تکمیلِ دین،اتمام نعمت اور ختم رسالت از قاری حنیف ڈار
آیتِ سیف اور سورہ توبہ 4، اللہ پاک کی سنت رھی ھے کہ رسول کی بعثت کے ساتھ ھی انسانیت تین طبقات میں بٹ جاتی ھے ۔ رسول کو ماننے والے جو مومن و مسلم کہلاتے ھیں ،، رسول کے منکر جو کافر کہلاتے ھیں ،، وہ لوگ جو اپنی کم ھمتی کی وجہ سے نہ مومن کی طرح سر کٹا سکتے ھیں اور نہ ھی کفر کی طرف سے ڈٹ کر لڑ سکتے ھیں جو منافق کہلاتے ھیں ، یہ تین طبقات ھر رسول کے زمانے میں پائے گئے ھیں ، ختم رسالت کے بعد اب قیامت تک انسانیت میں یہ مزید تقسیم نہیں ھو گی ، نہ ھی کوئی ایسا رسول یا نبی یا امام وارد ھو گا کہ جس کے ماننے یا نہ ماننے پر اسلام و ایمان کا دارومدار ھو اور انسانیت ایک دفعہ پھر کسی تقسیم سے دوچار ھو ،، یہ اللہ پاک کی دائمی حکمت اور ابدی وسرمدی علم میں پہلے سے طے تھا ،،اس لئے فرما دیا کہ ” ( الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ) المائدة/3، آج تمہارا دین مکمل کر دیا گیا ھے ، اور تم پر اپنی نعمت ( رسالت ) کا اتمام کر دیا ھے اور اسلام کو بطور دین تمہارے لئے پسند کر لیا گیا ھے ،، دوسری جانب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو خطاب کر کے فرمایا کہ
” (( قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (136) فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (137) کہہ دو کہ ھم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو نازل کیا گیا ھماری طرف اور جو نازل کیا گیا طرف ابراھیم ، اسماعیل ،اسحاق ،یعقوب اور اولاد یعقوب کے اور دیا گیا بطور شریعت موسی عیسی اور جو دیئے گئے نبی اپنے رب کی طرف سے ، ھم ان میں کوئی تفریق نہیں کرتے” سب پر اجتماعی ایمان رکھتے ھیں ،، (136) پھر اگر یہ ایمان لائیں انہیں باتوں پر جن پر ایمان لائے ھو تم تو بس ھدایت پا گئے ، اور اگر منہ پھیر لیں ان سے توبے شک وہ ٹوٹ کر الگ ھو گئے ،پھر اللہ کافی ھے ان کو آپ کی طرف سے اور وہ دائمی سننے والا ازلی و ابدی علم رکھنے والا ھے (137)، بس اب قیامت تک ھدایت کے سرٹیفیکیٹ کے لئے یہی پیکیج ھے ، اس میں اب کوئی نیا نبی یا رسول یا امام نہیں ڈالا جا سکتا ۔
شیعہ اثنا عشریہ کے یہاں امامت کے سلسلے کو نبوت کی جگہ عصمت دے کر چلانے اور اس کو ایمان و اسلام کا دارو مدار قرار دینے کے بعد تقسیم در تقسیم کا عمل جب شروع ھوا ، اور ھر امام کے دعوئ امامت کے نتیجے میں جس طرح کچھ لوگ ان کو مانتے اور کچھ نئے امام کا انکار کر کے بقول ان کے ایمان سے خارج ھو جاتے جو شیعیت میں دوسرا فرقہ بن جاتے ، اور شیعہ نے دیکھا کہ ھر امام کی بعثت ان کو تقسیم در تقسیم کر کے کمزور کر دیتی ھے ، دوسری جانب حکومتیں بھی ھماری دشمن بنی ھوئی ھیں تو اس تقسیم کو 12 سے اوپر لے جانے کی بجائے انہوں نے 12 واں امام ھی غائب کر دیا تا کہ اس تقسیم کو روکا جائے، لہذا اب دنیا مسلم اور غیر مسلم کی تقسیم میں ھی چلے گی تا آنکہ حشر میں اپنے منبع حیات کے سامنے جا کھڑی ھو ، رسالت یا نبوت کی صورت کبھی کسی امتحان سے دوچار نہیں ھو گی، کتاب اللہ کو محفوظ کر دیا گیا ھے تا کہ قیامت تک اصل ٹیکسٹ موجود رھے اور حقیقت مختلف عبقریوں کی تفسیروں اور شرحوں میں کھو نہ جائے اور نہ ھی کچھ مقدسوں ( Saints ) کی طبائع کی جولانیاں صراطِ مستقیم کو پگڈنڈیوں میں تقسیم کر سکیں ، رستے کو نسل در نسل قرآن پر تولنا ھے ، اور قرآن سے ھی ماپنا ھے اور قرآن سے ھی چھاننا اور پھٹکنا ھے ۔
ایک کپڑے کو ایک میٹر سے ماپ کر کاٹا جائے ، پھر میٹر چھوڑ دیا جائے اور اس ایک میٹر کے کٹے ھوئے کپڑے سے ناپ کر نیا کپڑا کاٹا جائے ، پھر نئے کپڑے یا مزید نیا کپڑا کاٹا جائے تو چار پانچ میٹر کے بعد ایک دو انگل کپڑے کا فرق پڑ جاتا ھے ، جب دین کو ھر زمانے میں لوگوں نے ” سینٹ پالوں "سے ماپا تو عیسائیت کی صورت نکل آئی ، اس قسم کی صورتحال سے بچنے کے لئے قرآن کو بطور میزان و فرقان قیامت تک باقی رکھا گیا تا کہ لوگوں کے پاس اپنی گمراھی کا کوئی عذر باقی نہ رھے ،، جہاں شک پڑے اس میزان کونکالو ، اس کا ٹیکسٹ اور سیاق و سباق دیکھو اور پھر تقدس کا جبہ اتار کر قرآن کے قدموں میں رکھ دو اور قرآنِ مقدس کی مانو اور صراط مستقیم پر رھو ، کیونکہ اول زمانے سے دین میں تغیر وتبدل کا جرم مقدسین کے ھاتھوں ھوتا آیا ھے، اور باڑ اپنے کھیت کو کھاتی آئی ھے جو محافظ بنائے گئے تھے وہ لٹیرے نکلتے رھے ھیں اور لوگ تقدس کے نشے میں ان کے پیچھے چلتے آئے ھیں۔
(( اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لا إِلَهَ إِلا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (توبہ -31) ” ان لوگوں نے اپنے مشائخ اور علماء کو رب کا درجہ دے دیا اور مسیح ابن مریم کو بھی ۔ جبکہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ بس ایک ھی الہ کی بندگی کرنی ھے ، اس کے سوا کوئی الہ نہیں ، وہ پاک ھے ان سب شراکت داروں سے جو اس کی طرف منسوب کیئے جاتے ھیں ” – هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (33) ۞ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۗ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (توبہ- 34) وہ اللہ ھی ھے جس نے بھیجا اپنا رسول تا کہ وہ غالب کر دے اس کے دین کو تمام شعبہ ھائے زندگی پراگرچہ مشرکین کو یہ کتنا ھی ناگوار گزرے ، اے ایمان والو بےشک بہت سارے علماء اور مشائخ لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے ھیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ھیں ، اور جو سونے اور چاندی کو جمع کرتے ھیں اور اس کو راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے ،پس ان کو بشارت دے دو دردناک عذاب کی ” سب سے پرانا حوالہ قرآن ھے ، سب سے بڑا مقدس بھی یہی ھے اور صحیح ، صحیح تر اور صحیح ترین بھی یہی ھے ،اس سے بڑھ کر کوئی صحیح نہیں اور اس کے بعد بھی کچھ صحیح نہیں کیونکہ جس طرح اللہ کا بعد نہیں ، اس قرآن کا بھی کوئی بعد نہیں کہ کہا جائے کہ اس کے بعد فلاں صحیح تر ھے ،، ( تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ (جاثیہ -6) ) یہ اللہ کی آیات ھیں ان کو ھم آپ پر پڑھتے ھیں حق کے ساتھ ،پھر اللہ اور اس کی آیات کے بعد کس حدیث پر ایمان لائیں گے ؟ (( فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (والمرسلات-50) پھر اس "قرآن” کے بعد کس حدیث پر ایمان لائیں گے ؟ قرآن کسی کتاب کا محتاج نہیں، کتابیں قرآن کی محتاج ھیں ، سب کتابیں اس کے گرد گھومتی ھیں ، یہ کسی کتاب کے محور کے گرد نہیں گھومتا ۔
وما علینا الا البلاغ المبین۔