۔۔۔۔حسین بھی اپنا سر اسی معبود کے سامنے جھکادیتے تھے۔۔۔۔۔۔اسی کے کلام کی تلاوت شروع کردیتے تھے۔۔۔۔۔۔۔سجدوں میں محو ہوکے ۔۔۔۔۔۔قیام میں تلاوت قرآن کرتے ہوئے۔۔۔۔۔۔رات کے گھٹاٹوپ اندھیاروں میں تھجد کی نیت باندھ کے۔۔۔۔۔۔۔ اپنے خالق حقیقی سے راز و نیاز میں مشغول ہوجاتے تھے۔۔۔۔۔۔۔کہاں سے سیکھے تھے حسین نے یہ طریقے؟ 
رسول اللہﷺ سے بھی سیکھے تھے ۔۔۔۔۔اپنی امی جان سے بھی سیکھے تھے۔۔۔۔۔۔اپنے بابا علی رضی الله عنه سے بھی سیکھے تھے۔۔۔۔۔۔اور اپنے خالو عثمان رضی الله عنه سے بھی سیکھے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔جی ہاں عثمانیہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا۔۔۔۔۔اپنی آنکھوں کے سامنے عثمان کو شدت پیاس میں قرآن کی تلاوت اور رحمان کی عبادت کرتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔آج علی و عثمان رضی الله عنهما کی دشمنی کی جھوٹی کہانیاں سنانے والے کبھی یہ نہیں بتائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔محاصرے کی شدت میں سیدنا علی رضی الله عنه نے اپنے دونوں جوان بیٹوں کو عثمان کے دروازے کا پہریدار بنا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔اور یہ ڈیوٹی لگائی تھی۔۔۔۔۔۔خبردار باغیوں کو عثمان کے گھر میں داخل نہیں ہونے دینا۔۔۔۔۔البدایہ والنھایہ میں علامہ ابن کثیر رح تحریر فرماتےہیں۔۔۔۔۔۔۔سار الیه جماعة من ابناء الصحابه من امر آبائھم عن الحسن والحسین وعبدالله بن الزبیر وکان امیر الدار وعبداللہ بن عمر ( رضی الله عنھم ) ۔۔۔۔۔۔صحابۂ کرام کے بیٹوں کی ایک جماعت اپنے آباء کے حکم سے آپ کے دروازہ پہ پہنچی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔عبد اللہ بن زبیر رضی الله عنه ان مجاھدین کے امیر تھے۔۔۔۔۔ان میں سیدنا حسن ، سیدنا حسین ، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی الله عنھم وغیرہ تھے۔۔۔۔۔یہ باغیوں پہ تیر اندازی کرکے انہیں سیدنا عثمان رضی الله عنه کے گھر میں داخل ہونے سے روکتے تھے۔۔۔۔۔۔استیعاب میں علامہ ابن عبد البر لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔سیدنا علی رضی الله عنه نے اپنے دونوں شھزادوں ( حسن اور حسین ) کو سیدنا عثمان کے گھر کی حفاظت کےلئے بھیجا۔۔۔۔۔۔۔اور فرمایا۔۔۔۔عثمان کے دروازے پہ ( پہریدار بن کے ) کھڑے ہوجاؤ ۔۔۔۔۔۔۔اور کسی کو ان کے قریب نہ جانے دو۔۔۔۔۔۔باغیوں نے حملہ کرکے جب اندر جانے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔۔تو دونوں شھزادوں نے اپنے دوسرے ساتھیوں سمیت ان کا سخت مقابلہ کیا، حتاکہ زخمی اور خون آلود ہوگئے۔۔۔۔۔۔
میری نظر میں سیدنا علی رضی الله عنه کا اپنے شھزادوں کو سیدنا عثمان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ تربیت بھی دینا مقصود تھا۔۔۔۔۔۔ تاکہ انہیں پتہ چلے۔۔۔۔۔۔بھوکے پیاسے رہ کے سجدے کس طرح کئے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔بھوک اور پیاس کے ساتھ قید کس طرح کاٹی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔بھوکے پیاسے رہ کے قیام کیسے کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔بھوکے پیاسے رہ کے قرآن کیسے پڑھا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔بھوکے پیاسے رہ کے تلاوت کیسے کی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔بھوکے پیاسے رہ کے عبادت کس طرح کی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے کہنے دی جئے۔۔۔۔۔۔سیدنا علی رضی الله عنه کا یہ اقدام اس لئے تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔المؤمن ینظر بنور اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔مؤمن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔شاید تصور میں کہیں یہ خیال ہو۔۔۔۔۔۔کہ میرے شھزادوں پہ ایسا وقت کبھی نہ آجائے۔۔۔۔۔۔آج ان کی بھی تربیت ہوجائے۔۔۔۔۔۔شاید کل کو انہیں بھی پیاسا رہ کے سجدے کرنے پڑیں ۔۔۔۔۔۔۔۔شاید انہیں بھی پیاسا رہ کے تھجد پڑھنی پڑھے ۔۔۔۔۔۔۔شاید انہیں بھی پیاسا رہ کے قرآن کی تلاوت کرنی پڑے ۔۔۔۔۔۔۔شاید انہیں بھی پیاسا رہ کے رحمٰن سے باتیں کرنی پڑیں ۔۔۔۔۔۔۔۔سیکھ لو آج عثمانیہ یونیورسٹی سے۔۔۔۔۔۔یہ محبتوں کے کمالات ۔۔۔۔۔۔یہ وفاؤوں کے انداز۔۔۔۔ یہ عثمانیہ یونیورسٹی ہے۔۔۔۔۔۔۔یہ دار التربیت ہے۔۔۔۔۔۔یہاں درس توحید دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔یہاں درس سخاوت دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔یہاں درس عبادت دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں درس شھادت دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں پیاسوں کو سجدہ کے انداز سکھائے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں پیاسوں کو تلاوت کا طریقہ سکھایا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔یہاں معبود حقیقی کے در پہ سر کٹوانے کے انداز سکھائے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں پیاسوں کو حیاء و وفا کی حقیقی تصویر دکھائی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں پیاسوں کو صبر و رضا کی تفسیر پڑھائی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
یہ شھادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا۔
مجھے کہنے دی جئے۔۔۔۔۔۔۔سیدنا حسین رضی الله عنه نے پیاسا رہ کے قرآن پڑھنا یہیں سے سیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔عبادت میں سر دینا یہیں سے سیکھا ۔۔۔۔۔۔۔ سجدے میں سر کٹوانا یہیں سے سیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔اور وقت کے فرعونوں و ظالموں کے سامنے سر نہ جھکانا یہیں سے سیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی لئے کربلا میں جو انداز شھادت اور وفا و سخا کے انداز نظر آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔یہ تو جھلکیاں ہیں اس شھادت عثمان کی ۔۔۔۔۔۔۔جن کے دروازہ کا پہرہ دار بن کے حسین سیکھ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
” محاصرے کے دوران سیدنا عثمان رضی الله عنه کا تاریخی خطبہ” 
مسند امام احمد اور سیر کی دوسری کتب میں اس خطبہ کے الفاظ یوں ہیں،
محاصرہ کی شدت کے دوران ایک روز عثمان رضی الله عنه اپنے گھر کی چھت پہ چڑھے ۔۔۔۔۔۔۔باغیوں کی طرف توجہ کرکے یوں ارشاد فرمایا۔۔۔۔۔۔۔
کیا تمہیں معلوم ہے؟ رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کی تعداد بڑھنے کے بعد اور مسجد نبوی کے تنگ ہونے پہ ایک دن اعلان کیا ۔۔۔۔۔۔۔کون ہے جو اس زمین کو خرید کے مسجد کے لئے وقف کرے گا؟ اس کے صلہ میں میں اس کو جنت کی بشارت دیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔میں اٹھا اور زر کثیر خرچ کرکے وہ زمین کا ٹکڑا خریدا اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل میں اسے وقف کردیا ۔۔۔۔۔۔ظالمو آج تم مجھے اسی مسجد میں نماز پڑھنے سے روکتے ہو؟ 
تم اللہ کی قسم اٹھا کے بتاؤ ۔۔۔۔۔۔جب رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے تھے ۔۔۔۔۔میٹھے پانی کی عدم دستیابی پہ فرمایا تھا۔۔۔۔۔۔کون ہے ؟ جو بئر رومہ کو خرید کے مسلمانوں کی پیاس بھجائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے اس حکم کی تعمیل کی تو آپ ﷺ نے زبان نبوت سے مجھے جنت کی بشارت دی تھی۔۔۔۔۔۔۔ آج تم مجھے اسی کنویں سے پانی پینے سے روکتے ہو؟ 
کیا تم جانتے ہو ؟ کہ عسرت کے لشکر( غزوۂ تبوک ) کو میں نے ہی ساز و سامان سے آراستہ کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔کیا تم جانتے ہو ؟ کہ مکہ میں رسول اللہﷺ نے مجھے حدیبیہ سے اپنا سفیر بنا کے بھیجا تھا؟ تو کیا اپنے دست مبارک کو میرا ہاتھ قرار نہیں دیا تھا؟ اور میری طرف سے خود بیعت نہیں فرمائی تھی؟ 
کیا تمہیں یاد ہے؟ ایک بار آپ ﷺ پہاڑ پہ چڑھے اور پہاڑ ہلنے لگا۔۔۔۔۔۔آپ ﷺ نے پہاڑ کو پاؤں سے ٹھوکر مار کے فرمایاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے پہاڑ ٹہر جا۔۔۔۔۔۔تیری پیٹھ پہ اس وقت ایک نبی ، ایک صدیق اور ایک شھید کھڑے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اور پہاڑ ٹھر گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ سب نے کہا کہ آپ سچ کہ رہے ہیں ۔۔۔۔۔یہ سب سن کے اور تصدیق کرکے بھی محاصرہ ختم نہیں کیا۔۔۔۔۔بلکہ پہلے سے بھی سخت کردیا۔۔۔۔۔۔۔۔اسی لئے اقبال نے کہا تھا! 
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پہ کلام نرم و نازک بے اثر 
وہ باغی۔۔۔۔۔جو عقل کے اندھے تھے۔۔۔۔۔۔جن کے کان حق و صداقت کی آواز سے نا آشنا تھے ۔۔۔۔۔۔جن کے دلوں پہ مہریں لگ چکی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔جن کے ضمیر مردہ ہوچکے تھے۔۔۔۔۔۔ بھلا ان پہ ایسی باتوں کا کیا اثر ہوتا؟ 
وہ تو انسانوں کی شکل میں بھیڑئے اور درندے تھے۔۔۔۔۔۔۔وہ تو عثمان رضی الله عنه کے خون سے اپنی پیاس بھجانا چاہتے تھے۔۔۔۔۔۔ وہ آج فیصلہ کرچکے تھے۔۔۔۔۔۔ہم نے وفا و حیا کے پیکر ۔۔۔۔۔صاحب جود و سخا ۔۔۔۔۔۔نبی ﷺ کی آنکھوں کے نور ۔۔۔۔۔۔۔نبی ﷺ کے دل کے سرور ۔۔۔۔۔۔جس کے لئے نبی ﷺ نے یوں کہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں ۔۔۔۔۔۔تو میں یکے بعد دیگرے عثمان کے نکاح میں دیتا چلا جاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ نہ مجھے عثمان سے بہتر داماد ملے گا ۔۔۔۔۔۔اور نہ ہی عثمان کو مجھ سے بہتر سُسر ملے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس عثمان رضی الله عنه کو آج شھید کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیدنا عثمان ان کے انداز و اطوار دیکھ کے اھل مدینہ کو فرماتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ یا اھل المدینة انی استودعکم اللہ واسئله یحسن علیکم الخلافة من بعدی ۔۔۔۔۔۔۔ اے اھل مدینہ ؛ میں تمہیں الله کے حوالے کرتا ہوں ، اور الله سے دعاء کرتا ہوں ، کہ میرے بعد تمہیں اچھا خلیفہ عطاء فرمائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر آپ نے اھل مدینہ کو فرمایا۔۔۔۔۔۔میری طرف سے کسی کو جنگ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔۔۔۔۔بلکہ تم سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔واقسم علیھم فرجعوا الاالحسن ومحمد وابن الزبیر واشباھالھم فجلسوا باالباب من امر آبائھم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور انہیں قسم دی ۔۔۔۔۔۔کہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں مگر حضرت حسن بن علی ، حضرت محمدبن طلحہ ، حضرت عبداللہ بن زبیر ودیگر نوجوان رضی الله عنهم اپنے آباء کے حکم سے وہیں ٹھرے رہے۔۔۔۔۔۔۔سیدنا عثمان نے رسول اللہ کے چچا زاد بھائی سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی الله عنه کو بلا کے فرمایا۔۔۔۔۔۔آپ حج پہ چلے جائیں ۔۔۔۔۔۔۔آپ نے جواب دیا ۔۔۔۔۔۔واللہ یا امیرالمؤمنین لجھاد ھٰئولاء احب الی من الحج ۔۔۔۔۔۔۔اللہ کی قسم اے امیر المؤمنین ، آپ کی حفاظت کا جھاد مجھے حج سے زیادہ محبوب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیدنا عثمان غنی کو آپ ﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق پورا یقین تھا ۔۔۔۔۔۔۔کہ شھادت میرا مقدر ہوچکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ سرکار دوعالم نے کئی بار آپ کو شھادت کی خوش خبری سنائی تھی۔۔۔۔۔۔۔اور صبر و استقامت کی تاکید فرمائی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جمعہ کا روز ہے۔۔۔۔آپ روزے سے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔بیٹھے بیٹھے آنکھ لگ گئی ۔۔۔۔۔۔خواب میں دیکھا۔۔۔۔۔۔۔آپ ﷺ تشریف فرما ہیں ساتھ ابو بکر صدیق اور عمر فاروق رضی الله عنهما بھی بیٹھے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔اور ان سے کہ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔عثمان جلدی کرو۔۔۔۔۔۔تمہارے افطار کے ہم منتظر ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیدنا عثمان رضی الله عنه بیدار ہوئے۔۔۔۔۔۔۔گھر والوں سے خواب کا تذکرہ کیا۔۔۔۔۔۔۔اور فرمایا۔۔۔۔آج باغی مجھے قتل کرڈالیں گے ۔۔۔۔۔۔۔میری شھادت کا وقت آن پہنچا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اپنی اہلیہ سےفرمایا ۔۔۔۔۔۔میرا وہ پائجامہ جو میں نے کبھی نہیں پہنا ۔۔۔۔۔۔مجھے وہ لادو۔۔۔۔۔سیدنا عثمان کی حیاء دیکھئے۔۔۔۔۔کہ خوف ہے شھادت کے بعد بھی کوئی میرا جسم نہ دیکھ لے۔۔۔۔۔۔پائجامہ لایا گیا ۔۔۔۔۔آپ نے پائجامہ پہن لیا ۔۔۔۔۔۔گھر میں بیس غلام موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔انہیں آزاد کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔اور الله کے قرآن کو کھول کے اپنے سامنے رکھ کے اس کی تلاوت شروع کردیتے ہیں

امام مظلوم نے شھادت کی تیاری مکمل کرلی ۔۔۔۔۔۔اب تو انتظار ہے کب اپنے محبوب سے ملاقات ہو۔۔۔۔۔

آپ تلاوت کلام پاک میں مشغول ہیں ۔۔۔۔۔۔سامنے سے تو باغیوں کا اندر داخل ہونے کا بس نہ چلا۔۔۔۔۔۔پچھلی طرف عمروبن حزم کے گھر کی طرف سے دیواریں پھلانگ کے کے چھت پہ چڑھے ۔۔۔۔۔۔گھر میں گھسے ۔۔۔۔۔۔آتے ہی محمد بن ابی بکر نے آپ کی داڑھی پکڑ کے کچھ بُرا کہا ۔۔۔۔۔۔سیدنا عثمان نے کہا بھتیجے آج تیرا باپ زندہ ہوتا تو وہ بھی یہ جرات نہ کرتا ۔۔۔۔اور نہ ہی تمہاری اس حرکت کو پسند کرتا ۔۔۔۔۔۔۔۔محمد بن ابی بکر شرمندہ ہوکے پیچھے ہٹ گئے۔۔۔۔۔۔۔کئی روایات کے مطابق محمد بن ابی بکر آخر تک قاتلوں کے ساتھ رہا اور اپنے ہاتھ میں موجود قینچی سے وار کرتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک باغی سودان بن حمران نے آپ کے سر پہ لوہے کی ایک لاٹ اس زور سے ماری ۔۔۔۔۔کہ آپ پہلو کے بل گر پڑے۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کی زبان سے اس وقت یہ کلمہ نکلا ۔۔۔۔۔۔۔بسم الله توکلت علی الله ۔۔۔۔۔۔۔۔سودان بن حمران نے چھرے پہ دوسری ضرب لگائی ۔۔۔۔۔آپ کے سامنے کے دانت ٹوٹ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔منہ سے خون کا فوارہ چھوٹ گیا ۔۔۔۔۔۔جو سیدھا قرآن مجید کی اس آیت پہ جاکے گرا ۔۔۔۔۔۔۔فسیکفیکھم الله وھوالسمیع العلیم ۔۔۔۔۔۔۔۔پس ان کو اللہ کافی ہے ، اور وہی ہے سننے والا ، جاننے والا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ نے اپنا خون بہتے ہوئے دیکھا۔۔۔۔۔۔تو بے اختیار کہا ۔۔۔۔۔۔۔سبحان الله العظیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ملعون غافقی نے پاؤں کی ٹھوکر مار کے قرآن مجید کو پرے کیا جس سے اس کے اوراق بکھر گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔کنانہ بن بشیر بن عتاب نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی بڑی سی قینچی سے آپ کے چہرے اور ماتھے پہ ضربیں لگائیں ۔۔۔۔۔۔۔عمرو بن الحمق آپ کے سینے پہ چڑھ گیا ۔۔۔۔۔۔جسم کے مختلف حصوں پہ نیزے کے نو وار لگائے۔۔۔۔۔۔ان کے ہمراہ نو افراد اور بھی ہیں ۔۔۔۔۔۔جو اپنے اپنے ہتھیاروں سے سیدنا عثمان کو زخم لگا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ایک بدبخت نے تلوار کا وار کیا ۔۔۔۔۔آپ کی بیوی حضرت نائلہ نے بچانے کے لئے ہاتھ آگے کیا ۔۔۔۔۔۔۔ان کے ہاتھ کی تین انگلیاں کٹ گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔پے درپے قینچیوں ، نیزوں ، اور تلواروں کے زخم لگتے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔باالآخر آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔۔۔۔۔۔انا لله وانا الیه راجعون ۔۔۔۔۔۔جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی ۔۔۔۔۔حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی کی شھادت کی گواہی بدر کا میدان دے گا ۔۔۔۔۔۔کسی کی شھادت کی گواہی مکہ کی گلیاں دیں گی۔۔۔۔۔۔کسی کی شھادت کی گواہی حجاز کے صحرا دیں گے ۔۔۔۔۔کسی کی شھادت کی گواہی میدان کرب و بلا دے گا ۔۔۔۔۔۔۔کسی کی شھادت کی گواہی رسول اللہ کا مصلٰی دے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی کی شھادت کی گواہی احد کا میدان دے گا ۔۔۔۔۔۔۔لیکن مظلوم مدینہ کی شھادت کی گواہی الله کا قرآن دے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رسول اللہ کا روضہ قیامت کے دن کھلے گا ۔۔۔۔۔۔تو اندر سے صدیق و فاروق نکلیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔قرآن کھلے گا تو اندر سے عثمان نکلیں گے۔۔۔۔۔۔۔اسی لئے آج عثمان کے دشمنوں کو قرآن نصیب نہیں ۔۔۔۔۔۔نہ ہی قیامت تک نصیب ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت نائلہ نے چھت پہ چڑھ کے شور مچایا ۔۔۔۔۔۔۔کہ امیر المؤمنین کو شھید کردیا گیاہے۔۔۔۔۔۔۔مدینہ کی گلیوں میں کہرام برپا ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔سیدنا علی دوڑتے ہوئے آئے۔۔۔۔۔۔۔اور آتے ہی سب کو ڈانٹا لیکن اپنے بیٹوں حسن و حسین رضی اللہ عنھما کو مارا۔۔۔۔۔۔۔۔روایت کے الفاظ یوں ہیں ۔۔۔۔۔کیف قتل امیر المؤمنین وانتما علی الباب ورفع یدہ فلطم الحسن وضرب صدر الحسین۔۔۔۔۔۔۔دروازے پہ تمہاری پہریداری کے باوجود امیر المؤمنین کس طرح قتل کردئے گئے؟ سیدنا حسن کے چہرے پہ تھپڑ مارا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیدنا حسین کے سینے پہ ضرب لگائی۔۔۔۔۔۔۔سیدنا علی کا یہ طرز عمل ان کی سیدنا عثمان سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے جوان بچوں کو سب کے سامنے مارنا ۔۔۔۔۔۔۔پھربھی کسی کو ان کی جھوٹی دشمنی کے چرچے کرنے ہیں تو وہ جانے اور اللہ جانے۔۔۔۔۔۔۔۔شھادت کے بعد باغیوں نے آپ کا سر کاٹنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔لیکن گھر میں موجود خواتین نے ان کی یہ یہ کوشش ناکام بنا دی۔۔۔۔۔شھادت کے بعد ایک ملعون عمر بن ضابی آپ کی زیارت کے بہانے سامنے آیا اور آپ کی پسلی پہ وار کرکے پسلی توڑ ڈالی۔۔۔۔۔۔امام بخاری اپنی تاریخ میں محمد بن سیرین سے روایت کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔محمد بن سیرین کہتے ہیں میں بیت اللہ کا طواف کررہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔میں نے دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔ایک شخص یوں دعا کررہا ہے۔۔۔۔۔۔۔اللھم اغفر لی ومااظن ان تغفر لی۔۔۔۔۔۔۔اے اللہ مجھے معاف فرمادے، اور میرا گمان یہ ہے، کہ تو مجھے معاف نہیں کرےگا۔۔۔۔۔۔۔میں نے اسے کہا، اے اللہ کے بندے تو کس طرح کی دعامانگ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے تو آج تک کسی کو اس طرح کی دعاء مانگتے نہ دیکھا ، نہ سنا ۔۔۔۔۔۔۔اس نے جواب دیا ۔۔۔۔۔۔میں نے اپنے دل میں یہ عھد کیا تھا ۔۔۔۔۔۔کہ اگر میں عثمان کو تھپڑ مار سکا تو ضرور ماروں گا۔۔۔۔۔۔۔آپ کی شھادت کے بعد میں آپ کے گھر زیارت کے بہانے داخل ہوا۔۔۔۔۔۔لوگوں کی نگاہ بچا کے آپ کے چہرہ سے کپڑا ہٹا کے آپ کے چہرے پہ تھپڑ مارا۔۔۔۔۔۔اسی روز میرا دایاں ہاتھ سوکھ گیا۔۔۔۔۔محمد بن سیرین کہتے ہیں ۔۔۔۔۔میں نے اس کا ہاتھ دیکھا ۔۔۔۔۔۔تو یابسة کانھا عود۔۔۔۔۔۔۔اس طرح سوکھا ہواتھا ، جیسے سوکھی ہوئی لکڑی ہوتی ہے۔۔۔۔۔پسلی کا توڑنا ۔۔۔۔۔۔۔۔منہ پہ طمانچے مارنا ۔۔۔۔۔۔نعش کو بےگور و کفن رکھنا ۔۔۔۔۔۔۔یہ وہ مظالم ہیں جو مظلوم مدینہ کے ساتھ شھادت کے بعد کئے گئے۔۔۔۔۔۔۔باغیوں نے اعلان کردیا ۔۔۔۔۔۔نہ تو عثمان کا جنازہ پڑھنے دیا جائےگا ۔۔۔۔۔۔۔نہ ہی مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت دی جائےگی۔۔۔۔۔۔۔۔طبری کے الفاظ ہیں والله لایدفن فی مقابر المسلمین ۔۔۔۔۔۔۔اللہ کی قسم یہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کئے جائیں گے۔۔۔۔۔بار بار اعلانات ہورہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔تین دن گذر جاتے ہیں نعش مبارک بے گور و کفن پڑی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔باالآخر ام المؤمنین سیدتنا ام حبیبہ رضی اللہ عنھا باھر آتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔مسجد نبوی کے دروازے پہ کھڑی ہوکے اعلان کرتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔اے باغیو ! میں ام حبیبہ زوجۂ رسول ہوں ۔۔۔۔۔۔ یا تو عثمان کا جنازہ پڑھنے اور انہیں دفن کرنے کی اجازت دے دو یا پھر میں بے حجاب ہوکے تمہارے مقابلہ پہ آجاؤں گی۔۔۔۔۔۔۔۔اور خود تجہیز و تکفین کا بندوبست کرونگی۔۔۔۔۔۔۔۔سیدہ ام حبیبہ سلام اللہ علیھا کے اس اعلان کے بعد باغیوں کو جرات نہ ہوئی کہ سامنے آکے روکیں ۔۔۔۔۔۔۔رات کا وقت ہے۔۔۔۔۔۔ سیدنا علی مرتضی سیدنا حسن مجتبی ودیگر صحابۂ کرام جنازہ اٹھاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔جنت البقیع کی طرف بڑھنے لگتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔باغی لوگوں کے گھروں کی چھتوں پہ چڑھ کے جنازے پہ سنگ باری شروع کردیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لوگوں کے جنازوں پہ پھولوں کی بارش ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔محسن اسلام مظلوم مدینہ کے جنازے پہ پتھروں کی بارش ہورہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔سیدہ نائلہ کٹی ہوئی انگلیوں والے ہاتھ میں چراغ لے کے ساتھ ساتھ جارہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔روضۂ رسول کے سامنے سے گذرتی ہیں تو۔۔۔۔۔۔زبان حال سے پکار اٹھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔یارسول اللہ اپنے پیارے عثمان کا جنازہ دیکھ لی جئےکہ ۔۔۔۔۔۔جن کے جنازے پہ بھی پتھر برسائے جارہےہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے تاریخ اسلام نہیں ۔۔۔۔۔تاریخ عالم کا کوئی ایسا مظلوم تو دکھائیے ۔۔۔۔۔۔۔۔جس کی شھادت کے بعد اس کے چہرے پہ تھپڑ مارے گئے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔جس کی شھادت کے بعد اس کی پسلیاں توڑی گئی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔اور تو اور ۔۔۔۔۔۔۔۔جس کے جنازے پہ بھی پتھر برسائے گئے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔تاریخ عالم کا سب سے بڑا مظلوم عثمان جب جنت البقیع کے ایک کونے میں دفن کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔تو بتلانے والے بتلاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔آپ رسول اللہ کی رضاعی والدہ سیدہ حلیمہ سعدیہ کے پہلو میں دفن ہورہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔واہ عثمان تیری شان پہ قربان ۔۔۔۔۔۔تجھے قبر کی جگہ ملی تو کہاں رسول اللہ کی رضاعی والدہ کے پہلو میں۔۔۔۔۔سبحان اللہ۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔

چند کتب کی روایات جن میں شھادت کا تذکرہ ہے۔
طبقات ابن سعد کی روایت ہے، عمرو بن حزم کے گھر سے دیوار پھاند کر محمد بن ابی بکر، ( محمد بن ابی بکر ، ابو بکر صدیق اور اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھا کے بیٹے تھے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد اسماء بنت عمیس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے نکاح کرلیا تھا ، محمد بن ابی بکر کی عمر اس وقت ڈیڑھ دو سال تھی ، ان کی پرورش و پرداخت سیدنا علی کے گھر میں ہوئی تھی ، لیکن اس کے کسی قول و فعل کے ذمہ دار نہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں نہ ہی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، کہ اچھوں کے گھر میں برے اور بروں کے گھر میں اچھے ہمیشہ سے پیدا ہوتے آئے ہیں ) حضرت عثمان رضی اللہ عنہکے گھر میں داخل ہوگئے اور ان کے ساتھ کنانہ بن بشیر بن عتاب، سودان بن حمران اور عمرو بن الحمق تین آدمی اور بھی تھے۔ جب داخل ہوئے تو عثمان رضی اللہ عنہ کودیکھا کہ وہ اپنی اہلیہ کے پاس بیٹھے قرآن کریم سے سورۃ البقرۃ کی تلاوت کررہے تھے۔ ان حملہ آوروں میں سے محمد بن ابی بکر آگے بڑھا اور جناب عثمان رضی اللہ عنہ کی داڑھی پکڑ لی اور کہنے لگا:
((اخزاک اللہ یا نعشل))
"اللہ تجھے رسوا کرے”۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
((لست بنعشل ولکن عبداللہ امیر المومنین))
"میں نعشل نہیں ہوں بلکہ اللہ کا بندہ اور مومنوں کا امیر ہوں”۔
( نعثل کا مطلب ہے لمبی داڑھی والا بوڑھا احمق ) 
یہ سن کر محمد بن ابی بکر بولا:
((ما اغنی عنک معاویۃ و فلان وفلان))
"تمہیں معاویہ اور فلاں فلاں نے کیا فائدہ دیا’؟
عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
((یا ابن اخی دع عنک فما کان ابوک لیقبض علی ما قبضت علیہ))
"اے برادرزادے ! میری داڑھی چھوڑ دے یہ جراءت تو تیرے والد بھی نہ کرتے جس کا مظاہرہ آج تو نے کیا”-
محمد بن ابی بکر بولا:
"داڑھی پکڑنے سے تو کہیں بڑھ کر ایک کام کرنے کا ارادہ ہے”۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے استغفراللہ کہی اور اللہ سے مدد طلب کی۔ اس کے بعد محمد بن ابی بکر نے ہاتھ میں پکڑی قینچی سے عثمان رضی اللہ عنہ کی پیشانی زخمی کردی۔ ادھر کنانہ بن بشیر نے ان قینچیوں سے آپ رضی اللہ عنہ کو زخمی کردیا جو اس کے ہاتھ میں تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کے کانوں کی جڑ پر زخم لگائے جو حلق تک اتر گئے پھر تلوار سے آپ رضی اللہ عنہ پر حملہ آور ہوا۔ پھر اس وقت چھوڑا جب آپ رضی اللہ عنہشہید ہوگئے۔(طبقات ابن سعد، جلد سوم، ص 73، بیروت)

البدایۃ والنہایۃ کی روایت؛ 
محمد بن ابی بکر نے کہا:
((ای دین انت یا نعشل؟))
"تو کس دین پر ہے اے نعشل”؟
عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
((دین الاسلام))
"دین اسلام پر”۔
محمد بن ابی بکر بولا:
((غیرت کتاب اللہ))
"تم نے کتاب اللہ کو تبدیل کر دیا ہے”۔
عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
((کتاب اللہ بینی وبینکم))
"کتاب اللہ میرے اور تمہارے درمیان ہے”۔
یہ سن کر محمد بن ابی بکر آگے بڑھا اور عثمان رضی اللہ عنہ کی داڑھی پکڑ لی اور کہنے لگا:
((انا لا یقبل منا یوم القیامۃ ان نقول ربنا انا اطعنا سادتنا وکبرا نا فاضلوناالسبیلا))
"اگر کل قیامت کو ہم یہ کہیں اے اللہ ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی انہوں نے صراط مستقیم سے بہکا دیا تو ہمارا یہ بہانہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا”۔
پھر اس نے آپ رضی اللہ عنہ کو کمرے سے نکال کر حویلی کے دروازے تک گھسیٹا۔ اس دوران حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرما رہے تھے:
((یا ابن اخی ماکان ابوک لیاخذ بلحیتی))
"بھتیجے! تیرا باپ میری داڑھی پکڑنےکی جرات 
نہ کرتا”۔(البدایہ والنہایہ، جلد ہفتم، ص 185)

ازالۃ الخفاء کی روایت ؛ 
محمد بن ابی بکر ان تیرہ آدمیوں میں سے ایک تھا (جو عثمان رضی اللہ عنہ پر حملہ آور تھے) یہاں تک کہ محمد بن ابی بکر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو ان کی داڑھی پکڑ لی، پکڑ کر خوب جھنجھوڑا یہاں تک کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے دانت آپس میں بجنے لگے۔ محمد بن ابی بکر نے کہا:
((ما اغنی عنک معاویہ ما اغنی عنک ابن عامر ما اغنت عنک کتبک))
"اے عثمان! نہ معاویہ تمہارے کوئی کام آیا اور نہ ابن عامر اور نہ ہی تمہارے رقعہ جات کچھ کام آسکے”۔
عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"بھتیجے میری داڑھی چھوڑ دے”۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ محمد بن ابی بکر نے ایک مخصوص شخص کو اپنی طرف متوجہ کیا اور اس نے قینچی سے عثمان رضی اللہ عنہ پر حملہ کرکے زخمی کردیا اور سر میں چبھا چھوڑا کر باہر گیا۔ پھر دوسرے حملہ آور اند آئے اور انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا۔(ازالۃ الخفاء، جلد چہارم، ص 361، مطبوعہ آرام باغ کراچی)

الاستیعاب کی روایت ؛ 
محمد بن ابی بکر ان لوگوں میں شامل ہے جو قتل عثمان رضی اللہ عنہ کے وقت موجود تھے اور کہا گیا ہے کہ یہ ان کی خونریزی میں شریک تھا۔ اہل علم و خبر کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ محمد بن ابی بکر عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کرنے میں شریک تھا۔ اور جب عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے یہ کہا کہ اگر تیرا باپ آج تجھے اس حالت میں دیکھ پاتا تو وہ خوش نہ ہوتا۔ یہ سن کر محمد بن ابی بکر وہاں سے نکل گیا اور عثمان رضی اللہ عنہ کا پیچھا چھوڑ دیا پھر وہ لوگ اندر آگئے جنہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ محمد بن ابی بکر کے اشارے پر لوگوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا”۔(الاستیعاب برحاشیہ الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ، جلد سوم، ص 49، بیروت)۔

کنانہ بن بشیر سودان بن حمران اور عمرو بن حمق کا کردار
طبقات ابن سعد کی روایت ؛
کنانہ بن بشیر نے عثمان رضی اللہ عنہ کے ماتھے اور سر کے اگلے حصے پر ایک لوہے کے ڈنڈے سے ضرب لگائی اس پر آپ پہلو کے بل گر پڑے۔ سودان بن حمران نے پہلو کے بل گرنے کے بعد مارا جس سے آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت واقعہ ہوئی۔ عمر بن حمق آپ رضی اللہ عنہ پر جھپٹا اور آپ رضی اللہ عنہ کے سینے پر جا بیٹھا اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کے کچھ سانس باقی تھے اس نے آپ کو 9 نیزے مارے اور کہنے لگا ان میں سے تین میں نے اللہ کی رضا کی خاطر مارے ہیں اور بقیہ چھ اس وجہ سے کہ میرے دل میں عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ میل تھا۔
زبیر بن عبداللہ اپنی جدہ سے بیان کرتے ہیں کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ کو برچھوں سے مارا جا رہا تھا تو آپ بسم اللہ اور توکلت علی اللہ کے الفاظ کہے اور خون کے قطرے آپ رضی اللہ عنہ کی داڑھی میں سے گر رہے تھے اور قرآن کریم آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی بائیں جانب ٹیک لگائی اور سبحان اللہ العظیم آپ رضی اللہ عنہ کی زبان پر تھا۔ موجود تمام بلوائیوں نے آپ رضی اللہ عنہ پر حملہ کردیا اور شہید کردیا۔(طبقات ابن سعد، جلد سوم، ص 74)

شہادت عثمان رضی اللہ عنہ پر چند جلیل القدر صحابہ کرام کے تاثرات:
ا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ:
"اگر تمام لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں شریک ہوجاتے تو ان سب پر پتھر برستے جس طرح قوم لوط پر برسائے گئے۔ اگر لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا مطالبہ(قصاص) نہ کرتے تو آسمانوں سے ان پر پتھر برستے”۔(ابن سعد،3/80)
ب۔سیدنا حمید ساعدی رضی اللہ عنہ:
"عثمان رضی اللہ عنہ بدری صحابہ میں سے ہیں۔ اے اللہ تیری خاطر میں اپنے اوپر فلاں فلاں کام کرنے کو منع کر رہا ہوں اور یہ بھی عہد کرتا ہوں کہ مرنے تک ہنسی نہیں کروں گا”۔(ابن سعد، 3/81)
پ۔سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ:
"اگر ان لوگوں کی بد اعمالی پر احد پہاڑ ان کی پیٹھ پر آ پڑے تو بجا ہے جنہوں نے عثمانرضی اللہ عنہ کے قتل میں شرکت کی”۔(ریاض النضرہ، 3/18)
ت۔سیدنا طاؤس رضی اللہ عنہ:
ایک شخص نے آپ رضی اللہ عنہ سے کہا:
"میں نے فلاں آدمی سے بڑھ کر اللہ پر جرات کرنے والاکوئی نہیں دیکھا”،
فرمایا:
"تو نے عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل نہ دیکھے "؟ (وہ جرات میں اس فلاں سے کہیں بڑھے ہوئے تھے)۔(اخرجہ البغوی)۔
ج۔عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ:
"حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرکے لوگوں نے قیامت تک کے لئے اپنے اوپر فتنہ کا دروازہ کھول دیا جو کبھی بند نہ ہوگا”۔(ریاض النضرہ، 3/81)

د- قتل عثمان رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نظر میں:
محمد ابن حنفیہ ؒ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جنگ جمل کے دن قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر لعنت بھیجی اور فرمایا:
"قاتلین عثمان پر پہاڑوں اور ہموار زمین ہر جگہ اللہ کی لعنت ہو”،
جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خبر پہنچی کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر لعنت بھیجتی ہیں تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"میں بھی عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں پر لعنت بھیجتا ہوں”۔(ریاض النضرہ، 3/79)
ذ۔سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور شہادت عثمان رضی اللہ عنہ:
"اللہ قاتلان عثما ن پر لعنت بھیجے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کو علی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا ہے(معاذاللہ)۔ اللہ کی ٰ عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں پر لعنت ہو”۔(ریاض النضرہ، 3/80)
عبداللہ ابن حسن بن علی رحمہ اللہ علیہ کا غم:
ح۔ امام حسن رضی اللہ عنہ کے فرزند جب بھی عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا واقعہ سنتے تو رو پڑتے جس سے آپ رحمہ اللہ علیہ کی داڑھی تر ہوجاتی”۔(اخرجہ ابن السمان)

سورس

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.