خلاصہ قرآن پارہ نمبر 30

تیسویں پارے کا آغاز سورۃ نباء سے ہوتا ہے جس میں اللہ تعالی نے قیامت کی گھڑیوں کا ذکر کیا ہے کہ قیامت کی آمد ایک بہت بڑی خبر ہوگی اس کی آمد سے قبل بہت سے لوگوں کو اس کے ہونے کے بارے میں شبہات تھے۔ اس سورت میں اللہ پاک نے جہنمیوں کی سزا کا ذکر کیا کہ وہ کس طرح صد ہا ہزار سال جہنم میں پڑے رہیں گے۔ تقویٰ والوں کے لیے اس دن بڑی کامیابی ہوگی اور ان کو باغ اور انگور، اٹھتی جوانیوں والی ہم سِنیں اور چھلکتے جام دیے جائیں گے اور اس دن وہ کوئی بیہودہ بات اور بہتان نہ سنیں گے۔ اس دن وہی بول سکے گا جسے رحمٰن اجازت دے گا۔ اس دن منکرِ حق پکار اٹھے گا کہ اے کاش میں نابود ہوتا یعنی مٹی ہوتا۔

اس کے بعد سورۃ نازعات ہے۔ اس میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور اس نے اپنے آپ کو نفسانی خواہشات سے بچا لیا تو اس کا ٹھکانہ جنت ہے۔ قیامت کا دن آ کر رہے گا چنانچہ اس کی تیاری کرنی چاہیے۔ نیز حضرت موسیٰ اور فرعون والے واقعے کا ذکر کرکے مخاطبینِ محمد کو خبر دار کیا گیا ہے کہ اگر وہ دعوت کو جھٹلائیں گے تو انھیں آخرت کے عذاب کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی سزا دی جائے گی۔

اس کے بعد سورۃ عبس ہے جس میں اللہ پاک نے نبی کریم کو دعوتِ دین کے کام میں کم رُو کم حیثیت لوگوں سے بھی برابر کا معاملہ کرنے کی نصیحت فرمائی ہے۔ نیز قیامت کی گھڑیوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ جب قیامت کا دن آئے گا تو بھائی اپنے بھائی سے، بیٹا اپنے والدین سے اور بیوی اپنے شوہر سے بھاگے گی اور والدین اپنے بیٹے سے بھاگیں گے۔ ہر کسی کی خواہش ہوگی کہ وہ آگ سے کسی بھی طور بچ جائے چاہے اس کے بدلے کسی بھی دوسرے کو پکڑ لیا جائے۔

اس کے بعد سورۃ تکویر ہے۔ اس میں اللہ پاک نے قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ اس دن زندہ گاڑ ڈالی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ اس نے کیا گناہ کیا تھا کہ اسے مارا گیا۔ اس دن ہر شخص جان لے گا کہ کہ وہ کیا لے کر آیا ہے اور پیچھے کیا چھوڑ کر آیا ہے۔ نیز ارشاد ہے کہ قرآنِ مجید کسی شیطان کا الہام نہیں ہے بلکہ دو جہانوں کے رب کا کلام ہے اور ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو صراطِ مستقیم پر چلنا چاہتے ہیں۔ نیز ارشاد ہے کہ تم لوگ فقط وہی کچھ چاہ سکتے ہو جو اللہ رب العالمین چاہیں۔

اس کے بعد سورۃ انفطار ہے جس میں اللہ پاک نے انسان سے پوچھا ہے کہ تجھے تیرے کریم رب کی طرف سے کس نے دھوکے میں ڈال دیا ہے؟ پھر قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر کرتے ہوئے دنیا میں انسانوں کا حساب کتاب کا روزنامچہ لکھنے والے فرشتوں کا ذکر کیا گیا ہے جنھیں کرامًا کاتبین کہا جاتا ہے۔ یہ دو فرشتے ہیں جو انسانوں کی روزانہ کارگزاری لکھتے ہیں اور یہی اعمال نامہ قیامت کے دن انسانوں کو پیش کیا جائے گا۔ قیامت کا دن بدلے کا دن ہے اور اس دن کوئی کسی کے لیے کچھ نہ کر سکے گا۔

اس کے بعد سورۃ مطففین ہے جس میں ناپ تول میں ڈنڈی مارنے والوں کی مذمت کی گئی ہے اور قیامت کے واقع ہونے اور اجتماعی اخلاقیات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ ارشاد ہے کہ تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے جو اپنے لیے ترازو کی پوری تول لیتے ہیں لیکن دوسروں کے لیے تول میں ڈنڈی مارتے ہیں۔ پروردگار کے حضور پیشی ہونے پر انھیں بربادی کا سامنا ہوگا۔ فرمانبرداروں اور نافرمانوں کا نامہ اعمال ایک سا نہیں ہوگا۔ ارشاد ہوا کہ ہماری آیتیں گزرے زمانے کے لوگوں کے افسانے نہیں ہیں۔ فرمانبرداروں کا نامہ اعمال علیین ہوگا اور ان کے چہروں پر عیش کی تازگی ہوگی اور ان کو نفیس ترین سربند (Sealed) شراب پلائی جائے گی جس پر مشک کی مہر ہوگی اور اس میں تسنیم کی آمیزش ہوگی۔ اس دن وہ لوگ جو مجرم ہوئے اور ایمان والوں پر ہنستے تھے، آج ان پر ایمان والے ہنسیں گے اور ان کا انجام دیکھیں گے اور ان کے کرتوتوں کا بدلہ۔ (یاد رہے کہ کسی جگہ نوکری کرتے ہوئے پوری محنت نہ کرنا بھی ڈنڈی مارنا ہے، ملازم کا استحصال کرنا بھی ڈنڈی مارنا ہے، حکومتی ٹیکس چوری کرنا بھی ڈنڈی مارنا ہے، ایک دوسرے کے حقوق کا خیال نہ رکھنا جیسے ساس بہو، میاں بیوی بچوں وغیرہ کا ایک دوسرے کے حقوق و فرائض پورے نہ کرنا وغیرہ بھی ڈنڈی مارنا ہے، اختیارات کا ناجائز استعمال بھی ڈنڈی مارنا ہے، ڈاکٹر یا مکینک کا جان بوجھ کر آپریشن میں یا گاڑی میں خرابی چھوڑ دینا یا ڈال دینا بھی ڈنڈی مارنا ہے، بجلی یا گیس کا کنڈا ڈالنا بھی ڈنڈی مارنا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔)

اس کے بعد سورۃ انشقاق ہے جس میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے کہ انسان محنت و مشقت کا خوگر ہے اور اس کو چاہیے کہ اپنے پروردگار کے لیے محنت کرے جس سے اس نے ملاقات کرنی ہے۔ اگر انسان اپنے پروردگار کے لیے محنت کرے گا تو اس کو آسان حساب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نیز قیامت کے دلائل دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ منکرینِ حق کو کیا ہوگیا ہے کہ جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو وہ سجدہ ریز نہیں ہوتے۔ ان کو درد ناک عذاب کی خوش خبری سنا دیجیے۔

اس کے بعد سورۃ بروج ہے جس میں اللہ پاک نے اہلِ ایمان پر ظلم و ستم کرنے والوں اور دعوت کے مقابلے میں چالیں چلنے والوں کو برے انجام کی خبر دیتے ہوئے اصحابِ اخدود کی بستی کا ذکر کیا ہے جنھیں ایمان لانے کی پاداش میں انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ اہلِ ایمان نے فرعون و ثمود وغیرہ کے لشکروں کی اس سزا کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا لیکن دعوتِ توحید سے دستبردار ہونا گوارا نہیں کیا۔ نیز ارشاد ہوا کہ قرآنِ مجید بلند پایہ ہے اور لوحِ محفوظ میں ہے۔

اس کے بعد سورۃ طارق ہے۔ اس میں اللہ پاک نے بتایا ہے کہ رات کو نمودار ہونے والے تارے گواہی دیتے ہیں کہ ہر جان پر ایک نگہبان مقرر ہے، اور فرمایا ہے کہ کس طرح انسان کو پانی کے معمولی قطرے سے تخلیق کیا گیا۔ جو خدا انسان کو پانی کے معمولی قطرے سے پیدا کر سکتا ہے وہ انسان کو موت کے بعد بآسانی زندہ بھی کر سکتا ہے اس لیے انسان کو اپنی حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ قرآن ایک دوٹوک بات ہے اور کوئی ہنسی مذاق نہیں۔ اور (اے نبی، آپ کے مقابلے میں) یہ لوگ ایک چال چل رہے ہیں، اور میں بھی ایک چال چل رہا ہوں۔ اس لیے ان منکرینِ حق کو ذرا دیر کے لیے چھوڑ دیجیے۔

اس کے بعد سورۃ الاعلیٰ ہے جس میں اللہ پاک نے بیان فرمایا ہے کہ لوگوں کی نگاہ دنیا کی زندگی پر ہوتی ہے لیکن حقیقی اور باقی رہنے والی زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔ کامیاب وہ ہے جس نے پاکیزگی اختیار کی، رب کا ذکر کیا اور نماز پڑھی۔ یہی بات پچھلے یعنی حضرت ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں بھی اتری ہے۔

اس کے بعد سورۃ فجر ہے جس میں اللہ پاک نے سابق نافرمان اقوام عاد، ثمود اور فرعون کا ذکر کرتے ہوئے ان کے انجام سے ڈرایا ہے اور انسانی معاشرے کی اخلاقی حالت کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ لوگ یتیم کی عزت نہیں کرتے اور مسکین کو کھانا کھلانے کے لیے ایک دوسرے کو نہیں ابھارتے اور میراث کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں۔ قیامت قائم ہونے کے بعد یہ لوگ کہیں گے کاش ہم نے اس زندگی کے لیے کچھ کیا ہوتا۔ جب قیامت کا دن آئے گا تو اللہ مومن کو مخاطب ہوکر کہیں گے کہ اے نفسِ مطمئنہ، اپنے پروردگار کی طرف راضی ہوکر پلٹ جا اور میرے بندوں اور میری جنت میں داخل ہوجا۔

اس کے بعد سورۃ البلد ہے جس میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ نہیں، میں اس شہر یعنی مکہ کی گواہی دیتا ہوں اور (اے نبی) آپ اس شہر میں رہتے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تم سب کے باپ ابراہیم اور اس کی اولاد کو کہ جب انسان پیدا ہوا تو سخت مشکل میں تھا۔ پھر اللہ پاک نے انسان پر اپنے انعامات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ نے اس کو دو آنکھیں، زبان اور دو ہونٹ عطا فرمائے اور اس کی رہنمائی دو راستوں (ہدایت اور گمراہی) کی طرف کی ہے۔ اس کی مرضی ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرتا ہے۔ جو صحیح راستے پر چلے گا جنت میں جائے گا اور جو غلط راستہ اختیار کرے گا وہ جہنمی ہوگا۔

اس کے بعد سورۃ شمس ہے جس میں ارشاد ہے کہ اللہ نے نفس کو تخلیق کیا اور اس میں نیکی اور برائی کو الہام کر دیا، تو جو اپنے نفس کو آلودہ کرے گا وہ تباہ ہوجائے گا اور فلاح اسے ملے گی جو اپنے نفس کو پاک کرے گا۔ نیز قومِ ثمود کا ذکر ہے کہ انھوں نے اونٹنی کی پنڈلیاں کاٹ دیں جس کی سزا میں اللہ نے ان پر ایسی آفت توڑی کہ سب کو برابر کر دیا۔

اس کے بعد سورۃ الیل ہے جس میں اللہ نے فرمایا ہے کہ جس نے صدقہ دیا اور نیکی کی تائید کی اس کے لیے جنت کی راہ آسان کی جائے گی اور جس نے بخل کیا اور اچھی بات کو جھٹلایا اس کے لیے مشکل راستے یعنی جہنم کے راستے کو ہموار کر دیا جائے گا۔

اس کے بعد سورۃ الضحیٰ ہے جس میں اللہ پاک نے نبی کریم کو تسلی اور آئندہ ایک بڑی کامیابی کی بشارت دی ہے۔ نیز اس امر کی تلقین کی گئی ہے کہ پروردگار کی نعمتوں کا اعتراف کرنا چاہیے اور ان کا اظہار بھی کرنا چاہیے، یعنی تحدیثِ نعمت اللہ کا حکم ہے۔

اس کے بعد سورۃ الم نشرح ہے جس میں نبی کریم کو تسلی دی گئی کہ ہم نے آپ کا سینہ کھول دیا ہے اور آپ کا بوجھ ہلکا کر دیا ہے اور آپ کے تذکروں کو بلند کر دیا ہے۔ اور بے شک ہر تنگی کے بعد آسانی ہے۔

اس کے بعد سورۃ التین ہے جس میں تین اور زیتون کے پہاڑوں والے ملکوں یعنی فلسطین اور شام اور طورِ سینین کی قسم کھا کر فرمایا گیا ہے کہ مکہ امن والا شہر ہے اور انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا گیا ہے۔ پھر وہ خود ہی پستی میں چلا گیا۔ مگر جو لوگ ایمان لائے اور اعمالِ صالح کیے ان کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔

اس کے بعر سورۃ علق ہے جو اللہ کی طرف سے اترنے والی پہلی وحی ہے۔ ارشاد ہے کہ ہم نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے اور حضرت محمد علیہ السلام کو اللہ نے اپنے نام سے پڑھنے کا حکم دیا ہے اور ارشاد فرمایا کہ ہم نے انسان کو قلم کے ذریعے علم سکھایا جو کہ وہ نہیں جانتا تھا۔ نیز نماز و عبادت سے روکنے والوں کے برے انجام کی خبر دی گئی ہے اور سجدوں کے ذریعے اللہ سے قریب ہونے کو ارشاد فرمایا گیا ہے۔

اس کے بعد سورۃ قدر ہے جس میں ارشاد ہے کہ ہم نے اس قرآن کو تقدیر کے فیصلوں والی رات یعنی ایسی رات میں نازل کیا جس میں بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں اور قدر والی رات ہزار مہینوں سے زیادہ فضیلت کی حامل ہے۔ اس رات میں فرشتے اور روح الامین احکامات لے کر اترتے ہیں اور یہ رات طلوعِ فجر تک سلامتی ہے۔

اس کے بعد سورۃ بینہ ہے جس میں قریش اور اہلِ کتاب کے بعض لوگوں یعنی مشرکینِ بنی اسرائیل کے اس لغو مطالبے کا ذکر ہے کہ آسمان سے کوئی فرشتہ کتاب پڑھتا ہوا اترے۔ نیز دین کی دعوت کو پرکھنے کا اصل راستہ ذکر کیا گیا ہے۔ پچھلی کتابوں میں بھی اللہ کی عبادت، نماز اور زکوٰۃ کی تعلیم دی گئی تھی کہ یہی سیدھی ملت یعنی ملتِ ابراہیم کا دین ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلام کوئی نئے احکامات یا نظامِ عبادات لے کر نہیں آیا بلکہ یہ احکامات پہلے سے چلے آ رہے ہیں اور اسلام نے ان میں کہیں کہیں کوئی درستیاں یا تبدیلیاں تجویز کی ہیں۔

آگے فرمایا کہ منکرینِ حق یقینًا دوزخ میں جا پڑیں گے اور یہ بدترین مخلوق ہیں جب کہ ایمان اور اعمالِ صالح والے لوگ یقینًا مخلوقات میں بہترین لوگ ہیں اور اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔

اس کے بعد سورۃ زلزال ہے جس میں انسان کو تنبیہہ کی گئی ہے کہ وہ روزِ حشر سے غافل نہ رہے جب زمین بری طرح ہلائی جائے گی اور وہ اپنے سارے بوجھ نکال باہر کرے گی۔ اس دن لوگوں کو ان کے اعمال دکھائے جائیں گے۔ جس نے ذرہ بھر بھلائی کی ہے وہ بھی دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہے وہ بھی دیکھ لے گا۔

اس کے بعد سورۃ عادیات ہے جس میں انسانوں کو ان کے برے رویوں کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے۔ ارشاد ہے کہ ہانپتے دوڑتے گھوڑے جو لوٹ مار کے لیے استعمال ہوتے ہیں یہ گواہی دیتے ہیں کہ انسان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے اور مال کی محبت میں مبتلا ہے۔ قیامت کے دن انسانوں کے دلوں کے ارادے، نیتیں اور باطنی محرکات سب کھل کر سامنے آ جائیں گے۔

اس کے بعد سورۃ قارعہ ہے جس میں آخرت کا مضمون ہے۔ ارشاد ہے اس دن لوگ پتنگوں کی طرح اڑیں گے اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کے مانند ہو جائیں گے۔ اس دن جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہ عیش میں ہوں گے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے ان کا ٹھکانہ دہکتی ہوئی آگ کی گہری کھائی ہے۔

اس کے بعد سورۃ تکاثر ہے جس میں دنیا کے مال اسباب کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کا بیان ہے کہ آدمی قبر تک اسی میں لگا رہتا ہے لیکن ان سب نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

اس کے بعد سورۃ عصر ہے جس میں اللہ پاک نے زمانے کی قسم اٹھا کر کہا ہے کہ ہر انسان ناکام ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور اعمالِ صالح اختیار کیے اور حق بات اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔

اس کے بعد سورۃ ہُمزہ ہے جس میں انسان کی کچھ اہم خرابیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو جہنم تک لے جاتی ہیں۔ ان میں اشارہ بازی، عیب لگانا، مال جمع کرنا اور گن گن کر رکھنا شامل ہیں۔

اس کے بعد آخری دس سورتیں ہیں جن میں پہلی سورۃ فیل ہے جس میں یمن کے عیسائی بادشاہ کے ہاتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ پر دھاوے کا بیان ہے اور جس لشکر کو پرندوں کے منہوں سے پکی مٹی کی کنکریوں کے ذریعے بھس بناکر رکھ دیا گیا تھا۔ یہ سال عام الفیل کہلایا۔ اگلی سورۃ قریش ہے جس میں قریش کو تلقین ہے کہ جس گھر یعنی کعبہ کی تولیت انھیں حاصل ہے اس گھر کے مالک نے انھیں رزق اور امن سے نوازا ہے۔ اگلی سورۃ ماعون ہے جس میں قریش کے سربراہوں میں پائی جانے والی چھہ معاشرتی خرابیوں کا ذکر ہے: روزِ جزا کو جھٹلانا، یتیم کو دھکے دینا، مسکین کو کھانا کھلانے کے لیے نہ ابھارنا، نمازوں کی حقیقت سے غافل ہونا، دکھاوے کی عبادت کرنا، روزمرہ استعمال کی ادنیٰ چیز کسی کو نہ دینا۔ اگلی سورۃ الکوثر ہے جس میں رسول اللہﷺ کو قیامت کے دن حوضِ کوثر کی بشارت دی گئی ہے (کچھ مفسرین نے کوثر سے مراد خانہ کعبہ مراد لیا ہے یعنی مکہ فتح ہونے کی عظیم خوش خبری) اور کہا گیا ہے کہ اپنے رب کی نماز پڑھو اور اسی کی قربانی دو، اور ساتھ ہی یہ بھی تسلی دی گئی ہے کہ آپ کا دشمن جڑ کٹا ہے یعنی وہ بے نام و نشان رہے گا۔ اگلی سورۃ کافرون ہے جس میں نبی پاک سے اعلان کرایا گیا ہے کہ اے کافرو، میں ان چیزوں کی عبادت نہ کروں گا جن کی عبادت تم کرتے ہو اور نہ کبھی تم اس (اللہ) کی عبادت کرو گے جس کی میں عبادت میں کرتا ہوں۔ تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔ اگلی سورۃ نصر ہے جس میں غلبہ حق کی بشارت ہے اور نبی کریم کو اللہ کی تسبیح بیان کرنے اور استغفار کا حکم ہے اور اپنے رب سے ملاقات کی تیاری کا اشارہ ہے۔ اگلی سورۃ لہب ہے جس میں اتمامِ حجت کے بعد ابولہب کی تکفیر اور اس کی بیوی (اور ہوا خواہوں) پر شدید عذاب کے نزول کا ذکر ہے۔ اس کے بعد سورۃ اخلاص ہے جس میں توحیدِ خالص کا فیصلہ کن بیان ہے کہ اللە اکیلا اور بے نیاز ہے، نہ وہ کسی کا باپ ہے نہ بیٹا، اور نہ کوئی اس کا ہم مرتبہ ہے. اگلی سورۃ فلق ہے جس میں ہر چیز کے نمودار کرنے والے رب سے پناہ طلب کی گئی ہے کہ وہ مخلوقات، چھا جانے والے اندھیرے، گرہوں پر پھونک مارنے والیوں، اور حاسدوں کے حسد کے شر سے بچائے. آخری سورۃ الناس ہے جس میں جنوں اور انسانوں میں سے وسوسہ ڈالنے والے خناسوں کے شر سے اللہ کی پناہ چاہی گئی ہے.

اللہ پاک ہمیں قرآنِ مجید میں بیان کردہ مضامین سے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
ماخذ فیس بک
Leave A Reply

Your email address will not be published.