دستور جماعت اور علمائے دیوبند از مولانا محمد عامر عثمانیؒ فاضل دیوبند

دستور جماعت اور علمائے دیوبند –

(از مولانا محمد عامر عثمانیؒ فاضل دیوبند)

اس کتاب میں دستور جماعت اسلامی کے بعض مندرجات بالخصوص "معیار حق” کے مسئلے میں علماء کے اعتراضات کا نہ صرف تسلی بخش بلکہ مسکت جواب دیا گیا ہے۔ یہ اقساط پڑھنے کے بعد قارئین نہ صرف "معیار حق” کے نام سے مچائے گئے شور اور ہلڑ کی حقیقت سے آگاہ ہوں گے بلکہ مودودی دشمنی میں علم دین کو بازیچہ اطفال بنانے والوں کا بھی نظارہ کریں گے۔ بعض مقامات پر دوسرے اہل علم کے شذرات حاشیہ کے طور پر شامل کرکے نزاعی مباحث کو مزید منقح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ کتاب میں جن حضرات علمائے کرام کے موقف پر تنقید ہوئی ہے، وہ دونوں مصنف کے شیوخ ہیں۔ آپ حضرات سے ایک گزارش یہ ہے کہ پڑھتے ہوئے کمپوزنگ کی غلطیاں نظر آئیں تو ازراہ کرم کمنٹ کے ذریعے مطلع فرمائیں۔

جماعت اسلامی اور علمائے دیوبند کے نام نہاد اختلاف و نزاع کے باب میں آج تک "تجلی” میں جو کچھ وقتا فوقتا لکھا جاتا رہا ہے ، ہر چند کہ اس سے بظاہر ایک فریق کی طرف داری اور تائید مترشح ہوتی ہے، لیکن اگر آپ خالی الذہن ہوکر غور وفکرفرمائیں تو واضح ہوگا کہ یہ طرف داری اور تائید اس لیے نہیں ہے کہ ہم ایک فریق کا ساتھ دے کر فریق ثانی کو پسپا اور مغلوب کرنے کے خواہشمند ہیں ۔ یا ایک فریق کو بحث و نظر کے ہر گوشہ میں سو فیصدی برحق مان کر فریق ثانی کو سرتا پا ناحق اور غلط کار تصور کرتے ہیں، بلکہ یہ اس لیے ہے کہ اصل مختلف فیہ مسائل سے قطع نظر ،اختلاف و تعریض کا جو طریقہ فریق ثانی نے اختیار کررکھا ہے ، وہ اخلاقی تقاضوں ، تمدنی مصلحتوں ، تعمیری ضرورتوں اور اصلاحی داعیوں کے خلاف ہے اور اس میں جذبہ اصلاح اور خواہش اتحاد کی جگہ جارحیت اور تغلب پسندی جھلکتی ہے-

ہندو پاک دونوں ہی میں ضرورت اس کی تھی کہ اسلام کے ے تمام نام لیوا سر جوڑ کر باطل اقدار و نظریات کے خلاف جنگ کرتے ۔ اپنے فروعی اختلافات کو اپنی جگہ زندہ باقی رکھتے ہوئے بھی ایک ٹیم کی طرح برائیوں اور قباحتوں کے خلاف صف آراء ہوتے ، کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ہٹلر کی فوجوں کے مقابلہ میں روس اور امریکا کے سپاسی دوش بدوش لڑے، حلانکہ ان کے عقاید و نظریات عام حالات میں ایک دوسرے کی ضد تھے، کلی اور اصولی طور پر یہ ایک دوسرے کی نقیض اور عکس تھے، سیاہی و سفیدی جیسا بین فرق ان کے عقاید و خیالات میں تھا۔ لیکن وقت کی ضرورت ، مصلحت کے اقتضاء اور حالات کے داعیے کو سمجھ کر انھوں نے سارے اختلافات اپنے اپنے دلوں میں سمیٹے رکھے اور متحد و مشترک ہو کر ہٹلر کی فوجوں سے لڑ گئے۔

ایسا اتحاد و اشتراک ، اگر دو سخت دشمنوں کے درمیاں ہوسکتا ہے ، تو کیا ان دو فریقوں کے درمیاں نہیں ہوسکتا ، جو ایک ہی خدا، ایک ہی رسول اور ایک ہی تصور حیات کے ماننے والے ہیں، جن کا دین ایک ہے، جن کا قبلہ ایک ہے، جن کی حاجتیں اور ضرورتیں یکساں ہیں، جن کی ذلت و عزت کے بندھن ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہیں، جن کے اتھاد سے دینی اور دنیوی دونوں منفعتیں ہیں۔
لیکن دیکھا جارہا ہے کہ کسی کلمۂ جامعہ اور سرحد اتصال کی تلاش و تمنا کی جگہ ایک فریق کی طرف سے اعتراض و ایراد و تکفیر و تذلیل کے ایسے غیر ثقہ حربے استعمال کیے جارہے ہیں، جو مفاہمت اور اتحاد و اشتراک کو جارحانہ چیلنج کرتے ہیں اس کے جواب میں اگر دوسرے فریق کی طرف سے بھی ایسا ہی کوئی غیر ثقہ حربہ استعمال کیا گیا تو ہم اسے حق بجانب نہیں کہہ سکتے لیکن یہ کہے بغیر بھی نہیں رہ سکتے کہ مدافعت کرنے والے کی مسؤلیت اور ذمہ داری حملہ کرنے والے سے ہمیشہ کم ہی ہوتی ہے۔
یہ نفسیاتی حقیقت ہے کہ اگر ہم کسی شخص سے نفرت کرتے ہوئے اسے اپنا دشمن سمجھ لیں تو اس کی ہر ادا اور ہر بات میں ہمیں برائی ہی برائی نظر آتی ہے، حتیٰ کہ جن اداؤں میں فی نفسہ برائی کا کوئی شائبہ بھی نہیں ۔ اس کی وہ ادائیں بھی سرتا پا قبیح اور شرارت آمیز معلوم ہوں گی،وہ جباہی لے گا اور ہم کہیں گے منہ چڑا رہا ہے ، وہ کھٹکا رے گا ہم سمجھیں گے ہم پر طنز کس رہا ہے۔
اس کے برعکس جس سے ہم محبت کرنے لگیں اس کے عیب بھی ہنر نظر آنے لگتے ہیں وہ اگر ذرا لنگڑا کے چلتا ہے تو ہم خرام ناز سے تعبیر کرتے ہیں، وہ حماقت کرتا ہے تو ہم معصومیت کہتے ہیں، اس کے خلاف کوئی زبان کھولتا ہے تو اسے ہم دشمن اور الزام تراش اور شریر ٹھیراتے ہیں، حلانکہ بسا اوقات زبان کھولنے والا سچی بات کہتا ہوتا ہے۔
ایسا ہی ہم زیر بحث قضیہ میں دیکھ رہے ہیں، علمائے دیوبند کا طرز مخالفت بلا ریب و شک یہ واضح کررہا ہے کہ اصلاح پسند ،صاحب ِعلم و فضل ، حق نواز اور عادل و عاقل ہونے کے باوجود ان حضرات کے خلوص پر نفرت و عداوت غالب آگئی ہے، یہ جماعت اسلامی کے حق میں ہدایت و اصلاح کا وہ طرز اختیار نہیں کررہے ، جو ہادیِ برحق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار و مشرکین کے حق میں اختیار فرمایا تھا بلکہ وہ طرز اختیار کررہے ہیں، جو ایک نفرت کرنے والا معاند و مخاصم اختیار کرتا ہے۔
اس کی وجوہات کیا ہیں۔ کیا واقعی جماعت اسلامی اس لائق ہے کہ اس کا زن بچہ کولہو میں پیل دیا جائے۔ کیا اس کے نظریات وعقائد میں حقیقۃََ ایسی بنیادی خرایبیاں پائی جاتی ہیں کہ صلح و مفاہمت کے عوض اس پر بمباری ہی لازم اور ضروری ٹھیرے؟
ان سوالات پر یہاں ہمیں بحث نہیں کرنی۔ ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ نفرت و عناد اور مخاصمت کے اگر واقعۃََ کچھ اسباب موجود ہیں تو ان میں سے سے قوی سبب وہ مبالغہ پسند اور جذبات زدہ محبت وعقیدت ہے ، جو ہم مسلمانوں کی اکثریت کو صوفیاء و اولیاء سے ہے، اور جس کی نفسیات اجمالاََ ہم ابھی بیان کرآئے ہیں۔

قصہ یہاں سے شروع ہوا کہ مولانا مودودی نے اپنے مخصوص طریقۂ اصلاح ودعوت کے تحت بعض اولیاء و اتقیاء پر کچھ اس طرح کی تنقیدیں کیں جو اگر چہ سنجیدہ علمی انداز کی تھیں ، لیکن جن کا انداز مانوس طرز ادب اور مروجہ طریق ِ احترام سےہٹا ہوا تھا۔ ان سے علماء کے جذبات و خیالات کو ٹھیس لگی، اور محبت و نفرت کی نفسیات نے اپنا کام شروع کردیا۔ محبت نے تو یہ اثر دکھلایا کہ تمام محبوب اسلاف کے اقوال و اعمال کا ہر ہر شوشہ ناقابل بحث ، سو فیصدی برحق، تنقید کا بالاتر کامل و اکمل نظر آنے لگا۔ اور نفرت نے یہ اثر دکھلایا دیا کہ مولانا مودودیؒ ایک مخلص نقاد کے بجائے ، جس سے غلطی بھی ہوسکتی ہے، فتنہ پرداز، مخالف، دشمنِ اولیاء، معاند اور گستاخ و بے ادب نظر آنے لگے جس کی ہر بات قابل نفرت ، جس کی جماہی بھی منہ چڑانا، جس کا استدلال بوگس اور جس کی ہر ادا لائق نفرین ٹھیری۔ یہ دعویٰ ہمیں نہیں ، کہ مولانا مودودی نے تصوف یا صوفیاء پر جو کلام کیا ہے وہ حرف گیری سے بالاتر ہے یا جس طرز کو انھوں نے اختیار کی ہے ، وہ علماء کے قیاس کردہ اثرات و نتائج سے بالکل خالی ہے-
نہ ہم اس کے مدعی ہیں کہ مولانا مودودی کے اجتہادات و قیاسات بے خطا اور اٹل ہیں اور یہ بات بھی نہیں کہ جماعت اسلامی کے بعض اور ذمہ داروں نے صوفیا کے اشغال ووظائف اور مرشدین کے طریق ِارشاد و بیعت پر جو تنقیدیں کی ہیں وہ ہر پہلو حق بجانب ہیں اور ان کا طرز بیان قطعا لائق اعراض نہیں ہے۔ لیکن یہاں صورت یہ ہے کہ نفرت و محبت کے دو گونہ تاثرات میں ہمارے علماء کرام اور ان کے ہمنواؤں نے بہت سی ایسی چیزیں بھی جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کی طرف منسوب کرنی شروع کردیں ، جو بے بنیاد تھیں، افتراء تھیں، الزام محض تھیں، ان کے اثبات کے لیے عبارتوں کے تراشے لائے گئے اور ریت پر عمارتیں اٹھائی گئیں، تحقیر و تدذلیل کی گئی اور فتوے نکالے گئے، کیچڑ اچھالی گئی اور فقرے کسے گئے۔
اخلاص کا جنازہ نکالنے والی نفرت و عداوت کی نشاندہی کے لیے تقریر و تحریر کی دسیوں شہادتیں عوام کے سامنے آچکی ہیں۔ لیکن نشاندہی نہیں ، بلکہ اس نفرت و عداوت کا ڈھنڈورہ بھی اس فتوے نےپیٹ دیا جس میں قاسم العلوم غزالیِ وقت حضرت العلامہ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کو خود مفتیان دارالعلوم دیوبند نے نہ صرف اہلسنت والجماعت سے خارج کردیا ، بلکہ نعوذ باللہ من ذالک کافر ٹھیرا دیا!

کیوں؟ صرف اس لیے کہ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی عبارت کو وہ جماعت اسلامی کے کسی فرد کی عبارت سمجھے اور جماعت اسلامی کے کسی فرد پر کیچڑ اچھالنے اور بمباری کرنے میں انہیں جو لطف حاصل ہوتا ہے اسے ایک نفرت کرنے والا قلب ہی محسوس کرسکتا ہے، حقیقت میں اگر مفتیان کرام کے دل و دماغ پر عناد ونفرت کا پورا تسلط نہ ہوتا تو پہلی ہی نظر میں وہ سمجھ لیتے کہ یہ عبارت جس پر کفر کا فتویٰ لگا رہے ہیں جماعت اسلامی کے کسی فرد کی ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ اس کا اندازِ بیان اور اسلوب بداہۃََ اب سے کافی پہلے زمانے کے طرز نگارش کا ہے، لیکن جس طرح غصۂ نفرت ، جوش انتقام اور حرص و ہوس میں سے کوئی سا بھی جذبہ جب اپنی شدت و وسعت کے ساتھ کسی انسان پر طاری ہوتا ہے تو عقل و ہوش اور احساس ورجحان اور بصیرت و بصارت سب مغلوب و ماوف ہوجاتے ہیں، اور اس سے وہ حرکات سرزد ہوجاتی ہیں،جن کا ارتکاب وہ عام حالت میں ہرگز نہ کرتا۔ اسی طرح مفتیان کرام کے دل و دماغ پر چھائی ہوئی بغض وعباد کی لہر نے اس کی ساری علمیت اور بصیرت و دانائی کو مغلوب کرکے یہ وسوسہ ڈالا کہ ہو نہ ہو یہ جماعت اسلامی کے کسی فرد کی خامہ فرسائی ہے، جب یہ وسوسہ پیدا ہوگیا تو کارگہ عناد میں فتویِ کفر کے ڈھلنے میں کیا دیر لگتی تھی۔
تفصیل اس اجمال کی سہ روزہ "دعوت” دھلی کی 17 جنوری 19566ء کی اشاعت میں ملاحظہ فرمائیے ، کسی نے حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ کی چند سطریں ان کی کتا ب "تصفیۃ العقائد” سے نقل کرکے دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کو بھیجیں اور پوچھا کہ ان سطروں کے لکھنے والے کے بارے میں آنجاب کا شرعی فیصلہ کیا ہے؟
خدا جانے کونسی منحوس گھڑی تھی کہ ان عقیل و فہیم مفتیوں کے دماغ میں جن کے ہزاروں فتوے ملک کے کونے کونے کو علم ِ دین کی روشنی پہنچاتے رہے ہیں، اور جن کے علم و فضل کی قسمیں تک کھائی گئی ہیں، یہ بات آگئی کہ ہو نہ ہو یہ عبارت مودودی کی یا اس کے کسی چیلے کی ہے ، بس پھر کیا تھا ، آؤ دیکھا نہ تاؤ ، مندرجہ ذیل فتوےٰ صادر فرمایا:
فتویٰ نمبر4 ، الجواب
"انبیاء علیھم السلام معاصی سے معصوم ہیں، ان کو مرتکب معاصی سمجھنا (العیاذ باللہ ) اہلسنت والجماعت کا
عقیدہ نہیں ، اس کی وہ تحریر خطرناک بھی ہے اور عام مسلمانوں کو ایسی تحریرات کا پڑھنا جائز بھی نہیں ۔”
فقط واللہ اعلم ، سید احمد علی سعید، نائب مفتی دارالعلوم دیوبند
"جواب صحیح ہے ایسے عقیدے والا کافرہے، جب تک تجدید ایمان اور تجدید نکاح نہ کرے اس سے قطع تعلق کرے۔” مسعود احمد عفااللہ عنہ

(( بعد میں جب خود مستفتی نے تعجب سے دارالعلوم کو آگاہ کیا کہ یہ تحریر تو مولانا قاسم نانوتوی کی کتاب ” تصفیۃ العقائد ” سے لی گئ ھے تو متعلقہ مفتی صاحب اور اس فتوے کی تصدیق کرنے والے مہا مفتی پر قیامت بیت گئ اور ان کو اسی کفر میں سے عین توحید پیدا کرنی پڑ گئ اور بیوی بھی دوبارہ بحال کرنی پڑ گئ ، یہ کیفیت وھی جان سکتا ھے جس نے دیہات کی دائیوں کو بچہ پیدا کراتے دیکھا ھے – ))

سورس

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.