خلاصہ قرآن پارہ نمبر 16
سولھویں پارے کے آغاز میں سورہ الکہف تقریبًا تین رکوع ہیں. پندرھویں پارے کا اختتام حضرت موسیٰ کی ایک باخدا آدمی سے ملاقات کے ذکر پر ہوا تھا۔ حضرت موسیٰ اس آدمی کے کشتی میں سوراخ کرنے کے بعد ایک خوبصورت بچے کے قتل کرنے پر بھی بالکل مطمئن نہ تھے اس لیے اس پر بھی اعتراض کیا۔ اس آدمی نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ کیا میں نے آپ کو نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ اس پر موسیٰ نے کہا کہ اب اگر میں نے کوئی سوال کیا تو آپ مجھے علیحدہ کر دیجیے گا۔
اب پھر دونوں اکٹھے آگے چلے اور ایک بستی میں جا پہنچے۔ بستی کے لوگ بڑے بے مروت تھے۔ انھوں نے دو معزز مہمانوں کی کوئی خاطر تواضع نہ کی۔ اس بستی میں ایک جگہ ایک دیوار گر چکی تھی۔ حضرت موسیٰ کے ساتھی نے اس کی تعمیر شروع کر دی۔ دیوار مکمل ہوگئی تو اس آدمی نے وہاں سے چلنے کا ارادہ کیا۔ موسیٰ نے کہا کہ اگر آپ چاہتے تو اس کام کا معاوضہ بھی وصول کر سکتے تھے۔ سوال سنتے ہی اس آدمی نے کہا کہ اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی کا وقت آپہنچا ہے۔ جدا ہونے سے قبل میں آپ کو اپنے تمام کاموں کی توجیہات پیش کرنا چاہتا ہوں جن پر آپ صبر نہیں کر سکے۔ کشتی میں سوراخ کرنے کا سبب یہ تھا کہ جس ساحل پر جا کر کشتی رکی تھی وہاں پر ایک غاصب بادشاہ کی حکومت تھی جو ہر بے عیب کشتی پر جبری قبضہ کیے جا رہا تھا۔ میں نے کشتی میں سوراخ کر دیا تاکہ کشتی کے مسکین مالک بادشاہ کے ظلم سے بچ جائیں۔ جس خوبصورت بچے کو میں نے قتل کیا وہ بڑا ہو کر اپنے والدین کے ایمان کے لیے خطرہ بننے والا تھا، اس کی موت کے بعد اللہ تعالی اس کے بدلے اس کے والدین کو ایک صالح بچہ عطا فرمانے والے ہیں۔ تعمیر کی جانے والی دیوار ایک ایسے گھر کی تھی جو بستی کے دو یتیم بچوں کی ملکیت تھا جن کا باپ نیک آدمی تھا اور ان کے گھر کے نیچے خزانہ دفن تھا۔ خدا چاہتا تھا کہ بچے جوان ہو کر اپنے خزانے کو نکال لیں اور یہ ابھی کسی کے ہاتھ نہ لگے۔ جو کچھ بھی میں نے کیا اپنی مرضی سے نہیں بلکہ خدا کے حکم پر کیا۔
یہ واقعہ علمِ لدنی کی حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ کامل علم خدا کے پاس ہے اور وہ جتنا علم کسی کو دینا چاہتا ہے دے دیتا ہے۔ حضرت موسیٰ رسول تھے لیکن خدا نے بعض معاملات کا علم اس دوسرے گمنام غیر معروف اور معاشرے میں اہم حیثیت نہ رکھنے ایک آدمی کو عطا فرمایا تھا جس سے موسیٰ واقف نہ تھے۔ مطلب یہ کہ اس دوسرے شخص کے پاس جو علم تھا وہ عام انسانوں کو دیا جانے والا ایک علم تھا جو کارِ نبوت یا کارِ رشد و ہدایت کے لیے ہرگز ضروری نہ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات سمجھ آتی ہے کہ دنیا میں جس جس آدمی پر جو مصیبت آتی ہے اس میں اللہ کی کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے لہٰذا انسان کو اس کی رضا میں راضی رہنا چاہیے اور صبر و شکر اختیار کرنا چاہیے.
اس کے بعد اللہ رب العزت نے ذوالقرنین کا قصہ ذکر فرمایا ہے جو وسیع و عریض سلطنت کا مالک تھا. وہ ایک بستی کے پاس سے گزرا تو بستی والوں نے درخواست کی کہ سامنے پہاڑوں کے درمیان سے ایک مخلوق جسے قرآن نے یاجوج ماجوج سے تعبیر کیا ہے، اترتی ہے اور ہمارے کھیتوں کو تہس نہس کر دیتی ہے. لہٰذا ہمارے بچاؤ کی کوئی صورت کیجیے. ذوالقرنین نے اپنی فوج کے ساتھ مل کر پہاڑی درے کو سیسے سے بھر دیا جس سے یاجوج ماجوج کا راستہ بند ہو گیا. لیکن قرب قیامت میں یہ دیوار گر جائے گی اور یاجوج ماجوج پھر تباہی پھیلائیں گے.
سورہ کہف کے آخر میں اللہ تعالی نے اپنی توانائیوں کو محض دنیاوی زیب و زینت پر صرف کرنے والوں کے اعمال کو بدترین اعمال قرار دیا ہے جب کہ وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ بہترین کاموں میں مشغول ہیں۔ اللہ کہتا ہے کہ ایسے لوگ میری ملاقات اور نشانیوں کا انکار کرنے والے ہیں اور ایسے لوگوں کے اعمال برباد ہو جائیں گے۔ نیز حضرت محمد علیہ السلام کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ لوگوں میں اعلان کریں کہ میں آدم کی اولاد ہونے کے اعتبار سے تمھاری ہی طرح کا انسان ہوں البتہ مجھ پر خدا کی طرف سے وحی آتی ہے اور خدا کی طرف رجوع صرف عمل صالح اور شرک سے بچنے سے حاصل ہوگا.
سورہ کہف کے بعد سورہ مریم ہے۔ اس میں اللہ تعالی نے حضرت عیسیٰ کی معجزاتی پیدائش کا ذکر کیا ہے۔ جنابِ زکریا جنابِ مریم کے کفیل اور خالو تھے۔ ان کی عمر زیادہ ہونے کے سبب ان پر شیخوخت آ چکی تھی اور ان کی اہلیہ بھی کہولت زدہ تھیں. جب انھوں نے سیدہ مریم سلام اللہ علیہا کے پاس بے موسمی پھل دیکھے تو سوچا کہ جو اللہ بے موسمے پھل دے سکتا ہے وہ اسباب کے بغیر اولاد بھی دے سکتا ہے لہٰذا انھوں نے اللہ سے دعا مانگی کہ اے پروردگار تو مجھے بھی صالح اولاد عطا فرما۔ اللہ نے جنابِ زکریا کی فریاد کو سن کر انھیں بڑھاپے میں جنابِ یحییٰ سے نواز دیا۔
اسی طرح جنابِ مریم کے پاس جبریل آتے ہیں اور ان کو ایک صالح بیٹے کی بشارت دیتے ہیں۔ آپ کہتی ہیں کہ کیا میرے ہاں بیٹا پیدا ہوگا جب کہ میں نے تو کسی مرد سے نزدیکی نہیں کی۔ جبریل کہتے ہیں کہ جب اللہ کسی کام کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہوتا۔ وہ کُن کہتا ہے تو چیزیں رونما ہو جاتی ہیں۔ جب عیسیٰ پیدا ہوئے تو سیدہ مریم لوگوں کے طعن و تشنیع کے خوف سے بے قرار ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالی ان کے دل کو مضبوط فرماتے ہیں اور ان کو حکم دیتے ہیں کہ جب آپ کی ملاقات کسی انسان سے ہو تو آپ کو کہنا ہے کہ میں نے رحمٰن کے لیے روزہ رکھا ہوا ہے اس لیے میں کسی کے ساتھ کلام نہیں کروں گی۔جب آپ بستی میں داخل ہوتی ہیں تو بستی کے لوگ آپ کی جھولی میں بچے کو دیکھ کر کہتے ہیں اے ہارون کی بہن، اے عمران کی بیٹی، نہ تو تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں نے خیانت کی۔ تم نے یہ کیا کر دیا۔ جنابِ عیسیٰ نے مریم کی گود سے آواز دی: میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اللہ نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔ گود میں لیٹے ہوئے بچے کی آواز سن کر لوگ خاموش ہو جاتے ہیں.
سورۃ مریم کی آخری آیات میں اللہ نے آپس میں محبت پیدا کرنے کا نسخہ ایمان اور عملِ صالح کو قرار دیا ہے۔
سورہ مریم کے بعد سورہ طہٰ ہے۔ ابتدائی آیات میں اللہ تعالٰی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی لوگوں کی اسلام سے دوری پر بے چینی کا تذکرہ کیا اور فرمایا کہ آپ پریشان نہ ہوں. یہ کتاب یعنی قرآنِ مجید ہم نے اس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ اس کی وجہ سے تکلیف اٹھائیں. یہ کتاب تو اسے ہی نصیحت کرے گی جو اللہ کا خوف رکھے گا.
سورہ طہٰ میں اللہ تعالی نے جنابِ موسیٰ کی کوہِ طور پر اپنے ساتھ ہونے والی ملاقات کو ذکر کیا اور بتایا کہ جب موسیٰ طور پر تشریف لائے تو اللہ تعالی نے ان سے پوچھا کہ موسیٰ آپ کے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ جنابِ موسیٰ نے کہا کہ یہ میری لاٹھی ہے اور میں اس سے پتے جھاڑتا ہوں اور سہارا لیتا ہوں۔ اللہ نے ان کو لاٹھی زمین پر گرانے کا حکم دیا، جو گرتے ہی اژدھا کی شکل اختیار کر گئی جسے دیکھ کر موسیٰ خوف زدہ ہوگئے۔ اللہ نے اب اژدھے کو اٹھانے کا حکم دیا جو ان کے ہاتھ میں آتے ہی لاٹھی کی صورت اختیار کر گیا۔
اس واقعہ سے موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے ساری دنیا کو بتایا گیا کہ کسی بھی چیز کے اندر نفع یا نقصان اس کا ذاتی خاصہ نہیں ہے بلکہ خدا قادرِ مطلق ہے جو نفع والی چیز کو نقصان اور نقصان دینے والی چیز کو نفع دینے والی چیز میں بدل سکتا ہے۔
اس کے بعد اللہ نے جنابِ موسیٰ کو فرعون کے سامنے جاکر نرم گفتاری سے تبلیغ کرنے کا حکم دیا۔ اس موقع پر موسیٰ نے اللہ سے دعا مانگی کہ اے میرے پروردگار میرے سینے کو کھول دے، میرے معاملے کو آسان کر دے، میری زبان سے گرہ کو دور کر دے تاکہ لوگ میری بات کو صحیح طرح سمجھ سکیں اور میرے اہلِ خانہ میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا دے۔ اللہ نے جنابِ موسیٰ کی دعا کو قبول کیا۔ دونوں بھائی فرعون کے دربار میں آئے۔ فرعون نے اپنی قوم کی حمایت حاصل کرنے کے لیے آپ سے سوال کیا کہ میری قوم کے لوگ جو ہم سے پہلے مر چکے ہیں آپ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ جنابِ موسیٰ نے جواب دیا کہ ان کا علم میرے پروردگار کے پاس ہے اور میرا پروردگار نہ کبھی بھولا ہے اور نہ کبھی گمراہ ہوا ہے۔ آخر الامر اللہ نے فرعون کو تباہ و برباد کر دیا اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات دی۔
اس کے بعد اللہ نے جنابِ موسیٰ کو اپنی ملاقات کے لیے بلایا۔ جب موسیٰ اللہ سے ہم کلام ہو رہے تھے تو قومِ موسیٰ نے ان کی عدم موجودگی میں سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔ موسیٰ جب واپس ہوئے تو اپنی قوم کو شرک کی دلدل میں اترا دیکھ کر غضبناک ہوئے اور جنابِ ہارون سے پوچھا کہ آپ نے اپنی ذمہ داری کیوں ادا نہیں کی۔ جنابِ ہارون نے کہا کہ میں نے ان پر سختی اس لیے نہیں کی کہ یہ لوگ کہیں منتشر نہ ہو جائیں۔ جنابِ موسیٰ کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو انھوں نے سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے کو آگ لگاکر اس کی راکھ کو سمندر میں بہا دیا اور اس جھوٹے معبود کی بے بسی، ناکارگی اور ناطاقتی کو بنی اسرائیل پر ثابت کر دیا۔
اس کے بعد اللہ تعالٰی نے اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمان سے مینہ برسایا جس کے نتیجے میں کھیتوں نے غلہ اگایا جس سے انسان اور جانور فائدے حاصل کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ اس بات کی جانب بھی توجہ دلائی کہ عقل والے لوگ ان انعامات میں کھو کر اپنی حقیقت کو نہیں بھولتے. وہ ہر وقت یاد رکھتے ہیں کہ اللہ نے ان کی اس مٹی سے پرورش کی ہے اور آئندہ اسی مٹی میں وہ ڈالے جائیں گے اور روزِ قیامت اسی مٹی سے ان کا بدن اٹھایا جائے گا. اس لیے وہ اللہ تعالٰی کے انعامات کو آخرت کی تیاری کے لیے استعمال میں لاتے ہیں.
سورہ طہٰ کے آخر میں اللہ تعالٰی نے قرآن مجید سے اعراض کرنے والوں کو تنبیہہ فرمائی ہے. جو لوگ قرآن مجید کی تعلیمات پر توجہ نہیں دیتے ان کی زندگی تنگ ہو جائے گی اور روز قیامت اندھے بنا کر پیش کیے جائیں گے. آخر میں اللہ تعالٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہیں کہ ان معاندین سے کہہ دیجیے کہ میں بھی منتظر ہوں اور تم بھی انتظار کرو، جلد اللہ تعالٰی فیصلہ فرما دیں گے کہ کون سیدھے راستے پر گامزن ہے.
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنِ مجید میں مذکور واقعات کو سمجھنے اور ان سے روشنی لیتے ہوئے زندگی کو گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین