یہودیوں کا قبلہ: قرآن، توریت اور زبور کی روشنی میں تحریر: ابن آدم

سورہ البقرۃ قران کریم کی سب سے طویل سورت ہے، اور مدینہ ہجرت کے بعد نازل ہونے والی پہلی تفصیلی سورت ہے جس میں باقاعدہ طور پر ایک سابق امت یعنی یہودیوں پر فرد جرم عائد کی جارہی ہے، اور وہ وجوہات بیان کی جارہی ہیں جسکے باعث وہ اس جہاں میں منصب امامت کے اہل نہیں ہیں- رسول پاکﷺ کی مدینہ ہجرت سے پہلے ہی یہودی ایک قابل ذکر تعداد میں وہاں بسے ہوئے تھے۔ جس وقت نبی پاک ﷺ مدینہ آئے تو یہود یروشلم کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے. مگر سوال یہ ہے کہ اس قبلہ کا تعین کیا الله نے کر کے دیا تھا یا انھوں نے خود ہی اس کو اپنا قبلہ بنا لیا تھا؟

یہودی حضرت اسحاقؑ کے ذریعے سے اولادِ ابراہیمؑ تھے۔ حضرت اسحاقؑ کے بیٹے حضرت یعقوبؑ کا لقب اسرائیل تھا. اور یوں ان کی نسل بنی اسرائیل کہلاتی ہے جو کہ انکے بارہ بیٹوں کی نسبت سے بارہ قبائل پر مشتمل تھی۔ حضرت یعقوبؑ کے صاحب زادے حضرت یوسفؑ کے مصر میں حکمران بن جانے کے بعد خاندانِ یعقوبؑ فلسطین سے مصر چلا گیا۔ اللہ نے انکی اولاد میں بہت برکت دی، یہاں تک کہ مقامی قبطی قوم اسرائیلیوں سے خوف محسوس کرنے لگی اور فراعنہ نے ان لوگوں کو اپنا محکوم بنالیا اور انکے بیٹوں کو قتل کرنے لگے۔ ان حالات میں حضرت موسیٰؑ کی پیدائش ہوئی. مگر اللہ نے انکی حفاظت کا بندوبست یہ کیا کہ فرعون ہی سے انکی پرورش کروائی۔ بعد ازاں انکو رسالت مل گئی- الله تعالیٰ نے ان کو نشانیاں عطا کیں اور انکو فرعون کے دربار میں دعوت دے کر بھجوایا۔ فرعون کی سرکشی میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہوتا چلا گیا مگر دوسری طرف بنی اسرائیل بھی تمام نشانیاں دیکھنے کے باوجود بھی حضرت موسیٰؑ سے زیادہ خوش نہیں تھے۔ ایک ایسے رسول پر ایمان لانے میں تردد کر رہے تھے جو انہی کی آذادی کی جنگ لڑرہا تھا۔ چند نوجوانوں کو چھوڑ کر باقی لوگ اپنی قوم کے بزرگوں کے اثر میں اور فرعون کے خوف سے حضرت موسیٰ پر ایمان نہیں لا رہے تھے۔ توریت کی کتاب خروج کے باب ۵ میں اسکی تفصیل اس طرح بیان ہوئی ہے:

اس لئے انہوں نے (اسرائیلیوں نے) موسیٰ اور ہارون سے کہا، “تم لوگوں نے بُرا کیا تم نے فرعون سے ہم لوگوں کو جانے دینے کے لئے کہا خدا وند تم کو سزا دے کیوں کہ تم لوگوں نے فرعون اور اسکے حاکموں میں ہم لوگوں کی طرف سے نفرت پیدا کی۔ تم نے ہم لوگوں کو مار نے کا ایک بہانہ انہیں دیا ہے۔” کتاب خروج، باب ۵
قرآن پاک اپنے ہی رسول کے خلاف اسرائیلیوں کی اس مذمت کا ذکر سورہ یونس کے ان الفاظ سے کرتا ہے:

موسیٰؑ کو اس کی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سر بر آوردہ لوگوں کے ڈر سے (جنہیں خوف تھا کہ) فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا اور واقعہ یہ ہے کہ فرعون زمین میں غلبہ رکھتا تھا اور وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو کسی حد پر رکتے نہیں ہیں ﴿۸۳﴾

پھر حضرت موسیٰ نے ان کو الله پر بھروسہ رکھنے کی تلقین کی۔ اور قوم نے اللہ سے فرعونیوں سے نجات حاصل کرنے کی دعا کی- حکم ربانی کے تحت اسرائیلیوں کی عبادت کے لئے کچھ مکانات متعین کیے اور لوگوں کے لئے انہی کو قبلہ ٹھہروا دیا گیا۔ سورۃ یونس کی آیت ۸۷ میں ارشاد ہوتا ہے کہ

اور ہم نے موسیٰؑ اور اس کے بھائی کو اشارہ کیا کہ “مصر میں چند مکان اپنی قوم کے لیے مہیا کرو اور اپنے ان مکانوں کو قبلہ ٹھیرا لو اور نماز قائم کرو اور اہل ایمان کو بشارت دے دو” ﴿۸۷﴾

یہ آیت اس بات میں بہت واضح ہے کہ عرصے تک مخالفت اور تذبذب کے بعد جب قوم حضرت موسیٰ کی بات ماننے پر تیار ہوئی تو اللہ نے انکو اجتماعیت کا حکم دیا کہ مل کر نماز پڑھو، اور عبادت کی غرض سے تعمیر کیے گئے گھروں کو ہی قبلہ ٹھہرالو۔ یعنی قوم کو کسی مرکزی مقام پر رخ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ مکانوں کو قبلہ ٹھہرانے کے بعد اسرائیلیون کا مصر سے خروج ہوا، اللہ نے ان کو سمندر سے راستہ مہیا کرا، دوسری طرف انکا پیچھا کرنے والے فرعونی لشکر کو اسی پانی میں غرق کیا۔ مگر اسکے باوجود بھی قوم کی ناشکری کی عادت نہیں گئی-

واضح رہے قرآن اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ جب یہود کو اپنے مکانات ہی کو قبلہ قرار دینے کا حکم ملا تھا اس وقت خانہ کعبہ بحیثیتِ خانہِ خدا کرہ ارضی پر موجود تھا- سوره بقرہ میں الله تعالیٰ یہودیوں کے جد امجد حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسمعیل کے ہاتھوں خانہ کعبہ کی تعمیر کا ذکر بھی بیان کیا اور مقصد بھی بتایا. سورہ بقرہ کی آیت ۱۲۷ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اور یاد کرو ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ جب اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے، تو دعا کرتے جاتے تھے: "اے ہمارے رب، ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے ﴿۱۲۷﴾

خانہ کعبہ کا یہ پس منظر مدینہ کے یہودیوں کے لیے ماننا بہت مشکل تھا کہ ان کا جد امجد نے جو عبادت خانہ تعمیر کیا تو وہ اس کے ملکیت سے کیسے محروم رہ گئے جب کہ وہ اللہ کی چنیدہ اور محبوب قوم ہیں اور اگر ایسا کوئی قبلہ موجود ہوتا تو حضرت موسیٰ ان کو اسی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیتے- اور یہ دونوں باتیں ان کی تاریخ میں درج نہیں ہیں- اس چیز کا جواب قرآن پاک نے سورہ بقرہ کے بعد ۳ ہجری میں نازل ہونے والی دوسری تفصیلی سورت، سورہ آل عمران میں دیدیا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:

پہلا گھر جو لوگوں (کے عبادت کرنے) کے لیے مقرر کیا گیا تھا وہی ہے جو "بکہ” میں ہے، بابرکت اور جہاں کے لیے موجبِ ہدایت ﴿ ٩٦﴾

اس آیت میں مکۃ المکرمہ کے لیے اسکا قدیم نام بکہ کا استعمال کر کے اللہ تعالی نے یہود کو انکی اپنی کتاب زبور کی طرف رجوع کرنے کا اشارہ دیا ہے- زبور کیونکہ حضرت داؤد پر نازل ہوئی اس لیے بہتر ہوگا کہ زبور میں بکہ کا ذکر دیکھنے سے پہلے حضرت داؤد کی زندگی کے چند واقعات سے آگاہی ہوجائے۔
مصر سے ہجرت کے بعد کوہ سینا پر توریت ملی اور یہ پھر یوشع بن نون کے زمانے میں فلسطین کے علاقہ میں یہودیوں کی آمد ہوئی. اور پھر وہ دور آیا جب اسرائیلیوں ہی کی خواہش پر طالوت کو انکا بادشاہ مقرر کیا گیا. طالوت کے زمانے میں ایک نوجوان جس کا نام داؤد تھا نے مخالف فوج کے شخص جالوت کو قتل کر دیا. اس واقعہ نے اسرائیلیوں میں حضرت داؤد کی قدر و منزلت کو بڑھایا۔ حضرت داؤد سے جہاں محبت کرنے والے بہت تھے وہیں حاسدین کی بھی بڑی تعداد پیدا ہوگئی تھی. جس پر حضرت داؤد کو فلسطین چھوڑ کر نکل جانا پڑا. بائبل بتاتی ہے کہ وہ بنی اسرائیل کی سرزمین فاران چلے گئے تھے. بائبل ہی کے مطابق سرزمیںن فاران وہ جگہ ہے جہاں حضرت ابراہیم نے اپنے صاحب زادے اسماعیل اور انکی والدہ حضرت ہاجرہ کو چھوڑا تھا- توریت کی کتاب پیدائش میں مذکور ہے کہ: 
20 خدا اُس بچے (اسماعیل) کے ساتھ تھا اور وہ بچہ بڑا ہوا۔ بیابان میں زندگی گذارنے کی وجہ سے وہ بہترین تیر انداز ہو گیا تھا۔ 21 اُس کی ماں (ہاجرہ) اُس کے لئے مصر سے ایک لڑکی لا ئی اور اُس سے شادی کروائی۔ اور اُس نے فاران کے ریگستان میں اپنی سکونت کو جا ری رکھا۔ کتاب پیدائش؛ باب ۲۱؛ ۲۰-۲۱
حضرت اسماعیلؑ نبی پاکﷺ کے جد امجد ہیں اور گویا بنی اسماعیلؑ کے مسکن حجاز کو بائبل میں فاران کہا گیا ہے۔ حضرت داؤدؑ پر جب فلسطین کی سرزمین تنگ ہوئی تو آپ ہجرت کرکے فاران چلے گئے تھے- کتاب اول سموئیل میں درج ہے کہ:
"سموئیل مرگیا۔ سبھی بنی اسرا ئیل جمع ہو ئے اور سموئیل کی موت پر غم کا اظہار کئے۔ انہوں نے سموئیل کو اس کے گھر رامہ میں دفن کیا۔ تب داؤد فاران کے ریگستان میں چلا گیا”- کتاب سموئیل؛ باب ۲۵؛ ۱
گویا حضرت سموئیلؑ کے انتقال کے بعد ریاست میں حضرت داؤد مخالف عناصر کے مزید زور پکڑنے پر حضرت داؤدؑ وادی حجاز یعنی بنی اسماعیلؑ کے مسکن ہجرت کرگئے تھے- بکہ کی سرزمین میں خانہ کعبہ (بیت الله) کی زیارت کی اور اس موضوع پر مزمور بھی زبور میں موجود ہے: 
خدا وند قادر مطلق تیرے گھر نہا یت ہی دلکش ہے !
2 اے خداوند! میں تیری بار گاہ میں رہنا چاہتا ہوں۔
میں تیرے گھر میں رہنے کا متمنّی ہوں۔
میرا سارا جسم زندہ خدا کے قریب ہو نا چاہتا ہے۔
3 خداوند قادر مطلق اے میرے بادشاہ اورمیرے خدا !
گوریّا اور ابا بیلوں تک کے اپنے گھونسلے ہو تے ہیں۔
یہ پرندے تیری قربان گاہ کے پاس گھونسلے بنا تے ہیں۔
اور اُن ہی گھونسلوں میں اُن کے بچے ہو تے ہیں۔
4 وہ جو تیرے گھر میں رہتے ہیں۔
بہت خوش نصیب ہیں۔ وہ سدا تیری تعریف کریں گے۔
5 وہ لوگ اپنے دل میں نغموں کے ساتھ
جو تیرے گھر میں آتے ہیں، بہت مسرور ہیں۔
6 یہ لوگ وا دی بکا سے ہو تے ہو ئے،
جسے خدا نے جھرنے جیسا بنا یا ہے گذرتے ہیں۔
گرمی کی گر تی ہو ئی با رش کی بوندیں پا نی کے حوض بنا تی ہیں۔
یہی وہ مزمور ہے جسکا حوالہ سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے یہود کو دیا ہے، کہ وادی بکہ، مسکن بنی اسماعیل میں حضرت داؤد نے اپنا جلاوطنی کا جب دور گزارا تھا تو اس وقت وہاں ایک عبادت گاہ موجود تھی جس کو بیت اللہ کہا جاتا تھا۔ یہودی اس مزمور کو بیت المقدس سے جوڑتے ہیں اور کیونکہ حضرت داؤد کے دور تک بیت المقدس کا کوئی وجود نہیں تھا، لہذا انہوں نے اس مزمور کو کسی اور کا نغمہ قرار دیدیا، جو کہ حضرت داؤد کے انتقال کے صدیوں بعد ہیکل کے فراق میں بابلی دورِ پراگندگی میں گایا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ یہاں اصلاح کر رہا ہے کہ وہ مزمور درحقیقت داودؑ کا ہی ہے۔ اس بات کی تصدیق زبور ہی کے ایک اور مزمور سے بھی ہوجاتی ہے، جو کہ بالاتفاق حضرت داؤد ہی سے منسوب ہے۔
اے خدا وند !میری باتوں کو سن۔
میں تجھ سے جو کہنے کی کو شش کر رہا ہوں برائے مہر بانی اسے سمجھ۔
2 اے میرے بادشاہ ! اے میرے خدا !
میری فریاد کی طرف متوجہ ہو۔
3 اے خدا وند !ہر صبح تجھ کو میں اپنا نذرانہ پیش کر تا ہوں۔
تو ہی میرا مددگار ہے۔ میری امید تجھ سے وابستہ ہے اور تُو ہی میری دعائیں ہر صبح سنتا ہے۔
4 اے خدا !تو شریر لوگوں کی قُربت سے خوش نہیں ہو تا۔
بُرے لوگ تیری عبادت گاہ میں عبادت نہیں کر سکتے۔
5 تیرے نزدیک بدکردار نہیں آسکتے۔
تو ان سے نفرت کرتا ہے جو برائی کر تے ہیں۔
6 جو جھوٹ بولتے ہیں انہیں تو ہلاک کر تا ہے۔
خدا خونخواراور اُن لوگوں سے جو دوسروں کے خلا ف ر از دارانہ منصوبے بناتے ہیں نفرت کرتا ہے۔
7 لیکن اے خدا وند !تیری عظیم شفقت سے میں تیرے گھر آیا۔
اے خدا وند مجھے تیرا ڈر ہے ،اے خدا وند میں نے تیرے مقدس گھر کی جانب خوف و تعظیم سے سجدہ کیا۔
8 اے خدا وند لوگ مجھ پر نظر رکھتے ہیں یہ دیکھنے کے لئے کہ مجھ سے کئی غلطیاں ہوں گی
اس لئے خدا تیری نظر میں جو ٹھیک ہے اس پر چلنے کے لئے میری مدد کر
اور تیری راہ پر چلنے میں میرے لئے آسا نی پیدا کر۔
9 وہ لوگ سچ نہیں بولتے۔ وہ دروغ گو ہیں۔
جو سچّائی کو توڑ مروڑ دیتے ہیں۔
انکاحلق کھلی قبروں کی مانند ہے۔
وہ اپنی زبان سے خوشا مد کر کے دوسروں کو اپنے جال میں پھانس لیتے ہیں۔
10 اے خدا !انہیں سزا دے۔
اُنکو اپنے ہی جالوں میں پھنسنے دے۔
انہوں نے تیرے خلاف بغاوت کی۔
اس لئے اُنکو سزا دے اُنکے بہت سے جُرموں کے لئے جو وہ کئے ہیں۔
11 لیکن ان لوگوں کو خوش رہنے دے جو خدا پر توکّل کر تے ہیں۔ اُنہیں ہمیشہ خوش رہنے دے۔
کیوں کہ تو انکی حمایت کر تا ہے۔ جو تیرے نام سے محبت رکھتے ہیں وہ تجھ میں شادماں رہیں۔
12 اے خدا وند ،جب بھی تو نیک لوگوں کو برکت عطا کر تا ہے
تو تُو ایک بڑی سِپر کی مانند اُنکی حفاظت کر تا ہے۔
یہ مزمور بالاتفاق حضرت داؤد سے منسوب ہے، اور اس میں پیش کردہ حالات بالکل واضح کر رہے ہیں کہ وہ کہ وہ شدید پریشانی کے دور میں غریب الوطنی کی حالت میں بیت الله میں دعا گو ہیں اور یہ بات بلکل واضح ہے کہ حضرت داود کی زندگی میں یروشلم میں کوئی مرکزی عبادت گاہ موجود نہیں تھی. یہ مزمور انھوں نے مکہ میں موجود بیت الله کی زیارت کے موقع پر ہی کہا ہے.
بعد ازاں جب آپ کو فلسطین کا اقتدار مل گیا تو آپ نے ایک قطعہ اراضی خرید کر عبادت گاہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا. بائبل کی کتاب دوم سموئیل کے باب ٢٤ میں درج ہے کہ حضرت داود نے اپنے مرنے سے قبل ارونا یبوسی کا کھلیان ہیکل بننانے کی غرض سے ٥٠ چاندی کے مثقال سے خریدا. یہی وہ کھلیان ہے جس پر حضرت داود کے انتقال کے بعد حضرت سلیمان نے ہیکل تعمیر کی. تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ اسکا رخ بالکل جنوب میں مکہ کی طرف ہے. یعنی بیت اللہ کی طرف جہاں حضرت داؤد نے اپنی جلاوطنی کے ایام گزارے تھے. 
اس کا ثبوت یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ جو کہ اسی قطعہ اراضی کے جنوبی کنارے پر موجود ہے اس کنارے کا عمود سیدھا مکہ کی طرف ہے. مزید براں دوسرے ہیکل کی جو ایک مغربی دیوار باقی ہے جس کو عرف عام میں دور گریہ کہتے ہیں اس کا رخ بھی مکہ ہی کی طرف ہے. یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت سلیمان کی تعمیر کردہ عبادت گاہ کا رخ بیت الله کی طرف تھا اور حضرت داود نے یہ کھلیان اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوۓ خریدا تھا.
گویا حضرت سلیمان نے ہیکل کو مرکزی عبادت گاہ کے طور پر تو تعمیر کیا تھا مگر اس کو بنی اسرائیل کے لئے قبلہ کا درجہ ہرگز نہیں دیا تھا، اس کا مزید ثبوت بنی اسرائیل کی سیاسی تاریخ سے مل جاتا ہے کہ حضرت سلیمان کے انتقال کے فوراً بعد ہی قبائل میں پھوٹ پڑی اور شمالی دس (١٠) قبائل نے کوہ جَرِزِيم پر اپنی علیحدہ مرکزی عبادت گاہ تعمیر کر لی. بالفرض حضرت سلیمان نے ہیکل کو قبلہ کا درجہ دیا ہوتا تو شمالی دس قبائل اس سے دستبردار ہرگز نہ ہوئے ہوتے.

اس تمام کا حاصل کلام یہ ہے کہ ملت ابراہیمی کا قبلہ ہمیشہ سے صرف اور صرف مکہ میں موجود بیت الله ہی رہا ہے. اور جب حضرت داود اور سلیمان نے بنی اسرائیل کے لئے ایک مرکزی عبادت گاہ تعمیر کی تو اس کی حیثیت قبلہ کی نہیں تھی بلکہ اس کا رخ بھی بیت الله کی طرف ہی تھا جہاں حضرت داود نے اپنے ایام جلا وطنی گزارے تھے

سورس

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.