حضرت سلیمان کا گھوڑوں کے قتل کا واقعہ تحریر محمد نعیم خان
یہ واقعہ ہمیں جیسا کہ مفسرین بیان کرتے ہیں سورہ ص کی آیات 31 سے 33 میں ملتا ہے۔ یہ صرف تین آیات ہیں جن کے مطلب میں نہ تو کوئ مشکل ہے اور نہ ہی کوئ پیچیدگی لیکن نہ جانے کیوں مفسرین کو اتنی سادہ سی آیات کی ایسی تفسیر کرنی پڑی اور ان آیات میں ایسے الفاظ کا اضافہ کرنا پڑا جو عربی متن میں موجود ہی نہ تھے۔ ان آیات کا سادہ سا ترجمہ پیش کر رہا ہوں اس کے بعد اس کی تفسیر جیسا میں نے سمجھا ہے بیان کرونگا۔
إِذْ عُرِضَ عَلَيْهِ بِالْعَشِيِّ الصَّافِنَاتُ الْجِيَادُ ﴿٣١﴾ فَقَالَ إِنِّي أَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَيْرِ عَن ذِكْرِ رَبِّي حَتَّىٰ تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ ﴿٣٢﴾رُدُّوهَا عَلَيَّ ۖ فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالْأَعْنَاقِ ﴿٣٣﴾
جب اُن کے سامنے شام کے وقت نہایت سُبک رفتار عمدہ گھوڑے پیش کئے گئے، (31) تو انہوں نے (اِنابۃً) کہا: میں مال (یعنی گھوڑوں) کی محبت کو اپنے رب کے ذکر سے بھی (زیادہ) پسند کر بیٹھا ہوں یہاں تک کہ (سورج رات کے) پردے میں چھپ گیا، (32) انہوں نے کہا: اُن (گھوڑوں) کو میرے پاس واپس لاؤ، تو انہوں نے (تلوار سے) اُن کی پنڈلیاں اور گردنیں کاٹ ڈالیں (یوں اپنی محبت کو اﷲ کے تقرّب کے لئے ذبح کر دیا)، (33)
ترجمہ طاہر القادری
اب آپ تمام احباب غور کریں کہ ان آیات میں کہیں تلوار کا ذکر ہے؟ کہیں سورج کا ذکر کیا گیا ہے؟۔ چلین ان آیات پر غور کرتے ہیں ۔
واقعہ بہت سادہ سا ہے کہ حضرت سلیمان کے سامنے نہایت سبک رفتار عمدہ گھوڑے پیش کئے گئے۔ اب ظاہر ہے یہ گھوڑے حضرت سلیمان نے شوقیہ تو نہیں پالے ہوئے تھے۔ ان گھوڑوں کے رکھنے کا بھی کوئ مقصد تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ کیا مقصد تھا؟۔ اب اگر آپ قرآن کی دیگر آیات کا مطالعہ کریں تو آپ کو بخوبی معلوم ہوگا کہ حضرت سلیمان ایک عظیم سلطنت کے مالک تھے۔ جس طرح ہر سلطنت کے قیام کے لئے ایک مضبوط فوج درکار ہوتی ہے اس ہی طرح حضرت سلیمان کے پاس بھی ایک مضبوط فوج تھی۔ اب اس زمانے میں ٹینک یا دوسرا جدید جنگی سامان تو تھا نہیں ،سوائے اس کے کہ سواری کے لئے سبک رفتار عمدہ گھوڑے جنگوں میں کام آیا کرتے تھے۔ یہ جنگوں میں کلیدی کردار ادا کیا کرتے تھے۔ ان کی دیکھ بھال اور ان کا معائنہ فوج کی بحالی اور کسی بھی ناگہانی جنگ کی تیاری کے لئے نہایت اہم ہے۔ ایسی پریڈز آجکل تمام دنیا میں عام بات ہے۔ اس کے علاوہ اللہ نے حضرت سلیمان کے لئے لوہے کے چشمے بہا دیے تھے۔ جس سے وہ جنگی سازوسامان تیار کیا کرتے تھے۔ ہواوں کو ان کے لئے مسخر کردیا تھا۔ ان کے بحری بیڑے سمندروں کی مسافت مہینوں کا سفر دنوں میں طے کیا کرتے تھے۔ یہ سب فضل اللہ کا ان پر تھا۔
اب چونکہ تمام رسولوں کو یہی ہدایت دی گئ تھی کہ دشمنوں کے مقابلے میں اپنا جنگی سامان تیار رکھیں تاکہ ان کے دلوں میں رعب قائم رہے۔ یہ جنگی سامان کسی پر ظلم کے لئے نہیں بلکہ انسانوں کو ظلم سے نکالنے اور اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے کام آتے تھے۔ بلکل ایسا ہی حکم قرآن نے رسول اللہ کو بھی دیا تھا۔ سورہ الانفال کی آیت 60 میں ۔
وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّـهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّـهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ﴿٦٠﴾
اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دُوسرے اعداء کو خوف زدہ کرو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا(60)
ترجمہ مولانا مودودی
یہاں سے آپ آگے بڑھیں تو آیت 32 میں مفسریں یہ قصہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان گھوڑوں کے معائنہ میں اتنا مشغول ہوئے کہ اللہ کے ذکر یعنی ان کی عصر کی نماز نکل گئ ۔ جب انہوں نے یہ دیکھا کہ ان گھوڑوں کی محبت میں اللہ کے ذکر سے غفلت برتتی تو انہوں نے گھوڑوں کو دوبارہ طلب کیا اور تلوار سے ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر وار کرنے لگے۔
اب کوئ ان سے پوچھے کہ یہاں عصر کی نماز،سورج، تلوار وغیرہ کا نہ تو کوئ قرینہ موجود ہے اور نہ ہی یہ الفاظ سیاق و سباق میں پائے جاتے ہیں ۔ بلکہ اصل مسلہ آیت 32 میں موجود حرف ”عن“ کا مطلب صحیح نہ لینے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ یہ میرا موقع نہیں ہے کہ تفصیل سے اس کے بارے میں بیان کروں ۔ سمجھانے کے لئے اتنا سمجھ لیں کہ یہاں یہ لفظ ”کی وجہ سے“ کے معنوں میں آیا ہے۔ بلکل ایسے ہی جیسے سورہ ھود کی آیت 53 میں استعمال ہوا ہے ۔جہاں ھود کی قوم نے ان سے کہا کہ ان معبودوں کی عبادت صرف تمہارے کہنے ”کی وجہ سے“ ہم نہیں چھوڑیں گے۔ بلکل ایسے ہی یہاں حضرت سلیمان فرما رہے ہیں کہ میں نے اس مال کی محبت اپنے رب کی یاد کی وجہ سے اختیار کی ہے ۔ اب کیوں کہ یہ گھوڑے جہاد کے لئے استعمال ہوتے تھے, اس لئے حضرت سلیمان نے ان کو لفظ ”آلخیر“ سے تعبیر کیا ہے۔ جس کا مطلب مال کثیر بھی ہوتا ہے اور یہ گھوڑوں پر بھی مجازا بولا جاتا ہے۔
اب کوئ یہ خیال کرے کہ ذکر اللہ سے مراد نماز یا کوئ وظیفہ ہے تو یہ بھی خیال درست نہیں ۔ بنیادی طور پر تمام انبیا اور رسول، اللہ کا کلمہ بلند کرنے، اس کے ذکر کو اونچا کرنے کے لئے اس دنیا میں بھیجے جاتے تھے ۔ یہاں قرینہ ، سیاق و سباق ، الفاظ اس ہی مطلب کی طرف جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ مطلب لینا نہ تو قرآن اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ ان آیات کا سیاق و سباق۔ پھر کچھ احباب فرماتے ہیں کہ حَتَّىٰ تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ میں یہ دلیل ہے کہ یہاں سورج کا ذکر ہے۔ جبکہ ایک آیت پہلے الصَّافِنَاتُ الْجِيَادُ کے الفاظ میں ان گھوڑوں کا ذکر گزر چکا ہے جو معائنہ کے لئے پیش کئے گے تھے اور جن کی مجبت کا ذکر اس سے اگلی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ سورج کے ذکر کا کوئ قرینہ نہیں ملتا۔ یہاں بات گھوڑوں کے نظروں سے اوجھل ہونے کی ہے نہ کہ سورج کے نظروں سے اوجھل ہونے کی۔
پس اس وضاحت سے بات بلکل صاف ہے کہ گھوڑوں کے معائنہ کے بعد جب ان کو واپس بلایا گیا تو اظہار محبت سے ان کی پنڈلیوں اور گردن پر مسحا کرنے لگے نہ کہ تلوار سے ان بے زبان جانوروں کا قتل عام کرنے لگے جن کا اس پورے واقعہ میں کوئ قصور نہ تھا۔
یہ میرا فہم ہے اس میں غلطی کی گنجائش موجود ہے۔