خلافت درجہ بدرجہ ! تحریر: قاری حنیف ڈار
نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ پاک کے منتخب کردہ رسول اور پیامبر تھے – سوائے اللہ کے کسی کے سامنے جوابدہ نہیں تھے اور آپ ﷺ کی رسالت کی مدت بھی مقرر نہیں تھی ، نہ لوگوں نے آپ ﷺ کو منتخب کیا تھا اور نہ لوگ آپ ﷺ کو معزول کر سکتے تھے اور نہ ھی نبئ کریم ﷺ کسی کے سامنے استعفی پیش کر سکتے تھے –
رسول اللہ ﷺ آل اِن آل تھے ،،
آپ کا کسی محکمے کا کوئی وزیر نہیں تھا –
نہ آپ کا وزیر داخلہ تھا ، نہ وزیر خارجہ تھا ، نہ وزیر اطلاعات و نشریات تھا ، نہ وزیر ھاؤسنگ تھا اور نہ ھی کوئی چیف آف آرمی اسٹاف تھا ، یہ سب کچھ آپ ﷺ خود ھی تھے اور صحابہؓ میں سے جس کو چاھتے تھے اس سے کوئی بھی کام لے لیتے تھے ، مستقل چیف آف آرمی اسٹاف کی بجائے ھر مہم کے لئے نیا نام سامنے آتا تھا یہانتک کہ 17 یا 18 سال کے اسامہ بن زیدؓ کو اس لشکر کا کمانڈر بنا دیا جس میں ابوبکرؓ و عمرؓ جیسے جہاندیدہ اور بزرگ صحابہؓ موجود تھے –
آپ ﷺ نے جب دنیا سے رحلت فرمائی تو ایک خلا چھوڑ کر گئے ، کسی کو بھی نام لے کر نامزد نہیں کیا اور نہ ھی کسی نے اپنے انتخاب میں کوئی قول یا تحریر پیش کی کہ نبئ کریم ﷺ نے ان کو اپنا خلیفہ بنایا تھا ، حقیقت یہ ھے کہ اس سلسلے کی ساری احادیث جن سے آج ھم استدلال کرتے ھیں وہ صدیوں بعد منظر عام پر آئی تھیں جب خلفاء خلافت کی ذمہ داریاں پوری کر کے اللہ کے حضور حاضر ھو گئے تھے ، بخاری شریف کی وہ روایت جو ام المومنین حضرت صدیقہ طیبہ طاھرہ رضی اللہ عنہا و عن ابیہا سے منقول ھے کہ جس میں کہا گیا ھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عائشہؓ میں نے ارادہ کیا تھا کہ تیرے باپ کا نام بطور خلیفہ لکھوا جاؤں تا کہ میرے بعد کوئی طمع کرنے والا اس امر میں طمع نہ کرے ، پھر میں نے سوچا کہ اللہ اور مومن سوائے ابوبکرؓ کے کسی اور پر راضی نہیں ھونگے ( لہذا مجھے کچھ لکھوانے کی ضرورت نہیں ) اس حدیث سے سقیفہ بنو سعدہ میں استدلال نہیں کیا گیا ، نہ اس کو وھاں پیش کیا گیا اور نہ ھی اگلے دن مسجد میں بیعتِ عام کے موقعے پر اور نہ بعد میں حضرت علیؓ کو قائل کرنے کے لئے اس حدیث یا اس جیسی اور احادیث کو پیش کیا گیا ، اور نہ ھی لوگ اس حدیث سے اس وقت واقف تھے – یہ بہت بعد میں منظرِ عام پر آئی – نبئ کریم ﷺ نے مرض الوفات میں ابوبکر صدیقؓ کو اصرار کے ساتھ امام بنوا کر اور آپؓ کی اقتدا میں نماز پڑھ کر عملی طور پر اشارہ دے دیا تھا کہ آپﷺ کے دل کی تمنا کیا ھے ،اس امامت کو بطور دلیل استعمال کیا گیا کہ ” اللہ کے رسول ﷺجس کے حوالے تمہارا دین کر گئے ھیں اپنی دنیا بھی اس کے حوالے کر دو ” لیکن نام لے کر نبئ کریم ﷺ نے یا گواہ بلوا کر کسی کو نامزد نہیں کیا –
آنے والے خلفاء کو سوائے رسالت اور نبوت کے باقی کی تمام حیثیتیں منتقل ھو گئیں ، جو رسول ﷺ کی رسالت کا جزوِ لا ینفک تھیں اگر وہ رسول ﷺ سے الگ کر کے کسی اور کو بانٹ دی جاتیں تو رسالت کا منصب بے معنی ھو کر رہ جاتا ، مگر بعد میں خلفاء راشدین نے ان میں سے کچھ ذمہ داریاں بانٹ دیں شوری کو مشورے کا اختیار دیا مگر آفٹر آل فیصلہ خلیفہ کا ھی فائنل ھوتا تھا ، کوئی مستقل قاضی یا چیف جسٹس نہیں تھا ، دو لوگوں میں تنازعہ ھوتا تو وہ خود ھی کسی تیسرے کو حکم یا قاضی یا جج بنا کر اس کے فیصلے کو مان لیتے تھے ، کوئی مستقل عدالت ، کوئی مستقل جج ، یا عدالتی عملہ نہیں تھا ، فیصلے لکھنے کا کوئی سرکاری انتظام نہیں تھا ،گرفتاری کے لئے کوئی پولیس نہیں تھی ، کسی بھی پاس سے گزرنے والے کو کہہ دیا جاتا تھا کہ فلاں بندے کو بلا کر لے آؤ اور بس ،
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خط و کتابت کا ریکارڈ رکھنے ، دستاویزی ریکارڈ رکھنے کا انتظام کیا اور سرکاری آرکائیو بنوایا جس کے لئے ھجری تقویم کا فیصلہ کیا گیا ، مستقل شرطہ یعنی پولیس اور قید خانہ بنوایا ،،