بچے کی دودھ پلانے کی عمر کی قرآنی آیات پر ملحدین کا اعتراض، تحریر محمد نعیم خان
ملحدین کے ایک اعتراض کا جواب:
کیا سورہ لقمان کی آیت 14 میں اور سورہ الاحقاف کی آیت 15 میں بچے کے دودھ چھڑانے کے عرصہ میں تضاد ہے۔؟؟؟ ایک سورہ میں اس کا عرصہ دو سال اور ایک میں تیس مہینے ہے جو کہ دو سال اور چھ مہینے بنتی ہے۔
آئیے غور کرتے ہیں۔ سب سے پہلے تو ان آیات کا سادہ سا ترجمہ دیکھ لیں۔ اس کو ہی اگر غور سے ہی پڑھ لیا جائے تو بات صاف ہے۔ میں ترجمہ مولانا مودودی صاحب کا لگا رہا ہوں ۔
وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ ﴿١٤﴾
اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے اُس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اُس کا دودھ چھوٹنے میں لگے (اِسی لیے ہم نے اُس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے (14)
31:14
دوسری آیت ہے:
وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖوَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ۖ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿١٥﴾
ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک بر تاؤ کرے اُس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر ہی اس کو جنا، اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری طاقت کو پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا تو اس نے کہا "اے میرے رب، مجھے توفیق دے کہ میں تیری اُن نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا فرمائیں، اور ایسا نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہو، اور میری اولاد کو بھی نیک بنا کر مجھے سُکھ دے، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور تابع فرمان (مسلم) بندوں میں سے ہوں” (15)
46:15
اب آیات تو اپنے مطلب میں صاف ہیں کوئ ابہام بھی نہیں لیکن جب غور و فکر ہی نہیں کرنا اور بدگمانی ہی پھیلانی ہے اور یہی ٹھان لی ہے کہ قرآن کو غلط ثابت کرنا ہے تو پھر ایسے ہی اعتراضات آتے ہیں ۔ اب ذرا ان آیات پر غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ سورہ لقمان میں صرف دودھ چھڑانے کا زکر ہے وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ ( دو سال اُس کا دودھ چھوٹنے میں لگے ) اور سورہ الاحقاف میں حمل اور دودھ چھڑانے کے بارے میں بیان ہے وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ( اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے )۔ یہ تیس مہینے دو سال اور چھ مہینے بنتے ہیں جس میں دو سال کا عرصہ دودھ پلانے کا ہے اور چھ مہینے وہ کم سے کم حمل ہے جس میں اگر بچہ پیدا ہو تو زندہ رہ سکتا ہے۔ قرآن کے مطابق کم سے کم حمل کا عرصہ چھ مہینے ہے۔ سورہ البقرہ کی آیت 233 اس بات کو اور کھولتی ہے جہاں دو سال تک بچے کو دودھ پلانے کا حکم ہے۔ اب مجھے کوئ بتائے اشکال کہاں ہے؟؟؟؟؟
امید ہے کچھ سمجھا پاہا ہونگا۔ اللہ ہمیں قرآن سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین