دل صاحب ایمان سے انصاف طلب ھے ۔۔ قاری حنیف ڈار

دل صاحب ایمان سے انصاف طلب ھے !

قاری حنیف ڈار

بسلسلہ بریکنگ نیوز –

نبئ کریم ﷺ کی عجیب و غریب شادیاں –

ھم صرف چند حدیثوں پر درایت کی رو سے بات کرتے ھیں ،صرف انگلیوں پر گنی جانے والی احادیث پر ،، باقی کی تمام احادیث کے بارے میں ھم امام بخاریؒ اور امام مسلم سمیت دیگر محدثین کی سعی و کاوش کو خراجِ تحسین پیش کرتے ھیں کہ جنہوں نے موضوع و منکر احادیث کے پہاڑ میں سے یہ موتی الگ کیے،، ھم ان کی نیت پہ بھی کوئی شک نہیں کرتے ، خلوص نیت کے باوجود وہ انسان تھے اور ان سے غلطی کا امکان اتنی ھی قوت کے ساتھ موجود تھا جتنا کہ ھما شما سے ھے ، خود ان کو بھی یقین ھو گا کہ دنیا ان کو معصوم نہیں سمجھے گی ،، پھر خود بخاری شریف ابھی اپنی تکمیل کو نہ پہنچی تھی کہ امام بخاری کی رحلت ھو گئ یوں یہ کتاب نظر ثانی کے مرحلے سے نہیں گزری ،، ان کے شاگردوں نے ھر وہ حدیث جو ان کو امام کے ذخیرے میں ملی اسے صحیح بخاری میں شامل کر دیا ،،

چنانچہ ھماری احادیث کی کتابوں میں انتہائی قابلِ اعتراض مواد موجود ھے جس میں نبئ کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس کو نشانہ بنایا گیا ھے ،، خاص طور پہ نبئ کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی کو نشانہ بنایا گیا ھے تعجب کی بات یہ ھے کہ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سے کسی کی شادیاں بھی اس قدر گھٹیا انداز میں بیان نہیں کی گئیں ،، جس قدر خیر البشر ﷺ ایسی ھستی کی بیان کی گئ ھیں کہ جن کی نفاست اور اخلاق کی قسمیں اللہ کھاتا ھے ،، آج تک جس نے بھی گستاخانہ کتاب لکھی یا فلم بنائی اس نے سارا مواد ٹھیک انہیں کتابوں سے حوالے کے ساتھ لیا اور بیان کیا ، یہی کام آج ملحدین کر رھے ھیں ،، ایسی باتیں ھیں کہ جن سے شاید دس لاکھ میں سے کوئی ایک آدمی واقف ھو گا ،، جنہوں نے کتاب لکھی یا فلم بنائی وہ تو کافر ٹھہرے اور قتل کر دیئے گئے ،جنہوں نے یہ واقعات بیان کیئے اور روایت کی کتابوں میں محفوظ کیئے وہ سارے رحمۃ اللہ علیھم اجمعین ٹھہرے ،،
سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ جناب نبئ کریم ﷺ کے نکاح کو لیتے ھیں ھم نے جو سنا تھا اور اسلامیات کی کتابوں میں پڑھا تھا وہ کچھ یوں تھا کہ حضرت خدیجہؓ نبئ کریم ﷺ کی دیانت اور سوجھ بُوجھ سے بہت متاثر تھیں اور انہوں نے اپنی ایک سہیلی کو درمیان میں ڈالا جس نے نبئ کریم ﷺ سے موافقت حاصل کی اور پھر حضرت خدیجہ کے چچا کی رضامندی کے ساتھ یہ نکاح ھوا ،جناب رسالتمآب ﷺ کی جانب سے بھی چچا ابوطالب شریک ھوئے جنہوں نے خطبہ نکاح پڑھا ،،
مگر یہاں کہانی کچھ اور لکھی گئ ھے ،،،،،،،،،، یہ مسندِ احمد کی روایت ھے ،، اس میں عبداللہ بن عباس راوی ھیں جو ٹھیک اس سال پیدا ھوئے جس سال حضرت خدیجہؓ کا انتقال ھوا ،، یعنی ھجرت سے تین سال پہلے – درایت نام کا ایک اصول بیان تو کیا جاتا ھے مگر شاید یہ پاکستانی آئین کی دفعہ 6 کی طرح بس لکھ کر ھی رکھ لیا گیا کسی نے اس کو استعمال کرنے کی کوشش ھی نہیں کی ،، ،،راوی اپنی پیدائش سے 25 سال پہلے کے واقعات بیان کر رھا ھے اور یہ بتاتا بھی نہیں کہ اس کو یہ بات کس نے بتائی ھے ؟
روایت میں کہا یہ گیا ھے کہ حضرت خدیجہؓ کے والد اس شادی پہ راضی نہیں تھے،، لہذا حضرت خدیجہ نے ان کو کھانے کے ساتھ شراب پلا دی اور جب وہ نشے میں تھے تو ان سے رضامندی لے لی اور ان پر شادی کی رسم کا حلہ ڈال دیا ،،جب خویلد کو ھوش آیا تو اس نے پوچھا کہ یہ میرے اوپر حلہ کس بات کا ڈالا گیا ھے ؟ خدیجہؓ نے کہا کہ آپ نے میری شادی محمدﷺ کے ساتھ طے کر دی ھے ،، اس پہ خویلد نے کہا کہ میں اور ابوطالب کے یتیم کو بیٹی دے دوں یہ تو ھو ھی نہیں سکتا ، اس پہ خدیجہؓ نے اسے ڈرایا کہ اگر تم نے کہا کہ تم نے نشے میں یہ رضامندی دی تھی تو قوم میں تمہاری ناک کٹ جائے گی کہ خویلد نشہ کرتا ھے ،،،، جس پر وہ خاموش ھو گئے ،،،
28466 حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِى عَمَّارٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيمَا يَحْسَبُ حَمَّادٌ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ خَدِيجَةَ وَكَانَ أَبُوهَا يَرْغَبُ أَنْ يُزَوِّجَهُ فَصَنَعَتْ طَعَامًا وَشَرَابًا فَدَعَتْ أَبَاهَا وَزُمَرًا مِنْ قُرَيْشٍ فَطَعِمُوا وَشَرِبُوا حَتَّى ثَمِلُوا فَقَالَتْ خَدِيجَةُ لِأَبِيهَا إِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَخْطُبُنِي فَزَوِّجْنِي إِيَّاهُ فَزَوَّجَهَا إِيَّاهُ فَخَلَعَتْهُ وَأَلْبَسَتْهُ حُلَّةً وَكَذَلِكَ كَانُوا يَفْعَلُونَ بِالْآبَاءِ فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ سُكْرُهُ نَظَرَ فَإِذَا هُوَ مُخَلَّقٌ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ فَقَالَ مَا شَأْنِي مَا هَذَا قَالَتْ زَوَّجْتَنِي مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَنَا أُزَوِّجُ يَتِيمَ أَبِي طَالِبٍ لَا لَعَمْرِي فَقَالَتْ خَدِيجَةُ أَمَا تَسْتَحِي تُرِيدُ أَنْ تُسَفِّهَ نَفْسَكَ عِنْدَ قُرَيْشٍ تُخْبِرُ النَّاسَ أَنَّكَ كُنْتَ سَكْرَانَ فَلَمْ تَزَلْ بِهِ حَتَّى رَضِيَ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ قَالَ أَخْبَرَنَا عَمَّارُ بْنُ أَبِي عَمَّارٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيمَا يَحْسَبُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ خَدِيجَةَ بِنْتَ خُوَيْلِدٍ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ”
پہلی بات یہ کہ خویلد تاریخی طور پہ اس شادی سے پہلے فوت ھو چکے تھے ،لہذا ان سے منسوب یہ سارا واقعہ جھوٹ کا پلندہ ھے ، اور کتاب میں شامل کرنے سے پہلے صاحبِ مسند کو اس کی تحقیق کر لینی چاھیئے تھی کیونکہ بات نبی ﷺ کے نکاح اور ان کی آنے والی نسل کی ھے ، اور اگر اتنا وقت نہیں تھا تو کس نے منت کی تھی کہ مسند لکھنے بیٹھ جایئے ،، مسند احمد کی روایات اس قسم کی اور بھی بہت ساری متنازع کہانیون سے بھری پڑی ھے ،،
دوسری بات یہ کہ عرب شراب شوق سے پیتے تھے اور اس کو ایک اچھی اور قابلِ فخر بات جانتے تھے لہذا شرم دلانے والی اس میں کیا بات تھی ؟ عربوں کو سب سے زیادہ تعجب شراب کی پابندی پر تھا کہ یہ بھی قابلِ ممانعت چیز ھے ،، یسئلونک عن الخمر ،،،
اب آگے چلیئے ،،،
ھم یہ بات جانتے ھیں کہ نبئ کریم ﷺ کی صرف پہلی شادی ھی ضرورت کی شادی تھی ،، اور آپ نے حضرت خدیجہؓ کی وفات تک کوئی دوسری شادی نہیں کی اگرچہ وہ عین شباب کا دور تھا ،، باقی ساری شادیاں مجبوری کی شادیاں تھیں ،حضرت سودہؓ سے شادی بچیوں کی پرورش کی مجبوری کی وجہ سے تھی ،، اس دوران حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مطعم ابن عدی کو چونکہ جواب دے دیا تھا لہذا حضرت عائشہ صدیقہؓ سے آپ کی شادی اخلاقی مجبوری تھی کیونکہ آپ کی نیت سے ھی مطعم کے بیٹے جبیر ابن مطعم سے رشتے توڑا گیا تھا ،، اس کے بعد عورتوں کی مجبوریوں کی ایک داستان ھے کہ کس طرح وہ اسلام کی خاطر سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی ھوئیں مگر کسی کا شوھر اسے چھوڑ کر بے دین ھو گیا تو کسی کا شھید ھو گیا ،، ان تمام واقعات مین انسان کا اپنا ضمیر یہ تقاضا کرتا ھے کہ اس جگہ اللہ کے رسول ﷺ کو آگے بڑھ کر ان کو سہارا دینا چاھیئے ،، اور نبئ کریم ﷺ نے بالکل ویسا ھی قدم اٹھایا ،، حضرت صفیہؓ جس طرح لُٹ پٹ کر آئی تھیں یہ ضروری تھا کہ شاھی اور نبوی خاندان کی عورت کو ویسا ھی مقام دیا جائے جس کی وہ مستحق ھیں ،،،، ان 9 شادیوں میں سے ھر ایک کا ایک معقول سبب موجود ھے ،،

مگر اپنے وصال سے دو ماہ پہلے جبکہ نبئ کریم ازدواجی ذمہ داریوں سے عہدہ برآء ھونے میں دقت محسوس فرما رھے تھے اور اسی عذر کی وجہ سے آپ ﷺ ام المومنین سودہ بنت زمعہؓ کو طلاق دے دی تھی کہ میں تمہارے حقوق ادا نہیں کر سکتا ،،، اور ان کی طرف سے حقوق معاف کر دیئے جانے پر رجوع کر لیا تھا ،، آپ پر دو ایسی مضحکہ خیز شادیوں کا الزام دھر دیا گیا کہ جس کی کوئی جسٹیفیکیشن کوئی ذی شعور پیش نہیں کر سکتا ،، اگر حضور ﷺ نے حضرت سودہؓ سے سچ بولا تھا اور یقیناً سچ بولا تھا کہ آپﷺ اب حقوقِ زوجیت کی ادائیگی میں دشواری محسوس کر رھے تھے تو پھر ان ایمرجنیسی پلس شادیوں کی تُک نہیں بنتی ،،، اور نہ وہ طریقہ ایک حاکم اور نبی کے شایانِ شان ھے کہ جس طرح کھیتون کھلیانوں میں شادیاں کی گئیں ،،

سورس

دل صاحبِ ایمان سے انصاف طلب ھے – 2

1- آپ نے سنا بھی ھو گا اور پڑھا بھی ھو گا کہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ھے کہ عورت کے ساتھ شادی تین وجوھات کی وجہ سے کی جاتی ھے ،اس کے جمال کی وجہ سے یا مال کی وجہ سے یا دین کی وجہ سے ،، تم دین کو ترجیح دو ،،، مگر ان دونوں عیجب و غریب شادیوں میں دین دور دور تک نظر نہیں آتا ،بس حسن و جمال ھی کا دورہ دورہ ھے ،،،، پہلی عورت کو تو یہ ھی پتہ نہیں کہ اس کی شادی جس سے کی گئ ھے وہ اللہ کے رسول ھیں اور نہ اسے یہ پتہ ھے کہ اللہ کا رسول کون ھوتا ھے اور اس کا کیا مقام ھے ،، وہ آپ کو عام آدمی یعنی گرا پڑا سمجھتی ھے اگر سوقہ کا ترجمہ بازاری مرد نہ بھی کیا جائے تب بھی ،، حضور ﷺ کھیتوں کھلیانوں اور درختوں مین سے رستہ بناتے ھوئے کسی دوسرے کے گھر میں وظیفہ زوجیت ادا کرنے جاتے ھیں ( اور ایسا پہلی نو شادیوں میں اس طرح نہیں ھوا کہ نبی ﷺ نے چھپ کر کسی غیر کے گھر بیوی سے ملاقات کی ھو ) آپ نے جاتے ھی نہ سلام نہ کلام سیدھا عورت سے کہا کہ اپنا آپ میرے سپرد کر دے ،،، اس نے کہا کہ بھلا کوئی ملکہ اپنا آپ کسی گرے پڑے کو سونپتی ھے ،، آپ ﷺ نے تب بھی اس کو نہیں بولا کہ مین تیرا شوھر ھوں ،میں رسول اللہ ھوں ،اور تو نکاح کر کے مجھے اپنا آپ سونپنے کا معائدہ کر چکی ھے ،، اور یہ بات کہتے بھی کیسے کیونکہ نکاح تو ثابت ھی نہیں ،،کون اس کا ولی تھا ،کس نے نکاح کا خطبہ پڑھا تھا ،نبئ کریم ﷺ کی طرف سے کس وھاں قبول کیا تھا ،، حدیث شروع ھی یہاں سے ھوتی ھے کہ نبی ﷺ کے دربار میں عرب کی ایک عورت کے حسن و جمال کا چرچا کیا گیا تو آپ نے ابا اسید الساعدیؓ سے فرمایا کہ اس کی طرف بندہ بھیج کر بلوا لو ،،،،،،،،،،،،،، کیا نکاح اس طرح ھوتے ھیں ؟ جس کی بیٹی کی خوبصورتی کا قصہ سنا کہا اٹھا لے آؤ ؟ اور چرچا حسن کا ھوا ھے ،اس کی نماز ،روزے اور تقوے کا نہیں ،، آگے چل کر آپ دیکھیں گے کہ وہ تو رسولﷺ سے واقف تک نہیں تھا اور حضور ﷺ زبردستی شوھر بن رھے تھے جس کو اس نے مسترد کر دیا ،، جو ڈائیلاگ اس پہ ھوئے وہ آگے بیان کرتا ھوں مگر پہلے اس پر بھی غور فرما لیجئے کہ یہ ڈائیلاگ باھر کیسے نکلے ؟ کوئی شخص اپنی بیوی سے اتنی اونچی آواز میں جنسی گفتگو نہین کرتا کہ پورا محلہ سنے ،، باھر باغ میں کھیتوں مین چھپے بندے بھی سن رھے ھیں ،، بلکہ آنکھوں دیکھا حال بھی بیان کر رھے ھیں کہ اس کے سخت جملہ کہہ دینے اور حضور ﷺ کو ” سوقہ ” کہہ دینے کے باوجود آپ نے اپنا ھاتھ اس پر رکھ کر اسے مائل کرنے کی کوشش کی جس پر اس نے گھبرا کر آپ ﷺ سے اللہ کی پناہ مانگ لی ،، اللہ کی اس پناہ سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ رسول اللہ ﷺ پر ایمان بھی رکھتی تھی کیونکہ عرب سارے اللہ کو مانتے تھے ،،

توھینِ امہات المومنین !

پھر ستم بالائے ستم یہ کہ کہہ دیا گیا کہ جناب وہ تو اس بیچاری سیدھی سادی عورت کو حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ نے جھوٹی پٹی پڑھائی تھی کہ اللہ کے رسول ﷺ کو اعوذ باللہ منک ” بہت پسند ھے لہذا جب وہ تیرے قریب آئیں تو تُو جھٹ سے اعوذ باللہ منک کہہ دینا ،، تضاد کا نمونہ دیکھیئے کہ جب وہ حضور ﷺ کو سوقہ یا گھٹیا یا بازاری یا گرا پڑا آدمی کہہ رھی ھے تب فوراً کہہ دیا جاتا ھے کہ بےچاری کو پتہ نہیں تھا کہ یہ رسول اللہ ﷺ ھیں ،اور پھر ساتھ یہ جھوٹ بھی بولتے ھیں کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ اس کو پٹی پڑھا آئی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ کلمہ بہت پسند ھے ،گویا وہ عورت عرب نہیں تھی اور تعوذ کے معنی بھی اسے نہیں آتے تھے کہ کسی ناپسندیدہ چیز سے ھی اللہ کی پناہ مانگی جاتی ھے ،، :
( ذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم امْرَأَةٌ مِنَ الْعَرَبِ ، فَأَمَرَ أَبَا أُسَيْدٍ السَّاعِدِيَّ أَنْ يُرْسِلَ إِلَيْهَا ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا ، فَقَدِمَتْ فَنَزَلَتْ فِي أُجُمِ بَنِي سَاعِدَةَ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : هَبِي نَفْسَكِ لِي . قَالَتْ : وَهَلْ تَهَبُ الْمَلِكَةُ نَفْسَهَا لِلسُّوقَةِ . قَالَ : فَأَهْوَى بِيَدِهِ يَضَعُ يَدَهُ عَلَيْهَا لِتَسْكُنَ . فَقَالَتْ : أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ . فَقَالَ : قَدْ عُذْتِ بِمَعَاذٍ . ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا ، فَقَالَ : يَا أَبَا أُسَيْدٍ اكْسُهَا رَازِقِيَّتَيْنِ وَأَلْحِقْهَا بِأَهْلِهَا )
وروى أيضا قال : أخبرنا هشام بن محمد ، حدثني ابن الغسيل ، عن حمزة بن أبي أسيد الساعدي ، عن أبيه – وكان بدريا – قال : ( تزوج رسول الله أسماء بنت النعمان الجونية ، فأرسلني فجئت بها ، فقالت حفصة لعائشة أو عائشة لحفصة : اخضبيها أنت وأنا أمشطها ، ففعلن ، ثم قالت لها إحداهما : إن النبي، صلى الله عليه وسلم يعجبه من المرأة إذا دخلت عليه أن تقول أعوذ بالله منك . فلما دخلت عليه وأغلق الباب وأرخى الستر مد يده إليها فقالت : أعوذ بالله منك ،،، جب حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ نے کنگھی کرتے ھوئے یا اس کو بناؤسنگھار کرتے ھوئے بتا دیا تھا کہ اللہ کے رسولﷺ کو اعوذ باللہ منک ” بڑا پسند ھے تو پھر اس عورت نے رسول اللہ ﷺ کو سوقہ کہہ کر کیسی عزت افزائی فرمائی ؟ اب تو یہ عذر بھی باقی نہ بچا کہ وہ جانتی نہیں تھی کہ آپ ﷺ رسول اللہ ھیں اور لوگوں نے اسے بعد میں بتایا ؟ خود محدث اس کہانی میں اتنے مضطرب ھیں کہ پتلے آٹے کی طرح بات ان سے سنبھالی نہیں جا رھی کہ کبھی ایک طرف لٹک جاتی ھے تو کبھی دوسری ،، اور ساری باتیں سب سے صحیح کتاب بخاری شریف میں ھیں ،، خود اس عورت پر کسی کا اتفاق نہیں ،،کبھی وہ میزبان ھے اور عورت کو کہیں باھر سے لا کر اس کے باغ میں اتارا گیا ھے اور کہیں وہ خود ھی نکاح کرنے والی ھے ، اگر وہ مدینے کی تھی تو حضورﷺ کی مجلس میں اس کے حسن کے چرچے کا کیا مطلب تھا ؟ کیا حضور ﷺ کو یہ بات امھات المومنین کے ذریعے پتہ نہیں چل سکتی تھی جن کے پاس مدینے کی عورتیں ھر وقت چلی رھتی تھیں ؟ نیز اگر مدینے کی تھی تو دس سال میں اسے یہی پتہ نہیں چلا کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ھیں کوئی بازاری (سوقہ) آدمی نہیں ھیں ،، نیز کیا اس کو دس سالوں میں اس نے ایک بار بھی اس نے رسول اللہ ﷺ کو نہیں دیکھا ؟ نیز کہتے ھیں کہ وہ کسی بادشاہ کی بیٹی تھی ،بھلا مدینے میں کونسا بادشاہ تھا ، نیز عالم عرب میں وہ کونسا بادشاہ ابھی باقی بچا تھا جو ایمان نہیں لایا تھا اور بیٹی اونٹ پر بٹھا کر بھیج دی تھی ؟ کسی سوال کا جواب نہیں کہانی کو پچاس موڑ دیتے ھیں کہ ھمارے راوی پر کوئی الزام نہ آئے –

پھر کیا صحابہؓ حضورﷺ کو معاذاللہ ٹھرکی سمجھتے تھے کہ وہ لوگوں کی بہو بیٹیوں کے حسن کے چرچے آپ کی مجلس میں کیا کرتے تھے ؟ اور کیا یہ انداز درست ھے کہ فلاں کی بیٹی کے حسن کا چرچا آپ کی مجلس میں کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ارسل الیہا ،،، اس کو اٹھوا لاؤ ؟ پھر جب نعوذ باللہ وھاں سے عزت کروا کر نکلے تو باھر دوسرا اپنا مال بیچنے کے لئے داؤ لگانے کھڑا تھا کیونکہ اسے بھی معاذ اللہ آپ کی حسن پرستی کے مرض کا پتہ تھا ،، اس نے کہا کہ میرے پاس اس سے بھی خوبصورت دانہ ھے اور حضورﷺ نے اس عورت کے دین اور حسن کے بارے میں تفصیل معلوم کیئے بغیر اعلانِ نکاح فرما لیا کہ ” میں نے نکاح کیا ” ( نکحتھا )کیا نبیوں کے نبی اور تاجدارِ حرم کا نکاح اس طرح گڈے گُڈی کی طرح ھوتا ھے ؟ جبکہ وہ عورت یہ سنتے ھی مرتد بھی ھو گئ کہ آپ ﷺ کا وصال ھو گیا ھے ؟اس کا بھائی بھی مرتد ھو گیا ،، کیا شادی سے متصل قبل جبکہ آپ ﷺ کے جوڑوں کا درد انتہا کو پہنچ گیا تھا اور آپ کو نماز پڑھنے میں بھی دقت محسوس ھوتی تھی یہ بیک وقت دو عجیب و غریب شادیوں کا تحفہ دینا ضروری تھا ؟ جونیہ سے نکاح ثابت نہیں ،، بس اس کو اٹھوا لیا گیا ،جبکہ امام صاحب طلاق ثابت فرما رھے ھیں کہ عورت کو اتنا کہہ دیا جائے گے ” گھر والوں کے پاس چلی جاؤ ” کہنے سے بھی طلاق ھو جاتی ھے ،، قربان اس سادگی کے کہ صرف یہ مسئلہ ثابت کرنے کے لئے کیسی واہیات روایت نبئ کریم سے منسوب کر دی ،،

ابن سعد طبقات میں لکہتے ہیں —
جب اسماء بنت نعمان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ کی پناہ مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ سے باہر آگئے تب اشعث بن قیس نے کہا کہ آپ غمگین نہ ہوں میں آپ کا نکاح اس سے نہ کردوں جو اس سے حسب نسب میں کم نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کون اس نے کہا میری بہن قتیلہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے نکاح کرلیا۔ پھر اشعث یمن اسے لینے گئے اور یمن سے آگے بڑہے تو انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ملی تو یہ دونوں بہن بہائی مرتد ہوگئے۔ پھر قتیلہ نے اور نکاح کرلیا کیوں کہ مرتد ہونے کے ساتھ اس کا نکاح ٹوٹ گیا تھا اور پھر مکشوع مرادی نے ان سے نکاح کیا۔
آگے لکہتے ہیں کہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو قبیلہ کندہ کی ایک عورت قتیلہ کے مالک ہوئے تھے لیکن وہ اپنی قوم کے ساتھ مرتد ہوگئی تھی پھر بعد میں اس سے عکرمہ نے نکاح کرلیا یہ بات حضرت صدیق رضہ کو گراں گزری لیکن حضرت عمرؓ نے انہیں کہا کہ یہ عورت امہات میں سے نہیں ہے نہ آپ نے اس کو اختیار دیا نہ ہی اس کو پردہ کرایا اور اللہ تعالی نے آپ کو اس سے بری کردیا ہے کیوں کہ وہ مرتد ہوگئی ہے،،
ھمیں اس عورت قتیلہ کے ام المومنین ھونے یا نہ ھونے کی بحث سے کچھ لینا دینا نہیں ،، بس یہ طریقہ نکاح جو روایت ھوا ھے کہ ایک خیمے سے عزت کرا کر نکلے ھیں تو گلی میں کھڑے کھڑے دوسرا نکاح کر لیا اور وہ بھی اس عورت سے کہ جو اتنے ایمان والی تھی کہ وفات کا سن کر ھی مرتد ھو گئ ،،، انا للہ و انا الیہ راجعون ،،،

سورس

دل صاحب ایمان سے انصاف طلب ھے – 3

بسلسلہ بریکنگ نیوز —

عربی متن ،،،،،،،،،،،

هذه القصة صحيحة ، وردت في أحاديث عدة وسياقات يكمل بعضها بعضا :

فروى البخاري رحمه الله في صحيحه (5254) عن الإمام الأوزاعي قَالَ : سَأَلْتُ الزُّهْرِي أَي أَزْوَاجِ النَّبِي صلى الله عليه وسلم اسْتَعَاذَتْ مِنْهُ ؟

قَالَ : أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ ، عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها : ( أَنَّ ابْنَةَ الْجَوْنِ لَمَّا أُدْخِلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَدَنَا مِنْهَا قَالَتْ : أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ . فَقَالَ لَهَا : لَقَدْ عُذْتِ بِعَظِيمٍ ، الْحَقِى بِأَهْلِكِ ) .
وروى البخاري أيضا في صحيحه (52555) عَنْ أَبِى أُسَيْدٍ رضى الله عنه قَالَ :

( خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى انْطَلَقْنَا إِلَى حَائِطٍ يُقَالُ لَهُ الشَّوْطُ ، حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى حَائِطَيْنِ ، فَجَلَسْنَا بَيْنَهُمَا ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم : اجْلِسُوا هَا هُنَا . وَدَخَلَ وَقَدْ أُتِىَ بِالْجَوْنِيَّةِ ، فَأُنْزِلَتْ فِي بَيْتٍ فِي نَخْلٍ فِي بَيْتٍ أُمَيْمَةُ بِنْتُ النُّعْمَانِ بْنِ شَرَاحِيلَ ، وَمَعَهَا دَايَتُهَا حَاضِنَةٌ لَهَا ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : هَبِي نَفْسَكِ لِي .
قَالَتْ : وَهَلْ تَهَبُ الْمَلِكَةُ نَفْسَهَا لِلسُّوقَةِ . قَالَ : فَأَهْوَى بِيَدِهِ يَضَعُ يَدَهُ عَلَيْهَا لِتَسْكُنَ . فَقَالَتْ : أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ . فَقَالَ : قَدْ عُذْتِ بِمَعَاذٍ . ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا ، فَقَالَ : يَا أَبَا أُسَيْدٍ اكْسُهَا رَازِقِيَّتَيْنِ وَأَلْحِقْهَا بِأَهْلِهَا )
وروى أيضا رحمه الله (رقم/52566) عَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ عَنْ أَبِيهِ وَأَبِى أُسَيْدٍ قَالاَ : ( تَزَوَّجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أُمَيْمَةَ بِنْتَ شَرَاحِيلَ ، فَلَمَّا أُدْخِلَتْ عَلَيْهِ بَسَطَ يَدَهُ إِلَيْهَا ، فَكَأَنَّهَا كَرِهَتْ ذَلِكَ ، فَأَمَرَ أَبَا أُسَيْدٍ أَنْ يُجَهِّزَهَا وَيَكْسُوَهَا ثَوْبَيْنِ رَازِقِيَّيْنِ ) ثياب من كتان بيض طوال.
وروى أيضا رحمه الله (رقم/56377) عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضى الله عنه قَالَ :

( ذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم امْرَأَةٌ مِنَ الْعَرَبِ ، فَأَمَرَ أَبَا أُسَيْدٍ السَّاعِدِيَّ أَنْ يُرْسِلَ إِلَيْهَا ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا ، فَقَدِمَتْ فَنَزَلَتْ فِي أُجُمِ بَنِي سَاعِدَةَ ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى جَاءَهَا ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا ، فَإِذَا امْرَأَةٌ مُنَكِّسَةٌ رَأْسَهَا ، فَلَمَّا كَلَّمَهَا النَّبِيُ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ : أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ. فَقَالَ : قَدْ أَعَذْتُكِ مِنِّى . فَقَالُوا لَهَا : أَتَدْرِينَ مَنْ هَذَا ؟ قَالَتْ : لاَ . قَالُوا هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَاءَ لِيَخْطُبَكِ . قَالَتْ : كُنْتُ أَنَا أَشْقَى مِنْ ذَلِكَ . فَأَقْبَلَ النَّبي صلى الله عليه وسلم يَوْمَئِذٍ حَتَّى جَلَسَ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ هُوَ وَأَصْحَابُهُ ، ثُمَّ قَالَ : اسْقِنَا يَا سَهْلُ . فَخَرَجْتُ لَهُمْ بِهَذَا الْقَدَحِ فَأَسْقَيْتُهُمْ فِيهِ ، فَأَخْرَجَ لَنَا سَهْلٌ ذَلِكَ الْقَدَحَ فَشَرِبْنَا مِنْهُ . قَالَ : ثُمَّ اسْتَوْهَبَهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بَعْدَ ذَلِكَ فَوَهَبَهُ لَهُ ) ورواه مسلم أيضا (2007)، الأجم : الحصون .
ثانيا :
اختلف العلماء في اسم هذه المرأة على أقوال سبعة ، ولكن الراجح منها عند أكثرهم هو : ” أميمة بنت النعمان بن شراحيل ” كما تصرح رواية حديث أبي أسيد . وقيل اسمها أسماء .
ثالثا :
لماذا استعاذت المرأة الجونية من رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟
يمكن توجيه ذلك ببعض الأجوبة الآتية :
11- قد يقال إنها لم تكن تَعرِفُ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم ، بدليل الرواية الأخيرة من الروايات المذكورة أعلاه ، وفيها : (. فَقَالُوا لَهَا : أَتَدْرِينَ مَنْ هَذَا ؟ قَالَتْ : لاَ . قَالُوا هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَاءَ لِيَخْطُبَكِ . قَالَتْ : كُنْتُ أَنَا أَشْقَى مِنْ ذَلِكَ )
يقول الحافظ ابن حجر رحمه الله :
” وقال غيره : يحتمل أنها لم تعرفه صلى الله عليه وسلم ، فخاطبته بذلك .
وسياق القصة من مجموع طرقها يأبى هذا الاحتمال .
نعم سيأتي في أواخر الأشربة من طريق أبي حازم ، عن سهل بن سعد – فذكر الرواية الأخيرة ، ثم قال : –
فإن كانت القصة واحدة فلا يكون قوله في حديث الباب : ( ألحقها بأهلها ) ، ولا قوله في حديث عائشة : ( الحقي بأهلك ) تطليقا ، ويتعين أنها لم تعرفه .
وإن كانت القصة متعددة – ولا مانع من ذلك – فلعل هذه المرأة هي الكلابية التي وقع فيها الاضطراب ” انتهى.
"فتح الباري” (9/358)
22- ويذكر بعض أهل العلم أن سبب استعاذتها من النبي صلى الله عليه وسلم ما غرها به بعض أزواجه صلى الله عليه وسلم ، حيث أوهموها أن النبي صلى الله عليه وسلم يحب هذه الكلمة ، فقالتها رغبة في التقرب إليه ، وهي لا تدري أن النبي صلى الله عليه وسلم سيعيذها من نفسه بالفراق إن سمعها منه .
جاء ذلك من طرق ثلاثة :
الطريق الأولى :
يرويها ابن سعد في "الطبقات” (8/143-148)، والحاكم في "المستدرك” (4/399)، من طريق محمد بن عمر الواقدي وهو ضعيف في الحديث .
والطريق الثانية :
يرويها ابن سعد في الطبقات (8/1444) بسنده عن سعيد بن عبد الرحمن بن أبزى قال: (الجونية استعاذت من رسول الله صلى الله عليه وسلم وقيل لها : هو أحظى لك عنده . ولم تستعذ منه امرأة غيرها ، وإنما خدعت لما رؤي من جمالها وهيئتها ، ولقد ذكر لرسول الله من حملها على ما قالت لرسول الله ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إنهن صواحب يوسف ).
الطريق الثالثة :
رواها ابن سعد أيضا في "الطبقات” (8م1455) قال : أخبرنا هشام بن محمد بن السائب ، عن أبيه ، عن أبي صالح ، عن بن عباس قال : ( تزوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أسماء بنت النعمان ، وكانت من أجمل أهل زمانها وأشبهم ، قال فلما جعل رسول الله يتزوج الغرائب قالت عائشة : قد وضع يده في الغرائب يوشكن أن يصرفن وجهه عنا . وكان خطبها حين وفدت كندة عليه إلى أبيها ، فلما رآها نساء النبي صلى الله عليه وسلم حسدنها ، فقلن لها : إن أردت أن تحظي عنده فتعوذي بالله منه إذا دخل عليك . فلما دخل وألقى الستر مد يده إليها ، فقالت : أعوذ بالله منك . فقال: أمن عائذ الله ! الحقي بأهلك )
وروى أيضا قال : أخبرنا هشام بن محمد ، حدثني ابن الغسيل ، عن حمزة بن أبي أسيد الساعدي ، عن أبيه – وكان بدريا – قال : ( تزوج رسول الله أسماء بنت النعمان الجونية ، فأرسلني فجئت بها ، فقالت حفصة لعائشة أو عائشة لحفصة : اخضبيها أنت وأنا أمشطها ، ففعلن ، ثم قالت لها إحداهما : إن النبي، صلى الله عليه وسلم يعجبه من المرأة إذا دخلت عليه أن تقول أعوذ بالله منك . فلما دخلت عليه وأغلق الباب وأرخى الستر مد يده إليها فقالت : أعوذ بالله منك . فتال بكمه على وجهه فاستتر به وقال : عذت معاذا ، ثلاث مرات . قال أبو أسيد ثم خرج علي فقال : يا أبا أسيد ألحقها بأهلها ومتعها برازقيتين ، يعني كرباستين ، فكانت تقول : دعوني الشقية ) .
وهذه الطرق قد يعضد بعضها بعضا ويستشهد بمجموعها على أن لذلك أصلا .
33- وذكر آخرون من أهل العلم أن سبب استعاذتها هو تكبرها ، حيث كانت جميلة وفي بيت من بيوت ملوك العرب ، وكانت ترغب عن الزواج بمن ليس بِمَلِك ، وهذا يؤيده ما جاء في الرواية المذكورة أعلاه ، وفيها : ( فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : هَبِي نَفْسَكِ لِي . قَالَتْ : وَهَلْ تَهَبُ الْمَلِكَةُ نَفْسَهَا لِلسُّوقَةِ . قَالَ : فَأَهْوَى بِيَدِهِ يَضَعُ يَدَهُ عَلَيْهَا لِتَسْكُنَ . فَقَالَتْ : أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ . فَقَالَ : قَدْ عُذْتِ بِمَعَاذٍ . ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا ، فَقَالَ : يَا أَبَا أُسَيْدٍ اكْسُهَا رَازِقِيَّتَيْنِ وَأَلْحِقْهَا بِأَهْلِهَا )
يقول الحافظ ابن حجر رحمه الله :
” ( السُّوقة ) قيل لهم ذلك لأن الملك يسوقهم فيساقون إليه ، ويصرفهم على مراده ، وأما أهل السوق فالواحد منهم سوقي . قال ابن المنير : هذا من بقية ما كان فيها من الجاهلية ، والسوقة عندهم من ليس بملك كائنا من كان ، فكأنها استبعدت أن يتزوج الملكة من ليس بملك ، وكان صلى الله عليه وسلم قد خير أن يكون ملكا نبيا ، فاختار أن يكون عبدا نبيا ، تواضعا منه صلى الله عليه وسلم لربه ، ولم يؤاخذها النبي صلى الله عليه وسلم بكلامها ، معذرة لها لقرب عهدها بجاهليتها ” انتهى.
"فتح الباري” (9/358)
هذا ما تحصَّل ذكرُه من أسباب جاءت بها الروايات وكلام أهل العلم ، وكله يدل على كريم أخلاقه صلى الله عليه وسلم ، حيث لم يكن يرضى أن يتزوج مَن يشعر أنها لا ترغبه ، وكان يأبى صلى الله عليه وسلم أن يصيب أحدا من المسلمين بأذى في نفسه أو ماله .
والله أعلم .

5314 حدثنا سعيد بن أبي مريم حدثنا أبو غسان قال حدثني أبو حازم عن سهل بن سعد رضي الله عنه قال ذكر للنبي صلى الله عليه وسلم امرأة منالعرب فأمر أبا أسيد الساعدي أن يرسل إليها فأرسل إليها فقدمت فنزلت في أجم بني ساعدة فخرج النبي صلى الله عليه وسلم حتى جاءها فدخل عليها فإذا امرأة منكسة رأسها فلما كلمها النبي صلى الله عليه وسلم قالت أعوذ بالله منك فقال قد أعذتك مني فقالوا لها أتدرين من هذا قالت لا قالوا هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء ليخطبك قالت كنت أنا أشقى من ذلك فأقبل النبي صلى الله عليه وسلم يومئذ حتى جلس في سقيفة بني ساعدة هو وأصحابه ثم قال اسقنا يا سهل فخرجت لهم بهذا القدح فأسقيتهم فيه فأخرج لنا سهل ذلك القدح فشربنا منه قال ثم استوهبه عمر بن عبد العزيز بعد ذلك فوهبه له
22) حضرت عمر نے قتیلہ بنت قیس کو خارج کیا تھا

قتیلہ بنت قیس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ اس کے ساتھ نکاح کب ہوا اور کچھ تاریخ دانوں نے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔

چنانچہ

حافظ ابن کثیر لکہتے ہیں کہ

بعض کا کہنا ہے کہ وفات سے دو مہینے پہلے نکاح ہوا اور بعض کا کہنا ہے دوران علالت آپ نے نکاح کیا تھا ۔

اور حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جن عورتوں سے آپ نے نکاح کیا اور گھر لانے سے پہلے طلاق دی تو ان سے کوئی اور مسلمان نکاح کرسکتا ہے ۔ قتیلہ بنت قیس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں کوئی وصیت نہیں بعض کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا تھا کہ چاہے تو پردہ کرے اور امہات میں شامل ہوجائے اور چاہے تو آزاد ہو جائے اور کسی اور سے نکاح کرلے اس نے دوسرے شرط کو قبول کیا اور وہ آزاد ہوگئی۔ (البدایہ والنہایہ)

یہی بات ابن نے اسد الغابہ میں لکہی ہے

کہ آپ نے ان سے نکاح کیا لیکن نہ تو اس عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور نہ اس نے حضور کو دیکھا
ایک اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اختیار دیا کہ چاہے تو پردہ کرلے اور چاہے تو طلاق دے دیں اور کسی اور سے نکاح کرلے اور حضور نے طلاق دیدی۔اس نے بعد میں عکرمہ سے نکاح کرلیا حضرت ابو بکؓر نے انہیں رجم کرنا چاہا لیکن حضرت عمرؓ نے کہا کہ یہ امہات المومنین میں شامل نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پردے کا حکم نہیں دیا تھا۔ ان کے علاہ دوسری ان خواتین کے بارے میں جن سے دخول کی نوبت نہیں آئی تھی علماء میں زبردست اختلاف ہے۔( اسد الغابہ جلد 3 ذکر قتیلہ)

ابن سعد طبقات میں لکھتے ہیں

جب اسماء بنت نعمان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ کی پناہ مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ سے باہر آگئے تب اشعث بن قیس نے کہا کہ آپ غمگین نہ ہوں میں آپ کا نکاح اس سے نہ کردوں جو اس سے حسب نسب میں کم نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کون اس نے کہا میری بہن قتیلہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے نکاح کرلیا۔ پھر اشعث یمن اسے لینے گئے اور یمن سے آگے بڑہے تو انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ملی تو یہ دونوں بہن بہائی مرتد ہوگئے۔ پھر قتیلہ نے اور نکاح کرلیا کیوں کہ مرتد ہونے کے ساتھ اس کا نکاح ٹوٹ گیا تھا اور پھر مکشوع مرادی نے ان سے نکاح کیا۔

آگے لکھتے ہیں کہ

حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو قبیلہ کندہ کی ایک عورت قتیلہ کے مالک ہوئے تھے لیکن وہ اپنی قوم کے ساتھ مرتد ہوگئی تھی پھر بعد میں اس سے عکرمہ نے نکاح کرلیا یہ بات حضرت صدیق رضہ کو گراں گزری لیکن حضرت عمر رضہ نے انہیں کہا کہ یہ عورت امہات میں سے نہیں ہے نہ آپ نے اس کو اختیار دیا نہ ہی اس کو پردہ کرایا اور اللہ تعالی نے آپ کو اس سے بری کردیا ہے کیوں کہ وہ مرتد ہوگئی ہے اپنی قوم کے ساتھ ۔

ابن سعد عروۃ بن زبیر کا قول نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قتیلہ سے نکاح نہیں کیا تھا بلکہ جونیہ کندیہ سے نکاح کیا تھا اور اسے بھی دیکھتے ہی طلاق دے دی تھی

وقيل : إنه طلقها قبل أن يدخل بها ، ثم مات عليه السلام

اور کہا جاتا ہے کہ حضور علیہ السلام نے ان کو طلاق دے دی، اس سے قبل کہ ان سے مقاربت کرتے، اس کے بعد آپ علیہ السلام وفات پا گ

سورس

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.