خلافت تیس سال رھے گی ! از قاری حنیف ڈار

ابو داؤد،ترمذی،ابن ماجہ، اور احمد ابن حنبل نے حضرت سفینہؓ سے روایت کیا ھے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ” میری امت میں خلافت تیس سال رھے گی، پھر اس کے بعد ملک ھو گا،،سعید کہتے ھیں کہ پھر حضرت سفینہؓ نے مجھ سے فرمایا کہ تو ابوبکرؓ عمرؓ عثمانؓ و علیؓ کی خلافت دیکھ لے تو تجھے صاف نظر آ جائے گا کہ یہ تیس سال پورے ھو گئے ھیں،، ایک اور روایت میں ھے کہ اس میں حسنؓ کے چھ ماہ بھی شامل کر لو،،
سعید بن حجان راوی کہتا ھے کہ میں نے حضرت سفینہؓ سے عرض کیا کہ بنی امیہ تو یہ خیال کرتے ھیں کہ خلافت ان کے پاس ھے،، وہ بولے بنو زرقاء جھوٹ بولتے ھیں،، بلکہ وہ تو بادشاہ ھیں، اور بادشاہ بھی بدترین بادشاہ” ترمزی "ج2 ص 55 ابو داؤد کی روایت میں آخری الفاظ بالکل نہیں پائے جاتے،ابتدائی الفاظ مین بھی فرق ھے ،، اس میں روایت کیا گیا ھے کہ خلافت 30 سال رھے گی،پھر اللہ تعالی جسے چاھے گا اسے ملک عطا فرمائے گا !یہ وہ روایت ھے،جس پر خلافت و ملوکیت کا تاج محل قائم ھے،، اگر یہ عمارت ھلتی ھے تو فلسفہ ملوکیت کی ساری عمارت سربسجود ھو جاتی ھے،، آج تک جس نے بھی خلافتِ راشدہ یا ملوکیت پر قلم اٹھایا اور زبان کھولی ھے،،اس حدیث کو قرآن کی آیت کی طرح محکم مان کر اور جان کر اس کی تلاوت بھی فرمائی ھے اور اپنی عمارت کا سنگِ بنیاد بھی رکھا ھے، اس روایت کو ایک مسلمہ اسلامی عقیدے کے طور پر یش کیا گیا گویا کہ اس پر نبیﷺ کے زمانے سے لے کر تمام صحابہؓ میں اجماع رھا ھے ! اور دورِ صحابہؓ سے ھر شخص اسے تسلیم کرتا آیا ھے اور اس روایت میں کوئی شک شبہ نہیں !!!

یہ اسی روایت کا صدقہ ھے کہ ھر شخص خلافت کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر ختم سمجھتا ھے ، پاک و ھند میں علم الحدیث کا بطلِ جلیل شاہ ولی اللہ دہلوی اپنی کتاب ” ازالۃ الخفا” میں رقمطراز ھے کہ خلافت کی دو قسمیں ھیں،،خلافتِ نبوت اور خلافت راشدہ،،وہ فرماتے ھیں کہ خلافتِ نبوت جناب ذی النورین عثمانؓ ابن عفاں پر ختم ھو گئ تھی، اور حضرت معاویہؓ سے جس خلافت کی ابتدا ھوئی وہ خلافتِ راشدہ ھے،، جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دور فتنہ و فساد کا دور تھا،(جس کے بارے میں نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ اس فتنے میں بیٹھا شخص کھڑے شخص سے بہتر ھو گا اور لیٹا ھوا ،بیٹھے شخص سے بہتر ھو گا،،جس مین صحابہؓ کو نصیحت کی گئ تھی کہ وہ اپنی تلواریں ایک دوسرے کی گردنوں پر مارنے کی بجائے درخت کے تنے پر مار کر توڑ دیں،، کسی تلوار کے جواب میں اپنی تلوار نہ چلائیں بلکہ شہادت کو چن لیں،فرمایا اگر دوسرے کی تلوار کی چمک تمہیں خوفزدہ کر کے مجبور کرے کہ تو اپنے دفاع میں تلوار چلا،،تو اپنے چہرے پر کپڑا ڈال لینا مگر جواباً تلوار نہ اٹھانا،،

نبوت کے اس حکم پر 110 فیصد ٹھیک ٹھیک عمل جناب خلیفہ ثالث عثمان رضی اللہ عنہ نے کیا اور قرآن کی تلاوت کرتے ھوئے اپنی نظریں قرآن سے ھٹا کر اپنی گردن پر پڑنے والی تلوار کی طرف بھی نہیں دیکھا !!)شاہ صاحب لکھتے ھیں رہ گیا دور حضرت علیؓ کا تو وہ فتنے اور فساد کا دور تھا، نہ تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بلادِ اسلامیہ پر تمکن یا قبضہ حاصل ھوا اور نہ وہ انتظامِ مملکت سنبھال سکے،، اور آخر میں تو ان کی حکومت صرف کوفہ تک محدود رہ گئ تھی ” گویا مسلمان حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اعزازی یا آنریری خلیفہ مانتے ھیں "

اپنے اس موقف کے بارے میں وہ دو روایات لائے ھیں جو متواتر کے درجے کی ھیں،اور جن میں خلافت کے اشارے ملتے ھیں – ان روایات سے صاف ظاھر ھوتا ھے کہ خلافت نبوت حضرت عثمانؓ پر ختم ھو گئ تھی اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور کو تمام صحابہؓ نے اسی فتنے کا دور سمجھا جس سے نبیﷺ خبردار کر کے گئے تھے! یہی وجہ ھے کہ جنگِ صفین اور جنگِ جمل کے موقعے پر صحابہ کی عظیم اکثریت ان جنگوں سے الگ رھی، اور ان مین مرنے والے اکثر لوگ شام، مصر، عراق وغیرہ ان علاقوں کے لوگ تھے جو دین کی مبادیات تک سے ناواقف تھے، ان جنگوں میں شہید ھونے والے صحابہؓ انگلیوں پر گنے جا سکتے ھیں باقی 86000 کے لگ بھگ لوگوں میں سارے آفاقی لوگ تھے !

جسٹس تقی عثمانی صاحب اپنی کتاب” حضرت معاویہؓ اور تاریخی حقائق ” میں صفحۃ 216 پر لکھتے ھیں ” امام محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ( المتوفی 110 ھ) کا کہنا تو یہ ھے کہ صحابہ کی اکثریت اس جنگ”صفین” مین شریک نہیں تھی، امام احمد نے صحیح تر سند کے ساتھ ان کا یہ قول نقل کیا ھے” ھاجت الفتنۃ و اصحاب الرسولﷺ عشرات الوف فلم یحضرھا منھم مائۃ ،،بل لم یبلغوا ثلاثین” جس وقت فتنہ برپا ھوا تو اصحاب الرسولﷺ دسیوں ھزار کی تعداد میں موجود تھے،لیکن ان میں سے 100 بھی جنگِ صفین میں شریک نہ ھوئے بلکہ ان کی تعداد 30 تک بھی نہیں پہنچتی !!نیز امام احمد ھی یہ روایت کرتے ھیں کہ امام شعبہ کے سامنے کسی نے کہا کہ ابو شیبہ نے حکم کی طرف منسوب کر کے عبدالرحمان بن ابی لیلی کا یہ قول نقل کیا ھے کہ جنگ صفین میں ستر بدری صحابہ شامل تھے ! شعبہ نے فرمایا” ابو شیبہ نے جھوٹ کہا ھے،، اللہ کی قسم اس معاملے میں میرا اور حکم کا مذاکرہ ھوا تھا، اور ھم اس نتیجے پر پہنچے کہ صفین میں بدری صحابہ میں سے سوائے خزیمہ ابن ثابت الانصاریؓ کے سوا کوئی شریک نہیں ھوا تھا، ( حضرت امیر معاویہؓ اور تاریخی حقائق 216 )

امام ابن تیمیہ اس روایت کی سند نقل کر کے لکھتے ھیں کہ ‘ ھذا الاسناد اصح الاسناد علی وجہہ الارض،، یہ روئے زمین پر پائی جان والی سب سے صحیح سند ھے ،،محمد ابن سیرین کی روایت مین لفظ عشرات الوف آیا ھے،عشرات عشرہ کی جمع ھے جو تین سے نو تک بولا جاتا ھے،جبکہ الوف الف کی جمع ھے،،گویا تیس ھزار سے نوے ھزار کے درمیان موجود صحابہ مین سے صرف تیس صحابہؓ نے اس جنگ میں شرکت کی جن میں صرف ایک بدری تھے،، اگر یہ تیس سال والی حدیث صحیح تھی تو صحابہ کرام کی اتنی عظیم اکثریت اپنے خلیفہ کو بے یار و مددگار چھوڑ کر الگ کیوں رھی؟ نیز ھزاروں تابعین بھی ان فتنوں سے الگ رھے اور خلیفہ کا ساتھ نہ دیا،،بلکہ صحابہؓ کی عظیم اکثریت نے حضرت علیؓ کی بیعت تک نہیں کی اور مسلمانوں کے خلاف ان جنگوں میں حصہ لینے کے لئے تیار نہیں ھوئے جن میں کم و بیش ایک لاکھ انسانوں کی جانیں گئیں،،

بلکہ عجیب بات یہ ھوئی کہ تیس سال والی روایت کے راوی حضرت سفینہؓ خود بھی الگ رھنے والوں میں شامل تھے اور کسی جنگ میں بھی حضرت علیؓ یا امیر معاویہؓ کیطرف سے جنگ میں شریک نہیں ھوئے، گویا صحابہؓ کا اجماع تھا کہ یہ خلافت نہیں ایک فتنہ ھے جو مسلمانوں کا لہو چاٹ رھا ھے،، شاید اس وقت تک ان کو سعید بن جہان کی کہانی سے ناواقف تھے جس نے آگے چل کر امت میں ایک مسلمہ حیثیت اختیار کر لی !صحابہ کا دوسرا اجماع اس وقت ھوا جب امام حسن رضی اللہ عنہ نے صلح کے نتیجے میں اپنی خلافت ترک کر کے امیر معاویہؓ کی بیعت کی تو امام حسینؓ سمیت تمام صحابہؓ نے امیر معاویہؓ کی بیعتِ خلافت کی اور اس سال کا نام عام الجماعہ رکھا گیا،،

اب اگر اس حدیث کی رو سے امیر معاویہؓ کی خلافت ،خلافت نہیں بلکہ ملوکیت تھی،،تو اس ،لوکیت کی بنیاد تمام صحابہؓ نے بشمول امام حسنؓ اور امام حسینؓ اپنے اجماع سے رکھ کر اسے عام الجماعت بنا دیا،، تو صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین اور امامین "معصومین” کے اجماع کے مقابلے میں اس روایت کی عملی حیثیت کیا رہ جاتی ھے ؟اگر یہ روایت صحیح ھے تو پھر اس کا یہ نتیجہ قبول کیئے بغیر چارہ نہیں کہ ،صحابہ اور امامین "معصومین ” (جو کبھی غلطی نہیں کرتے کیونکہ وہ وحی کے تابع ھوتے ھیں) نے اجماع کے ساتھ ملکر اپنا ھاتھ بدترین بادشاہ کے ھاتھ میں دے کر خلافتِ نبوت کو کٹکھنی ملوکیت مین تبدیل کرنے کے جرم کا ارتکاب کیا ؟اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اگر یہ روایت درست تھی تو خود حدیث کے راوی نے حضرت معاویہؓ اور بعد مین ان کے فرزند یزید کی بیعت کیوں کی ؟ جبکہ حضرت علیؓ اور حضرت حسنؓ کے زمانے میں تو الگ بیٹھے رھے ؟؟ محدثین کے اصول کے مطابق جب کسی حدیث کا راوی اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف عمل کرے تو وہ روایت اپنا اعتبار کھو دیتی ھے اور سند کتنی بھی قوی ھو،،قابلِ عمل نہیں رھتی !

پھر اگر تیس سال خلافت راشدہ ھو گی،تو تیسویں سال کی ذی الحجہ کی آخری مغرب کے ساتھ ھی خلیفہ جو کہ عصر تک خلیفہ راشد تھا،ٹھیک مغرب کی اذان کے ساتھ ملک یا بادشاہ بن جاتا،، اس طرح گویا ثابت یہ کیا جا رھا ھے کہ 40 ھ میں امام حسنؓ نے بیعتِ خلافت لی، اور ٹھیک ربیع الاول 41 میں تیس سال پورے ھوتے ھی،ان کی خلافت ملوکیت مین تبدیل ھو گئ اور وہ ایک بلند مقام سے کہیں اور جا پہنچے !

اگر اس بات پر عقلاً غور نہ بھی کیا جائے کہ ایک نبی اور وہ بھی آخری نبی ﷺ اپنی امت کو یہ کیسے کہہ سکتا ھے کہ جس نظام کو میں نے 23 سالہ محنت شاقہ اور اللہ پاک کی عملی نصرت سے قائم کیا ھے وہ صرف تیس سال چلے گا،، اور پھر میرے ھی تربیت یافتہ لوگوں کے ھاتھوں اس کا خاتمہ کچھ اس طرح ھو گا کہ وہ آپس میں ھی ایک دوسرے کو کاٹ ڈالیں گے ( کاٹ کھانے والی ملوکیت) اور پھر وھی ظلم و جور واپس آ جائے گا،،لہذا تم بھی جانیں لڑا کر اور دھائیوں لڑ کر اس نظام کو قائم کرنے کی کوشش کرنا،، جس کی طبعی عمر صرف 30 سال ھے ! ؟؟ تو بھی اس حدیث کے اندر اور اس کے ارد گرد اتنے قوی قرائن موجود ھیں کہ اگر پاکستانی پولیس کی طرح بندہ طے نہ کر لے کہ وہ مجرم کو نہیں پکڑے گی، تو اس کہانی کے جھوٹ کو پکڑنے میں کوئی خاص محنت نہیں کرنی پڑتی،،
ھمارے اسلاف اس موضوع پر اتنا کام کر کے چھوڑ گئے ھیں کہ اگر اسے استعمال کیا جائے تو دین میں ملاوٹ کرنا ممکن ھی نہیں ،،لیکن اگر علماء خود ھی آنکھیں بند کرلیں اور عوام افیم کھانے پر تل جائیں تو پھر سب کچھ ممکن ھے !اصول محدثیں میں لکھا گیا ھے ؎
1- سب سے پہلے حدیث کو قرآن پر پیش کیا جائے کہ وہ اس کے خلاف نہ ھو!
2- حدیث اپنے اسے قوی حدیث کے معارض نہ ھو !
یہ حدیث بعض ایسی قوی تر احادیث کے خلاف ھے اور اس طرح خلاف ھے کہ اس کی تاویل بھی ممکن نہیں ، اس تیس سال والی حدیث کے مخالف حدیث بخاری و مسلم ، ابو داؤد، ترمذی،اور امام احمد نے سمرہ ابن جندبؓ سے روایت کی ھے کہ اسلام تب تک غالب رھے گا جب تک بارہ خلفاء نہ گزر جائیں،، ایک روایت میں اس حکومت میں اس وقت تک تزلزل نہیں آئے گا جب تک بارہ خلفاء گزر نہ جائیں،، ابو داؤد کی روایت میں یہ الفاظ ھیں کہ ایسے بارہ خلفاء جن پر امت کا اجماع ھو ،،اور طبرانی نے روایت کی ھے کہ ان بارہ خلفاء کو کسی دشمن کی عداوت نقصان نہ پہنچا سگے گی ! ترمذی نے پارہ خلفاء والی حدیث کو صحیح اور تیس سال والی کو حسن کہا ھے،، ترمذی کا حسن ،یقینی ضعیف ھوتا ھے !
سنن ابوداؤد کی ایک اور روایت بھی اس تیس سالہ حدیث کے مخالف ھے، جس کے راوی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ھیں، صدیقؓ فرماتے ھیں کہ ایک روز نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم سے سے کسی نے اگر کوئی خواب دیکھا ھو تو بیان کرے ! ایک شخص نے عرض کیا کہ ائے اللہ کے رسولﷺ میں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک ترازو آئی ھے،،اس مین آپ ﷺ کو اور ابوبکرؓ کو تولا گیا تو آپ بھاری رھے،، پھر ابوبکرؓ اور عمرؓ کو تولا گیا تو ابوبکرؓ بھاری رھے،، پھر عمرؓ اور عثمانؓ کو تولا گیا تو عمرؓ بھاری رھے اس کے بعد ترازو اٹھا لیا گیا !! ابوبکرؓ فرماتے ھیں کہ ھم نے نبی کریمﷺ کے چہرہ اقدس پر ناگواری کے اثرات دیکھے لیکن آپ نے لوگوں کی طرف متوجہ ھو کر فرمایا کہ ھٰذا خلافۃ النبوہ، ثمہ یؤتی اللہ الملک من یشاء،، یہ خلافتِ نبوت ھے،پھر اللہ ملک جس کو چاھے گا عطا کر دے گا ،،
امام ابن تیمیہ اس حدیث پر بحث کرتے ھوئے رقمطراز ھیں کہ؎نبی کریمﷺ نے اس حدیث میں واضح فرما دیا ھے کہ ان تینوں یعنی ابوبکرؓ و عمرؓ اور عثمانؓ کی خلافت ،خلافتِ نبوت ھے، پھر ملک اس کے بعد ھو گا، یعنی حکومت یا بادشاھت اور اس خلافت نبوت میں علیؓ کا ذکر نہیں ،کیونکہ ان کے زمانے مین لوگ ان پر جمع نہیں ھو سکے تھے بلکہ ان میں آپس میں اختلاف رھا، اس طرح حضرت علیؓ نہ خلافتِ نبوت کے منتظم اور نہ ھی ملک کے ( منہاج السند ج 1 ص 357 )
بارہ خلفاء والی حدیث کو سورہ المائدہ کی آیت ” و جعلنا منھم اثنی عشر نقیباً۔ اور ھم نے بنی اسرائیل مین سے بارہ نقیب بنائے،، کے ضمن میں ذکر کیا جاتا ھے کہ اللہ نے بنی اسرائیل میں بارہ نقیب بنائے تو اس امت مین بارہ خلفاء اٹھائے،، امامیہ اس سے مراد اپنے بارہ امام لیتے ھیں اور اس بارہ کے عدد کو اس طرح دانتوں سے پکڑتے ھیں کہ تعداد کی حفاظت کے لئے بارھویں امام کو چھ سال کی عمر میں صرف کرتے میں قرآن سمیت ایک غار میں قید کر دیتے ھیں کہ اس کے شادی کرنے سے کہیں بارہ کا ھندسہ خراب نہ ھو جائے،،
جب کہ بدر الدین عینی ان بارہ کی تفصیل کچھ یوں بتاتے ھیں، 1 ابوبکرؓ 2 عمرؓ 3 عثمانؓ 4 علیؓ 5 حسن بن علیؓ 6 معاویہ بن سفیانؓ 7 یزید بن معاویہ 8 عبداللہ بن زبیرؓ 9 عبدالملک 10ولید بن عبالملک 11 سلیمان بن عبدالمک 12 عمر بن عبدالعزیز ( عمدۃ القاری شرح بخاری )اھلِ سنت میں سے قاضی عیاض اس بارہ خلفاء والی حدیث کا مطلب یہ بتاتے ھیں کہ بارہ وہ خلفاء جن کے دور میں اسلام کی خدمت خوب بن آئی اور وہ متقی ھوں ،،( یعنی اسلام علاقائی طور پر بھی پھیلا اور علمی طور پر بھی راسخ ھوا،،یہ دور اموی دور ھے جب اسلام یورپ کی سرحد میں اور افریقہ کے بطن تک جا پہنچا،، جبکہ دینی علوم میں بھی تشتت اور تفرقہ بازی نام کو نہ تھی،، جبکہ بنو عباس کا دور دو لحاظ سے اسلام اور مسلمانوں کے لئے تباہ کن ثابت ھوا ،،

یہی وہ دور تھا جس میں جعلی اور مصنوعی احادیث کی کاٹیج فیکٹریاں لگیں،، لوگ بے دھڑک حدیثیں گھڑتے بلکہ ایسے راوی بھی پائے جاتے تھے جو ضرورت کے وقت اسناد بنا کر دیتے تھے،، آپ جایئے جا کر بتایئے کہ آپ کو کس قسم کی حدیث بنوانی ھے اور کس کی شان یا مذمت میں بنانی ھے،، آپ کو ریٹ بتا دیا جائے گا،، اگر اعلی سند بنانی ھے تو اتنے پیسے،، درمیانہ بنوانی ھے تو اتنا معاوضہ اور کمزور کا اتنا معاوضہ ھو گا،،لوگ اپنی جیب کی طاقت کے مطابق سند بنوا لیتے تھے،،
بلکہ یہ سہولت بھی موجود تھی کہ ارجنٹ سند بنوانی ھے تو ریٹ یہ ھو گا،،دو دن بعد اتنا اور ھفتے بعد چاھئے تو تھوڑا سستا کام ھو جائے گا،،126 ھ کے بعد یہی عباسی دور تھا جس نے دین کی بنیاد میں مصنوعی اور ضعیف حدیثوں کی بارودی سرنگیں رکھیں جنہوں نے ایک طرف قرآن کو غیر متعلق (irrelevant ) بنا کر رکھ دیا، اسلام اور مسلم معاشرے مین اس کی حیثیت صرف ایک آئینی بادشاہ کی بنا کر رکھ دی،جس کا قانون سازی میں کوئی عملی ( Right of say ) باقی نہ رھا،، ان حدیثوں نے آگے چل کر امت مین تفرقہ بازی کا ایک سیلاب بپا کر دیا جبکہ بنو امیہ کے دور میں مذھبی تفرقہ بازی ناپید تھی،، دوسرا وار بنو عباس کی خلافت کے دوران یہ ھوا کہ چونکہ وہ علویوں کے بھی دشمن تھے،، علویوں یا اولادِ فاطمۃ الزھراءؓ پر جتنے مظالم بنو عباس کے دور مین ھوئے اس کا عشرِ عشیر بھی امویوں کے دور میں نہ ھوا تھا،، دوسری جانب وہ امویوں سے بھی قبائلی عناد رکھتے تھے،،

اپنوں سے عداوت کے نتیجے میں انہیں ایرانیوں پر اعتماد کرنا پڑا یوں عجم نے عربوں کے اقتدار میں راہ پائی اور پھر ان کے دین کو بھی آلودہ کر دیا،، اور ابراھیم برمکی وغیرہ اور دیگر ایرانی سرداروں نے عربوں کو خوب لڑایا اور خلیفہ وقت ان کے ھاتھ میں کٹھ پتلی بن گیا،، بنو عباس کے زمانے مین ھی ائمہ فقہ پر جیلوں کے دروازے کھولے گئے اور انہیں دار و رسن کا مزہ چکھنا پڑا،،کوڑے اور جیلیں ،ان ائمہ کا مقدر ٹھہرا، اس زمانے مین جعلی احادیث کی برسات نے ھی ائمہ حضرات کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ حدیث کی نسبت آثارِ صحابہ کو ترجیح دیتے تھے کیونکہ وہ عملی تواتر کی وجہ سے محفوظ آپشن تھا !!)
آمدم بر سرِ مطلب حدیث سفینہؓ جو تیس سال خلافت کی بات کرتی ھے اس کے بارے میں علامہ محب الدین الخطیب المصری جو موجودہ صدی کے ایک مسلمہ محقق ھیں وہ العواصم والقواصم کے حاشیے پر رقمطراز ھیں کہ” حدیثِ سفینہ صحیح نہیں ھے، اس لیئے کہ حضرت سفینہؓ سے اسے سعید بن جمہان نے روایت کیا ھے اور اس پر محدثین مین اختلاف ھے، بعض ثقہ کہتے ھیں تو امام ابو حاتم رازی کے نزدیک اس کی حدیث حجت نہیں،، اس سے روایت کرنے والا حشر بن نباتۃ الواسطی ھے جو بعض کے نزدیک قوی ھے تو نسائی کے نزدیک قوی نہیں ھے ،،

عبداللہ بن احمد بن حنبل نے اس روایت کو سوید الطحان سے نقل کیا ھے ،حافظ ابن حجرتقریب التہذیب، میں لکھتے ھیں یہ حدیث مین ضعیف ھے، اور یہ روایت اس صحیح حدیث کے خلاف ھے جو صحیح مسلم کی کتاب الامارات میں حضرت سمرہ بن جندبؓ سے مروی ھے کہ میں اپنے والد کے ساتھ رسول اللہﷺ کی خدمت مین حاضر ھوا۔، آپﷺ نے فرمایا کہ یہ امـــر اس وقت تک منقطع نہ ھو گا جب تک بارہ خلیفہ نہ گزر جائیں،، پھر آپﷺ نے آئستہ سے کوئی بات فرمائی جو میں سن نہ سکا ،، پھر میں نے والد سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آپﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ بارہ خلفاء قریش مین سے ھوں گے ! یہ حدیث بخاری میں بھی دیکھی جا سکتی ھے ، نیز سنن ابی داؤد اور مسند احمد میں مسروق بن الاجدع سے مروی ھے کہ وہ کہتے ھیں کہ ھم جناب عبداللہ ابن مسعودؓ کے پاس بیٹھے تھے ،وہ ھمیں قرآن پڑھا رھے تھے- ایک شخص نے ان سے عرض کیا کہ اے ابو عبدالرحمان کیا آپ اصحابِ رسول نے آپﷺ سے دریافت کیا تھا کہ اس امت کے مالک کتنے خلیفہ ھوں گے،،ابنِ مسعود نے فرمایا میں جب سے عراق آیا ھوں مجھ سے کسی نے یہ سوال نہیں کیا،،پھر فرمایا ھاں ھم نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا تھا اور آپ نے فرمایا تھا بارہ خلفاء ھونگے بنو اسرائیل کے نقیبوں کی تعداد کے برابر !
محب الدین الخطیب لکھتے ھیں یہ حدیث،، مجمع الزوائد ج 5 ص 190، مسند احمد ج 5( 87786 ) پر تین سندوں سے،، ص 88 ،89 90 پر تین سندوں سے 92 پر تین سندوں سے 93 پر دو سندوں سے 99 پر تین 94،95 پر دو سندوں سے97 پر دو 98 پر تین 99 پر تین 100،ا101 پر دو سندوں سے 107 پر دو سندوں سے 108 پر دو سندوں سے وارد ھے !
صحیح مسلم اور ابو داؤد کی ایک اور روایت بھی دیکھ لیجئے، ابو ھریرہؓ کا بیان ھے کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ھوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ میں نے رات ایک خواب دیکھا !
ایک سائبان ھے جس سے گھی اور شہد ٹپک رھا ھے،میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ ھاتھوں سے بھر بھر اسے لوٹ رھے ھیں،کچھ نے خوب لُوٹا اور کچھ نے کم،، پھر میں نے آسمان سے زمین تک ایک رسی لٹکی دیکھی،میں نے دیکھا کہ آپﷺ نے اس رسی کو پکڑا اور اوپر چڑھ گئے،،پھر ایک اور شخص آیا وہ وہ بھی رسی پکڑ کر اوپر چڑھ گیا،پھر تیسرا شخص آیا اس نے رسی پکڑی اور وہ بھی اوپر چڑھ گیا،، پھر چوتھا شخص آیا اور اس نے رسی پکڑی مگر وہ رسی درمیان سے منقطع ھو گئ،، پھر وہ رسی خود بخود جڑ گئ اور وہ شخص اوپر چڑھ گیا اور وہ رسی اٹھا لی گئ !
ابوبکرؓ نے عرض کیا ، یا رسول اللہﷺ مجھے اجازت دیجیئے کہ میں اس کی تعبیر بیان کروں ! آپﷺ نے اجازت مرحمت فرما دی !
ابوبکرؓ نے فرمایا سائبان اسلام ھے، شہد اور گھی جو ٹپک رھا ھے قرآن کی نرمی اور حلاوت ھے،کسی نے زیادہ حاصل کیا اور کسی نے کم، رسی وہ حق ھے جس پر آپ قائم ھیں ، اللہ جب آپﷺ کو اٹھا لے گا تو ایک دوسرا شخص اسے سنبھالے گا،پھر وہ بھی اٹھ جائے گا،تو تیسرا اس کو سنبھالے گا،پھر اس کے اٹھنے پر چوتھا اسے لے لے گا، مگر رسی ٹوٹ جائے لیکن پھر جڑ جائے گی اور چوتھا بھی آسمان پر چڑھ جائے گا،،اس کے بعد ابوبکرؓ نے پوچھا کیا میں نے درست تعبیر بیان کی ھے اے اللہ کے رسولﷺ؟ آپ نے فرمایا کچھ ٹھیک اور کچھ غلط،،
اس سلسلے کی بہت ساری احادیث مین سے ایک آخری حدیث پر بات کو ختم کرنا چاھوں گا،، سمرہ بن جندبؓ فرماتے ھیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ میں نے خواب مین دیکھا ھے کہ آسمان سے ایک ڈول لٹکایا گیا ھے، ابوبکرؓ نے اس ڈول کے دونوں کنارے پکڑے اور اس میں سے کچھ پیا ھے، لیکن ان کے پینے میں کچھ ضعف تھا،( یعنی مدتِ خلافت کم تھی ) پھر عمرؓ نے اس ڈول کے دونوں کنارے پکڑے اور اس میں سے کچھ پانی پیا ،،پھر عثمان آئے اور انہوں نے خوب سیر ھو کر پیا ،،اس کے بعد علیؓ آئے اور انہوں نے اس ڈول کی لکڑی پکڑی۔لیکن وہ ڈول ایک جھٹکے کے ساتھ ان کے ھاتھ سے چھوٹ گیا اور اس میں سے کچھ چھینٹے ان پر پڑے ( ابو داؤد ج2 )
انہی روایات کو پیشِ نظر رکھتے ھوئے شاہ ولی اللہ دھلوی نے ازالۃ الخفاء میں یہ فیصلہ دیا ھے کہ حضرت علیؓ خلیفہ نہیں تھے،اس لئے کہ مملکت کا نظام ان کے ھاتھ نہ آسکا اور صرف شہر کوفہ ان کے زیرِ نگیں رہ گیا،،یہ پانچ سال بغیر خلیفہ کے گزرے اور پھر خلافت امیر معاویہؓ سے شروع ھوئی ! اور فتنے کا خاتمہ حضورﷺ کی دی گئ خبر کے مطابق حضرت حسنؓ کی صلح سے ھوا !!

سورس

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.