خلاصہ قرآن پارہ نمبر 17

سترھویں پارے کا آغاز سورۃ الانبیاء سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگوں کے حساب کتاب کا وقت آن پہنچا ہے لیکن لوگ اس سے غفلت برت رہے ہیں۔ اللہ نے دین سمجھنے کا طریقہ بھی بتایا کہ اگر کسی چیز کا علم نہ ہو تو اہلِ علم سے پوچھ لینا چاہیے۔ یہ بھی ارشاد ہے کہ اللہ نے زمین اور آسمان کو کھیل تماشے کے لیے نہیں بنایا، اگر اس نے کھیل ہی کھیلنا ہوتا تو وہ کسی اور طریقے سے بھی یہ کام کر سکتا تھا۔ اللہ نے یہ بھی بتایا کہ اس نے ہر چیز کو پانی سے زندگی دی ہے۔ اللہ انسانوں کو اچھے اور برے حالات سے آزماتا ہے۔ حالات اچھے ہوں تو انسان کو شکر کرنا چاہیے اور حالات برے ہوں تو انسان کو صبر کرنا چاہیے۔

اس سورت میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انسانوں کے اعمال کو تولنے کے لیے میزانِ عدل قائم کریں گے۔ اس میزان میں ظلم والی کوئی بات نہیں ہوگی اور جو کچھ اس میں ڈالا جائے گا وہ انسان کے اپنے ہاتھ کی کمائی ہوگی۔ حضرت ابراہیم کی جوانی کا وہ واقعہ بھی ذکر کیا گیا ہے جب انھوں نے اپنے والد اور قوم سے کہا کہ یہ مورتیاں کیا ہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ انھوں نے کہا ہم نے اپنے باپ داداؤں کو ان کی عبادت کرتے پایا ہے۔ جنابِ ابراہیم نے کہا کہ تم اور تمھارے باپ کھلی گمراہی میں ہیں۔ لوگوں نے کہا کیا تم واقعی ہمارے پاس حق لے کر آئے ہو یا یونہی مذاق کر رہے ہو؟ تو ابراہیم نے جواب دیا کہ تمھارا رب آسمان اور زمین کا رب ہے جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں اس بات کے حق ہونے کی گواہی دیتا ہوں، اللہ کی قسم جب تم لوگ پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمھارے بتوں کے خلاف ضرور کارروائی کروں گا۔ چنانچہ جنابِ ابراہیم نے ان کی عدم موجوگی میں بت کدے میں داخل ہو کر بتوں کو توڑ ڈالا۔ جب قوم کے لوگ بت کدے میں داخل ہوئے اور بتوں کو ٹوٹا دیکھا تو کہا جس نے ہمارے بتوں کا یہ حال بنایا ہے وہ یقینًا ظالم آدمی ہے۔ لوگوں نے پوچھا اے ابراہیم کیا تم نے ہمارے بتوں کا یہ حال بنایا ہے۔ آپ نے کہا اس بڑے بت نے یہ کیا ہے۔ اگر یہ بت بول سکتے ہیں تو ان سے پوچھ لو۔ لوگوں نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ بت بولتے نہیں۔ ابراہیم نے کہا تو کیا تم لوگ اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو تمھیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان۔ تف ہے تم پر اور تمھارے ان معبودوں پر جن کی اللہ کے سوا تم عبادت کرتے ہو، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟

اس دعوتِ توحید پر بستی کے لوگ بھڑک اٹھے اور کہنے لگے کہ ابراہیم کو جلا دو اور اگر اپنے معبودوں کی مدد کر سکتے ہو تو کرو۔ ابراہیم کو جلانے کے لیے الاؤ بھڑکایا گیا۔ جب آگ خوب بھڑک اٹھی تو ابراہیم نے دعا مانگی: حسبنا اللہ و تعم الوکیل (ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے)۔ اس پر اللہ نے کہا اے آگ تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا۔ اللہ کہتا ہے کہ لوگوں نے جنابِ ابراہیم کے خلاف سازش کرنا چاہی تو ہم نے انھیں بڑا خسارہ پانے والا بنا دیا۔

پھر اللہ نے جنابِ داؤد اور سلیمان کی حکومت کا اور جنابِ ایوب کے صبر کا ذکر کیا کہ آپ شدید بیماری کے باوجود اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوئے۔ اللہ نے ایوب کی دعا قبول کرکے آپ کی تمام مشکلات کو دور فرما دیا۔ جنابِ یونس کے واقعے کا بھی ذکر ہے کہ آپ جب غم کی شدت سے دوچار تھے تو آپ نے پروردگارِ عالم سے دعا کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کی ذات پاک ہے اس تکلیف سے جو مجھ کو پہنچی ہے اور بے شک یہ تکلیف مجھے اپنی وجہ سے آئی ہے۔ اللہ نے جنابِ یونس کی فریاد سن کر ان کے دکھوں کو دور فرما دیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی فرما دیا کہ جو کوئی بھی حالتِ غم میں جنابِ یونس کی طرح اللہ کی تسبیح کرے گا، اللہ اس کے غم کو دور کر دے گا۔ اللہ تعالی نے حضرت محمد علیہ السلام کے منصب کا بھی ذکر کیا کہ آپ کو دو جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے، اور فرمایا ہے کہ اللہ ہی حقیقی مددگار اور کارساز ہے.

سورۃ الانبیاء کے بعد سورہ حج ہے جس کے شروع میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو قیامت کی ہولناکیوں سے ڈرایا اور ارشاد فرمایا کہ بے شک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔ اس زلزلے کی وجہ سے حاملہ اپنے حمل کو گرا دے گی اور دودھ پلانے والیاں شیر خواروں کو پھینک دیں گی اور لوگ نشے کی حالت میں نظر آئیں گے جب کہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب انتہائی شدید ہوگا۔ پھر اللہ تعالی نے بدر کے معرکے کا ذکر کیا کہ جس میں ایک ہی قبیلے کے لوگ آپس میں ٹکرا گئے تھے اور یہ جنگ نسل، رنگ یا علاقے کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقیدہ توحید کی بنیاد پر ہوئی تھی۔

اللہ تعالیٰ نے دو گروہوں کی نشان دِہی فرمائی کہ ایک تو وہ لوگ ہیں جو واضح گمراہ ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو تذبذب کا شکار ہیں. جب فراخی ہوتی ہے، دنیوی منافع حاصل ہوتے ہیں تو عبادت کرتے رہتے ہیں لیکن جیسے ہی کوئی آزمائش آئے تو پیٹھ پھیر جاتے ہیں. اللہ تعالیٰ نے دونوں سے علیحدہ رہنے کی ہدایت فرمائی ہے.

اللہ تعالیٰ نے جنابِ ابراہیم کے لیے خانہ کعبہ کی جگہ مقرر کی اور ان سے کہا کہ آپ کسی بھی چیز میں میرا شریک نہ ٹھہرائیے اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے شرک اور بت پرستی سے پاک رکھیے اور آپ لوگوں میں حج کا اعلان کیجیے تاکہ وہ آپ کے پاس پیدل چل کر اور دبلی اونٹنیوں پر سوار ہو کر دور دراز علاقوں سے آئیں اور اپنے لیے دینی اور دنیوی فوائد حاصل کرسکیں۔ اور گنتی کے مخصوص دنوں میں ان چوپایوں کو اللہ کے نام پر ذبح کیجیے جو اللہ نے بطورِ روزی انھیں دیے ہیں۔ پس تم لوگ ان کا گوشت خود بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ۔

اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے کامل مومنین کی چار صفات کا ذکر بھی فرمایا ہے: جب اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل کانپ جاتے ہیں، مصائب پر صبر کرتے ہیں، نماز کی پابندی کرتے ہیں، اور نیک مصارف میں خرچ کرتے ہیں. نیز یہ خوبی بھی بیان کی ہے کہ ان لوگوں کو اگر اللہ زمین میں تمکنت عطا فرما دے تو بھی یہ نماز کی پابندی کرتے ہیں، زکوٰة ادا کرتے ہیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہتے ہیں.

اللہ تعالیٰ نے قربانی کی قبولیت کے لیے تقویٰ کو شرط قرار دیا کہ اللہ کو جانوروں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ اللہ کو انسان کا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اللہ کی پکڑ بڑی سخت ہے اور وہ بند برجوں میں چھپ جانے والوں تک بھی پہنچ جاتی ہے. اللہ نے ان مظلوم مسلمانوں کو بھی جہاد کی اجازت دی کہ جن کو بغیر کسی جرم کے ان کے گھروں سے عقیدہ توحید کی وجہ سے نکال دیا گیا تھا۔

اس سورت میں اللہ نے ایک مثال کے ذریعے شرک کی تردید کی کہ جن معبودانِ باطل کو لوگ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں ان کی ناتوانی و بے بسی کی کیفیت یہ ہے کہ وہ سارے جمع ہو کر ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے، اور مکھی بنانا تو دور کی بات ہے، اگر مکھی جیسی بے حیثیت مخلوق ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو اس کو واپس بھی نہیں لے سکتے۔ یہ مانگنے والے بھی کمزور ہیں اور جن سے مانگتے ہیں وہ بھی کمزور ہیں. درحقیقت انھوں نے خدا کی قدر نہیں جانی جیسی کہ جاننا چاہیے تھی. خدا اگلا پچھلا سب جانتا ہے. اے ایمان والو اگر فلاح چاہتے ہو تو خدا کی عبادت کرو اور اسی کو رکوع و سجدہ کرو. اور خدا کی راہ میں ویسے جہد و جہاد کرو جیسا کہ اس کا حق ہے کیونکہ خدا نے تمھیں اپنا پیغام پہنچانے کے لیے چن لیا ہے، اور نماز و زکوٰة کا اہتمام کرتے ہوئے خدائے حامی و ناصر کے ساتھ کو مضبوط پکڑے رہو.

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں قرآن پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
ماخذ فیس بک
Leave A Reply

Your email address will not be published.